donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Musalmano Ke Liye Maulana Abul Kalam Azad Ka Seyasi Paigham


احسان عالم

ریسرچ اسکالر ، ال۔ان۔ام۔یو، دربھنگہ


مسلمانوں کے لئے مولانا ابوالکلام آزادکاسیاسی پیغام

 

 

    مسلمانوں کا مستقبل روشن ہو اس کے لئے یہ نہایت اہم ہے کہ وہ اپنے اور اپنی قوم کے لئے ایک لائحہ عمل طے کریں۔ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر آپسی اتحاد کا ثبوت دیں اور یہ فیصلہ لیں کہ وئوٹ کسے دینا ہے ۔ ہمارے آئین نے ہمیں وئوٹ دینے کا حق دیا ہے ۔ اس حق کا استعمال ہمیں سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔ آزاد ی کے بعد سے ہی زیادہ تر سیاسی جماعتیں ہمیں بے وقوف بناکر اپنا الو سیدھا کرنے میں لگی ہیں۔ کبھی مسلمان شوق سے تو کبھی کسی مجبوری کے تحت ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور اپنے وئوٹ کی حیثیت کو مجروح کرتے رہے ہیں۔ ایک تو سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو ٹکٹ کم دیتی ہیں اور دیتی بھی ہیں تو یہ پہلے سے طے ہوتا ہے کہ فلاںامیدوار کو فلاں جگہ جیتنے کی غرض سے نہیں بلکہ ہارنے یا دوسرے مسلمان امیدوار کو ہرانا ہے ۔ ایسے میں یہ اور لازمی ہوجاتا ہے کہ ہم شعور سے کام لیں۔ اللہ نے ہمیں عقل و شعور عطا کیا ہے۔ اس کا استعمال کریں۔ ہمارے آبا و اجداد نے اپنے قوم و ملک کی خدمت کے لئے بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ، ہمیں ان کے بتائے ہوئے سیاسی راہ پر گامژن ہونا چاہئے ۔ ان بزرگوں اور محترم شخصیتوں میں ایک نام مولانا ابولکلام آزاد کا ہے۔ انہوں ملک کی ترقی کے لئے اتحاد کا جتنا بڑاپیغام دیا ہے شاید دوسری کسی سیاسی رہنما نے نہیں دیا ہے ۔ انہوں نے’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے ذریعہ مسلمانوں کو ایک واضح سیاسی راہ بھی دکھانے کی کوشش کی ہے۔ یہاں میں ان کے چند نظریات اور مشوروں کو پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ 

    ’’الہلال‘‘ کے ذریعہ مولانا ابوالکلام آزاد جو دعوت پیش کر رہے تھے اس کے مخاطب مسلمان تھے کیونکہ سیاسی اور شعور طور پر سب سے زیادہ دبے پچھرے ہوئے تھے۔ ایک طرف علی گڑھ کی سیاسی تحریک انہیں سرکار برطانیہ سے قریب کر رہی تھی اور دوسری طرف مسلم ایک صرف میمورنڈم کی جماعت بن کر رہ گئی تھی جو مولانا کے معیار پر مسلمانوں کی بیداری ، سرفرازی اور اصلاح عقائد و معاشرت سے قاصر تھی۔ وہ مسلمانوں کو الگ سے منظم اور تیار کرکے میدان ہندوستان کے آزادی کی جنگ میں اتارنا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کی انفرادیت باقی رہے۔ مولانا مسلمانوں کو قرآن کی زبان میں دعوت دیتے رہے ۔ 

    مولانا نے ’’الہلال‘‘ میں لکھا ہے:۔

’’آپ پوچھتے ہیں کہ آج کل ہندئوں کے دو پولیٹیکل گروہ موجود ہیں ، آپ ان میں سے کسی کے ساتھ ہیں۔ گزارش ہے کہ ہم کسی کے ساتھ نہیں، بلکہ خدا کے ساتھ ہیں۔ اسلام اس سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے کہ اس کے پیروئوں کو اپنے پولیٹیکل پالیسی قائم کرنے کے لئے ہندئوں کی پیروی کرنی پڑے۔ مسلمانوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی شرم انگیز سوال نہیں ہوسکتا کہ وہ دوسروں کی پالیٹیکل تعلیموں سے آگے جھک کر اپنا راستہ پیدا کریں۔ ان کو کسی جماعت میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں ۔ وہ خود دنیا کو اپنی جماعت میں شامل کرنے والے اور اپنی راہ پر چلنے والے ہیں اور صدیوں تک چلا چکے ہیں۔ وہ خدا کے سامنے کھڑے ہوجائیں تو ساری دنیا ان کے آگے کھڑی ہوجائے گی۔ 

    اس طرح مولانا ابوالکلام آزاد کی یہ للکار آج بھی مسلمانوں کے لئے معنویت رکھتی ہے۔ آج بھی ہر معاملے میں ہم پالیٹیکل جماعت پر منحصر ہیں۔ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے آپ کے سہارے جینا سیکھیں۔ ہم اپنے آپ کو کمزور نہ سمجھیں ۔ اگر ہم خود کو کمزور سمجھیں گے تو دوسروں کی نظر میں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ 

    ’’الہلال‘‘ میں ایک جگہ مولانا آزاد فرماتے ہیں :۔

’’بس ’’الہلال‘‘ کی اور تمام چیزوں کی طرح پالٹکس میں بھی یہی دعوت ہے کہ نہ تو گورنمنٹ پر بے جا اعتماد کیجئے اور نہ ہندئوں کے حلقہ درس میں شریک ہویئے۔ صرف اس پر چلئے جو اسلام کی بتلائی ہوئی صراط مستقیم ہے۔ پس مسلمانوں کو فرض ہونا چاہئے کہ وہ جائز آزاد کے حصول کے لئے کوشش کریں اور پارلیمنٹری حکومت اپنی جب تک نہ مل جائے، اپنی مذہبی اصول کی خاطر چین نہ لے۔ ‘‘    

(الہلال ، ۸؍ ستمبر ۱۹۱۲ئ)

    مولانا آزاد کی یہ بات بھی اپنی جگہ صد فی صد درست ہے کہ آج ہم سرکار پر ضرورت سے زیادہ منحصر معلوم پڑتے ہیں ۔ جب کہ ہمیں ہرگز سرکار پر اعتماد کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے ۔ 

    ’’الہلال‘‘ میں مولانا آزاد ایک اور جگہ مسلمانوں کے خواب غفلت سے بیدار کرتے نظر آتے ہیں:۔
’’آہ! کاش مجھے وہ صور قیامت ملتا جس کو میں لے کر پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر چڑھ جاتا ۔ اس کی ایک صدائے رعد آسائے غفلت شکن سے سرگشتگان خواب ذلت و رسوائی کو بیدار کرتا اور چیخ چیخ کر پکارتا کہ اٹھو، کیونکہ بہت سوچکے اور بیدار ہو کیونکہ اب تمہارا خدا تمہیں بیدار کرنا چاہتا ہے۔ پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے دنیا کو دیکھتے ہو پر اس کی نہیں سنتے۔ جو تمہیں موت کی جگہ حیات، زوال کی جگہ عروج اور ذلت کی جگہ عزت بخشنا چاہتا ہے۔ ‘‘  

 (الہلال، ۷؍ مئی ۱۹۱۳ئ)

    ’’الہلال ‘‘ میں مولانا آزاد نے مسلمانوں کے کئی جگہ آواز دیا ہے کہ تم جاگ جائو اور دنیا میں اپنے کھوئے وقار کو حاصل کرو۔ ’’الہلال ‘‘ کے اداریہ میں مسلم قوم کو جھنجھور تے ہوئے فرماتے ہیں:۔

’’غفلت اور سرشاری کی بہت سی راتیں بسر ہوچکیں ۔ اب خدا کے لیے بستر مدہوشی سے سر اٹھاکر دیکھئے کہ آفتاب کہاں تک نکل آیا ہے، آپ کے ہم سفرکہاں تک پہنچ گئے ہیں اور آپ کہاں ٹھہرے ہیں؟ یہ بھولئے کہ آپ اور کوئی نہیں بلکہ مسلم ہیں اور اسلام کی آواز آپ سے آج بہت سے مطالبات رکھتی ہے۔ ‘‘      

 (الہلال ، ۱۸؍ دسمبر ۱۹۱۲ئ)

    اس طرح مولانا آزاد نے مسلمانوں کو اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھنے کی صلاح دی ہے ۔ لیکن مسلمان آج بھی غفلت میں پڑے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم مسلمان صحیح راستے پر آجائیں ۔ اتنا شعور تو ہونا ہی چاہئے کہ ہم اپنے وئوٹ کا استعمال اس طرح کریں کہ وہ ہمارے ملک کے مستقبل کو سنوار سکے۔ ہم بکھریں نہیں ۔ آپسی اتحاد کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں میں کوئی ذات پات ، فرقہ ، مسلک تو ہونا ہی نہیں چاہئے۔اس موضوع پر بہت سے حضرات تفصیل سے گفتگو کر چکے ہیں لہٰذا میں نے اپنی باتیں مختصر طور پر پیش کیا ہے۔  

    آخر میں اس شعر کے ساتھ اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں:۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

 

Ahsan Alam
Raham Khan, Darbhanga, Mob: 9431414808

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 862