donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulana Azad Ka Bachpan


ڈاکٹراحسان عالم

رحم خاں، دربھنگہ


مولانا آزاد کا بچپن


    ہر انسان کی زندگی بچپن کے دور سے گذرتی ہے۔ بچپن انسانی زندگی کا وہ دور ہوتا ہے جہاں وہ ہر طرح کی الجھنوں اور ذہنی پریشانیوں سے آزاد ہوتا ہے ۔کھیل کود ، موج مستی، مٹی کیچڑ،بے مقصد اچھل کوداور ہنگامہ اس کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی بچے گلی ڈنڈے کے کھیل کے سوا کیا کرتے ہیں۔ بہت ہونہار ہوا تو کمپیوٹر اسکرین پر کچھ گیم کھیلنے بیٹھ گیا۔ لیکن جو بھی کرتا ہے وہ کھیل ہی ہوتا ہے ۔لیکن اللہ کچھ ایسے لوگوں کو اس دنیا میں پید ا کرتا ہے جو اپنے بچپن کو بامقصد بنانے کی تاک میں لگے رہتے ہیں۔ ایک انگریزی فلسفی کا قول ہے :

Morning Shows the Day.

    کسی عمارت کی بنیاد اگر درست ہوتی ہے تو پوری عمارت مضبوط ہوتی ہے۔ اگر بنیاد درست نہ ہو تو پوری عمارت کج ہوجاتی ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی کی بنیاد اس کا بچپن ہے۔ اگر بچپن کچھ الگ ڈھنگ سے گذرا تو ویسے شخص کی شخصیت آگے چل کر نکھرتی چلی جاتی ہے۔

     ایک آٹھ سال کا لڑکا کھیل تو ضرور کھیلتا ہے کیونکہ یہ بچوں کی فطرت ہے، لیکن جداگانہ کھیل ۔ اس کے کھیل میں ندرت ہے ، وہ کھیل کم ایک عظیم قائد کی بشارت زیادہ ہے ،ا س کے ضمیر و دماغ کو اس کھیل کے ذریعہ قدرت تیار کر رہی ہے کیونکہ اسے ایک کار عظیم کے لئے بنایاگیا ہے۔ وہ بچہ کوئی عام بچہ نہیں بلکہ مولانا محی الدین احمد جو بعد میں چل کر مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوا۔ مولانا آزاد کا بچپن عام بچوں سے کافی مختلف تھا  ۔ ان کے کھیلوں سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ ایک دن انہیں بڑا آدمی بننا ہے ۔ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے مولانا آزاد کی بہن آرزو بیگم کا انٹرویو جو آج کل نئی دہلی ستمبر۱۹۵۹ء کے شمارہ میں شائع ہوا ہے ۔ اس حوالہ کوڈاکٹر خلیق انجم صاحب نے اپنی کتاب ’’مولانا ابوالکلام آزاد: شخصیت اور کارنامے) میں کوڈ کیا ہے۔ اس کے مطابق اس انٹرویو میں آرزو بیگم نے مولانا کے بچپن کے کھیلوں کے بارے میں بتایا کہ:

    ’’بچپن میں بھائی کو ان کھیلوں کا شوق نہیں تھا جو اکثر بچے کھیلا کرتے ہیں۔ ان کے کھیل سات آٹھ سال کی عمر میں عجیب انداز کے ہوا کرتے تھے ۔ مثلاً کبھی وہ گھر کے تمام صندوقوں اور بکسوں کو ایک لائن میں رکھ کر کہتے تھے کہ یہ ریل گاڑی ہے ۔ پھر والد کی پگڑی سر پر باندھ کر بیٹھ جاتے تھے اور بہنوں سے کہتے تھے کہ تم لوگ چلا چلا کر کہو ، ہٹو ہٹو، راستہ دو، دلی کے مولانا آرہے ہیں، ہم لوگ اس پر کہتے تھے کہ بھائی یہاں کوئی آدمی نہیں ہے ، ہم کس کو دھکا دیں اور کہیں کہ راستہ دو۔ اس پر وہ کہتے تھے کہ یہ کھیل ہے تم سمجھو کہ بہت سے لوگ مجھ کو لینے اسٹیشن پر آئے ہیں۔ پھر بھائی صندوقوں سے اترتے تھے اور بہت آہستہ آہستہ قدم اٹھاکر چلتے تھے جیسے کہ بڑی عمر کے لوگ چلتے ہیں۔ کبھی وہ گھر میں کسی اونچی چیز پر کھڑے ہوجاتے تھے اور سب بہنوں کو آس پاس کھڑا کرکے کہتے تھے کہ تم لوگ تالیاں بجائو اور سمجھو کہ ہزاروں آدمی میرے چاروں طرف کھڑے ہیں اور میں تقریر کر رہاہوں اور لوگ میری تقریر سن کر تالیاں بجا رہے ہیں۔ میں کہتی تھی کہ بھائی سوائے ہم دو چار کے یہاں کوئی نہیں ہے ، ہم کیسے سمجھیں کہ ہزاروں آدمی یہاں کھڑے ہیں اس پر وہ کہتے تھے کہ یہ تو کھیل ہے ، کھیل میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ‘‘

    (مولانا ابوالکلام آزاد۔ شخصیت اور کارنامے ۔ خلیق انجم ، ساتواں ایڈیشن ۲۰۰۳ء ، صفحہ:۳۷)
    یہ کوئی معمولی بچہ نہیں تھا کیونکہ اس کے بچپن کا یہ کھیل جوانی میں حقیقت بن گیا ۔ جب لوگ ایک بہت بڑا مقرر تسلیم کرنے لگے اور اس کے استقبال کے لئے ہزاروں کی تعداد میں اسٹیشن پر جمع ہونے لگے۔ دراصل وہ اپنے بچپن کا کھیل کھیلتے ہوئے بہت بڑا عالم بن گیا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی غیبی طاقت اسے یہ کھیل کھلانے پر مجبور کر رہی تھی کیوں کہ اسے دنیا میں ایک اہم کام کے لئے چن لیا گیا تھا۔

    مولانا کی عمر جب بارہ تیرہ سال کی تھی تب بھی انہیں کھیل سے کوئی رغبت نہیں ہوئی۔اس وقت ان کی زندگی صرف کتابیں تھیں۔ شور و غل سے بچنے کے لئے وہ گوشۂ تنہائی میں جا بیٹھتے اور گھنٹوں کتابیں پڑھتے رہتے۔ ا س زمانے کا ذکر کرتے ہوئے مولانا آزاد نے حبیب الرحمن شروانی کو ایک خط میں لکھا تھا:

’’جنرل پوسٹ آفس کے سامنے ڈلہوزی اسکوائر تھا ۔ وہاں درختوں کا ایک ایسا جھنڈ تھا کہ باہر سے معلوم ہوتا کہ بس درخت ہی درخت ہیں لیکن اندر کافی جگہ تھی۔ وہاں ایک بینچ تھی ۔ جب میں سیر کو نکلتا توکم عمری کی وجہ سے میرے ساتھ ایک ملازم حافظ ولی اللہ ہوجاتے۔ میں اپنے ساتھ چندکتابیں لے لیتا اور ڈلہوزی اسکوائرکے درختوں کے اس جھنڈ میں بیٹھ کر کتاب کا مطالعہ کرتا۔ ملازم خاص حافظ ولی اللہ باہر ٹہلتے رہتے اور کبھی کبھی جھنجھلا کر کہتے کہ اگر کتاب ہی پڑھنی تھی تو گھر سے نکلنے کی کیا ضرورت تھی۔ ‘‘

(مولانا ابوالکلام آزاد :شخصیت اور کارنامے۔ خلیق انجم۔ صفحہ:۴۰، اشاعت:۲۰۰۳)

    ابوالکلام آزاد مکہ کے مقدس اورپاکیزہ شہر میں ۱۱؍ نومبر ۱۹۸۸ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا نام محی الدین احمد رکھا گیا اور تاریخی نام فیروز بخت پڑا۔ مولانا کی عمر پانچ سال کی ہوئی تب شیخ عبداللہ نامی ایک بزرگ نے حرم شریف میں ان کے بسم اللہ کی رسم ادا کی۔ تقریباً دو سال میں انہوں نے قرآن شریف ختم کرلیا۔ اس کے بعد فارسی اور عربی کی تعلیم اپنے والد محترم مولانا محمد خیر الدین اور دیگر اساتذہ کی نگرانی میں حاصل کی۔ان کے والد نے عربی اور فارسی پر اتنی توجہ دی کہ اردو بالکل نظر انداز ہوگئی۔ مولانا کو اردو پڑھنے کا شوق خود بخود ہوگیا۔مکہ معظمہ میں ان کے اردو تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اسی دوران آزاد کے والد مولانا خیرالدین صاحب کے پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ بہت علاج ہوا لیکن کوئی فائدہ نظر نہ آیا ۔ کچھ لوگوں کے مشورہ پر علاج کے سلسلہ میں کلکتہ آگئے اور پھر یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ کلکتہ پہنچے پر انہوں نے اردو کی تعلیم اپنی بڑی بہن آبرو بیگم سے حاصل کی۔ایک ایسا وقت آیا جب مولانا آزاد اردو دنیا پر چھاگئے ۔ صحافت، مکتوب نگاری، انشائیہ پردازی ، تاریخ نویشی کے ذریعہ اردو زبان و ادب کی خدمت کی۔

    ہندی کی ایک مشہور کہاوت ہے ’’ہونہار برواکے ہوت چکنے پات‘‘۔ ان کا بچپن ان کی جوانی کی عظمت کی بشارت دے رہا تھا۔ وہی ہوا جیسا کہ بہت سے مفکروں نے ان کے بارے میں سوچا تھا۔ بڑے ہوکر وہ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے مشہور ہوئے جو ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے علم و ادب پر اپنے نقوش چھوڑ گئے۔

(’’الہدی‘‘، جون ۲۰۱۳ئ)

٭٭٭

Ahsan Alam
Moh: Raham Khan, Darbhanga
Mob: 9431414808

    

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 660