donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulana Abul Kalam Azad : Buland Khayalat, Dilkash TahreereN


ڈاکٹراحسان عالم

الحراء پبلک اسکول، رحم خاں، دربھنگہ


مولانا ابوالکلام آزاد :بلند خیالات ، دلکش تحریریں


    مولانا ابوالکلام آزاد ایک عظیم دانشور، مفسر قرآن، بے باک صحافی، صاحب طرز ادیب، مفکر ، مجاہد جنگ آزادی اور ملک کے سچے سپوت تھے۔ مولانا نے اپنے پیچھے بے شمار نگارشات چھوڑی ہیں۔ ان نگارشات کے مطالعے سے مولانا کی صلاحیتوں اور افکار کے کئی گوشے سامنے آتے ہیں۔  ان کی تحریرمیں اتنی حسین بندش ، الفاظ کا ایسا پرشکوہ جلال اور اس کے ساتھ ساتھ ایسی سلاست اور برجستگی ہوتی ہے کہ چاہے نہ چاہے قاری اپنا دل نکال کر رکھ دے۔ ان کا اسلوب بنیادی طور پر خطیبانہ ہے ، ان کی تقریر اگر صفحہ قرطاس پر لے آئی جائے تو تحریر اور انشاء کا بہترین نمونہ محسوس ہوتی ہے اور اگر ان کی تحریر کو کوئی مقرر اپنی تقریر میں استعمال کرے تو وہ بہترین تقریر اور حرارت انگیز خطبہ معلوم ہوتا ہے ۔ 

    مولاناآزاد نے جب تحریر و انشا کے میدان میں قدم رکھا تو اس وقت جادوئی تحریر کے لئے مشہور سرسید احمد خاں ، مولوی ذکا ء اللہ ، محسن الملک ، حالی ، محمد حسین آزاد اور مولانا شبلی نعمانی وغیرہم زبان ، ادب اور اسالیب بیان کی دنیا پر اور خاص طور پر تحریر و اسلوب کی دنیا میں انہیں کا سکہ چلتا تھا ۔ ادب ، مذہب ، تاریخ ، کلام، فلسفہ اور سائنس میں انہیں حضرات کا اسلوب معیاری اور ٹکسالی سمجھا جاتا تھا اور نئے قلم کار انہیں صاحب کی اتباع کو اپنے لئے سرمایہ افتخار سمجھتے اور ان کی پیروی پر فخر محسوس کرتے تھے ۔ 

    اسلوب سے مراد کسی ادیب یا شاعر کا وہ طریقہ ادائے مطلب یا خیالات وجذبات کے اظہار و بیان کا وہ ڈھنگ ہے جوا س خاص صنف کی ادبی روایت میں مصنف کی اپنی انفرادیت اورخصوصیت وجود میں آتا ہے۔ اور چونکہ مصنف کی انفرادیت کی تشکیل میں اس کا علم ، کردار، تجربہ، مشاہدہ، افتاد طبع، فلسفہ حیات اور طرزو فکر و احساس جیسے عوامل مل جل کر حصہ لیتے ہیں ۔ اس لئے اسلوب کو مصنف کی شخصیات کا پرتو اور اس کی ذات کی کلید سمجھاجاتا ہے۔ 

    سید ایاز علی عابد اسلوب کے ضمن میں رقم طراز ہیں:

اسلوب سے مراد کسی لکھنے والے کی وہ طرز نگارش ہے جس کی بناپر وہ دوسرے لکھنے والے سے متمیزہوجاتا ہے۔ 

    مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تحریروں میں وہ اسلوب اپنایا ہے جس نے مولانا کی تحریر کو آفاقیت کاد رجہ دیا ۔ اور مولانا کو واقعی ابوالکلام بنادیا ڈاکٹر عابد رضا بیدار ، مولانا آزاد کی تحریر اور ادبی اسلوب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اردو ادب پر اور ہندوستان کی قومی اور ملی تحریکوں پر ’’الہلال‘‘ کے اثرات کا ابھی تک باقاعدہ اعتراف نہیں کیا گیا ہے۔ سرسید اور ان کے ساتھیوں نے اردو نثر کو ایک سنجیدہ اور صاف ستھرا لب و لہجہ دیاتھا، اسے تاریخ ادب کا معجزہ ہی کہئے کہ اردو شاعر ی نے انیسویں صدی میں ایک ۳۵ سالہ نوجوان کے ہاتھوں پر برگزیدگی حاصل کر لی تھی اور اردو نثر نے ویسی ہی عظمت بیسویں صدی میں ایک اور ۲۵ سالہ نوجوان کی بدولت حاصل کی ، نسخہ حمیدیہ کا غالب اور ’’الہلال‘‘ کا آزاد ، ان دو شخصیتوں نے شعراور نثر کو جنم دیا اور انہیں پروان چڑھایا نئی توانائیوں کے ساتھ۔    

    (بیدل عابد رضا ، آزاد ایک صحافی (مقالہ ) اردو ادب (سہ ماہی )

آزاد نمبر علی گڑھ، انجمن ترقی اردو ہند، ۱۹۵۹ئ، صفحہ:۱۵۹)

    مولانا آزاد کے اسلوب کی دل ربائیوں کے بارے میں حضرت مولانا عبدالماجد دریابادی ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’’تحریر و انشا میں اپنے اسلوب کے موجد بھی تھے اور خاتم بھی، شروع میں اسلوب بیان ذرا تضیل تھا اور کتاب تذکرہ میں تو ثقیل سے گذرنا ثقل ہوگیا ہے لیکن جاذبیت نے رفاقت اس حال میں بھی نہ چھوڑی۔ رفتہ رفتہ ثقل لطافت میں تبدیل ہوگیا ۔ غبار خاطر و کاروان خیال شگفتہ بیانی کے ماڈل یا مجسم نمونے ہیں ان کی ادبیت ، ادبی شخصیت کی وسعت اور بلندی دونوں کو پوچھنا ہی کیا۔ ہزاروں صفحات پر چھاپ لگی ہوئی ہے۔ ان کی انفرادیت کی ، ان کے قلم کے بانکپن کی ان کی خدمت تخلیق کی ، زبان کے باب میں کیا ملکہ لے کر آئے تھے لکھنو میں مستقل قیام کچھ زیادہ لمبا نہیں رہا تھا چند مہینے ہی تو شاید رہے تھے لیکن زبان لکھنو کی نزاکتوں پر وہ عبور حاصل کر لیا کہ جیسے سدا کے لکھنوی ہوں۔ 

(عبدالماجد دریابادی، مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت (مقالہ ) نقوش نمبر ۱۰۲، مئی ۱۹۶۵ء ص: ۴۸)

    مولانا کے اسلوب کا وصف یہ ہے کہ آپ نے تحریر میں عربی و فارسی کے الفاظ و تراکیب کی آمیزش کے ساتھ ساتھ تلمیحات ، استعارات ، جدید و قدیم اصطلاحات اور موزوں اشعار و مصرعوں کے استعمال سے تحریر کو پروقار اور باعث افتخار بنادیا ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی تحریر فرماتے ہیں:

’’صحافت کو ادب میں جگہ نہیں دی گئی ہے اس کی سرگرمیاں باالعموم روزہ مرہ کے حالات و حوادث پر رائے زنی تک محدود ہوتی ہیں، مسائل حاضر ہ پر تبصرہ اور خبریں پڑھ کر ہم دوبار ہ اخبارات کی طرف التفات نہیں کرتے ۔ اخبار کے بارے میں کبھی کبھی ایک کہاوت بھی سننے میں آجاتی ہے ۔ یہ اتنا باسی جتنا کہ گذرے ہوئے دن کا اخبار ہمارے بعض بڑے اچھے شاعراور فنکار صحافت کے نشے یا طلسم میں ایسے اسیر ہوئے کہ آج تک نکل نہ پائے اور ان کی تحریری ، صحافتی قرار پائیں ۔ 

    مولانا کا ابتدائی عہد (جنگ بلقان سے پہلی جنگ عظیم تک) اردو صحافت کا زریں دور تھا، گذشتہ پچاس سال میں اردو کے اچھے اچھے اخباراور ان کے مدیر قوم اور ملک سے روشناس ہوئے۔ جنہوں نے اردو جرنلزم کو بڑی ترقی دی لیکن سوائے مولانا کے کسی اور کو ایڈیٹر کی حیثیت سے ادب کی صف اول میں جگہ نہ ملی اور صرف ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے مضامین کو علمی اور ادبی درجہ نصیب ہوا۔ 

    بذات خودمیں نہ مولانا کو متداول معنوں میں صحافی سمجھتا ہوں نہ ’’الہلال ‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کو صرف اخبار مولانا کسی مسئلہ پر نہ سرسری طور سے غور کرتے تھے۔نہ اظہار خیال بلکہ اس کا التزام رکھتے تھے کہ جو بات کہی جائے وہ مسلمات کی روشنی کی تاب لا سکے، کسی بڑی حقیقت سے رشتہ رکھتی ہو اور علمی و ادبی معیار پر صحیح اترے۔ ادارت کے مصروف پروگرام اور گریز پالمحات میں اس التزام کانبھانا تقریباً ناممکن ہے۔ صرف مولانا ایسا کر سکتے تھے ۔ اردو صحافت کو مولانا نے کلاسکس کا درجہ عطا کیا۔ مولانا کی تحریر صحافتی نہیں تصنیفی ہوتی تھی ۔ نظر حکیمانہ، انداز خطیبانہ اور آہنگ ملہمانہ ، ان کی تحریروں ، تقریروں نیز ان کے سراپا کاجب کبھی خیال آتا ہے تو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جسے از منہ قدیم میں یونان کے زندہ جاوید رزمیہ نگارمصروف کار ہوں ۔ اپنے زمانے اور اپنے دیار میں مولانا یونانی دیوتائوں سے کم نہ تھے۔ 

    مولانا کے یہاں انشا پردازی کے ایک سے زیادہ اسالیب ملتے ہیں۔ ’’الہلال ‘‘ میں دعوت دار و رسن سے تذکرہ میں دعوت دید و شنید، غبار خاطر میں دعوت نوش ونسید ، تفسیر القرآن کا لب و لہجہ علمی وعالمانہ ہے۔ 

    ہے رنگ لالہ و گل نسریں جداجدا‘‘

        (پروفیسر رشید احمد صدیقی، مولانا ابوالکلام آزاد (مقالہ ) ماحول (ہفت روزہ) ابوالکلام آزاد نمبر، کراچی، دفتر ماحول بہادر شاہ مارکیٹ شمارہ ۱۸؍ ۱۷، ستمبر ۱۹۶۰ء ص:۴۶)

    مولانا ابوالکلام آزاد کا اسلوب نگارش اور طرز و آہنگ وقت کے اسالیب پر اس طرح چھا گیا تھا کہ اس کے مقابلے میں ہر رنگ پھیکا اور ہر آہنگ تحریر غیر مقبول سا ہونے لگتا ہے۔ مولانا حسرت موہانی نے اس حقیقت کی طرف اس شعر میں اشارہ کیا ہے:

سب ہوگئے چپ بس ایک حسرت
گویا ہیں ابوالکلام آزاد

    مولانا محمد علی جوہر نے کہا:

’’میں نے لیڈری ابوالکلام آزاد کی نثر اور اقبال کی شاعری سے سیکھی۔ ‘‘
        (سید صباح الدین عبدالرحمن ، الہلال کا مطالعہ ، ادب و انشاء کی روشنی میں ، معارف جون ۱۹۵۸ء ص:۴۰۲)

    مولانا عبدالرزاق ملیح آباد ی نے ’’الہلال‘‘ کے اسلوب نگاری کے اعتراف میں لکھا کہ:
’’۱۹۱۲ء میں ’’الہلال‘‘ نکلا ۔ میں ’’الہلال ‘‘ پڑھتا تھا ، مگر جلدی ’’الہلال‘‘ کے ایڈیٹر سے ایک طرح کی جلن مجھ میں پیدا ہوگئی ، مولانا کی تحریروں کا پیغمبرانہ انداز تھا ۔ بہت دور کی لیتے تھے اور میں جل جاتا تھا۔ آخر ایک دن والد سے کہہ دیا، معلوم ہوتا ہے یہ شخص پیغمبر یا مہدی ہونے کا دعویٰ کرنے والا ہے اور میں اس شخص کا سب سے بڑا مخالف بنوں گا۔ میں دیکھتا تھا کہ لن ترانیاں لوگوں کو متاثر کرتی ہیں اور مولانا کو بڑی ہستی سمجھے لگے ہیں۔ ‘‘

    تاریخ نے ایک روز ایسی کروٹ لی کہ مخالفت کرنے والی یہی شخص اتنا بڑا مداح ہوا کہ چالیس سال تک مولانا کے رفیق، جلیس، ہم نشیں مونس و مداح بن کر ان کے ساتھ رہے۔ 

    مولانا ابوالکلام کی نثرکے بارے میں مولانا حسرت موہانی کا شعر بہت مشہور رہا:

جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا

    ’’الہلال ‘‘ نے پست ہمت اور مایوس دلوں میں حوصلہ پیدا کیا ، افکار کی نئی دنیا سے آشنا کیا، عمل کا جوش پیدا کیا ، بیسویں صدی کی پہلی دودہائیوں میں ہندوستان کے افق پر انقلاب کی جو روشنی نظر آتی تھی، اس میں الہلال کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد ’’الہلال ‘‘ کے اسلوب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’جوکارنامہ ’’الہلال‘‘ نے انجام دیا وہ کسی دوسرے معاصر کے حصہ میں نہ آیا اور اس کی سب سے بنیادی وجہ وہ مخصوص طرز تحریر تھا جو مولانا کی اپنی ذاتی اور شخصی جاگیر بن گیا تھا ۔ مولانا کی اس طرز تحریر میں مختلف اثرات و عوامل نے گھل مل کر ایک ایسا کیمیاوی مرکب تیار کر دیا تھا جو مجموعی طور پر مسلمانوں کے انحطاط پذیر معاشرہ کے لئے بھی نسخہ شفا بن گیا تھا ، لیکن اگر اس کے اجزائے ترکیبی کو الگ الگ کر دیا جاتا تو شاید وہ مریض قوم کی صحت کی بحالی کے لئے مفید ثابت نہ ہوتا۔ اس مخصوص طرز تحریر میں مولانا کے رومانی تخیل کے علاوہ افغانی اور عبدہ کا صحافتی انداز اور شبلی کے جمالیاتی ذوق سر سید کے اصلاحی تحریک اورمحمد حسین آزاد کے استعارات و تشبیہات کی کارفرمائی کے ساتھ ساتھ قرآن اور انجیل کے لب و لہجہ کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ انہوں نے مختلف کیاریوں سے پھول توڑے تھے مگر سب کو ملاکر ایک حسین اور خوبصورت گلدستہ تیار کیا تھا ۔ جس پر ان کی انفرادیت کی مہر لگ گئی تھی اس گلدستے کے پھولوں کو الگ الگ کر دیا جاتا تو اس کے اندر شاید و تاثر نہ پیدا ہوتا جو مولانا نے سب کو یکجا کرکے پیدا کیا تھا۔ 

            (ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد ، مولانا ابوالکلام آزاد (فکر و فن) ص: ۱۵۲ ، نظامی پریس، لکھنو، ۱۹۸۹ئ)

     مولانا کی زبان اور اسلوب کی اہمیت ، ندرت ، جدت ، رنگینی اور دلکشی کے مقام پر پہنچ کر ختم نہیں ہوتی۔ ان کی زبان اور اسلوب کی ایک مضبوط علمی بنیاد ہے اور اس میں فکری بلندی بھی ہے کسی تحریر کے علمی اور فکری پہلو پر اس تحریر کا دار و مدار ہوتا ہے ۔ علم و فکر اسے زندگی بخشتا اور زندہ رکھتا ہے ۔ ایسی تحریر کسی ایک دور تک محدود نہیں رہتی زمانے کے ساتھ اس کی معنویت اہمیت بڑھتی جاتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ’’الہلال ‘‘ کے اجرا ۱۹۱۲ کو ایک لمبا زمانہ گذر چکا ہے لیکن اس کی تحریریں آج بھی زندہ اور توانا ہیں گذشتہ ایک ڈیڑھ صدی میں کتنی ہی دلکش اور حسین اسلوب جن کا دامن فکر و معنی سے تہی تھا ختم ہوگئے لیکن الہلال  آج بھی تاریخ صحافت اور علوم و افکار کے ایک بنیادی حوالے کی حیثیت سے زندہ ہے۔ ’’الہلال ‘‘ کی جو علمی و فکری اہمیت ہے اس کے لئے کسی استدلال کی ضرورت نہیں البتہ ایک اہم حوالہ کا مطالعہ نامناسب نہ ہوگا، مولانا کے اسلوب نے جو فکری اور ذہنی انقلاب پیداکیا تھا ، سید سلیمان ندویؒ نے مولانا آزاد کے ’’الہلال‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

’’مولانا ابوالکلام آزا د کا ’’الہلال‘‘ نکل رہا تھا اور ان کی آتش بیانی سے مسلمانوں میں آگ سی لگی ہوئی تھی اور وہ جہاد جس کا نام لینے سے لوگ ڈرنے لگے تھے، مولانا ابوالکلام نے اس کا صور اس بلند آہنگی اور بے باکی سے پھونکا کہ یہ بھولا ہوا سبق لوگوں کی زبانوں پر آگیا۔ ’’الہلال‘‘ دیوبند کے حلقہ میں بھی آتا تھا اور حضرت مولانا محمود حسن کی مجلس میں بھی پڑھا جاتا تھا میں نے اس زمانہ میں یہ فقرہ سنا تھا کہ ’’ہم نے جہاد کا سبق بھلا دیا تھا اور ابوالکلام نے ہم کو پھر یاد دلادیا۔ ‘‘

        (یاد رفتگاں، سید سلیمان ندوی ، ص:۴۳۷، مکتبہ الشرق ، کراچی، جنوری ۱۹۵۵ئ)

    مولانا ابوالکلام آزاد کا اسلوب بیان جذباتی اور تحریریں خطابت کی شان نظر آتی تھی۔ وہ لفظوں اور جملوں کے بادشاہ تھے ۔ جب مولانا کے قلم اٹھاتے تو جملے اور الفاظ دست بستہ حاضری دے کر اپنے انتخاب کی بھیک مانگا کرتا اور مولانا کا حال یہ ہوتا کہ معذرت خواہ ہوکر کسی ایک کا انتخاب فرماتے اور پھر اس تحریر میں ایسی گرمی پیدا ہوتی کہ جس کی آنچ ٹھنڈی ہوتے ہوتے بھی قاری کے شعور کو بے بس کردیتی تھی ۔ آخری پیراگراف قرآن کی آیت کسی مشہور عربی شاعر کے شعر فارسی کے کسی اہم جملے پر ختم کرکے اپنے مضمون کو کئی گنا لطیف اور جاندار بناجاتے، ڈاکٹر عابد رضا بیدار کے بقول :
’’ایک نئی پرجوش تحریک کے ساتھ لکھنے کا یہ اسلوب اردو نثر کو ایک نئی دین تھی۔ جس میں جان تھی شگفتگی تھی کہ الفاظ رنگیں سے ٹپکی پڑتی تھی ، مردانہ وقار تھا اور فتح کر لینے کا انداز۔ چھا جانے والی ادا۔ ‘‘

(مولانا ابوالکلام آزاد :شخصیت اور کارنامے ، ص:۳۲۸، مرتبہ خلیق انجم، ناشر:اردو اکادمی ، دہلی)

    مولانا آزاد کے تحریروں کی دلکشی کو دیکھنے کے لئے مندرجہ ذیل اقتباسات بھی ملاحظہ ہوں:۔
’’میں وہ صور کہاں سے لائوں جس کی آواز چالیس کڑور دلوں کو خواب غفلت سے بیدار کردے ۔ میں اپنے ہاتھوں میں وہ قوت کیسے پیدا کروں کہ ان کے سینہ کوبی کے شور سے سرگشتگان خواب موت سے ہوشیار ہوجائیں ۔ آہ کہاں ہیں وہ آنکھیں جن کو درد ملت میں خونباری کا دعویٰ ہے کہاں ہیں وہ دل جن کو زوال امت کے زخموں پر ناز ہے۔ کہاں میں وہ جگر جو آتش غیرت و حمیت کے سوزش سے لذت آشنا ہوں اور پھر آہ کہاں ہیں اس برہم شدہ انجمن کے ماتم گسار اس برباد شدہ قافلے کے نالہ ساز اس صف ماتم کے فغاں سنج اور کشتی طوفاں کے مایوس مسافر جنکی موت و حیات کے آخری لمحے جلد جلد گذر رہے ہیں اور وہ بے خبر ہیں یا خاموش روتے ہیں یا مایوسی سے جب راست نگراں ، مگر نہ ان کے ہاتھوں میں اضطراب ہے۔ نہ پائوں میں حرکت نہ ارادوں میں عمل کا ولولہ، دشمن شہر کے دروازوں کو توڑ رہے ہیں اور اہل شہر رونے میں مصروف ہیں ، ڈاکوئوں نے قفل توڑ دیئے ہیں اور گھر والے سوئے ہوئے ہیں۔ لیکن اے رونے کو ہمت اور مایوسی کو زندگی سمجھنے والو یہ کیا ہے کہ تمہاری زندگی میں آگ لگ چکی ہے۔ ہوا تیز ہے اور شعلوں کی بھڑک سخت ہے۔ مگر تم میں سے کوئی نہیں جس کے ہاتھ میں پانی ہو پھر اگر اسی کے منتظر تھے تو کیا نہیں سنتے کہ وہ وقت آگیا ہے ۔ اگر کشتی کے ڈوبنے کا انتظار کر رہے تھے تو کیا نہیں دیکھتے کہ اب اس میں دیر نہیں۔ ‘‘

    مولانا نے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے مضامین اور اداریوں میں جس اسلوب کے ساتھ مسلم قوم اور برادر ان وطن کو خطاب کیا وہ تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ۔ ابتدائی زمانہ میں مشترکہ قومی تحریک مولانا کا ذہن نہیں تھا وہ مسلمانوں کو الگ سے منظم اور تیار کرکے میدان جہاد حریت وطن میں اتارنا چاہتے تھے، تاکہ مسلمانوں کی اپنی انفرادیت قائم اور باقی رہے اور کسی بڑی جماعت میں اپنی شناخت کے بغیر گم ہوجائیں ۔ مولانا کی یہ تحریر پڑھئے اور جس خوبصورت اسلوب کے ساتھ اپنی بات کہی ہے ، محسوس کیجئے ، لکھتے ہیں :

آپ پوچھتے ہیں کہ آج کل ہندئوں کے دو پولیٹیکل گروہ موجود ہیں ۔ آپ ان میں سے کس کے ساتھ ہیں؟گذارش ہے کہ ہم کسی کے ساتھ نہیں بلکہ خدا کے ساتھ ہیں۔ اسلام اس سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے کہ اس کے پیرئوں کو اپنی پولیٹیکل پالیسی قائم کرنے کے لئے ہندئوں کی پیروی کرنی پڑے۔ مسلمانوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی شرم انگیز سوال نہیں ہوسکتا کہ وہ دوسروں کی پولیٹیکل تعلیموں کے آگے جھک کر اپنا راستہ پیدا کریں ۔ ان کو کسی جماعت میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں وہ خود دنیا کو اپنی جماعت میں شامل کرنے والے اور اپنی راہ پر چلنے والے ہیں اور صدیوں تک چلا چکے ہیں۔ وہ خدا کے سامنے کھڑے ہوجائیں تو ساری دنیا ان کے آگے کھڑی ہوجائے گی۔ ‘‘

            (الہلال، کلکتہ، ۸؍ ستمبر، ۱۹۱۲ئ)

    مولانا آزاد کی اس اسلوب پر بھی نظر ڈالتے ہیں جو انہوں نے ’’الہلال‘‘ میں مسلمانوں کو پوری فکر مندی کے ساتھ ہندوستان کی آزادی میں حصہ داری کے لئے آواز دی تھی جس تحریر نے مسلمانوں کی زندگی میں وہ انقلاب برپا کیا جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔ یہ مولانا کی ہی تحریر کا اسلوب تھا جس نے مردہ دلوں میں آگ لگاکر زندگی کے ڈگر پر چلنے کا حوصلہ بخشا، لکھتے ہیں:

’’آہ کاش مجھے وہ صور قیام قیامت ملتا جس کو میں لے کر پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر چڑھ جاتا ، اس کی ایک صدائے رعد آسائے غفلت شکن سے سرگستگان خواب ذلت و رسوائی کو بیدار کرتا اور چیخ چیخ کر پکارتا کہ اٹھو! کیوں کہ بہت سوچکے اور بیدار ہوکیونکہ اب تمہارا خدا تمہیں بیدار کرنا چاہتا ہے ۔ پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ دنیا کو دیکھتے ہو پر اس کی نہیں سنتے جو تمہیںموت کی جگہ حیات زوال کی جگہ عروج اور ذلت کی جگہ عزت بخشنا چاہتا ہے۔

آگے لکھتے ہیں:

’’جو ہونے والا ہے اس کو کوئی قوم اپنی نحوست سے نہیں روک سکتی۔ یقینا ایک دن آئے گا جب کہ ہندوستان کا آخری سیاسی انقلاب ہوچکا ہوگا۔ غلامی کی وہ بیڑیاں جو خود اس نے اپنے پائوں ڈالی ہیں، بیسویں صدی کے ہوائے حریت کی تیغ سے کٹ چکی ہوں گی اور وہ سب ہوچکے گا جس کا ہونا ضروری ہے ، فرض کیجئے کہ اس وقت ہندوستان کی ملکی ترقی کی ایک تاریخ لکھی گئی تو آپ کو معلوم ہے کہ اس میں ہندوستان کے سات کڑور انسانوں کی نسبت کیا لکھا جائے گا، اس میں لکھا جائے گا کہ ایک بد بخت اور زبوں طالع قوم جو ہمیشہ ملکی ترقی کے لئے ایک روک، ملک کی فلاح کے لئے ایک بدقسمتی راہ آزادی میں سنگ گراں حاکمانہ طمع کا کھلونا دست اجانب میں بازیچہ لعبام ہندوستان کی پیشانی پر ایک گہرا زخم اور گورنمنٹ کے ہاتھ میں ملک کی امنگوں کو پامال کرنے کے لئے ایک بدترین پتھر بنی رہی پھر اس میں لکھا جائے گا کہ یہ حالت اس قوم کی تھی جو آہ ثم آہ! کہ معلم تھی جو اپنے ساتھ انسانی شرف و جلال کی ایک عظیم ترین تاریخ رکھتی تھی ۔ جس کو دنیا کی وراثت اور خلافت دی گئی تھی۔ جو دنیامیں اس لئے بھیجی گئی تھی تاکہ انسانی استبداد و استعباد کی زنجیروں سے بندگان الہٰی کو آزاد کرائے۔ ‘‘  

 (الہلال، ۱۸ ؍ ستمبر ۱۹۱۲ئ)

    مولانا ابوالکلام آزاد نے جب بھی کسی موضوع پر قلم اٹھایا تو خواہ وہ موضوع فلسفے کے بے نمک اور غیر دلچسپ عام مباحث ہوں یا تاریخ کے خشک واقعات و مضامین ہوں اپنے دلچسپ اور دلنشیں اسلوب سے دنیا کاحسین اور دل آویز ترین موضوع اور اسلوب کے حسن و دل ربائی کا تاج محل بنا دیا۔ عصری تقاضوں کے تحت عالم وجود میں آنے والی نثر نے ’’الہلال‘‘ و ’’البلاغ‘‘ کی بارعب اور باجلال خطیبانہ انداز سے اپنا سفر شروع کیا اور ’’غبار خاطر‘‘ کی دلکش وادی سے گذرتی ہوئی، ’’ترجمان القرآن‘‘ کی آسان اور عام فہم نثر تک پہنچی۔ ایسی دلکش تحریروں کے لئے مولانا ابوالکلام آزاد لمبے عرصے تک یاد کئے جائیں گے۔ 

 (مطبوعہ ’’قومی تنظیم‘‘ دھنک رنگ، پٹنہ، ۶؍ دسمبر ۲۰۱۵ئ)

٭٭٭

Ahsan Alam

Moh: Raham Khan, P.O: Lalbagh, Dist: Darbhanga
Email: ahsanalam16@yahoo.com
Mob: 9431414808

Comments


Login

You are Visitor Number : 716