donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Sir Syed Aur Unki Sahafat Nigari


سرسید اور ان کی صحافت نگاری


ڈاکٹر احسان عالم

الحراء پبلک اسکول، رحم خاں، دربھنگہ

 

    سرسید احمد خاں ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۱۷ء کودہلی کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ قدرت نے انہیں بہت سارے اوصاف سے نوازا تھا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی ان کے اندر قومی جذبہ کا کوٹ کوٹ کر بھرا ہونا تھا۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے اپنی کوششوں سے اپنی صحافت کے ذریعہ مسلمانوں پر بڑا احساس کیا اور مسلمانوں کو تباہی سے بچانے کی بھرپور کوششیں کیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اپنی قوم کے نام وقف کردیا اور اپنی تحریک کے ذریعہ ایک نئے عہد کی شروعا ت کی۔ ان کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھی کہ مسلمان تعلیم او ر دیگر شعبوں کی جانب متوجہ ہوئے۔

    سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کو تاریک وادیوں سے نکال کر ایک روشن میدان میں لا کھڑا کیا۔ وہ تاریک راتوں میں ستاروں کی مانند روشن ہوئے اور مسلمان کو پسماندگی اور جاہلیت کے اندھیروں سے باہر نکالا۔ ان کی حب الوطنی، دور اندیشی اور قومی محبت کی مثالیں آج بھی پیش کی جاتی ہیں۔ ان کی خوبیوں کا اعتراف مولوی عبدالحق نے مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے:

’’یہ سرسید کی ہستی ہی تھی ، ان کی زندگی سے ہمیں بہت سے بے بہا سبق مل سکتے ہیں۔ ان کا اپنے نصب العین پر آخر دم تک جمے رہنا، اس کے ہر جائز ذریعہ کو کام میں لانا ، مخالف قوتوں کا دلیری سے مقابلہ کرنا، محنت و مشقت سے کبھی بھی جی نہ چرانا، دن رات کام میں لگے رہنا ، تساہلی اور کاہلی کو پاس نہ پھٹکنے دینا، خود ایک بڑا کارنامہ ہے۔ انہوں نے اپنے خیالات کو کبھی نہیں چھپایا۔ جو دل میں تھا وہی ان کی زبان و قلم پر تھا۔ کبھی اس کی پرواہ نہیں کی کہ اس سے ان کی ذات یا ان کے مقاصد کو نقصان پہنچے گا۔ ان کی زندگی میں اکثر ایسے موقعے آئے جب ان پر خیر اندیش اور مخلص دوستوں نے ان کو کسی فعل سے باز رہنے کی صلاح دی۔ اعتماد سے معاملے کی اونچ نیچ سمجھائی لیکن انہوں نے وہی کیا جو ان کے ضمیر نے کہا۔ اور ہمیشہ کمال اخلاقی جرأت سے کام لیا ۔ بے ریائی اور صداقت عمر بھر ان کا شعار رہا۔ ‘‘

(انور دہلوی، (مرتبہ) اردو صحافت، دہلی اردو اکادمی، دہلی، ۱۹۸۷ئ)

    سرسید نے صحافتی زندگی کا آغاز اپنے بھائی سید محمد خاں کے اخبار سید الاخبار سے کیا۔ یہ اخبار ہفتہ وار تھا ۔ اس کی قیمت دو رروپیہ ماہانہ تھی۔ اس اخبار کے مالک سرسید کے بڑے بھائی سید محمد تھے۔ اس اخبار کی شروعات ۱۸۴۱ء میں ہوئی تھی ۔ سید محمد خاں چونکہ سرکاری ملازمت میں تھے اس لئے ادارت کی ذمہ داری مولوی عبدالغفور کے ذمہ تھی۔ اس میں زیادہ تر مضامین سرسید احمد خاں ہی لکھا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں مولانا حالی ’’حیات جاوید‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’سرسید کے بڑے بھائی کا انتقال ہوچکا تھا۔ جس سے سوروپئے ماہوار کی آمدنی کم ہوگئی تھی۔ قلعہ کی تنخواہیں تقریباً بند ہوگئی تھیں۔ با پ کی املاک بھی بسبب عین حیات ہونے کے ضبط ہوگئی تھی۔ کرایہ کی آمدنی بہت قلیل تھی۔ صرف سرسید کی تنخواہ سو روپئے ماہوار تھے اور سارے کنبے کا خرچ تھا۔ سرسید ابتدا سے نہایت فراخ حوصلہ اور کشادہ دل تھے۔ خرچ کی تنگی کے سبب اکثر منقبض رہتے تھے۔ لہٰذا ان کو یہ خیال ہوا کہ کسی تدبیر سے یہ تنگی رفع ہو۔ سید الاخبار جوان کے بھائی کا جار ی کیا ہوا اخبار تھا کچھ تو اس کو ترقی دینی چاہی اور کچھ عمارات دہلی کے حالات ایک کتاب کی صورت میں جمع کرکے شائع کرنے کا ارادہ کیا۔ سید الاخبار کا اہتمام اگرچہ برائے نام ایک اور شخص کے سپرد تھا مگر زیادہ تر سرسید خود اس میں مضامین لکھا کرتے تھے۔ ‘‘

    (امداد صابری ۔ روح صحافت،مکتبہ شاہراہ اردو بازار، دہلی، ۱۹۶۸ئ)

    سید الاخبار کے علاوہ سرسید احمدخاں کے مضامین دوسرے اخباروں اور اودھ پنچ وغیرہ میں شائع ہوا کرتے تھے۔ سرسید احمد خاں نے اردو صحافت کو ایک نیا رخ عطا کیا اور صحافت کو ایک مشن کی طرح استعمال کرتے ہوئے ایک بلندی عطا کی۔ صحافت سے متعلق ان کا نظریہ تعمیری تھا ۔ وہ ایک خاص مقصد کے تحت چلے تھے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ اردو اخبار نویسی کو صحافت میں ایک اہم مقام عطا کیا۔

    اس زمانے میں آج کی طرح نہ تو جدید مشینیں تھیں اور نہ ہی اخبار کے لیے رپورٹر ہواکرتے تھے۔ سرسید احمد خاں نے اردو صحافت کو کسوٹی پر اتارتے ہوئے اپنے مقصد میںکامیابی حاصل کی۔ صحافت کے ساتھ ساتھ اداریہ نویسی کا آغاز بھی سر سید احمد خاں نے ہی شروع کیا تھا۔ بامقصد اورنظریاتی صحافت کو اپنے زندگی کا دستور العمل بنایا ۔ خبرنگاری اور صحافت کے جدید اصولوں کو فروغ دیا۔ سید احمد قادری رقم طراز ہیں:

’’سرسید نے یقینی طور پر اردو صحافت کے معیار و وقار اور اعتبار کو بڑھایا اور اردو صحافت کو نئی تکنیک اور اسلوب سے متعارف کروایا۔ سرسید اخبار کی آزادی کے ہم نوا تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ صحافتی آزادی کے بغیر لوگ اپنے اظہار و خیال میں وسعت پیدا نہیں کر سکتے ۔ اس لئے بے باک اور بالاگ اظہار خیال کی تائید کرتے ہوئے صحافت کی آزادی پر اس انداز سے زور دیا ۔‘‘

    (ثریا حسین۔ سرسید احمد خاں اور ان کا عہد۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی ۔ ۶)

    سرسیدا حمد خاں نے پرآشوب دور میں جب مسلمانوں پر چہار طرف سے زوال آیا ہوتا تھا ۔ قوم کے نشیمن کو سنوارنے کا خواب دیکھا تھو اور اپنے صحافتی کاموں سے اپنی تحریر سے اسے پورا بھی کیا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:

’’سرسید کی صحافت میں دو باتیں بڑی چمک اور تابانی رکھتی ہیں۔ اول ان کے صحائف کی دیدہ زیبی ، ٹائپ کا حسن اور کاغذ کی عمدگی ۔ اس لحاظ سے ان کے اخبار موجود ترقی یافتہ یورپ کے اعلیٰ اخباروں اور رسالوں سے کسی طرح کم نہیں۔ دوسرے ان اخبارات کی معقولیت ۔ اخبارات میں واقعات و معاملات پر بے لا رائے جس میں بڑی عاقبت بینی ، وسعت معلومات اور تعمیری نقطہ نظر جھلکتا ہے۔ یہی ان کے تبصروں کی خصوصیت ہے اور مضامین علمی میں سرسید کی مخصوص معقول اسپرٹ اور حیات قومی کی تشکیل جدید اور زندگی کی تمدنی اساس کا پورا پورا احساس پایا جاتا ہے۔ یہ عقلی اور تجزیاتی اصول صحافت سرسید کی اخبار نویسی کے خاتمے کے بعد آج تک اردو اخبار نویسی میں پیدا نہ ہوسکا۔ ‘‘

                    (جاوید حیات ۔ مبادیات صحافت۔ مکتبہ آزاد پٹنہ )

    ہندوستان میں ۱۸۲۲ء سے اردو صحافت کی شروعات ہوتی ہے ۔ اس وقت سے لے کر ۱۸۵۷ء اور اس کے بعد تک اردو صحافت ترقی کی کئی منزلیں طے کر چکی تھی۔ اس سفر میں رام موہن رائے، مولوی باقر علی، سید محمد خاں، ماسٹر رام چند، منشی نول کشور جیسے لوگوں نے صحافت کو نئی جہتوں سے آراستہ کیا۔ لیکن اب تک اردو صحافت کا ایک سیدھا رخ متعین نہیں ہوپایا تھا۔ صحافت کا مقصد اب تک مکمل طور پر واضح نہیں ہوپایا تھا۔ سرسید احمد خاں نے اپنے اخبار سائنٹفک سوسائٹی سے اردو صحافت میں ایک نئی شروعات کی اور اپنی صحافت کو ایک معیار دیا۔ اس سے اردو زبان وادب ، قوم و ملک، معاشرے اور صحافت کے میدان میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اس سلسلہ میں اصغر عباس لکھتے ہیں:

’’جام جہاں نما سے لے کر آج کے اردو اخباروں تک اردو صحافت نے ترقی کے کئی مدارج طے کیے ۔ لیکن گزٹ نے اردو صحافت میں جو اہم خدمات انجام دی ہیں۔ ان کا ذکر اردو صحافت کے مورخ کے لیے ناگزیر ہوگا۔ یہی وہ اخبار ہے جس نے صحافت کو آزادی رائے ، سنجیدگی ، متانت اور صحت واقعات کی خوبیوں سے نوازا اور باوقار صحافت کی بنیاد ڈالی۔ یہی وہ نظریاتی اخبار ہے جس کے مقاصد کو بڑے پیمانے پر قبولیت حاصل ہوئی۔ ‘‘

    (سید احتشام حسین۔ اردو کی کہانی۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی۔ ۱۹۸۳ئ)

    سرسید احمد خاں کا ایک بڑا کارنامہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا اجرا ء ہے۔ ۲۴؍ دسمبر ۱۸۷۵ء میں سرسید نے اسے اس مقصد کے لئے جاری کیا کہ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ و تمدن اور ان کی علمی و ادبی کاوشوں میں اصلاح و ترقی کی راہ نکالی جائے اور مسلمانوں کو جدید رجحانات سے متعارف کرایا جائے۔

    سرسید کی صحافت کا یہ نتیجہ تھ اکہ ملک کے گوشے گوشے میں لکھنے پڑھنے کا ایک نیا جذبہ پیدا ہوا۔ یہی وہ جذبہ تھا جو آگے چل کر جدید اردو صحافت کی شکل میں نمودار ہوا۔ اس کارنامے کے لئے سرسید احمد خاں لمبے عرصے تک یاد کئے جائیں گے۔

                    (مطبوعہ روزنامہ ’’قومی تنظیم ‘‘ پٹنہ ، ۱۷؍ نومبر ۲۰۱۵ئ)

٭٭٭

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 757