donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulana Abul Kalam Azad Aqleem Sahafat Ke Azeem Sutoon


ڈاکٹر احسان عالم

الحراء پبلک اسکول، رحم خاں، دربھنگہ

 


مولانا ابوالکلام آزاد اقلیمِ صحافت کے عظیم ستون


    مولانا ابوالکلام آزاد کی پیدائش ۱۸۸۸ء میں ہوئی ۔کم عمری سے وہ کافی ذہن تھے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں قومی اور سیاسی سطح پر ہندوستانیوں کے حقوق و مفاد کے لئے باضابطہ طور پر جدوجہد کا آغاز ہوگیا تھا۔ انگریزوں نے اپنے اقدار کی حفاظت کے لئے ہندوستانیوں کے بڑھتے حوصلوں اور عزائم کو دبانے کی ہر ممکن کوشش شروع کر دی تھی۔ ایسے حالات میں مولانا ابوالکلام آزاد کی ذہنی نشو ونما ہوئی۔ اپنی تحریر و تقریر اور دانشورانہ قیادت کے ذریعہ مولانا آزاد نے ایک خوابیدہ معاشرے میں زندگی کی تڑپ پیدا کردی اور ان کی علمی، عملی ، صحافتی اور سیاسی جدوجہد نے ہندوستانی قوم کو ایک نئی شاہراہ پر لاکھڑا کیا۔ 

    مولانا ابوالکلام آزاد کے اظہار خیال میں جذبہ اور جوش نمایاں ہوتا انداز خطیبانہ اور بے باکی غالب ہوتی ۔ وہ کسی بھی مسئلہ میں اپنی رائے کا اظہار پوری قوت اور بے باکی سے کرتے تھے۔ اور ان اداریوں کے ذریعہ ایک طرح انگریزوں اور سامراجی طاقتوں کو دعوت مبارزت دی جاتی اور ایسا معلوم ہوتا کہ آزاد اپنے اداریہ کے ذریعہ قوم کے سوئے ہوئے افراد کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کر رہے ہیں اور زبان کے اعتبار سے ان پر ادب کا غلبہ ہوتا چونکہ مولانا آزاد عظیم صحافی کے ساتھ بڑے خطیب بھی تھے۔ 

    گویا مولانا ابوالکلام آزاد اقلیم صحافت کے عظیم صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر لیڈر، عظیم خطیب ، متبحر عالم دین، بااثر سیاستداں ، منفرد ادیب شاعر اور اسلامی روح کے حامل شخص تھے اور انہوں نے اپنی تمام تر صلاحتیں عالم اسلام کے اتحاد بر صغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی اور ملک کی آزادی کے لئے وقف کر دیئے۔ 

    مولانا ابوالکلام آزاد نے الہلال اور البلاغ کو اپنے افکار و خیالات اور جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ آپ صرف صحافی ہی نہیں تھے بلکہ آپ کی شخصیت ہشت پہلو تھی۔ اس لئے بہت جلد ہی پوری صحافت پر چھا گئے اور پورے ملک میں ان کا طوطی بولنے لگا۔ عوام ان کی زبان بولنے لگے ۔ مولانا آزاد کو نہ کسی ملامت کرنے والوں کی ملامت اور نہ کسی حکومت وقت کا خوف ڈراتا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے مقابلے میں جو بھی آواز اٹھی وہ اپنی موت آپ مر گئی۔ 

    اس وقت  ہفت روزہ وطن ، مدینہ اور ہمدم کے ساتھ مسلم گزٹ بھی شائع ہورہا تھا۔ اس کے علاوہ سیاست پرتاپ ، وندے ماترم کیسری ملاپ وغیرہ جاری ہوئے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی مولانا آزاد کی ادارت میںنکلنے والا اخبار ’’الہلال‘‘ کا مقابلہ نہ کر سکا ۔ باوجود اس کے کہ یہ اخبار ہفت روزہ تھا لیکن اس کے سامنے یومیہ اخبار کی بھی چمک ماند پڑ گئی تھی اور ایک طرح سے بیسویںصدی کے ربع اول میں اردو صحافت اور مقالہ نگاری سراپا جذبات پر آکر کھڑی ہوگئی تھی۔ اس فضا ہمارے سامنے جو بڑے نمونے اخبار نویسی کے پیش کئے ان میں ’’الہلال‘‘ کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔ گویا اس وقت سب سے زیادہ موثر اداریہ نگارمیں حضرت مولانا ابوالکلام آزا دکا نام آتا تھا، جن کی اداریہ نگاری نے سامراجی طاقتوں کو دعوت مبارزت دی اور انگریزوں کو ناکوں چنے چبوادئے ۔ اور سوئی ہوئی قوم کو بیدار کرکے اس کو اس کے حق سے آگاہ کیا۔ اور فضا میں آزادی کے ساتھ سانس لینے کا جو حق ایک انسان کو اللہ نے دیا تھا اس سے واقف کرایا ۔ مدارس کے چہار دیواری سے وقت کے نامور اساتذہ کو نکال کر ان کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ اور خانقاہوں کے بزرگوں کو فلسفہ آزادی اور دین میں سیاست کی کیا اہمیت ہے اس سے آگاہ کیااور قرآنی آیات اور رسول اللہ کی روایت کے ذریعہ بتایا کہ دین میں سیاست کی کیا اہمیت ہے اور آزادی کا مطالبہ کرنا حق ہے یا نہیں؟

    اس طرح ہندوستان کی اس وقت کی گرما گرم سیاست میں مولانا آزاد کے ’’الہلال‘‘ اور ’’الہلال‘‘ کے بند ہونے کے بعد ’’البلاغ‘‘ نے اور خاص طور پر مولانا کے اداریہ نے بڑا موثر اور اہم کردار ادا کیا  اور ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں آگ لگادی۔ مسلمان جو تحریک آزادی کے ایک اہم ترین قوت تھے اور جن کی شمولیت کے بغیر اس لڑائی میں فتح پانا ممکن نہ تھا مولانا کی تحریروں کے ذریعہ تحریک میں شریک ہوئے اور ہندوستان کی تحریک آزادی کامیابی کے قریب آنے لگی۔ 

    مولانا آزاد کی صحافت کا طرز بڑا ہی نرالا اور منفرد تھا۔ وہ سب میں یکتا تھے اور حالات کے پس منظر میں لکھی گئی ان کی تحریر کا اس وقت کے سماج اور خاص طور پر مسلمانوں کو انتظار ہوا کرتا تھا اور لوگ مولانا آزاد کو پڑھ کر اپنی سمت طے کر تے تھے۔ 

    مولانا آزاد نے الہلال کی طرح ’’البلاغ‘‘ میں بھی ادارئیے لکھے البتہ ’’البلاغ‘‘ کے ابتدائی دو نمبروں میں اداریہ کا کالم نہیں تھا ۔ جس کے بارے میں مولانا خود رقم طراز ہیں:

بہر رسالہ تو جاری ہوگیا۔ مگر اب تک لکھنے کا موقع باالکل نہیں ملا۔ ابتداکے دو نمبروں کے تمام ابتدائی صفحات عربی کے خطبہ افتتاحیہ نے لے لئے اور وہ نہایت اہم اور ضروری مطالب جن کے لئے فواتح سین ماضیہ کی طرح اردو  کے ایک مبسوط و مستقل فاتحہ البلاغ کا لکھنا ناگزیر ہے۔ اب تک انضباط تحریر سے محروم ہیں۔ اسی طرح وقت کے بعض مسائل مہمہ ہیں جن کے متعلق کچھ نہ کچھ لکھنا ضروری ہے ازاں جملہ مسلم یونیورسٹی ایسوسی ایشن کا گذشتہ اجلاس علی گڑھ اور خود موضوع رود قبول یونیورسٹی اور اس کے بعض احوال و اطراف ایسے مواضع حوالی و اطراف ایسے مواقع نظر و انکشاف ہیں جن سے کسی طرح قطع نظر نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘

    (’’البلاغ‘‘ کلکتہ، جلد نمر:۱، شمارہ نمر:۳، ۱۰؍ دسمبر ۱۹۱۵ء ص:۲)

    مندرجہ بالا اقتباس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’البلاغ‘‘ کے جاری ہونے کے بعد دو نمبروں میں مولانانے  اداریہ کے نام سے کوئی تحریر نہیں لکھی اور تنگی وقت نے اس کا موقع نہیں دیا ۔ البتہ اس کے بعد مولانا نے جو اداریئے لکھے وہ وقت و حالات کے لحاظ سے نہایت مستند اور بے باک ثابت ہوئے۔ حالات کی ستم ظریفی نے مولانا کے قلم کو روکنے کے بجائے اور تیز کردیا۔ آئیے اس مضمون میں ’’البلاغ‘‘ کے ادارئیے کے حوالے سے مولانا نے کیا کچھ لکھا ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    ’’البلاغ‘‘ کے تیسرے شمارہ میںمولانا لکھتے ہیں:

’’البلاغ‘‘ جاری ہوگیا یہ اس کا تیسرا نمبر ہے مگر ہمیں جو کچھ کہنا تھا وہ اب تک باقی ہے اور شاید ہمیشہ باقی ہی رہے۔ 

    دارالارشاد کے اجرا ، رفتار تصنیف و تالیف کی غیر معمولی تیزی، ترجمۃ القرآن اور تفسیر کی ترتیب و اشاعت اور بعض دیگر اسباب و مواقع کے ہجوم میں اس کو غنیمت سمجھا گیا کہ کسی نہ کسی طرح پرچہ جاری ہوجائے اور بہر صورت اس کے مقررہ اوراق سادہ نہ رہیں۔ اللہ کے فضل ذرہ نوازنے بہت سی ایسی نظریں اپنی زمین پر پیدا کردی ہیں جو اس عاجز کے برے بھلے ، ادنی و اعلیٰ ، کمتر و بہتر ، ہر طرح کی قلمی خدمات کو پذیرائی بخشنے کے لئے تیار رہتی ہیں۔ اور جب تک وہ باقی ہیں مجھے باقی دنیا سے کوئی سروکار نہیں ۔ 

    مولانا ابوالکلام آزاد نے ’’الہلال‘‘ مسئلہ ضمانت اور پھر قوم کی طرف سے جو تعاون حاصل ہوا اسے جس درد سے لکھا ہے اسے انہی کی زبان میں پڑھئے ۔ مولانا لکھتے ہیں:

میں قوی جوش و خروش اور ایثار و انفاق کے وہ مناظر دیکھ چکا تھا جو اس بارے میں گذشتہ تین سال کے اندر متواتر مسلسل ظاہر ہوئے اور جنہوں نے تقلید و اتباع کی ایک مقبول راہ آئندہ کے لئے کھول دی تھی۔ 

    یکے بعد دیگرے پریسوں سے ضمانتیں مانگی گئیں اور انہوں نے عام پبلک سے اپیل کی بپلک نے پورے جوش و خروش سے اس پر لبیک کہا۔ اور ایک ایسی مستعدی و سرگرمی کے ساتھ جس کی نظیر ہندوستان کے تمام جماعتی کاموں میں نہیں مل سکتی ۔ دوہزار سے لے کر پندرہ ہزار تک کی رقمیں چند ہفتوں میں فراہم کردیں۔ ایک شخص کے حساب کے مطابق تقریباً چالیس ہزار روپیہ اب تک ضمانتوں کے لئے مسلمان دے چکے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ حالت اس قدر عام ہوگئی کہ ’’ضمانت‘‘ کے بعد عام چندے کا ہونا ایک طرح کی لازمی بات سمجھ لی گئی۔ اور ارباب مطالعہ اور پبلک دونوں نے ایک قدرتی حقیقت کی طرح اس پر اتفاق کرلیا۔ 

    اس طرح مولانا آزاد کی صحافت نے ملک و ملت کو جو پیغام دیا اس پر آج بھی عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کی صحافت کو ہندوستان کی قومی اور ملی زندگی کے لئے چراغ راہ بنانے میں اہم حصہ لیا ہے۔ ان کے صحافتی کارنامے موجود دور کے صحافیوں کے لئے بھی مشعل راہ ہیں۔ 

 (مطبوعہ روزنامہ ’قومی تنظیم‘‘ پٹنہ، ۱۰؍ نومبر ۲۰۱۵ئ)

٭٭٭

Dr. Ahsan Alam
Raham Khan, Lalbagh, Darbhanga
Email: ahsanalam16@yahoo.com

Comments


Login

You are Visitor Number : 613