donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Gholam Shabbir Rana
Title :
   Haji Md Wariyam : Kya Log They Jo Rahe Jahan Se Guzar Gaye


 
حاجی محمد وریام :کیا لوگ تھے جو راہِ جہاں سے گُزر گئے 
 
ڈاکٹر غلام شبیر رانا 
 
 ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دِلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں
 
      مکہ ،مدینہ،نجف اور کر بلا کی خاک کو اہل ِ دِل کی آ نکھ کا سرمہ سمجھنے والے درویش ِ خدا مست،عالمِ با عمل اور جری مصلح حاجی محمد وریام کو ہم سے بچھڑے آج (9۔جولائی2017)تیرہ برس بِیت گئے۔ مگر اُن کے ہزاروں عقیدت مندوں اور سوگوار مداحوں کے دِل ِ حزیںمیں ان کی یاد اب بھی تازہ ہے ۔ ہمارے عہد کا المیہ یہ ہے کہ ہم تاریخ اور اس کے مسلسل عمل سے غافل اوربیگانہ ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔تحریک ِ پاکستان میںحصہ لینے والے حریت فکر و عمل کے متعد دمجاہدین اور خاموش کا رکنوں کی خدمات کااحوال تاریخ کے طوماروں میں دب گیا ۔شہرِ سدا رنگ جھنگ اپنی صد ر نگی کی بنا پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ تاریخ کے ہر دور میں اس شہر کے مکینوں کے سینوں میں اِسلام،ارضِ وطن ،اہلِ وطن اور انسانیت سے بے لوث محبت کے جذبات کی فراوانی رہی ہے ۔ حیف صد حیف کہ ان یگانۂ روزگار بزرگوں کی خدمات کی روداد ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اس طرح اوجھل ہوتی چلی گئی کہ اب کچھ سجھائی نہیں دیتا ۔قحط الرجال کے موجودہ دور کی کڑی دُھوپ میںہم سایہ طلب جس طرف بھی جاتے ہیں ،شجرِ حیات کی خزاں رسیدگی یہ اعلان کرتی ہے کہ دھرتی پر سایہ فگن سب بُور لدے چھتنارکب کے یہاں سے سدھار گئے ۔اجل کے قاتل تیشوں کے وار نے ان ساونتوں کو پیوند خاک کر دیا ۔گردشِ ایام کایہ رنگ دیکھ کر دِل دہل جاتا ہے کہ زمین کیسے کیسے آسمان کھا گئی ۔وہ آفتاب و ماہتاب جن کی ضیا پاشیوں سے یہ جہاں بقعہ ٔ  نور ہو گیا دیکھتے ہی دیکھتے شہر خموشاں میں تہہ ظلمات چلے گئے اور ہماری پتھرائی ہوئی آنکھیں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں ۔جھنگ شہر کی خا ک سے اُٹھنے والے وہ لوگ جو ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے اپنی دُھن میں مگن رہ کر اِسلام کی آفاقی تعلیمات کی سر بلندی اور عظمت انسان کا پرچم تھام کر منزلوں کی جستجومیں انہماک کا مظاہرہ کرتے رہے ان میں حاجی محمد وریام بھی شامل تھے ۔ایسی یگانۂ روزگار ہستیاں یقیناًلافانی ہوتی ہیں مگر موت کا ذائقہ تو ہر انسان کو چکھنا ہوتا ہے ۔ اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے کرتے ایک سہ پہر درخشاں روایات اور عظیم اقدار کے امین اِس قدیم اور تاریخی شہر کے جنوب میں واقع تیرہ سو سال قدیم شہرِ خموشاں (کر بلا حیدری )میں کھڑ ا سوچ رہا تھا کہ خفتگان خاک تو اپنی باری بھر کر چلے گئے اب ہمیں عدم کے کوچ کی فکر کرنی چاہیے ۔ اپنے سب رفتگاں کی دعائے مغفرت کے بعد اُن کی لحد کے کنارے کھڑا یام گزشتہ کی بیاض کی صفحہ شماری میں مصروف تھا کہ مجھے ایک صدا سنائی دی ۔  
 
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن 
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے 
 
       موت کا سیلِ رواںہر جان دار کو خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتا ہے ،یہی قضا و قدر کا فیصلہ اورفطرت کا اصول ہے لیکن کچھ ابدآ شنا انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو موت کی آ نکھوں میں آ نکھیں ڈال کر یہ پیغام دیتے ہیں کہ موت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور ان کی نیکیوں،انسانیت کی بے لوث خدمت اور دردِ دِل کے اعجاز سے لوح ِ جہاں پر ان کا دوام ثبت ہو چکا ہے ۔ایسی نابغۂ روزگار ہستیاں جب دائمی مفارقت دے جاتی ہیں تو اُن کے بعد آنے والی نسلیں ان کے نقشِ قدم دیکھ کر نشانِ منزل پا لیتی ہیں ۔ہمارے رفتگاں کی یادیں جب تک ہمارے دِلوں میں موجود ہیں وہ زندہ رہیں گے اور موت اُن کی ہمہ گیر مقبولیت اوردائمی فیض رسانی کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوسکتی۔  
 
      حاجی محمد وریام نے جھنگ شہر کے ایک معزز مغل خاندان میں پانچ جولائی 1923کو جنم لیا۔ ان کے والدحاجی محکم دین کا شمار اپنے عہد کے اُن حریت پسند، متقی اور با عمل علما میں ہوتا تھا جنھوں نے تحریکِ پاکستان میں محکوم قوم میں جذبۂ حریت کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا ۔ان کے چہرے پر سدا بہار مسکراہٹ ایک ایسا مر ہم تھا جس سے غم و آ لام کے گہرے زخم بھی مندمل ہونے لگتے تھے ۔ حاجی محکم دین نے اپنے اس ہو نہار فرزند کی تربیت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔دینی تعلیم کے لیے اپنے بیٹے کوحافظ برخوردار خان کی مسجد میں بھیجتے اور دنیاوی و نصابی تعلیم کے لیے تھانہ جھنگ شہر کے سامنے واقع اُسی ممتاز تعلیمی ادارے میںاُنھیں داخل کرایا گیا جس میں نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان پروفیسر عبدالسلام زیر تعلیم رہے۔ حاجی محکم دین،محمد موسیٰ ،صالح محمد ،محمود بخش،یار محمد اور حافظ بر خوردار خان نے آ ج سے دو سو سال قبل علی گڑھ تحریک کے زیر اثر جھنگ شہر میں نئی نسل بالخصوص مسلمان خواتین کے لیے دینی و دنیاوی تعلیم کی اہمیت کو اُجاگر کیا ۔جھنگ شہر میں مسجد شاہ علیانی،مسجد نُورانی اور مسجد کہاراں والی کی تعمیر ان بزرگوں کی ذاتی توجہ اور جذبۂ ملی کی درخشاں مثال ہے ۔ جھنگ شہر کے تعلیمی اداروں سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حاجی محمد وریام روزگار کی تلاش میں تھے۔ جب دوسری عالمی جنگ (1939-1945 ) کا آغاز ہوا تو بر طانوی استعمار نے نہایت ظالمانہ انداز میں اپنی نو آبادیات کے باشندوں کو اپنی جنگ میں شامل کر نے کا فیصلہ کیا ۔ اسی دوران اس خطے کے ہزاروں نوجوان بر طانوی فوج میں بھر تی کیے گئے اور انھیں فوجی تر بیت دینے کے بعد جرمن افواج کے ساتھ لڑائی کے لیے محاذ جنگ پر روانہ کر دیا گیا ۔ دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے کچھ عرصہ بعد حاجی محمد وریام بھی بر طانوی فوج میں ملازم ہو گئے اورفوجی بھرتی کے مقامی دفتر سے انھیں لکھنو چھاونی میں فوجی تربیت کے لیے پہنچنے کا حکم ملا ۔اپنے زمانہ طالب علمی اورعہد جوانی میںحاجی محمد وریام کو میر تقی میرؔ  (1723-1810) کی شاعری بہت پسند تھی اس لیے لکھنو پہنچ کر انھوںنے اپنے ساتھیوںنثار احمد، حاجی محمد یوسف ،رانا سلطان محمود ،جعفر طاہر ،رحیم بخش اور رجب دین کے ہمراہ چُھٹی کے دِن اُردو زبان کے اس عظیم شاعر کی قبر پر حاضری دینے اور وہاںپُھول چڑھانے کا ارادہ کیا ۔آغاز سفر ہی میں ان نووارد نو جوان فوجیوں کے لیے یہ امر حیران کن تھا کہ ایک عرصہ ہوا اِس شہر میں میر تقی میرؔ سے وابستہ تمام حقائق خیال و خواب ہو چکے تھے۔مقامی لوگو ں کی زبانی صرف اتنا معلوم ہوا کہ لکھنو شہر کے نواح میں واقع بھیم کے اکھاڑہ کے قریب کسی مقام پر اپنے بِکھرے خوابوں کا صُورت گر ،اپنے غم و آلام کا نوحہ گر اوررنج و الم کا پیکر یہ شاعر آسودۂ خاک ہے ۔حاجی محمد وریام نے بتایاکہ جہاں بھیم کا اکھاڑہ بتایا گیا اس کا محل وقوع لکھنو شہر کے ریلوے سٹیشن کے قُرب و جوار میںشمال کی سمت میں تھا ۔اس علاقے میں خشک میوے کثرت سے فروخت ہوتے تھے بالخصوص یہ بازار مونگ پھلی اور شکر قندی کی فروخت کا اہم مرکزتھا ۔گمان تھا کہ دریائے گومتی کے کنارے جو کچی آبادیا ں اس زمانے میں وجود میں آگئی تھیں بھیم کااکھاڑہ اُن میں شامل ہو کر ماضی کا حصہ بن گیا۔ لکھنو کے مقامی باشندوںنے تسلیم کیاکہ جس جگہ پر میر تقی میرؔ کو دفن کیا گیا تھا اب اُس کی قبر کے عین اُو پر ریلوے لائن اور لکھنو جنکشن موجود ہے جو نہ صرف بے مہری ٔ عالم کی دلیل ہے بل کہ اسے حالات کی ستم ظریفی بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ حساس شاعر جس نے اپنے سرہانے آہستہ بولنے کی استدعا کی اب وہ منوں مٹی کے نیچے تہہِ ظلمات پڑا بھاری بھرکم ریل گاڑیوں کے شکستہ ڈبوں کی کھڑ کھڑاہٹ ،  ہارن ،سیٹی اور سٹّے کے غلغلے ،ریلوے انجنوں کی چھک چھک اور قُلیوں کی کل کل جَھک جَھک کے بے ہنگم شور میں دب چکا تھا ۔وہ بے مثال تخلیق کار جسے سوداؔ، غالبؔ ،ذوقؔ اور متعد د شعرا نے اپنا پیش رو تسلیم کیا اور اس کے اسلوب کو ابد آشنا اور لائق تقلید قرار دیا اب اس کی قبر کا نشان تک موجود نہیں ۔وہ یگانۂ ٔروزگار شاعر جس نے 13585اشعار پر مشتمل اپنی شاعری کے چھے وقیع دیوان لکھ کر اردو شاعری کی ثروت میں قابلِ قدراضافہ کیا اور اردو ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیا آج اس کا جسد خاکی لکھنو ریلوے سٹیشن اور ریلوے جنکشن کے شور محشر میںنو آبادیاتی دور میں برطانوی استبداد کے فسطائی جبر کے خلاف انصاف طلب ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میر تقی میرؔکو اپنے بارے میں معلوم تھا کہ کسی شخص کی طبعی موت کے بعدزمانے کے حالات کس قدر تلخ صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔اس دنیا میں دارا اور سکندر جیسے نامیوں کے نام و نشاں نہ رہے تو ایک شاعر کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہونا تخیل کی شادبی کے سوا کیا ہو سکتا ہے ۔وفات کے صرف چھے عشروں کے بعد ایک عظیم شاعر کی قبر کا نشان تک معدوم ہو جانا بے ثبات دنیا کی رنگینیوں اور رعنائیوں کے سراب میں کھو جانے والے کج فہموں کے لیے لمحہ ٔ  فکریہ ہے ۔ حاجی محمد وریام کہا کرتے تھے کہ میر تقی میرؔکی شاعری محبت اور ہجر و فراق کے جذبات سے لبریزہے ۔ اس شاعری کے مطالعہ کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ جس انسان کے دِل میں اپنی محبت کی خاطر جان سے گزرنے کی تڑپ نہ ہو ایسے بے حِس انسان کی زندگی موت سے بھی بد تر ہے ۔ حاجی محمد وریام نے لکھنو ریلوے سٹیشن پر میر تقی میرؔ کے یہ شعر پڑھے تو اُن کے سب ساتھی دِل گرفتہ ہو گئے: 
 
       کِن نیندوں اب تُو سوتی ہے اے چشمِ گِریہ ناک 
       مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
      میرؔ ہم مِل کے بہت خوش ہوئے تم سے پیارے
        اِس خرابے میں مِری جان تم آباد رہو 
         ہو گا کِسی دیوار کے سائے میں پڑا میرؔ
         کیا کام محبت سے اُس آرام طلب کو 
           بعد مرنے کے میری قبر پہ آیا وہ میر ؔ    
          یاد آئی میرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد 
 
         یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب غاصب برطانوی تاجر تمام اخلاقی اور قانونی حدود سے تجاوز کر کے تاج وربن بیٹھے تو اُن تمام علامات اور نشانیوں کو جو اہل ہندوستان کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص قابل احترام تھیں انھیں چُن چُن کر ان طالع آزما، مہم جو اور انسانیت سے عاری غاصب فاتحین نے نیست و نابود کر دیا ۔ حاجی محمد وریام اور ان کے رفقائے کار کو معلوم ہوا کہ لکھنو شہر کے ریلوے سٹیشن کے قریب چھٹی والا پل کے قریب ریلوے لائن کے درمیان ایک قبر کے آثار موجود تھے ۔آج سے کوئی اسّی(80) سال قبل لکھنو کے مقامی باشندے اس مرقد کو شاہ  افجشن کا مزا رخیال کرتے تھے ۔ ایک طویل عرصے تک اِسی مزار کے بارے میں ادبی حلقوں کی رائے یہ رہی کہ ہو نہ ہو یہی تو میر تقی میرؔ کی قبر کا نشان بننے کے گمان کی ایک صور ت ہو سکتی ہے ۔ حیف صد حیف کہ اب اس مر قد کا بھی کہیں سراغ نہیں ملتا۔ اس طرح دل کی تسلی کی ایک موہوم صورت بھی ہمیشہ کے لیے نا پید ہو گئی ۔حال آں کہ میر تقی میرؔ کی قبر تو 1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد برطانوی افواج کی بزدلانہ ، ظالمانہ اور جارحانہ خونیں انتقامی کارروائیوں کے دوران میں مکمل طور پر منہد م کر دی گئی تھی ۔سرابوں میں بھٹکنے والوںکے لیے اب مزید کسی خوش فہمی کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ میر تقی میر ؔ کی تُربتکے انہدام کے بعد سطحِ زمین پر اس غریب شاعر کی آخری نشانی تو مٹا دی گئی مگر لوح ِ دِل پر ثبت اِس زیرک تخلیق کار کی شاعری کے نقوش تا ابد جریدۂ عالم پر اس کے دوام کی گواہی دیں گے۔  میر تقی میرؔ کی تمام زندگی مفلسی ،کس مپرسی ،پریشاں حالی اور درماندگی میں بسر ہوئی ۔ایک بیٹے ،بیٹی اور اہلیہ کی وفات سے میر تقی میرؔ پر جو کوہِ ستم ٹُوٹا اس کے بعد اس کی زندگی کا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ گیا مگر وہ خود کر چیوں میں بٹ گیا ۔اس ہجوم یاس میں اس کے دل کی ویرانی اور مصائب و آلام کی حشر سامانی کے باعث اس حساس شاعر کی زندگی کے تمام موسم وقفِ خزاں ہو کر رہ گئے ۔میر تقی میرؔ کے مرقد کے نشان کا نا پید ہو جانادر اصل موت کے جان لیوا صدمات اور تقدیر کے نا گہانی آلام کے مسائل و مضمرات کی جانب توجہ دلاتا ہے ۔اس عالم آب و گل کی ہر ایک چیز کو فنا ہے اور بقا صرفنظام ِ ہستی چلانے والی رب ذوالجلال کی ذات کو حاصل ہے ۔میر تقی میرؔ کی شاعری اور اس کے الفاظ ہی اب اس کی یاد دلاتے رہیں گے :
 
       آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم 
       اب جو ہیں خاک انتہا یہ ہے 
       چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر     
       منھ نظر آتا ہے دیواروں کے بِیچ   
 
          حاجی محمد وریام کے فوجی رفیق کار عبدالواحد نے بتایا کہ تصوف اورروحانیت حاجی محمد وریام کے رگ وپے میں سرایت کر گئی تھی ۔وہ توہم پرستی اور جہالت کے سخت خلاف تھے اور اُنھوں نے ہمیشہ سادہ ،با وقار اور پُر اعتماد زندگی بسر کی اور اللہ ہُو کے وِرد میں امان پائی۔لکھنوکے قدیم علاقے میں واقع نخاس بازار کے بارے میں پائے جانے والے توہمات کو وہ اور اُن کے معتمد رفیق رانا سلطان محمود سرابوں کے عذابوں سے تعبیر کرتے تھے ۔ اُس زمانے میں لکھنو شہر کا نخاس بازار طیورِ آوارہ با لخصوص زاغ و زغن ،شِپر ،کرگس اور اُلّو کی خرید و فروخت کا بدنام تجارتی مرکز سمجھا جاتا تھا ۔ جہاں ان طیور کو دام لگا کر جنگلوں سے پکڑ کر انتہائی تکلیف دِہ ماحول میں بڑے بڑے آ ہنی پنجروں میں اسیر کرکے اذیت و عقوبت میں مبتلا رکھا جاتا تھا۔ جنگ ِ عظیم دوم کے دنوں میں مغلیہ دور کے مشہور مغنی اور موسیقار تان سین(1506-1589) کے شہر گوالیار کا ایک خسیس بنیا بنسی لال گردشِ ایام سے گھبر ا نخاس بازار لکھنٔو میں گھاسومَل چڑی مار کے پاس پہنچا ۔گھاسو مَل خُوب جانتا تھا کہ عملی زندگی میں بنسی لال کا ایک ہی اصول تھا کہ چمڑی جائے لیکن دمڑی ہر گز نہ جائے۔ لکھنو اور گِرد و نواح کے علاقوں میںیہ بات مشہور تھی کہ دولت کی دیوی لکشمی ہمیشہ کسی چُغد پر سوار ہو کر فاقہ کش ہندوؤ ں کے گھر پہنچتی ہے ۔بنسی لال لکشمی دیوی کی خوشی کی خاطر ایک اُلّو خرید کر اِس منحوس طائر کو رہا کرانے کی تمنا دِل میں لیے نخاس بازار پہنچا تھا۔سب سے پہلے اس نے ایک سال خوردہ ،فربہ اور مہا اُلّو کی قیمت پوچھی۔
 
       ’’یہ موٹا تازہ ،آزمودہ کار اور سِن رسیدہ اُلّو تمھیں پانچ سو روپے میں مِل جائے گا ۔‘‘گھاسو مَل نے اپنی کرگسی آ نکھیں مَلتے ہوئے اور اپنی پِچکی ہوئی کریہہ ناک میں بائیں ہاتھ کی درمیانی غلیظ اور موٹی اُنگلی ٹھونستے ہوئے کہا۔
 
       بنسی لال کی جان میں جان آئی اب اس نے اپنی جیب کو ٹٹولتے ہوئے اوراپنے گنج کوسہلاتے ہوئے ایک بہت ہی چھوٹے ،لاغر اور ناتواں اُلّو کی طر ف اشارہ کیا جس نے ابھی اِس دنیا کو آ نکھ بھر کے بھی نہیں دیکھا تھا ۔’’یہ بے حد چھوٹا اور نحیف و نزار اُلّو کتنے میں فروخت کر وگے ؟‘‘
        ’’ہا ہا ہا !خوب پسند کیا تم نے ،تم ایک جہاں دیدہ اور کہنہ مشق کاروباری بنیے ہو ۔‘‘گھاسو مَل نے شیطانی قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’ یہ کمین انتخاب تمھارے ذوقِ سقیم کا ہنہناتا ثبوت ہے اس چھوٹے اُلّو کی قیمت پندرہ سو روپے نقد سکہ رائج الوقت ہے ۔‘‘
 
        ’’رام! رام! !تم ہوش میں تو ہو؟‘‘بنسی لال نے جِھلّا کر کہا’’  بہت بڑے ،فربہ اور تین کلو وزنی اُلّو کی قیمت تو صرف پانچ سو روپے ہے جب کہ بہت چھوٹے سے پاؤ بھر اُلو کی قیمت اس سے تین گُنا  زیادہ ہے۔ ہم مجبور خریداروں پر نا حق یہ کیا ظلم ڈھا رہے ہو ؟‘‘
        گھاسو مَل نے تَرکی بہ تَرکی جواب دیا ’’بوڑھا اُلّو چراغِ سحری ،پانی کا بلبلہ اور محض کوئی دم کا مہمان ہے۔یہ کھوسٹ مہا اُلّو آج مرا کل دوسرا دِن جب کہ چھوٹا چغد اس مہا اُلّو کا پٹھا ہے۔یہ آئندہ دس عشروں تک غریبوں کی زندگی کی سب رُتیں بے ثمر، نو خیز غنچے اورکلیاں شرر ، وسائل سے محروم آبادیاں پُر خطر ،پر ہنگام بستیوں کو کھنڈر، مصروف گزر گاہوں کو خوں میں تر، سسکتی زندگیاں مختصر ، عسرت زدہ گھروں کے مکینوں کو در بہ دراور الم نصیب انسانوں کی آہیں بے اثر کرتا رہے گا ۔اس چھوٹے چغد کو بیگانہ وار نہ دیکھو بل کہ یہی تو دیکھنے کا طائر ہے اسے بار بار دیکھو کہ آنے والا دور اسی نجاست میں لِتھڑے ہوئے اور نحوست سے لبریز چغد کا ہے۔ اس کی خجالت، خست ،خباثت ،نحوست اور نجاست کا عرصہ بہت طویل ہے اس لیے اس کی قیمت بھی زیادہ ہے۔ اگرتم یہ کم سِن اور خارِ نو دمیدہ چغد خرید لوتویہ آئندہ سو سال تک تمھاری آرزو کے مطابق لکشمی دیوی کو خوش رکھے گا اور تمھاری اس مُو شگافی ،خر خلافی اور زر تلافی کو دیکھ کر تمھاری آنے والی نسلوں کی باچھیں کِھل جائیں گی اور وہ تمھاری فکر ی تہی دامنی اور ذہنی عسرت کی بے داد د یں گی۔ تمھارے بچے  جیب تراش اورآستین کے سانپ بنیں گے ،پیٹھ میں چُھرا گھونپ کر مال جمع کریں گے ،انھیں چھپر پھاڑ اور وہاں کے مکینوں کی کھال اُدھیڑ کر دولت ملے گی اور ان کے ہاں ہُن بر ستا رہے گا۔‘‘
 
      یہ سننا تھا کہ بنسی لال بغلیں بجانے لگااوراُس نے وہ چغد پندر ہ سو روپے میں خرید لیا اور ہنومان جی کا نام لے کر اُسے کھلی فضا میں چھوڑ کر سر جھکا کر سنجیونی بُوٹی کی تلاش میں چپکے سے گھر کی راہ لی ۔اگلے ہی لمحے گھاسو مَل کے ٹکڑوں پر پلنے والے آوارہ چھوکروں نے وہ چُغد اُچک لیا اور اسے پھر سے گھاسو مَل کے جال میں لا پھینکا۔ نخاس بازار کے چڑی ماروں کے ہاں طیور کی اسیری اوررہائی کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتاتھا۔دُور ویرانے میں کسی فاقہ کش گدا گر نے یہ صدا لگائی :
 
          بربادیٔ گلشن کی خاطربس ایک ہی اُلو کافی تھا
         ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھے ہیں انجام ِ گلستاں کیا ہو گا
         جہاں تازہ بہاریں اور عالم گیر نغمے تھے
        اُسی گُلشن میں اُلّو کا بسیر اہوتا جاتا ہے
 
       قیامِ پاکستا ن سے پہلے جھنگ شہر کے ریلوے سٹیشن پرمحنت مزدور ی کرنے والا ساڑھے سات فٹ لمبا اور جنگلی بھینسا نما سیاہ فام معمرسِکھ قُلی ’’ گُھنا گنوار ‘‘عجیب مخبوط الحواس شخص تھا ۔دوپہر کے بارہ بجتے ہی گُھنا گنوار اپنی کوتاہ عقل و فہم کو چُھٹی دیتا اور پیدل چلتا ہوا نُور شاہ بازار کے ایک گوشے میں اللہ دتہ حجام کے تھڑے کے نزدیک مُردوں سے شرط باندھ کر سو جاتا ۔ بازار کی نواحی بستی کا مکین اسّی سالہ ہند ومہاجن راجا پر کٹ اپنے نوجوان بیٹے کو یونیورسٹی میں داخل کرانے کے سلسلے میں زندگی میں پہلی بار لاہور گیا ۔ جب راجا پر کٹ اپنے بیٹے کو یونیورسٹی میں داخل کرا کے واپس آیا تو اس نے لاہور شہر کے باغات، عجائبات، آثار قدیمہ، چڑیا گھر کے جانوروں بالخصوص افریقہ سے منگوائے گئے عجیب الخلقت جانور زرافہ کی چھے فٹ لمبی گردن ،چودہ فٹ قداور 1360 کلوگرام وزن سے سب کو آگاہ کیا۔ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں نے وہاں کے لوگوں سے سنا ہے کہ جس شخص نے لاہور نہیں دیکھا،اُس کی پیدائش پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے ۔اگلی صبح گُھنا گنوار پاؤں میں کُھسہ پہنے، قیمتی لباس زیبِ تن کیے ،خالی کھوپڑی پر پگڑی باندھے اور کندھے پر دھری لاٹھی سے سامان سے بھری گٹھڑی لٹکائے نمودار ہوا۔ اجیت سنگھ چھابڑا نے جب اس قُلی کو کسی سفر پر کُلی طور پر تیار ہو کرجادہ پیما ہوتے دیکھا تو اس کنویں کے مینڈک سے طنزاًپوچھا :
 
      ’’  یہ جو اس طرح کفن بر دوش نظر آ رہے ہو،آج کہیں عدم کے کُوچ کی تیاری تو نہیں ؟ ‘‘
      ’’میں ابھی لاہور کے لیے روانہ ہو رہا ہوں ۔میں اپنی زندگی کی پچاسی خزائیں دیکھ چکا ہوں مگر آج تک لاہور نہیں دیکھ سکا ۔آج میں طوفان ٹرانسپورٹ کی بس پر سوار ہو کر لاہور جاؤں گا اور وہاں پہنچ کر دنیا کے اُس سب سے بڑے جانور کو دیکھوں گا جسے لوگ زرافہ کہتے ہیں ۔‘‘
   پاس ہی تمباکو، چُونے اور چینا سے بھرے باسی پان کی جگالی کرکے تازہ دم ہونے کی کوشش میں خجل ہوتے ہوئے بد و ملہی کا مفرور عادی دروغ گو ،مشاق نقال ،عیارچربہ ساز، بدنام سارق اور پیشہ ورکفن دُزدمتشاعرکرگس ڈھانچوی یوں ہرزا سرا ہوا :
 
      ہے آرزو اِسے زرافے کے رُو بہ رُو دیکھیں
      پِھر اِن کی شکل  وشباہت کو ہُو بہ ہُو دیکھیں
 
      حاجی محمد وریام جو زندگی کی نا ہمواریوں ،بے اعتدالیوں ،تضادات ،ارتعاشات اور کجیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور رکھتے تھے اور اِن کے نہایت فن کارانہ اظہار و ابلاغ پر کامل دسترس رکھتے تھے ،اس ابلہ کی لاف زنی سُن کر بے ساختہ  بولے:  
 
     ’’گُھنا گنوار !تم لاہور کے طویل سفر کی ناحق زحمت کیوں اُٹھاتے ہو؟راجا  پر کٹ نے دو ہفتے بعدیو نیورسٹی کے ہاسٹل میں مقیم اپنے اکلوتے بیٹے کو گندلوں کا پکا ہوا ساگ،باجرے کے پراٹھے ،مکئی کے بُھٹے ، پنجیری ،ٹِکڑے،ٹانگری اور مرنڈا پہنچانے کے لیے پھر لاہور کا قصد کیا ہے۔اسے تاکید کر دیتے ہیں کہ وہ زرافہ کے رُو بہ ُرو تمھاری ہئیت کذائی کا آنکھوں دیکھا حال بیان کردے گا ۔جب زرافے کو سب احوال معلوم ہو گا تو اُس کا سارا زعم جاتا رہے گا ، وہ کھسیانا ہو گا اور یہ بات یقینی ہے کہ زرافہ تمھیں دیکھنے کے لیے خود یہاں تمھارے در ِ عسرت پرچلاآ ئے گا ۔‘‘  
      یہ سُن کر گھنا گنوار اپنا سامنھ لے کر رہ گیا اور سب حاضرین مسکرانے لگے ۔ 
      حاجی محمد وریام ایک وسیع المطالعہ دانش ور تھے اور جدید دور میں اخبارات،جرائد،مجلات اور کتب کی برقی ثقافت ، ای کلچر(E-Culture) کو وہ قدر کی نگا ہ سے دیکھتے اوراِس سے مستفید ہوتے تھے ۔مولانا الطاف حسین حالیؔ(1837-1914) کی مِلّی شاعری بالخصوص مسدس حالیؔ انھیں بہت پسند تھی۔ مسدس حالی ؔکے متعدد بند انھیں زبانی یاد تھے ، مسدس ِ حالی کے مقبول بندجب وہ اپنے دبنگ لہجے میں اپنے احباب کو سناتے تو سب سامعین ہمہ تن گوش ہو جاتے ۔ ہر عہد میں اہلِ کمال کے ارفع مقام سے بے کمال جلتے ہیں۔ ردی سے چرائی گئی چند کتا بوں کی سر سری ورق گردانی کرنے کے بعدکرگس ڈھانچوی کے ذہن میں یہ خناس سما گیاکہ وہ ادب کا بڑا نقاد ہے ۔ایک ادبی نشست میںجب حاجی محمد وریام مسدس حالیؔ کے بند پڑھ رہے تھے تو کرگس ڈھانچوی بُر بُڑایا:
     ’’مجھے مسدس حالیؔ نہیں بل کہ مسدس بد حالی پسند ہے ۔‘‘
    کرگس ڈھانچوی کی ہرزہ سرائی دیکھ کر اُس ادبی مجلس کے میزبان پیچ و تاب کھانے لگے۔ حاجی محمد وریام نے صورتِ حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے معاملے کو سنبھالتے ہوئے کہا :
      ’’مسدسِ بد حالی‘‘ ممتاز مزاح نگار سید ضمیر جعفری (1916-1999) کی تصنیف ہے ۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ نے مذہب،حب الوطنی،مشرقی تہذیب و ثقافت اوراسلامی تاریخ کے بارے میں سنجیدگی کو شعار بنایا ہے جب کہ سید ضمیر جعفری نے اپنے اسلوب میں شگفتگی اورطنز و ظرافت کومعیار بنایا ہے ۔ دونوں کی شاعری اصلاح اور مقصدیت سے لبریز ہے ۔   
 
        ندیدہ گُھنا گنوار عجیب مسخرہ تھا کھانے پینے کے معاملے میں وہ کچھ بچا کر رکھنے کا قائل نہ تھا،وہ مفت کے طعام کو نہایت بے رحمی سے چٹ کر جاتا ۔دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر جھنگ کے گِرد و نواح میں واقع علاقوں میں غذائی اجناس کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔اس عرصے میں گُھنا گنوار کا غذائی اجناس کی چوری اورمار دھاڑ پر گزارہ تھا ۔وہ آدھی رات کے وقت دریائے چناب کے کنارے واقع کھیتوں کا رُخ کرتا اور کھیتوں سے حنظل ،خربوزے ،تربوز،ککڑیاں اور ٹماٹر جی بھر کر کھاتا۔واپسی پر اپنی بوری میں آلو ،مولیاں ،گاجریں ، شلجم ،چقندر،شکر قندی،میتھی ،سونف، اور مونگرے ٹھونس لیتا اور سارادِ ن اس مال غنیمت کی جُگالی کرتا رہتا ۔ایک مرتبہ مفت کے مال کی بسیار خوری کے باعث اس کی طبیعت بگڑ گئی ۔متلی ،اُبکائیوں اور اسہال کے باعث وہ نڈھال ہو گیا اور کسی دوا نے کام نہ کیا ۔ شہر کے ممتاز معالج جب گھنا گنوار کو نحیف ونزار دیکھتے توپریشا ن ہو جاتے اور اس نا ہنجار کی صحت یابی سے مایوس ہو جاتے۔ تجہیز و تکفین کرنے والے،غسال اور گور کن اسی انتظار میں تھے کہ گُھناگنوار کے لواحقین انھیں کب یاد کرتے ہیں۔ بازار کے سب دکان دار گُھنا گنوار کی یہ حالت دیکھ کر اس کی بڑھتی ہوئی کم زوری کو موت کی دستک زنی قرار دیتے تھے۔ گُھنا گنوار اب گھر سے باہر بھی کم کم نکلتا۔ایک دِن اچانک لوگوں نے یہ انہونی دیکھی کہ زمین کا بوجھ گُھنا گنوارجو بیماری کے باعث مُو سا ہو گیاتھا دو ماہ بعدپہلے کی طرح مسٹنڈا اور بھلا چنگا ہو گیا اور اُس مسخرے کی سادیت پسندی پھر زوروں پر تھی۔ایک دِن وہ نشے میںدھت ہنہناتا ہوا حکیم احمد بخش کے مطب میںآ دھمکا۔اس وقت حاجی محمدوریام بھی وہاں موجود تھے ۔اُسے دیکھ کر حکیم احمدبخش نے پُوچھا :
 
     ’’  گُھنا گنوار! تم نے کِس حاذق معالج سے علاج کرایا؟اب تو تم پہلے کی طرح ہشاش بشاش ہو گئے ہو ۔‘‘
     ’’میں شفاخانہ حیوانات گیا تھا ۔‘‘گُھنا گنوار بُڑ بُڑایا’’ وہاں کا ڈاکٹر جو گندرمیرا پڑوسی ہے ،اُس نے میری گردن ٹٹولی اور پُورے جسم پر خرخرہ پھیرا اس کے بعد دوا کا ایک بڑا گولا  پِیس کرمیرے حلق میں بانس کے بمبو سے اُنڈیلا ۔ دوا کے اس ایک گولے کے پیٹ میں جانے سے میری جان میں جان آ ئی ۔ پتا نہیںاپنی صحت سے مایوس مریض وہاں کیوں نہیں جاتے ؟ اس شہر کے استر، گدھے ،گھوڑے ،خچر ،اور کُتے وہاںسے صحت یاب ہو کر آتے ہیں ۔‘‘
      حاجی محمدوریام نے بے ساختہ کہا : ’’ بے شک ! شہر بھر کے استر،گدھے، گھوڑے ،خچر اور کُتے شفاخانہ حیوانات ہی کے معالج کے علاج سے صحت یاب ہوتے ہیں کسی او رطبیب کی دوا اُن پر کام نہیں کرتی۔‘‘
          دوسری عالمی جنگ کے دوران حاجی محمد وریام کچھ عرصہ برما کے شہر رنگون میں بھی رہے ۔اس شہر میں وہ بہادر شاہ ظفر (B: 24 October 1775,D: 7 November 1862,) کے مزار پر بھی گئے۔حاجی محمد وریام اور ان کے ساتھی اس بات پر اکثر پریشان ہو جاتے کہ اس عالم نا پائیدار میں طوفانِ حوادث اور سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو نیست و نابود کر دیتے ہیں۔ بر صغیر پر ظالم و سفاک بر طانوی استعمار کے غاصبانہ قبضے کے بعد ہندوستان کے آخری مغل بادشا ہ بہادر شاہ ظفرؔکی جلاوطنی کے عالم میں موت کو وہ ایک المیہ سے تعبیر کرتے تھے ۔انھوں نے بہادر شاہ ظفرؔ کی لحد پر یہ شعر پڑھے تو سب ساتھیوں کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر سنے لگیں :
 
       دِن زندگی کے ختم ہوئے اور شام ہو گئی 
       پھیلاکے پاؤں سو گئے کنجِ مزار میں 
     کتنا ہے بد نصیب ظفر ؔ دفن کے لیے 
      دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
 
        بر صغیر میں بر طانوی استعمار کے خاتمے اور تقسیم ہند سے پہلے حاجی محمد وریام بر طانوی فوج میں ملازمت کے سلسلے میں کچھ عرصہ کلکتہ میںبھی رہے ۔اس دوران حاجی محمد وریام کو مغربی بنگال کے قصبے مرشد آباد جانے کا اتفاق ہوا تو ان کے ساتھیوں کو تجسس ہو ا کہ بنگال کے نواب سراج الدولہ(1733-1757) کے مزار پر حاضری دی جائے ۔ وہ چاہتے تھے کہ بنگال کے اِس نواب کے نمک حرام مشیر میر جعفر (1691-1765) اور اس کے کینہ پرور بیٹے میرن کے محلات اور ان ننگ ِ ملت غداروں کی قبورکی کا حال زبوں دیکھا جائے۔ حاجی محمدوریام نے بتایا کہ نواب سراج الدولہ کا مقبرہ تو خوش باغ مر شد آباد میں اچھی حالت میں ہے اور مناسب دیکھ بھال کی وجہ سے شکست و ریخت سے محفوظ ہے ۔ مرشد آباد کے لال باغ کے علاقہ میں واقع میر جعفر کے محل ’’نمک حرام ڈیوڑھی ‘‘  کو علاقے کے سب مکین نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،یہ عمارت اب کھنڈرات میں بدل چکی ہے جس میں بڑے بڑے چغد ،شپر ،کرگس اور زاغ و زغن پائے جاتے ہیں ۔ نمک حرام ڈیوڑھی کے فرش پران منحوس طیور کے ضماد کا کھڑنجا سا بن گیا ہے ۔ اس عبرت سرائے دہر میں ان ننگ انسانیت درندوں کی قبریں خستگی اور شکستگی کا لرزہ خیز نمونہ بن چکی ہیں اور ان غداروں کی قبروں کا نشان بھی مٹ چکا ہے  ۔ وہ اس بات پر اپنے دلی رنج و تشویش کا اظہار کرتے تھے کہ ہماری قومی تاریخ کا یہ المیہ بھی سب کو معلوم ہے کہ آزادی کے بعد نیرنگی ٔ سیاستِ دوراںکے نتیجے میں میر جعفر کاپڑپوتا سکندر مرز ا
(1899-1969)جو جد و جہد آزادی میں شریک سفر ہی نہ تھا،وہ  پاکستان کے ایوان صدر میں
(23 March 1956 – 27 October 1958) اقتدار کے مزے لُوٹتا رہا ۔
 
               فوجی ملازمت کے عر صے میں حاجی محمد وریام کو اپنے جن ممتاز فوجی رفقاکا تعاون حاصل رہا ۔ ان میں عبدالواحد، رانا سلطان محمود ، سید جعفر طاہر ، اسماعیل صدیقی،حاجی محمد یوسف، سید ضمیر جعفری ،  چراغ حسن حسرت،کرنل محمد خان ،حفیظ جالندھری اورفیض احمد فیض شامل ہیں ۔ جرمنی اور اس کے اتحادی ممالک کے خلاف اس جنگ میں حاجی محمد وریام اور راناسلطان محمود کو مصر ،شام،لبنان ،عراق ، ایران ،فلسطین اور برما کے محاذوں پر اگلے مورچوں پر تعینات کیا گیا ۔دوسری عالمی جنگ میں جہاں اقوام عالم کے لیے تاریخی جدل کی مظہر تھی وہاں رانا سلطان محمود اور حاجی محمد وریام کے لیے عبادت اور سیاحت کا روح پرور وسیلہ بن گئی۔ اس جنگ میں انھیں متعدد تاریخی مقامات دیکھنے کا موقع ملا ان میں اسکندریہ ،اہرا م مصر، دریائے نِیل، شرم الشیخ ،دریائے دجلہ ،  رملہ،دریائے فرات،کر بلا ،کوفہ، موصل ،بصرہ ، سرجیلا ،نجف، بیت المقدس ، مشہد،دمشق اور قرطبہ شامل ہیں ۔اس جنگ میں انھیں جب بھی چھٹی ملی انھوں نے سر زمین حجاز کا رخ کیا ۔وہاں حرمِ پاک اور گنبد خضریٰ کے سائے میں بیٹھ کر فغانِ صبح گاہی اور اللہ ہو کے وِرد میں امان حاصل کرنا سدا ان کا مطمح نظر رہا ۔یہی وہ زمانہ تھا جب خانۂ لا شعور کو منور کرنے والی ارض و سما کی مالک عظیم ہستی نے ان کا دامن روحانیت ،معرفت،حکمت،فقر ،قلندری اور درویشی کے انمول جواہرسے بھر دیا ۔حج بیت اللہ ،عمرہ اور مقامات مقدسہ کی زیارات کے فیض سے ان کے قلب و نظر میں ایسا روحانی اور وجدانی انقلاب رونما ہوا جس نے ان کی زندگی کی کایا پلٹ دی اور وہ فقر و استغنا اور تسلیم و رضا کا پیکر بن گئے ۔مقدس مقامات پر حاضری اور عبادت و ریاضت کو اپنی زندگی کا حاصل قرار دیتے تھے ۔
 
    فوجی ملازمت کے دوران حاجی محمد وریام متعدد مشاہیر ِ ادب سے مختلف شہروں میں منعقد ہونے والی ادبی نشستوں میں کئی بار مِل چکے تھے ۔ وطن عزیز کے ان ممتاز ادیبوں سے انھوں نے زندگی بھر معتبر ربط بر قرار رکھا ۔ وہ جانتے تھے کہ سلسلہ ٔ روز و شب میں پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ادیبوں پر عملی زندگی میں کئی سخت مقام آتے ہیں۔ نامورادیبوں کی زندگی با لعموم صبر و تحمل اور استغنا کی مثال سمجھی جاتی ہے ۔حاجی محمد وریام بھی اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے حامی تھے ۔انھوں نے کبھی در کسریٰ پہ صدا نہ کی اور اپنی دُھن میں مگن رہتے ہوئے اپنی انا اور خود داری کا بھرم قائم رکھا ۔وہ جانتے تھے کہ چٹانیں اور کھنڈر کسی کا دُکھ درد کیسے سمجھ سکتے ہیں؟۔ اُنھوںنے بتایا کہ سید جعفر طاہراگر چہ کثیر العیال تھے مگر چادر دیکھ کر پائوں پھیلانا ان کا شیوہ تھا۔ حاجی محمد وریام نے سید جعفر طاہر کی زندگی کاایک دلچسپ واقعہ سنایا جو بعد میں لاہور کے ایک ادبی مجلے میں بھی شائع ہوا وہ واقعہ مِن و عن پیش خدمت ہے :
 
                     ’’ کفایت شعاری کے باوجود تنخواہ ان کے بچوں کی پوری طرح کفیل نہ تھی۔ایک دفعہ ان پر پیغمبری کا وقت آپڑا۔کسی محکمانہ کارروائی کی وجہ سے تنخواہ کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی ۔سید جعفر طاہر نے اپنے بچوں کی فوج ظفر موج کو لیا اور ایک قطار میں لفٹ رائٹ،لفٹ رائٹ کرتا ہوا اپنے افسر کے بنگلے پر پہنچ گیا۔افسر نے بچوںکی ایک لمبی قطار کو اپنے بنگلے کی طرف آتے دیکھا تو حیرت زدہ ہو کر باہر نکل آیا۔تمام حالات معلوم کیے اور سید جعفر طاہر کی تنخواہ کی فوری ادائیگی کے احکامات صادر کر دئیے۔سید جعفر طاہر نے اپنے بچوں سمیت سلیوٹ کیا اور گھر واپس آگیا۔‘‘                                                         
(سہ ماہی مونتاج ،لاہور،جولائی ستمبر 2010,,صفحہ 232)
           امیر اختر بھٹی نے بتایا کہ حاجی محمد وریا م ، حاجی محمد یوسف، رانا سلطان محمود اورسید جعفر طاہر مضبوط اور مستحکم شخصیت کے مالک تھے ۔ان کی شگفتہ مزاجی اور گل افشانیٔ گفتار کا ایک عالم معترف تھا ۔ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے آنسو چھپانے کا سلیقہ وہ خوب جانتے تھے ۔مشیتِ ایزدی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا اورہر حال میں راضی بہ رضا رہنا حاجی محمد وریام کا مسلک رہا،انتہائی کٹھن حالات میں بھی وہ کبھی حرف شکایت لب پر نہ لائے ۔البتہ جبر اور ظلم کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے نزدیک بہ جائے خود ایک ظلم کے مترادف تھا۔ظالم کہیں بھی ہو اور کسی کی صف میں ہو اس کی شقاوت آمیز نا انصافی اور سفاکی کے مظہر قبیح کردار کو ہدف تنقید بنانا اور اس پر تین حرف بھیجنا ہمیشہ ان کا نصب العین رہا۔سید جعفر طاہر کی شاعری میں علامتوں کا جو وسیع سلسلہ موجود ہے وہ رانا سلطان محمود،حاجی محمدیوسف اورحاجی محمد وریام کو بہت پسند تھا ۔ان کا خیال تھا کہ ان تمام علامات کو در اصل گہری معنویت سے لبریز ایک ایسے نفسیاتی کُل کی حیثیت حاصل ہے جس کے معجز نما اثر سے لا شعور کی خوابیدہ صلاحیتیں متشکل ہو کر فکر و نظر کو مہمیز کرتی ہیں ۔حاجی محمد وریام کا خیال تھا کہ سید جعفر طاہر کے درج ذیل اشعار میں ’’ پتھر‘‘ کی علامت فکر و خیال کو مہمیز کرکے ذہن و ذکاوت کے لیے تخلیقی فعا لیت کے پسِ پردہ کارفرما عوامل کی تفہیم کے نئے در وا کرتی ہے: 
 
              سب سے پہلے ہی مرے بھائی نے پھینکا مجھ پر          
              پہلاپتھر ہی مجھے ہو گیا کاری پتھر 
میں نے جو تیرے تصور میں تراشے تھے کبھی      
             لے گئے وہ بھی میرے گھر سے پجاری پتھر
سینہ ٔسنگ سے دریا نہیں بہتے دیکھے            
              کون کہتا ہے کہ ہیں درد سے عاری پتھر
ناز ہر بُت کے اٹھا پائے نہ  جعفر طاہر               
             چُوم کر رکھ دیئے ہم نے یہ بھاری پتھر 
 
       چراغ حسن حسرتؔ(1904-1955) کے ساتھ دہلی میں صالح محمد،عبدا لصمد ، حاجی محمد وریام ،رانا سلطان محمود،شوکت خان،کرم دین، اور حاجی محمد یوسف نے ملاقات کی ۔جنگ عظیم دوم کے دوران چراغ حسن حسرتؔ برطانوی فوج میں میجر تھے ۔چراغ حسن حسرتؔ کی قلب اور روح کی اتھا ہ گہرائیوں میںا ُتر جانے والی شاعری اُس زمانے میں عوام میں بہت مقبول تھی ۔رانا سلطان محمود کی بیاض میں اس ملاقات کی یادیں اور چراغ حسن حسرتؔ کی شاعری کے کچھ نمونے محفوظ ہیں ۔ جنگ کے شعلوں میں اپنی جنم بُھومی سے دُوری اور غریب الوطنی کے عالم میں فوج کے یہ ملازم مسافر سایہ طلب پھرتے تھے اور جہاں گھنی چھاؤں دیکھتے ہیں وہیں دَم لینے  کے لیے پَل بھر کے لیے بیٹھ جاتے تھے۔ اس قدیم  بیاض کے ایک ورق پر چراغ حسن حسرتؔ کے یہ اُردو ماہیے لکھے تھے جو حاجی محمد وریام اور ان کے اکثر فوجی ساتھیوں کو بہت پسند تھے اور جب کبھی اِن پردیسی نوجوانوں کی طبیعت اُداس ہوتی تو اپنے دیس اور وہاں کے موسموں کی یاد تازہ کرنے کی خاطر یہ ماہیے گنگنا بھی لیتے تھے ۔ یہ ماہیے موسیقی کے پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے ،بڑے غلام علی خان (1902-1968)کے چھوٹے بھائی اور اپنے عہد کے مقبول گلو کار برکت علی خان(1908-1963) نے گائے تھے ۔
 
      باغوں میں پڑے جُھولے 
      تُم بُھول گئے ہم کو 
      ہم تم کو نہیں بُھولے 
       یہ رقص ستاروں کا 
        سُن لو کبھی افسانہ 
      تقدیر کے ماروں کا 
     ساون کا مہینا ہے 
      ساجن سے جُدا رہ کر 
      جینا کوئی جینا ہے 
      راوی کا کنارہ ہو 
      ہر موج کے ہونٹوں پر
      افسانہ ہمارا ہو
      اب اور نہ تڑپاؤ 
      یا ہم کو بُلا بھیجو
      یا آپ چلے آؤ 
 
        ہر انسان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ عر صۂ ظلمتِ حیات میں زنجیرِحادثات کو کا ٹنے کی کوئی ممکنہ صورت تلاش کی جائے ۔ ہمارے معاشرے میں شرح خواندگی میں کمی کے باعث توہم پر ستی عام ہے۔ جعلی عامل ، شعبدہ باز ، جنتر منتر کر نے والے ، نجو می ، جو تشی ، رمال ، سنیاسی ، ماندری ، عطائی،ٹھگ ،لُچے ،شہدے ،تلنگے ،اُٹھائی گیرے،بھڑوے اور خسیس کفن دُزد ننگ انسانیت درندے بڑ ی عیاری سے سادہ لوح عوام کو لُوٹ لیتے ہیں ۔ اس قماش کے مسخروں نے بے بس و لا چار انسانوں کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ، کلیاں شرر ، زندگیاں پُر خطر ، آہیں بے اثر ، نگاہیں بے بصر ، بستیاں خوں میں تر ،منزلیں در بہ در اور چاہتیں زیر و زبر کر دی ہیں ۔ حاجی محمد وریام نے سادہ لوح عوام کو ان سفہا اور اجلاف و ارذال سے نجات دلانے کی مقدور بھر کوشش کی۔وہ قرآن حکیم کی آیات پڑھ کر دم کرتے تو اللہ کریم کی عطااور حضور ختم المرسلینﷺ کی رحمت سے پریشان حال لوگوں کے مسائل حل ہوجاتے ۔ اس دعا، دم اور درود کا انھوں نے کوئی نذرانہ کبھی قبول نہ کیا۔
 
      احترام ِ انسانیت حاجی محمد وریام کا امتیازی وصف  تھا ،یہاں تک کہ وہ کسی رِند ِ تباہ حال کو بھی حقیر نہ سمجھتے اور اس کی باتیں توجہ سے سنتے اوراُس کے حالِ زبوں میں بہتری لانے کی مقدور بھر کوشش کرتے تھے۔وہ اس بات پر اکثر زور دیتے کہ انسان کو ہر حال میں صبر وتحمل سے کام لیتے ہوئے عجز و انکسار کی زندگی بسر کرنی چاہیے ۔ زر و مال کی شدید ہوس کے مارے انسانوں کے دماغ میںاحساسِ تفاخر کاجو خناس سما جاتا ہے وہ اِن ابلیس نژاد فراعنہ کو انسانیت کے درجے سے گرا دیتا ہے ۔ان کا خیال تھا کہ زرو مال اور رشتہ و پیوند کی بے تحاشا ہوس سرابوںکے عذاب اور وہم و گماں کے حباب جیسی ہے۔حرص و ہوس ایسا ذہنی افلاس ہے جس کا مداوا اِنسان کے دمِ آخریں تک ممکن ہی نہیں۔ حسن و رومان کے حسرت ناک قصوں اورلوک داستانوں کے محقق پر وفیسر اقتدار واجد نے جھنگ کے خانماںبرباد عاشق گھسیٹا بیابانی کی الم ناک داستان ِ محبت کے بارے میں ایک واقعہ بیان کیاجس کی حاجی محمد وریام  اور اُن کے معاصرین نے بھی تصدیق کی ۔
 
     آزادی سے قبل ایک انتہائی مضمحل و درماندہ ضعیف بھکاری شہر کے مرکزی بازار میں خاک بہ سر اور در بہ در پھرتا دیکھا جاتا تھا ۔اس تباہ حال بھکاری کے بارے میں مشہور تھا کہ پچاس سال قبل یہ تعلیم یافتہ مسلمان جوان رعنا ایک حسین و جمیل نوجوان عیسائی راہبہ کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہوگیا ۔اس نو جوان نے عشق و محبت کے دشتِ خار میںدیوانہ وار قدم بڑھایا اور بُھوری لمبی زُلفوں ،گوری رنگت ،نیلی آ نکھوں اور کالی زبان والی ایک عیسائی راہبہ کیتھرین سے پیمانِ وفا باندھ لیا ۔اس راہبہ نے اپنے ترکش کے تمام تیر چلا ئے اور نوجوان عاشق کو سبز باغ دکھا کر اس طرح گھائل کیا کہ اس نے اپنے گھر کا تما م اندوختہ کیتھرین کے قدموں میں ڈھیر کر دیا ۔ جب نوجوان عاشق مفلس و قلاش ہو گیا اورفاقہ کشی تک نوبت آ پہنچی تو کیتھرین کے باپ جوزف کو یقین ہو گیا کہ اب ان تلوں سے مزید تیل نہیں نکل سکتا تو اس نے دام سمیت چپکے سے کالا باغ کا رخ کیا اور پھر اپنوں کو چھوڑ کر علاقہ غیر میں نئے شکار کی تلاش میں محفوظ مچان پر مورچہ بند ہو گیا۔ بے وفائی ،پیمان شکنی اورہجر و فراق کی بھٹی میں جلتے جلتے نوجوان عاشق کادِل کباب ہو گیا اور وہ ذہنی توازن کھو بیٹھا۔اب یہ ناکا م و نامراد عاشق شہر کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں آوارہ گھومتا اور کتے گھسیٹتا پھرتا تھا اور سنگ ملامت سہنے پر مجبور تھا ۔اس اذیت و عقوبت سے تنگ آ کر اس نے شہر سے دُور ایک جنگل بیابان میں پناہ لی او ر قیس کا سجادہ نشین بن بیٹھا۔اِس تغیر ِ حال کے بعد گھسیٹا بیابانی کے نام سے اس کی ایک مانوس اور مستقل پہچان بن گئی۔ کچھ عرصہ بعد ایک گڈریے کی زبانی شہر کے مکینوں کو معلوم ہوا کہ گھسیٹا بیابانی کا دم ِ آخریں بر سر راہ ہے اور وہ دریا ئے چناب کے مشرقی کنارے پر پڑا سسک رہا ہے ۔حکیم احمد بخش نذیر انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت راہ سے بھٹکے ہوئے اُس نیم جاں نوجوان کو اپنے مطب میں لے آیا اور اس کا علاج شروع کر دیا ۔ایک ماہ میں وہ منشیات سے تائب ہو گیا اور عملی زندگی میں لوٹ آیا ۔ الم نصیب گھسیٹا بیابانی کی بحالی کے کاموں میںحاجی محمد وریام،غلام علی خان چین،عبدا لغنی ظروف ساز اور حاجی محمد یوسف کی مشاورت بھی شامل تھی ۔ایک شام جب حاجی محمد وریام اپنے دیرینہ ساتھی حکیم احمد بخش نذیر کے مطب میں بیٹھے حالات حاضرہ پر تبصر ہ کر رہے تھے تو وہاں موجود ایک واقفِ حال شخص نے گھسیٹا بیابانی سے اس کے ماضی کے بارے میں دریافت کیا ۔گھسیٹا بیابانی  نے سُوئے افلاک اِشارہ کر کے جوشؔ ملیح آبادی(شبیر حسن خان (1898-1982)کا یہ شعر پڑھ کر سب کو حیران کر دیا:
 
      مِلاجوموقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا  
     پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گاعتاب تیرا
 
       یہ سننا تھا کہ وہاں موجو دسب لوگوں کی آ نکھیں پُر نم تھیں ۔ حاجی محمد وریام نے بتایا کہ وجو داور عدم میںمعافی اور تلافی بھی لین دَین کی ایک شکل ہے ،فطرت میں یہ دیکھا گیا ہے کہ گُلِ نو دمیدہ کو پیروں تلے کچلنے والوں کے حق میں بھی کلیاں بد دعا نہیں کرتیں۔  حاجی محمد وریام کی آنکھوں سے آ نسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور انھوں نے گلو گیر لہجے میںعلامہ اقبال ؒ کا یہ شعر پڑھا :
 
      کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے 
       نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے 
 
         ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے پیش آ نا حاجی محمد وریام کا شیوہ تھا ۔خلوص ،مروّت ،ایثار ،انسانی ہمدردی اورانسانیت نوازی ان کے مزاج کا اہم وصف تھا۔اُن کا حلقہ ٔ احباب بہت وسیع تھا ۔ملک کے طُول و عرض میں مقیم اپنے احباب کی خوشیوں یا غم کے موقع وہ بلا تاخیر وہاں پہنچتے اور اُن کے حا ل و احوال سے آ گاہ ہوکر اُنھیں یگانگت و اپنائیت کا احساس دلاتے اور انھیں مطمئن دیکھ کر سکون محسوس کرتے تھے ۔ اُن کے نزدیک انسانیت نوازی کاارفع معیار یہ تھا کہ جبر و استبداد کے خلاف بھر پور مزاحمت کی جائے اور مرگ آفریں اِستحصالی قوتوں کے مذموم ہتھکنڈوں اور بے رحمانہ انتقامی کارروائیوںکو ناکام بنانے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔ بے بس و لاچار مظلوم اور دُکھی انسانیت کی غیر مشروط حمایت اورہر ظالم سے شدید نفرت ان کے روّیے میں نمایاں تھی اور وہ چاہتے تھے کہ معاشرتی زندگی سے ان تمام شقاوت آمیز ناانصافیوں کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکا جائے جن کے باعث تاریخ ِ انسانی کا سارا منظر نامہ ہی گہنا جاتاہے ۔تاریخ اور اس کے پیہم رواں عمل پر اُن کا پختہ یقین تھا لیکن اس بات پر وہ ملول اور آزردہ رہتے تھے کہ تاریخ کے اس پیہم رواں عمل کو فاتح ،غالب،غاصب اور جارحیت کے مرتکب استحصالی عناصر نے اپنے مکر کی چالوں سے من مانے انداز میں مسخ کر کے اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے اور تاریخ کے متعدد واقعات محض پشتارۂ اغلاط بن کر رہ گئے ہیں۔اپنے  تجربات ،مشاہدات اورذوقِ سلیم کو رو بہ عمل لاتے ہوئے انھوں نے نئی نسل کی ذہنی بیداری کااس طرح اہتمام کیا کہ وہ اپنے حقو ق کے حصول کے لیے جہد و عمل پر مائل ہونے میں کوئی تامل نہ کرے ۔اپنے پند و نصائح سے انھوں نے واضح کر دیا کہ وطن عزیز کی کشتِ نو کے دلوں کی بیداری اور فکر و نظر کو مہمیز کرنا وقت کا اہم ترین تقاضاہے ۔ سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر دیکھنے کی تمنا کرنے والے اس رجائیت پسند درویش نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا کہ یاس و ہراس کا شکار ہونے والے دراصل شکست خوردہ ذہنیت کے مالک ہیں۔عملی زندگی میں سعیٔ پیہم ، عزم صمیم اور امید کا دامن تھام کر نا ممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے، وہم و گمان کو صداقت میں بدلا جاسکتا ہے اور خواب کو حقیقت کا رُوپ دیا جاسکتا ہے ۔ کاروانِ ہستی کے تیز گام رہرو اپنی راہ میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کو ضربِ کلیمی سے دُور کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ یگانۂ روزگار فضلا کی زندگی کے مطالعہ سے اس حقیقت کا اِدراک ہوتا ہے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑے اس عالمِ آب گِل کی ہر چیز کو تہس نہس کر دیتے ہیں مگر اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ریگِ ساحل پرنوشتہ وقت کی کچھ تحریریںلوحِ جہاں پر انمٹ نقوش چھوڑ کر کے اپنا دوام ثبت کر دیتی ہیں۔ایسے انسان نایاب ہوتے ہیں اور مُلکوں مُلکوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ اِن یادگارِ زمانہ لوگوں کی انسانیت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت انھیں اہلِ عالم کی نظروں میں معزز و مفتخر کر دیتی ہے ۔ حاجی محمد وریام اُن مقربِ بارگاہ ہستیوں میں شامل تھے جِن کی دُکھی انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت کی مثال دی جاتی ہے ۔وہ ایک جری، دردمند اور درد آشنا درویش تھے جن کی قوتِ ارادی اور انسانیت نوازی اُنھیں بے خوف و خطرنارِ نمرودمیں جست لگانے کا حوصلہ عطا کرتی ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مرگِ نا گہانی کے اندیشوں ،وسوسوں اور خوف کے سوتے زندگی کی ڈر سے پھوٹتے ہیں لیکن بھر پور زندگی بسر کرنے والے الوالعز م انسان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مو ت پر ی کے منگیتر ہیں اور اَجل کو چُوڑیاں پہنانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ زینہ  ٔ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کر اں وادیوں کی جانب کسی کا سدھار جانا اتنا بڑا سانحہ نہیں بل کہ سب سے بڑا لرزہ خیز المیہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں جس وقت درخشاں اقدار و روایات نے دم توڑ ا تویہ سانحہ دیکھنے کے بعد ہم کیسے زندہ بچ گئے۔ حاجی محمد وریام نے زندگی کی حیات آفریں اقدار و روایات کے تحفظ کو اپنا نصب العین بنا رکھا تھا ۔ موت ایسے لوگوں کی زندگی کی شمع گُل نہیں کرسکتی بل کہ ان کے لیے تو موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے جس کے بعد ان کے افکار اور تعلیمات کی تابانیوں کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہوتا ہے جو جریدۂ عالم پر ان کی بقائے دوام کو یقینی بنا دیتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس طرح خورشیدِ جہاں تاب کی کِرنوں کے پرتو سے شبنم کے قطرے ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں مگر اگلی صبح لالہ و گُل اور نرگس و بنفشہ کی پنکھڑیوں پرشبنم کے نئے قطرے پِھر سے موجود ہوتے ہیں ۔ اسی طرح طلوع صبح کے وقت شب بھر فروزاں رہنے والی شمع نہایت سرعت سے گُل کر دی جاتی ہے اور دن بھر کے سفر کے بعد شام ہو تے ہی وہی شمع پھر فر وزاں کر دی جاتی ہے ۔ اُسی طرح حاجی محمد وریام کے خیالات کی شمع ہمیشہ فروزاں رہے گی اور اُن کی باغ و بہار شخصیت کی عنبر فشانی سے قریۂ جاں سدا معطر رہے گا ۔ان کے افکار کی باز گشت لمحات کے بجائے صدیوں پر محیط ہو گی۔    
 
       اپنی عملی زندگی میں حاجی محمد وریام نے مذہب، وطن ،اہل وطن اور دُکھی انسانیت کے ساتھ جو عہدِ وفا ستوار کیا اُسی کو گردشِ لیل و نہار کا علاج قرار دیتے ہوئے اُسے سدا زاد ِراہ بنایا ۔ان کے خاندان نے تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا اور 23مارچ 1940کو لاہور کے منٹو پارک میں قائد اعظمؒ کی صدارت میں منعقد ہونے والے ا س جلسے میں سیکڑوں ساتھیوں کے ساتھ شرکت کی جس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔جھنگ میں دریائے چناب میں آنے والے قیامت خیز سیلابوں نے سال 1950اور سال 1973 نے بہت تباہی مچائی ۔ مصیبت کی اس گھڑی میں سیلاب زدگان کے لیے امدادی کاموں میں حاجی محمد وریام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔سیلاب نے ایک آفت نا گہانی کی صورت اختیار کر لی تھی۔حاجی محمد وریام نے کئی مصیبت زدہ خاندانوں کو اپنے اور اپنے قریبی عزیزوں کے ہاں ٹھہرایا اور ان کے طعام کا معقول بند وبست بھی کیا ۔ تقسیم ِہند کے وقت مہاجرین جس بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان پہنچے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔قیام ِپاکستان کے بعدجھنگ شہر میں قیام پذیر ہونے والے ضرورت مند مہاجرین کی بحالی کے کاموں میں حاجی محمد وریام اور ان کے ساتھیوں نے اَنصارِ مدینہ کی مثال پیش ِنظر ر کھتے ہوئے مہاجرین کی ہر ممکن مدد کی۔ جھنگ شہر میں معذوروں ،بیماروں ،یتیموں ،بیواؤں اور ضعیفوں کی فلاح کے لیے نجی شعبے میں جو کام کیا گیا حاجی محمد وریام نے اس کے لیے ہمیشہ دستِ تعاون دراز کیا ۔مفلس و قلاش خاندانوں سے تعلق رکھنے والی نوجوان یتیم بچیوں کے جہیز کی تیاری میں حاجی محمد وریام اور ان کے معتمد ساتھیوں نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کی بنا پر تاریخ ہر دور میںان کے نام کی تعظیم کرے گی۔ تعلیمِ نسواں کے شعبے میں ان کی کاوشوںسے اس علاقے میں جو بیداری دیکھنے میں آ ئی اس سے پہلے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ جھنگ کے علمی و ادبی حلقوں سے ان کے قریبی مراسم تھے۔ امیر اختر بھٹی کی نعتیہ شاعری کے وہ گرویدہ تھے ،جب امیر اختر بھٹی کی نعتیہ شاعری کا مجموعہ ’’توشۂ آخرت‘‘ شائع ہوا تو حاجی محمد وریام نے بہت خوشی کااظہار کیا اور شاعر کو ہدیۂ تبریک پیش کیا ۔ امیر اختر بھٹی نے مقامی ادیبوں کے اعزاز میں مجید امجد پارک کے سبزہ زار میں ایک دعوت شیرازکا اہتمام کیا۔ اس یادگار ادبی نشست میں اس منکسر المزاج نعت گو شاعر اور سچے عاشقِ رسول ﷺ کی روح پرور نعتیہ شاعری پر اسے زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا اس محفل میں غفار بابر ، اسحاق ساقی ، رانا عزیزاحمد،حاجی محمد یوسف ،حاجی محمد وریام ، ارشاد گرامی ،فیروز شاہ ،شفیع ہمدم ،شفیع بلوچ،اقبال زخمی ،گدا حسین افضل ،حاجی حافظ محمد حیات،معین تابش،رانا ارشد علی ،فتح شیر،غلام فرید،اطہر ناسک اور نثار احمد قریشی نے شرکت کی ۔ اس موقع پرجھنگ شہر کے ممتاز شا عررام ریاض
(ریاض احمد شگفتہ:1933-1990) نے اپنی یہ نعت پڑھی تو سب سامعین پر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی۔
            جو بھی شیریں سخنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ
         تیرے ہونٹوں کی چھنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ 
            نسل در نسل تیری ذات کے مقروض ہیں ہم 
          تو غنی ابن ِ غنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ
 
           قدرت اللہ شہاب (پیدائش :26فروری 1917وفات :24۔جولائی 1986)کو جب جھنگ میں ڈپٹی کمشنرکی حیثیت سے تعینات کیا گیا توڈپٹی کمشنر آفس جھنگ میں ملازم اللہ دتہ سٹینو نے نئے ڈپٹی کمشنر قدرت اللہ شہاب کے ساتھ بھر پور تعاون کیا ۔ اللہ دتہ سٹینو اُس وقت ڈپٹی کمشنر کے پی ۔اے کی حیثیت سے خدمات پر مامور تھا ۔غلام علی خان چین،ملک محمد عمر حیات اور حاجی محمد وریام کے ساتھ اس کے قریبی مراسم تھے ۔ قدرت اللہ شہاب نے اس حوالے سے زندگی بھر ان بزرگوں سے معتبر ربط کا سلسلہ بر قرار رکھا ۔اُنھی دنوں میں قدرت اللہ شہاب کو معلوم ہوا کہ لاہور میں مقیم اُردو زبان کے ممتاز حقیقت نگار افسانہ نگار سعادت حسن منٹو (پیدائش :11۔مئی 1912وفات :18۔جنوری 1955)لاہور میںشدید علالت اور جگر کی خرابی کے باعث پریشانی کے عالم میں ہے ۔ بیگم منٹو ،ممتاز مفتی (پیدائش :11۔ستمبر 1905وفات :27۔اکتوبر 1995) ،اللہ دتہ سٹینو ،حاجی محمد وریام ،ملک محمد عمر حیات اور حکیم احمد بخش نذیر (چونی والا حکیم )کے مشورے سے سعادت حسن منٹو کو بہلا پُھسلا کر قدرت اللہ شہاب جھنگ لے آئے ۔اللہ دتہ سٹینو جو قدرت اللہ شہاب کے ذاتی معاون کی حیثیت سے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں اہم خدمات پر مامور تھا ،اسے تا کید کر دی گئی کہ سعادت حسن منٹو کو اپنے ساتھ لے جائے اور اُس مہمان افسانہ نگارکے علاج اور آرام و سکون پر خاص توجہ دی جائے جس کی مے نوشی نے اس کی ساری زندگی کو غم کے فسانے میں بدل دیا ہے ۔  اُردوافسانے کے با کمال تخلیق کار سعادت حسن منٹو نے جھنگ شہر میں اللہ دتہ سٹینو کی رہائش گاہ پر ان بزرگوں کے ساتھ یاد گار وقت گزارا ۔ حکیم نذر محمد انصاری ، حکیم شیر محمد ، حکیم محمد صدیق ،ڈاکٹر محمد کبیر خان ، حکیم احمد بخش نذیر اور حکیم یار محمد نے منٹو کی طبیعت دیکھی تو مشورہ دیا کہ مریض کو روزانہ باغ میں یا کھلی فضا کے سر سبز و شادب کھیتوں میں صبح کی سیر پر مائل کیا جائے ،تازہ پھل اور سبزیاں کھلائی جائیں ،ستُو ( بُھنے ہوئے جو کے آٹے اور شکر کا شربت )پلایا جائے اور ہر قسم کی نشہ آور چیزوں اورنشہ آور مشروبات سے مکمل پر ہیز کیا جائے تا کہ مجرب ادویات اپنا اثر دکھا سکیں ۔سعادت حسن منٹوعلی الصبح حاجی محمد وریام ،حاجی محمد یوسف ،مظفر علی اور سلطان محمود راناکے ہمراہ جھنگ شہر کو دریائے چناب کی طغیانی سے بچانے کے لیے تعمیر کیے گئے حفاظتی بند پر صبح کی سیر کو نکلتا۔ وہ ہر ی بھری فصلوں ، کُھلے میدانوں، ہر ی ہر ی گھاس والی چراگاہوں،پالتو جانوروں کے باڑوں،دیہاتیوں کے کچے گھروندوں اور حسن فطرت کو دیکھ کر بہت سکون محسوس کرتا ۔ شہر کے نواح میں واقع گھوگھے والا کنویںکے حوض میں کسی خشت پر خوشی سے بیٹھ جاتا، کنویں کے بہتے ہوئے تازہ پانی میں سے لوٹے بھر بھر کراپنے جسم پر اُنڈیلتا اور دو ہنٹر مارکہ صابن اپنے بدن پر مَل مَل کر خُوب نہاتا۔ ماسٹر غلام علی خان چین اپنے مہمان ادیب کے لیے دریائے چناب کے کنارے واقع گاؤں اور اپنے مقام تعیناتی بُڈھی ٹھٹھی سے بھینس کا خالص دُودھ ،کنگ ا ور دیسی گھی لاتا ،چودھری دل میرخان اورکرم دین کے کھیتوں سے تازہ سبزیاں آ جاتیں، نو ر شاہ بازار سے تازہ پھلوں کی فراہمی حاجی محمد وریام کے ذمے تھی۔ ایک مقامی ماہی گیرٹُلاموہانہ کُنڈی لگا کر دریائے چناب سے تازہ دریائی مچھلی پکڑ کر لاتا ،رُلدو چڑی مار فاختہ اوربٹیرے پکڑ کر لاتا ا ور بکرے کا گوشت منظور قصاب سے خریدا جاتا ۔ اوجھڑی مطبخ میں بھاڑ جھو نکنے والا ناکام ونامراد پیٹوخانساماں سوہارا  شُوم بھی کھانا پکانے میں اپنی فرضی مہارت کے بارے میں اپنی مرضی سے ڈینگیں مارنے کے لیے بِن بلائے وہاں آ دھمکتا۔ لذیذ کھانا پکانے کے بارے میں اس مفت خور لیموں نچوڑ احمق خانساماں کی بے سر و پا تراکیب سُن کر محفل کشتِ زعفران بن جاتی ۔ مقامی ادیبوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی چل نکلا اور سب احباب نے سعادت حسن منٹو سے ٹُوٹ کر محبت کی ۔ حاجی محمد وریام، حاجی محمد یوسف ، امیر اختر بھٹی ، سید مظفر علی ظفر ،خادم مگھیانوی ،کبیر انور جعفری ،رام ریاض ،دیوان احمد الیاس نصیب ،محمد شیر افضل جعفری ،سید جعفر طاہر ،غلام علی خان چین ، سید تحمل حسین ،ملک عمر حیات ،رجب الدین مسافراور یامین صحرائی نے سعادت حسن منٹو کی عیادت کی اور اردو افسانے کے اس عظیم تخلیق کار کی صحت و سلامتی کے لیے دعا کی ۔ محتاط میزبانوں کی طرف سے یہ سخت پابندی عائد کی گئی تھی کہ سعادت حسن منٹو سگریٹ نوشی اورمے وانگبیں کے نزدیک ہر گزنہیں جا سکتا اور بے راہ روی کے شکار افراد سے بھی کوئی رابطہ نہیں رکھ سکتا۔
 
         جھنگ شہر میں اپنے قیام کے انتہائی مختصر عرصے میں سعادت حسن منٹو کی خواہش پر حاجی محمد وریام اور اللہ دتہ سٹینو نے اُسے جھنگ کے مشرق میں واقع قدیم شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ کی سیر کرائی ۔راستے میں سعادت حسن منٹو نے ٹلاں والا دربار پر حاضر ی دی اور دربار پر آویزاں اُس زنجیرِ تمنا کو بھی ہلا یا جس میں سیکڑوں گھنٹیاں آویزاں ہیں۔گھنٹیوں کی جھنکار سے دربار کا احاطہ گونج اُٹھا اوراس انتہائی پر اسرار ماحول کو دیکھ کر سعادت حسن منٹومنٹوحیرت و استعجاب میں ڈُوب گیا ۔ سعادت حسن منٹو کا شاہ کار افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘اسی سفر کی یاد دلاتا ہے جواُس نے پہلی بار جھنگ کی ایک ادبی محفل میں پڑھا جس میںحاجی محمد وریام بھی موجود تھے ۔ سعادت حسن منٹو اپنے میزبان قدرت اللہ شہاب ، اس کے معتمد معاون اللہ دتہ سٹینو، حکیم احمد بخش نذیر ،حاجی محمد وریام اور حاجی محمد یوسف کے حُسنِ اخلاق،بے لوث محبت اور مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوا  ۔حسنِ فطرت سے لبریز اس نئے ماحول میں سعادت حسن منٹو ابتدا میں تو خوش و خرم اور مطمئن رہا ۔ وہ سب ملاقاتیوں میں گُھل مِل گیا لیکن دوا،علاج،صبح کی سیراور پر ہیز کے نام پر اُسے جن سخت پابندیوں کا سامنا تھا وہ ان سے سخت ناخوش و بے زار دکھائی دیتا تھا،چوتھے دِن نیت کے ساتھ ساتھ اچانک منٹوکے تیور بھی بدل گئے اور وہ کسی کو بتائے بغیرجھنگ سے لاہور جانے والی  ’’البرق ٹرانسپورٹ ‘‘کی برق رفتار بس میں سوار ہو کر لاہور روانہ ہو گیا ۔ منٹو نے اپنی زندگی کے کٹھن معمولات اور تلخ شام و سحر میں اِک گونہ بے خودی کی جستجو میںمے نوشی شروع کی۔ وہ کسی حال میں بھی مے نوشی ترک نہیں کر سکتا تھااور جھنگ شہر میں حامد علی شاہ، حاجی محمد یوسف ،حاجی محمد وریام اور اللہ دتہ سٹینوجیسے تہجد گزار بزرگوں کی موجودگی میں اس افسانہ نگار کی مے نوشی کا کوئی سامان یا امکان دکھائی نہ دیتا تھا ۔ منٹو کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے :
 
         مے سے غرض نشاط ہے کِس رو سیاہ کو           
        اِک  گُونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے 
 
         سعادت حسن منٹو نے اگرچہ جھنگ میں محض چند روز قیام کیا لیکن اللہ دتہ سٹینو،حاجی محمد یوسف ،غلام علی خان چین اور حاجی محمد وریام اکثر سعادت حسن منٹو کو یاد کرتے اور اُردو زبان کے اس عظیم افسانہ نگار کی ز ندگی کے الم ناک حالات پر اپنے دِلی رنج و کرب اور تشویش کا اظہار کرتے تھے ۔اس بات پر سب متفق تھے کہ سعادت حسن منٹو اُردو افسانے کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی کا نام ہے ۔ وہ ایک ایسا  وسیع النظر افسانہ نگار ہے جس کی دُور بین نگاہ سے کوہ سے لے کر کاہ تک زندگی کا کوئی معاملہ اوجھل نہیں رہ سکتا ۔سعادت حسن منٹو کو کثرت مے نوشی نے جس طرح مکمل اِنہدام کے قریب پہنچا دیا وہ سب اُسے ایک سانحہ سے تعبیر کرتے ۔ 18۔جنوری 1955 کوجب منٹو نے بیالیس سال کی عمر میں اس دُھوپ بھری دنیاکو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہا تو جھنگ میں مقیم اُس کے جومداح فرط غم سے نڈھال تھے ان میں حامد علی شاہ ،غلام علی خان چین، حاجی محمد وریام اور اللہ دتہ سٹینو بھی شامل تھے ۔یہ سب اہلِ دِل سعادت حسن منٹو کے منفرد اسلوب کے مداح تھے اس کا افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘  اور ’’نیاقانون‘‘ انھوں نے سعادت حسن منٹو کی زبانی سنا تھا ۔ غلام علی خان چین کی رہائش گاہ پر سعادت حسن منٹو کی وفات پر ایک تعزیتی ریفرنس منعقد ہواجس میں حاجی محمد وریام بھی موجود تھے ۔اس موقع پر مقامی ادیبوں نے سعادت حسن منٹو کی شخصیت اور فن پر اپنے مضامین پڑھے ۔ حاجی محمدوریام نے یہ بات واضح کردی کے تخلیقی فن پارہ اگر مصائب وآلام کے پاٹوں کے نیچے سسکتے ہوئے مفلس و نادا ر لوگوں کے مسائل و مصائب کی ترجمانی نہیں کرتا تو معیار کی رفعت تک نہیں پہنچ سکتا ۔جب اللہ دتہ سٹینو نے سر زمین ِجھنگ سے تعلق رکھنے والے اُردو نظم کے کوہ پیکر تخلیق کارمجید امجد(1914-1974) کی نظم ’’ منٹو‘‘ کے یہ اشعار پڑھے تو سعادت حسن منٹو کی اذیت و عقوبت سے لبریز زندگی کے چشم دید حالات کے تصور پر سب حاضرین کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔
 
         میں نے اُس کو دیکھا ہے 
         اُجلی اُجلی سڑکوںپر اِک گرد بھری حیرانی میں
        پھیلتی بِھیڑ کے اَوندھے کٹوروں کی طغیانی میں 
 
       جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے :
 
          ’’دُنیا تیرا حُسن ،یہی بد صورتی ہے !‘‘
            دنیا اُس کو گُھورتی ہے
 
        نا معلوم ہمارے گھر کو کس بد اندیش کی بُری نظر نے ڈس لیاکہ ہمارا ہنستا مسکراتا چمن جان لیوا صدمات، مہیب سناٹوں اور جانگسل تنہائیوں کی بھینٹ چڑھ گیا ۔اجل کے بے رحم ہاتھوں نے ہماری اُمیدوں کی فصل غارت کردی اور ہماری صبح و شام کی محنت اَکارت چلی گئی ۔چھے جولائی 2017کی صبح تین بجے میرا نوجوان بیٹا سجاد حسین اچانک حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث دائمی مفارقت دے گیا ۔ جب میں اپنے اِس لخت جگر کو جسے میں نے بیس برس گود میں لے کر پروان چڑھایا ،اُسے گور میں سُلا کر گھر دامن جھاڑ کر لوٹا تو یوں محسوس ہوا کہ اپنی جان بھی شہر خموشاں میں چھوڑ آیا ہوں ۔ ریگِ ساحل پہ نوشتہ گردش ایام کی اس تحریر کو مرگ نا گہانی کے صدمات اور طوفان ِحوادث کی بلا خیز موجوں نے اس طرح مٹا دیا کہ نشان تک باقی نہ رہا ۔ والدین کے دِل کی دنیا اور سب پس ماندگان کے مقدر کی روشنی کو ساتھ لے کر یہ متاع ِ زیست پیوند خاک ہو گئی ۔ نصیب کیا اُجڑا کہ وہ چاند چہرہ جس کی خاک پا کو بھی ہم الم نصیب آسمانی عطا سے تعبیر کرتے تھے منوں مٹی میں نہا ں ہو گئی۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے کھاتا کھاتا ،ناقابلِ اندمال صدمات سے نڈھال ،زخم زخم روح اور کِرچی کِرچی قلب حزیںکو سنبھالے جب میرا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا گیا تو یاس و ہراس کے ماحول میں جی بہت گھبرا گیا ۔ اپنے چاروں طرف دُکھوں کے بچھے جال دیکھ کر میں لرز اُٹھا۔میرے دِل کے گلشن میں کِھلنے والے اس گلاب میں اجل نے اس طر ح خار چبھو دئیے کہ میرا پُوراجسم زخم زخم ہو گیااور زندگی کے سب رنگ ،آ ہنگ،تمنائیں اورخیال و خواب افسانہ بن گئے۔سجاد حسین کی موجودگی میں میرے دِل میں آرزوؤ ںکا جو سر بہ فلک قصر عالی شان تعمیر ہوا ،اجل کے وار نے اُسے ایک شکستہ ،خستہ اور بوسیدہ کھنڈر میں بدل دیا ۔
 
        اپنے نو جوان لخت جگر کو لحد میں اُتارکر ضعیف والدین زندہ لاش بن جاتے ہیںجن کی آوازیں بھرا جاتی ہیں اور گریہ و زاری کے باعث آنکھیں پتھر ا جاتی ہیں ۔جن عنبر فشاں پھولوں کی مہک قریۂ جاں کو معطر کرنے کا وسیلہ تھی جب گُل چینِ ازل انھیں توڑ لیتا ہے تو الم نصیب والدین کوپُور ی بستی سُونی سُونی دکھائی دیتی ہے اور پُور ا ماحول سائیں سائیں کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ حیا ت ِ مستعار کی کم مائیگی ، مر گِ نا گہانی کے جان لیوا صدمات ،کارِ جہاں کی بے ثباتی اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن خوف کے سوتے کارِ جہاں میں زندگی کی بے ثباتی ہی سے پُھوٹتے ہیں۔ کسی جان سے بھی پیاری شخصیت کا زینۂ ہستی سے اُتر کر شہرِ خموشاں میں تہہِ ظلمات پہنچ جانا پس ماندگان کے لیے بلا شبہ ایک بہت بڑ ا سانحہ ہے مگراس سے بھی بڑھ کر روح فرسا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دِل کی انجمن کو تابانی ، ذہن کو سکون و راحت ،روح کو شادمانی ،فکر و خیال کو ندرت ،تنوع ،تازگی اور نیرنگی عطا کرنے والے یہ گل ہائے صد رنگ جب ہماری بزم ِ وفا سے اُٹھ کر ہمیں دائمی مفارقت دے جاتے ہیں تو یہ جانکاہ صدمہ دیکھنے کے بعد ہم زندہ کیسے رہ جاتے ہیں؟عدم کے کُوچ کے لیے رخت ِ سفر باندھنے والوں کی دائمی مفارقت کے بعدالم نصیب لواحقین پر زندگی کی جو تہمت لگتی ہے وہ خفتگانِ خاک پر دِل نذر کر نے اور جان وارنے والے والدین کو زندہ در گو رکر دیتی ہے اور اس سانحہ کے بعد وہ سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرتے ہیں۔ 
 
        آزمائش و ابتلا کے اِن لمحات میں ہم سب نے اُن عظیم ہستیوں کو سلام کیا جنھوں نے تلوار کی دھار کے نیچے بھی مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا درس دیا ۔ میں نے اس جانکاہ صدمے کی اطلاع دینے کے لیے اپنی اُس ڈائری کو تلاش کیا جس میں بعض قریبی احباب کے ٹیلی فون نمبر درج تھے ۔میری آ نکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا ،تلاش بسیار کے باوجود مطلوبہ ڈائری کا کہیں سراغ نہ مِل سکا ۔ضبط کے سب بند ٹوٹ گئے اور میری آ نکھوں سے جوئے خوں رواں ہو گئی اس اثنا میں اچانک میری نگاہ سفید لباس میں ملبوس ایک توقیر مجسم ، دراز قد، سفید ریش اورنورانی چہرے والے بزرگ پر پڑی ۔یہ تومیرے والد کے ساتھی ،میرے محسن اور قابل صد احترام بزرگ حاجی محمد وریا م تھے جن کی محرمانہ اور دِل آ ویز نگاہ مجھ تقدیر کے مارے پر مر کوز تھی ۔حاجی محمد وریام نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا :
 
     ’’جس ڈائری کی تمھیں تلاش ہے وہ اِس مکان میں نہیں بل کہ وہ سڑک کے کنارے واقع تمھارے قدیم آبائی مکان کے دوسرے کمرے کی الماری کے پانچویں خانے میں رکھی ہے ۔‘‘
        ضبط سے کام لیتے ہوئے میں اس جگہ پہنچا جس کے بارے میں مجھے عالم ِغیب سے مطلع کیا گیا تھا۔یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میری مطلوبہ ڈائری بتائی گئی جگہ پر موجود تھی ۔میں نے فوراًڈائری اُٹھائی اور اس میں درج ٹیلی فون نمبروں پر رابطہ کیا۔حاجی محمد وریام نے ہمیشہ میری دست گیری کی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔
 
        عکس کوئی ہو خد و خال تمھارے دیکھوں 
        بزم کوئی ہو مگر بات تمھاری نکلے    
 
       اس کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ مر ہم بہ دست مجھ دِل شکستہ الم نصیب کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ان پرانے درد آ شنا،مونس وغم خوار ، چہروں کو پہچان کر میری جان میںجان آ ئی ۔ میری غم خواری کو آنے والے یہ لوگ تو کب کے دائمی مفارقت دے کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار چکے تھے اور اب تو میرا یہ حال تھا کہ یاد رفتگاں کی ہمت تک باقی نہ تھی ۔جب بھی دُور دراز واقع خاموش بستیوں کے ان مکینوں کا میرے سامنے کوئی نام لیتا میں اپنے دلِ حزیں کو تھام تھام لیتا ۔میرے دِل کے قریہ ٔ ویراں میں آنے والے ان سب غم گساروں نے سفید لباس پہن رکھا تھا،سب کی آ نکھیں پُر نم تھیں اور چہروں پر نورانی چمک تھی ۔ فرط غم سے نڈھال آنکھوں سے جاری اشک رواں پونچھ کر میں نے دیکھا کہ میرے سرہانے میرے والد رانا سلطان محمود ،والدہ اللہ وسائی ،بیٹی کوثر پروین، بڑا بھائی شیر محمد ،  بڑی بہن صاحب خاتون ، چھوٹی بہن عزیز فاطمہ اورچھوٹا بھائی منیر حسین دِل گرفتہ کھڑے تھے ۔ میری دائیں جانب چچا حاجی محمد وریام اور ان کی اہلیہ بخت بانو،محمد شفیع ، امیر بیگم ،محمد رفیع، محمد کبیر، احمد یار ملک،خد ا بخش اور احمد بخش مجھے دلاسا دینے کے لیے موجود تھے۔ یہ سب ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ کا وِرد کر رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ اپنے دِلِ حزیں کو سنبھالو، اِس شامِ الم میں ہمیں آواز دینا تمھاری غم خواری کی خاطر ہم اپنی یاد بن کر چلے آ ئیں گے ۔ اچانک مجھے اپنے بڑے بھائی شیر محمد کی مانوس اور شفقت سے لبریز صدا سنائی دی:  
 
        بے تیشۂ نظرنہ چلو راہ ِ رفتگاں
        ہر نقشِ پا بلند ہے دیوار کی طرح 
 
       ہجومِ غم کے باعث میری مایوسی اور سر نگونی کو دیکھتے ہوئے اکثر  احباب مجھے چراغ سحری سمجھنے لگے تھے۔ انتہائی کرب ناک حالات کے حصار میں بے بسی کے عالم میں مجھے ان مُونس و غم خوار احباب کی موجودگی سے حوصلہ مِلا ۔ مصیبت کی اس گھڑی میں راہِ طلب میں مجھے وقف ِحزن و یاس اور  سر کے بل گِرا دیکھ کررانا سلطان محمود اور حاجی محمد وریام نے آگے بڑھ کر مجھے سنبھالا،شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور دلاسا دیا۔ حاجی محمد وریام اپنائیت سے دعا دیتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے :
 
       ’’ میرے بڑے بیٹے اور اپنے چچا زاد بھائی محمد رمضان کوفوراً بلاؤ اور اُسے اپنے مصائب و آلام اور درپیش مسائل کے بارے میں آگاہ کرو ،اس کے بعد باہم مشاورت سے مناسب لائحۂ عمل اختیار کرو ۔اللہ کریم کی عطا ،رحمت اللعالمینﷺ کی دست گیری،سب بزرگوں کی دعا اور تمھارے پیمانِ وفا سے زندگی کی اس شبِ تاریک کی سحر جلد نمودار ہو گی ،عہدِ خزاں ختم ہو گا اور طلوعِ صبحِ بہاراں کا یقین ہو جائے گا۔ طوفانِ حوادث کے گرداب میں پھنسے ہچکولے کھاتے ہوئے تمھاری زندگی کے شکستہ سفینے کو ساحلِ مراد تک پہنچانے کی ذمہ داری بہت جلداس پر عزم ،باہمت اور پارس صفت شخصیت کو ملے گی جو بولے تو منھ سے پُھول جھڑتے ہیں ،جس کے قلب و روح میں قرآن حکیم کی ابد آشنا تعلیمات محفوظ ہیں اور جس کی عصمت ،عفت ،تقویٰ ، وقار اور لائق ِ صد رشک و تحسین کردار کو کہکشاں کے ستارے بامِ فلک سے اُتر کر دیکھتے ہیں اور آفتاب و ماہتاب جس کی علمی ضوفشانی کے شاہد ہیں ۔وہ آ ئینہ تمثال چہرہ جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے نسرین و نسترن اور لالہ و گُل اپنی قبائیں کُترنے پر مجبورہیں ۔اُس کا ذہن و ذکاوت اور بصیرت و خلوص تم سب کے لیے سرمایہ ٔ افتخار اور خضرِ راہ  ثابت ہو گا ۔ ‘‘
 
        میرے بڑے بھائی شیر محمد (مرحوم )جو پاکستان بری فوج کے طبی شعبے میں طویل خدمات انجام دے چکے تھے ،گلوگیر لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوئے ’’ حاجی محمدوریام نے محمد رمضان کی صورت میں جیتا جاگتا ،فعال اور ہمہ وقت ایثار و خدمت کا پیکر اپنا نمونہ دنیا میں فیض رسا نی کے لیے چھوڑ کر 9۔جولائی 2004کو عرصہ ٔ ایام سے ہجرت کر لی ہے ۔حاجی محمد وریام کانیک دل بیٹامحمد رمضان اگرچہ کم آ میز اور اپنی ذات میں سمٹا ہوا ہے مگر اپنے عظیم باپ حاجی محمد وریام کی تربیت کے اعجاز سے اُس کے بحرِ خیالات کی وسعت اور دُکھی انسانیت کے لیے ایثار کی بے کرانی کاایک عالم معتر ف ہے۔ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع صوبہ خیبر پختون خوا  کے صحت افزا مقام ایبٹ آباد میں محمد رمضا ن کے ساتھ میں نے یادگار وقت گزارا ہے ۔فرنٹئیر فورس رجمنٹ کے اس جانباز ریٹائرڈ افسر سے مِل کر زندگی سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کے جذبات کو نمو ملتی ہے ۔بہ قول شاعر: 
 
       وہ خوش خصال ہے ایسا کہ اُس کے پاس ہمیں 
       طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا 
       ورق ورق نہ سہی عمر رائیگاں میری 
      ہوا کے ساتھ مگر تم نہ عمر بھر رہنا
 
         ہجومِ غم میں گھرا میں اپنے رفتگاں کو اپنے قریب پا کر اپنے قلب اور روح میں ایک ایسا عزم اور حوصلہ نمو پاتا محسوس کررہا تھا جس سے میں اب تک نا آ شنا تھا ۔ ان باتوں کا تعلق ما بعد الطبیعات یا پیرا سائیکالوجی سے نہیں بل کہ میں نے دُکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ جس طرح اپنی جانِ نا تواں پر جھیلے ہیں یہ تحریر اُن حقیقی واقعات کی آ ئینہ دار ہے اور جیتی جاگتی آ نکھوں سے دیکھے ہوئے حالات کو زیب قرطاس کیا گیا ہے ۔ ارسطو کے تصور المیہ سے حاجی محمد وریام کو گہری دلچسپی رہی ،سمے کے سم کے ثمر کے مسموم اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے وہ تزکیہ نفس کو  نا گزیر سمجھتے تھے ۔ میں نے یہاں حرفِ صداقت لکھ کر اپنی زخم زخم روح اور دلِ صد پارہ کو اپنے دامن میں سنبھال کرخونچکاں لمحات کی روداد کی تزکیہ نفس کی خاطر لفظی مرقع نگاری کی سعی کی ہے ۔ عالمِ بالا سے آنے والے خلد بریں کے یہ سب مکین میری ڈھارس بندھانے اور دِلاسا دینے کے فرض کی تکمیل کے بعد باغِ بہشت میں اپنی دائمی منزل کی جانب روانہ ہو گئے ۔ میں نے ان بزرگوں کے حکم کی تعمیل کی اور حاجی محمد وریام کی باتوںنے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ۔ گردشِ ایا م کے پیچ و تاب کھاتے ہوئے تُند و تیز بگولے تھم گئے اور ہوا کا رُخ پھرگیا ۔اس وقت فیض احمد فیضؔ کا یہ شعر میرے جذبات کی ترجمانی کر رہا تھا :
 
       بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دِ ل غریب سہی 
       تمھارے نام پہ آ ئیں گے غم گسار چلے
 
       مصیبت کی اس گھڑی میںمیرے سب غم گساروں نے درد کا رشتہ نبھاتے ہوئے میری آنسو پو نچھے،میرے زخموں پر مرہم رکھا اور حاجی محمد وریام کے مخلصانہ مشورے پر عمل کی تلقین کی ۔بادی النظر میں تو یہ خواب تھا مگر میں نے عالمِ ہوش میں یہ سب منظر اپنے گھر کے آ نگن میں دیکھا تھا ۔حاجی محمد وریام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میں نے فون اُٹھایا اور ساہیوال (سرگودھا )میں مقیم حاجی محمد وریام کے بڑے بیٹے محمد رمضان کو فون کیا اور اسے فوراً جھنگ پہنچنے کی استدعا کی ۔ حاجی محمد وریام کی پیشین گوئی کے مطابق محمد رمضان کی محرمانہ نگاہ اور دُور اندیشی کی مظہر خوئے دل نواز ی کے معجز نما اثر سے ایک ماہ کے اندر تقدیر کے چاک رفو ہونے لگے ۔ محمد رمضان کے حسن اتفاق ،حسن تدبر ، حسن انتظام،جذبۂ انسانیت نوازی ، بے لوث محبت ،خلوص اور دردمندی کے اعجاز سے گردِش ِ ایام کے سرابوں میںسر گرداں ہم الم نصیبوں کو نشان منزل مِل گیا۔ مہیب سناٹوں اور جان لیوا ظلمتوں کے اعصاب شکن حصار سے نکل کر اب ستارۂ سحر دیکھ کر ہم بڑی حد تک آسودہ اورمطمئن و مسرور ہیں ۔میں نے اپنی موت کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے اس کے بعدایک مژدۂ جاں فزا، فقید المثال راحت اور عظیم نصرت و کامرانی کو ہم حاجی محمد وریام کے معجزہ اور کرامت اور ان کے بڑے لختِ جگر کی سعادت مندی سے تعبیر کرتے ہیں۔
 
      گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں جھنگ شہر میں اقلیم معرفت کی جن نابغہ روزگار ہستیوں نے دِلوں کو مرکز مہر و وفا کرکے اہل دل کو حریم کبریا سے آ شنا کیا ان میں حاجی محمد وریا م کا نام کسی تعار ف کا محتا ج
 
 نہیں۔ حاجی محمد وریام کوفقر و مستی ،خلوص و مروّت ،درویشی و استغنا اور شانِ قلندری سے متمتع  ایک صاحب باطن ولی کا مقام حاصل تھا جس کی دعاؤ ں سے دُکھی انسانوں کے مقدر بدل جاتے تھے ۔اقلیم معرفت کے فرماں رواحاجی محمد وریام کے معتمد ساتھیوں میں اللہ دتہ حجام (بابا آنے والا)،حکیم احمد بخش نذیر (چوّنی والا حکیم)،کرموں موچی (جس کا ذکر قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت ’’شہاب نامہ ‘‘میں کیا ہے )،حامد علی شاہ ، میاں مرا دعلی (مودا)،حاجی محمد یوسف ، محمد بخش آ ڑھتی ،اللہ داد ، اللہ رکھا مالی،عبد الغنی ظروف ساز، اللہ دتہ سٹینو ،غلام علی خان چین ،بختا ور خان ،عبداللہ خان ، مولوی لال دین ، حکیم اسماعیل ،حکیم شیر محمد ،حکیم ادریس بخاری،ملک محمد عمر حیات ،ڈاکٹر محمد کبیر خان،رانا سلطان محمود ،شیر محمد ،منیر حسین اورسجاد حسین شامل تھے ۔ان پر اسرار ہستیوں کے کشف و کرامات کا ایک عالم معترف تھا۔
      ان کے معاصرین کا کہناہے کہ حاجی محمد وریا م کی زندگی شمع کے مانند گزری ۔عدم کی جانب رخت سفر باندھنے کے بعد بھی بے سہارا یتیموں ، فاقہ کش مسکینوں ،مفلس و قلاش لوگوں،بیواؤں ، دردمندوں ،الم نصیبوں اور ضعیفوںسے اُن کے معتبر روحانی ربط کی باتیں زبان زد عام ہیں ۔ جھنگ شہر میں ’ ’خوشنودہ‘‘ نامی ایک ضعیف بیوہ رہتی ہے جس کی عمر ایک سو پانچ سال ہے ۔اس معمر حجن کی روایت ہے کہ قدیم جھنگ شہر میں واقع ’’باب محمد ﷺ‘‘ سے ملحق علاقے کی متعدد مصیبت زدہ ،فاقہ کش اوربے سہارا بیواؤں اور اُن کے کم سِن بچوں ، غریب معذوروں اور علاج کی استطاعت نہ رکھنے والے بیماروںکے اخراجات کے لیے حاجی محمد وریام اور ان کے معتمد رفقا نے باہمی مشاورت سے اپنی مدد آپ کے تحت ان کی گزر اوقات کے لیے معقول رقوم کی باقاعدگی سے فراہمی کا بندوبست کر رکھا تھا ۔ حاجی محمد وریام کی وفات کے بعد تقدیر کے ہاتھوں ان غریبوں پر جو کوہ ستم ٹوٹا اس کا تصور ہی لر زہ خیز ہے ۔خوشنودہ نے اپنی زندگی کے ان ہراساںشب و روز کی دردناک روداد یوں بیان کی :
 
      ’’حاجی محمد وریام کی رحلت سے ہم تقدیر کے ماروں کو ایسا محسوس ہوا کہ سورج سوا نیزے پر آ گیا ہے اور سر پر کوئی سائبان بھی نہیں رہا ۔سادیت پسندی کے مہلک روگ میں مبتلا گرد و نواح کے سب اہل ہوس سنگ ملامت لیے نکل آ ئے۔میرے گھر میں کھانے کو سُوکھی روٹی بھی میسر نہ تھی ۔ حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ میرے پڑوسیوں نے میری غربت و افلاس ،بیماری ،ضعیفی ، دِل کی خستگی اور جسم کی شکستگی کاذرا خیال نہ کیا اور میرے گھر سے باہر نکلنے والی گندے پانی کی نالی بند کر دی ۔میرا گھر جو پہلے ہی طوفانِ نوحؑ کی باقیات بن چکا تھا بد رو کا پانی کھنڈر نما کمرے کی بنیادوں میں اُترنے کے باعث یہ آثار قدیمہ مکمل طور پر منہدم ہونے کے قریب پہنچ گیا ۔آہ! مفلسی میں آ ٹا گیلا ہونا اسی المیے کا نام ہے ۔ایک رات چھاجوں مینہ برسا اور جل تھل ایک ہو گیا ،میں سمجھ گئی کہ اب اس بو سیدہ مکان کے ساتھ ساتھ میرا جانا بھی ٹھہر گیا ہے ،اب میں صبح گئی کہ شام گئی ۔میں سرِ گرداب کسے پکارتی ؟  نماز عشا اد اکر کے تسبیح سے فارغ ہو ئی تومیں نے آہ بھر کر کہا : ’’ آج اگر حاجی محمد وریام موجو دہوتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی ،ہم ضعیف و ناتواں پائمال،پریشان اور خوار و زبوں پھرتے ہیں مگر کوئی ہماری داد رسی کرنے والا یا پُرسانِ حال موجود نہیں ۔‘‘
 
      اُس رات عالم خواب میں یہ منظر دیکھا کہ حاجی محمد وریام نے مجھے کہا ’’  حجن خوشنودہ ! عالمِ بالا میں تمھارے درد انگیز نالے سُن لیے گئے ہیں۔ اللہ پر یقین، حوصلے ،اطمینان اور اُمید کا دامن تھام لو کل صبح کا سورج طلوع ہونے سے پہلے تمھارے تما م مسائل حل ہو جائیں گے ۔خالقِ کائنات کے ہاں دیر تو ہے مگر اندھیر ہر گز نہیں ۔‘‘
 
     دوسرے دِن صبح سویرے میں فجر کی نماز پڑھنے کے بعد تلاوت قرآن حکیم میں مصرو ف تھی کہ میرے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی ۔ایک نورانی چہرے والا معمر سفید ریش اجنبی بزرگ جس کے سر پر دستارِ فضیلت سجی تھی اور جس نے جبہ پہن رکھا تھا بیس کلوآٹے کا تھیلا  اور کچھ دیگر سامان خوراک ، مشروبات ،موسم کے پھل اور سبزیاںلیے موجود تھا اس نے وہ سب اشیا بڑ ی احتیاط سے میرے کمرے کے دروازے میں رکھ دیں اور پلک جھپکتے میں آ نکھوں سے اوجھل ہو گیا ۔اگلے لمحے وہ پڑوسی جنھوں نے گزشتہ آ ٹھ ماہ سے میرے گھر سے نکاسی ٔ آب کا سلسلہ بند کر کے میرا جینا دشوار کر رکھاتھا وہ بھی سر جھکائے وہاں آ پہنچے ۔وہ اپنے روّیے پر بے حد نادم و پشیمان تھے اور معافی کے خواستگار تھے ۔وہ دِن اور آج کا دِن جب میرے گھر میں آٹا ،دال ،ضروریات زندگی ، موسم کی سبزیاں اورپھل آتے ہیں تو میںسمت ِ غیب سے قدموں کی چاپ سُن لیتی ہوں۔کوئی نا مانوس خاتون پر اسرار انداز میں دبے پاؤں آ کر میرے شکستہ گھروندے کو پستک لگا دیتی ہے اور اس کی پیہم خدمت سے گھر کی صفائی ستھرائی کی ذمہ داری سے بھی مجھے فراغ مل چکاہے ۔ تلاش بسیار اور تجسس کے باوجود آج تک نامعلوم سمت سے آ نے والے ان اجنبی بے لوث خدمت گاروں کا اتا پتا مجھے معلوم نہیں ہو سکا ۔ مجھے یہ کہنے میںکوئی تامل نہیں کہ یہ سب کچھ حاجی محمد وریام کی دعا کا اثر ہے جس کی قبر بھی دائمی زندگی اور نگاہوں کوخیرہ کر دینے والی تا بندگی کی مظہر ہے :
 
     معجزہ ہے یہ تیرا تُو نے کرامت کی ہے  ‘‘
 
        اپنے وطن کو حاجی محمد وریام اپنے جسم اورروح سے عبارت ایک نعمت سے تعبیر کرتے۔ارض ِوطن کا ذرہ ذرہ اُنھیں اپنی جان سے بھی پیارا تھا ۔ دوسری عالمی جنگ میںجرمن فوج کی گولیوں کی زد میں آ کر شدید زخمی ہونے کے باوجود اُن کی جرأت ،شجاعت اور استقامت میں کوئی کمی نہ آئی ۔ صحت یاب ہونے کے بعد وہ پورے عزم سے سرگرم عمل ہو گئے ۔قیام پاکستان کے بعد ان کا جذبہ ٔ  شوق شہادت اُنھیں محاذ جنگ پر لے گیا۔ انھوں نے وطن کے دفاع کی خاطر لڑی جانے والی دو جنگوںمیں جان کی بازی لگائی اور غازی کے منصب پر فائز ہوئے۔فوجی ملازمت کو وہ اپنے لیے سرمایہ ٔ افتخار سمجھتے تھے اسی لیے اپنے تین بیٹوں کو خود فوج میں بھرتی کرایاجب کہ چوتھا بیٹا وفاقی حکومت کے محکمہ برقیات میںخدمات پر مامور ہے ۔ اس کے علاوہ ان کی تحریک پر شہر کے متعدد تعلیم یافتہ نو جوان پاکستان کی مسلح افواج میں بھرتی ہوئے ۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے میر ا بھانجا اور چچا زاد بھائی پاکستان کی مسلح افواج میں خدمات پر مامور تھے ۔پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کی کوششوں کے دوران ان نو جوانوں نے جام ِ شہادت نوش کیا ۔اس موقع پر حاجی محمد وریام نے ان تمام نوجوانوں کی خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کیا جنھوں نے ارضِ پاکستان میں امن و سلامتی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔انھوں نے اس امر پر یقین کا اظہار کیا کہ اس ارض ِپاک پر وہ فصلِ گل یقیناً اُترے گی جو اندیشۂ زوال سے نا آ شنا ہو گی ۔شہیدوں کا لہو رنگ لائے گا اور یہ لہو امن و عافیت کے مضمون کا عنوان بنے گا۔اس موقع پر انھوں نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا:
 
          شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن 
          نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
 
        حاجی محمد وریام اور ان کے فوجی رفقا کی تحریک پر جھنگ شہر میں گھر گھر تعلیم و تربیت بالخصوص تعلیم نسواںکے چرچے ہونے لگے۔ہو نہار اور سعادت مند طالبات نے ہر شعبۂ زندگی میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لو ہا منوایا ۔ اس علاقے میں مذہب سے قلبی وابستگی، علم و ادب کے فروغ ،گھریلو دست کاریوں کی ترقی اور حفظان صحت جیسے اہم امور میں نئی نسل کی گہری دلچسپی حاجی محمد وریام کا فیضان نظر ہے۔  فوجی ملازمت سے ریٹائر ہونے اور پنشن لینے کے بعدجب حاجی محمد وریام گھر پہنچے تو احباب سے مسلسل ملاقاتوں اور کار جہاں کو اپنا ئیت سے دیکھنے کے لیے انھیں کسی مناسب مصروفیت کی تلاش تھی ۔ حاجی محمدیوسف نے کتا بوں کی دکان کھول لی ، سید جعفر طاہر نے ریڈیو کا رخ کیا ، رانا سلطان محمود نے بدین میں ڈیرے ڈال لیے اور کھیتی باڑی شروع کی جب کہ حاجی محمد وریام نے باب محمدﷺ سے ملحق قدیم تجارتی مرکز’’نور شاہ بازار ‘‘ میں کریانہ کی ایک چھوٹی سی دکان بنالی ۔ واقفِ حال لو گوں کاکہنا ہے کہ پرچون اورکریانہ تو اقلیم معرفت کے مکینوں کے ساتھ معتبر ربط اور انسانیت نوازی کا ایک بہانہ تھا ۔ قیام پاکستان سے پہلے جھنگ شہر میںبے رحم غیر مسلم مہاجن، سُود خور ہندو تاجر اور اجارہ دار ٹھاکر مقامی تجارت اور معیشت پر قابض تھے ۔ نور شاہ بازار میں مسلمان تاجر کم کم دکھا ئی دیتے تھے ۔ اُس  پُر آشوب دور کے مخدوش معاشی حالات میں حاجی محمد یوسف (کتب فروش )اور حاجی محمد وریام (کر یانہ کے تاجر )کی آمد کو ایک نیک شگون سمجھا گیا ۔ابتدا میں ان نیک دل لو گوں کی دکانوں کے بارے میں مقامی محنت کش مسلمانوں،اہلِ حرفہ اور نواحی دیہاتوں کے غریب مسلمان کسانوں کو بہت کم آگہی تھی ۔ اس زمانے میں ان نئی دکانوں کے بارے میں دیہاتی لو گ اکثر کہتے تھے ۔
 
        حاجیاں دی ہٹی :   بھا ئو مناسب حلال دی کھٹی 
        ترجمہ :حاجیوں کی دکا ن کا کمال :  نرخ موزوں اور رزق حلال 
 
         ان نیک دِل بزرگوں کے ساتھ غلام علی خان چین کے قریبی تعلقات نصف صدی پر محیط تھے ۔ان نئے تاجروں کی دیانت ،حق گوئی اور انسانی ہمدردی کے اعتراف میں وہ یہ بات بر ملا کہتے تھے :
 
        مال ہے نا یاب پر گاہک ہیںاکثر بے خبر  
        شہر میں کھولی ہے حاجی نے دکاں سب سے الگ 
 
        حاجی محمد وریام روزانہ با وضو حالت میں اپنی دکان پر بیٹھتے اور کام کے دوران درودِ پاک کا وِرد جاری رکھتے۔اُن کی دکان پر گاہکوں کا تانتا بندھا رہتا اور وہ سب سے مشفقانہ سلوک کرتے ۔ ظہر،عصر ،مغرب اور عشا کی اذان کی آوازسنتے ہی اللہ کریم کے بھروسے پر دکان کھلی چھوڑ کر مسجد میں با جماعت نماز ادا کرتے ۔ان کی دکان سے مستقل طور گھریلو ضرورت کا سامان خریدنے والوں میں ممتاز ماہرین معاشیات پروفیسر اسحاق مظہر اور پروفیسر محمدنواز خان بھی شامل تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ حاجی محمد وریام کی چھوٹی سی دکان پر ضروریاتِ زندگی بازار کی بڑی دکانوں سے نسبتاً کم نرخوں پر دستیاب تھیں ۔اس دکان سے گھریلو استعمال کے لیے جو سامان خریدا جاتا ہے وہ خشک،صاف اور تازہ ہوتا ہے اور اس میں گُھن بالکل نہیں ہوتااس کے علاوہ یہ سب سامان با برکت بھی ہوتا ہے ۔اگر شہر کی کسی دوسری دکان سے خریدی گئی ایک کلو گرام چینی گھر میں ایک ہفتہ کے لیے کافی ہوتی تو حاجی محمد وریام کی دکان سے خریدی ہوئی چینی کی وہی مقدار دس دِن کفایت کرتی تھی ۔ 
 
          معاشرتی زندگی سے توہم پرستی کے خاتمے کے لیے حاجی محمد وریام نے جو جد و جہد کی وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔قیام پاکستان کے بعد ریلوے روڈ جھنگ کے نزدیک کالی کٹ سے ہجرت کر کے آنے والے ایک سیاہ فام قصاب ’’آسو بِلّا ‘‘نے ٹھکانہ کر لیا ۔ اس کے خاندان کے اکثر لوگ کالا پانی(  جزیرہ انڈیمان اور نکو بار) کے باشندے تھے جہاں وہ بر طانوی استعمار کے دور میں عقوبت خانوں میں جلاد تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس سیاہ فام قصاب کے ہاتھ بہت لمبے تھے ، کالا باغ کے ایوانوں تک اس کی رسائی تھی۔ اس قالی شیر کا ایک بھائی ستھی تھا اور دوسرا کوتوال تھا ۔ گھریلو نا چاقی کے باعث آسو بلا کی ماں اپنے میکے کالا شاہ کا کو میں رہتی تھی ۔آسو بلّا کے بارے میں کسی نے یہ بے پر کی اُڑا دی کہ اس کالے کلوٹے قصاب کی زبان بھی اس کے جسم کے مانند کالی ہے ۔شہر بھر میں یہ بات مشہور تھی کہ جس پالتو جانور پر اس نا ہنجار، بد نظر اور کینہ پرور قصاب کی نظر پڑ جاتی ،اِس دارِ فانی سے اُس پالتو جانور کا آب و دانہ اُٹھ جاتا۔ مویشی پالنے والے سادہ لوح کسان اس مُوذی و مکار قصاب کو حلال پالتو جانوروں کے لیے موت کا ایلچی اور اجل کا سنتری قراردیتے اور فی الفور اپنے مویشیوں کو اس سے چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ جہاں دیدہ اورمعمر کسان اُسے دیکھتے ہی لا حول کا وِرد شرع کر دیتے ، ضعیف عورتیں اور بچے اس جلاد منش قصاب کو دیکھتے ہی سادیت پسندی کی مظہر اس کی بے داد گری پر جھولیاں اُٹھا کر داد طلب نگاہوں سے خالق کائنات کو مدد کے لیے یہ کہہ کرپکارتے :
 
       ’’جل تُو جلا ل تُو:  اِس آئی بلا کو ٹال تُو 
       آسو بِلّا مویشی پالنے والوں کے لیے بلائے نا گہانی بنتا جا رہا تھا ۔یہ جس طرف چلتا ،اس کی خِست و خجالت ،دو طرفہ ندامت اور غریب دہقانوں کی لعنت ملامت اس کے ساتھ رہتی ۔اس کے جسم سے عفونت و سڑاند کے اس قدر بھبھوکے اُٹھتے کہ راہ گیروں کا اِس کے نزدیک سے گزرنامحال ہو جاتا۔اس قصاب کے کریہہ چہرے پر نجاست ،نحوست ،بے برکتی ،بے توفیقی اور بے ضمیری کے نقوش دیکھ کر لوگوں کی جان پر بَن آتی ۔ظریف شاعر جب مبالغہ آمیز انداز میں اِس قصاب کی نحوست و نخوت کی باتیں کرتے تو ہنسی ضبط کرنا محال ہو جاتا ۔اِس قصاب کے قبیح کردار اوراس کے شہر میں وارِدہونے کے بعدحلال پالتو جانوروں کی پے در پے ہلاکت خیزیوں کے سانحات پر اپنے دُکھ بھرے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے تحریف نگار احمق ہذیانی بے ساختہ پکار اُٹھا:
 
      روز اِس شہر میں اِک بَیل مَراہوتا ہے 
     کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے 
 
          آسو بِلّا جب ایک کالے ناگ کی طرح پھنکارتا ہوا کوچہ و بازار سے گزرتا تو غریب لوگ سہم جاتے اور اپنے پالتو جانورو ںکو کیمو فلاج کرنے کے جتن کرنے لگ جاتے ۔یاس و ہراس میں مبتلا پریشان حال دہقان حاجی محمد وریام کے پاس پہنچتے اور اپنی زبوں حالی سے انھیںآگاہ کرتے اور بُرے وقت کامنظر ِ جور و جفا بدلنے کی دعا کرنے کی اِلتجا کرتے ۔حاجی محمد وریام اُنھیں کھل بنولہ یا سبز چارادم کر کے دیتے اللہ کریم کی قدرت اور فضل و کرم سے دم کی ہوئی خوراک کھانے سے پالتو جانورحاسد کی چشمِ بد سے محفوظ رہتے ۔رفتہ رفتہ آسو بِلّا شہر میں خوف اور دہشت کی علامت بن گیا ۔مائیں اپنے کم سِن بچوں کو اس درندے کا نام لے کر ڈراتی تھیں۔ مقامی باشندوں کا بیان ہے کہ ِاسے دیکھتے ہی مویشی پالنے والے غریب کسانوں،مجبور مزارعوں اور مقروض اہلِ حرفہ کی گھگھی بندھ جاتی یہاں تک کہ اس کے قدموں کی آ ہٹ سُن کر پالتو جانورو ں کوبھی اپنے نہ ہونے کی ہونی کی بھنک پڑ جاتی اور وہ چاراکھانا چھوڑ دیتے اور سر جھکا کر کھڑے ہو جاتے۔کئی حساس شہر یوں نے اس جلاد منش قصاب کو شہر بدر کرنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کا اِرادہ کیا مگر ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔حاجی محمد وریام نے اپنے معتمد ساتھیوں کے مشورے سے مصلحت کے تحت آسو بِلّاکو سمجھانے کا منصوبہ بنایا اور اُسے حرص و ہوس کی پامال راہوں سے بچ کر جہانِ تازہ کی جانب سفر کرنے پر مائل کیا ۔حاجی محمد وریام، شریف خان،منیر حسین ،شیر خان اور حاجی محمد یوسف نے آسُو بِلّا پر واضح کیا کہ مردہ جانوروں کی کھالیں اُتارنا اور ان کا متعفن گوشت شہر کے کسی بڑے مطبخ میں ٹھکانے لگانا معاشرے میں حرام، مکروہ اور کسرشان سمجھا جاتا ہے ۔ جدید دور میں ماضی کی ہر نشانی کو کاٹھ، کباڑ اور کُوڑاکرکٹ سمجھا جا رہا ہے،توہم پرست لوگ اپنے آبا و اجداد کی نشانیوں کو اونے پونے داموں کباڑ خانے میں پھینک دیتے ہیں۔ جہاں معمولی مرمت اورلیپا پوتی کے بعد کباڑ خانے کے مالک اُن اشیا کو اِن کی قیمت خرید سے تین گنا قیمت پر ضرورت مند گاہکوں کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں۔ اسی لیے کباڑ کی خرید و فروخت کو ایک اُبھرتے ہوئے کاروبار کی حیثیت سے بہت تجارتی حلقوں میں بہت مقبولیت حاصل ہو رہی ہے ۔اگر وہ شہرسے دُور کسی کشادہ حویلی میں اپنا کباڑ خانہ بنا لے تو نہ صر ف وہ مالی فائدے میں رہے گا بل کہ مقامی لوگوں کی دشنام طرازی ،نفرتوں اور حقارتوں کی تیر اندازی سے بھی اُسے نجات مِل جائے گی۔یہ مصلح اپنے دلائل سے آسو بِلّاکو شیشے میں اُتارنے اور بُھوت کو کباڑ خانے میں بندکرنے میںکا میاب ہو گئے ۔ جلد ہی آسو بِلّا نے ریلوے روڈ پر واقع اپنے چور محل سے کچھ دُور پُرانی اشیا کا کباڑ خانہ بنا لیا۔اس کے ساتھ ہی نگار خانہ اور چنڈو خانہ بھی بن گیا ۔ منشیات کا عادی یہ گھٹیا جنسی جنونی کالیا اب کالا دھن کما کر بے تحاشا اللے تللے کرتا اور بُلٹ پروف موٹروں میں سفر کرنے لگا ۔ مویشی پالنے والے محنت کش دہقان اور غریب کسان حاجی محمد وریام اور ان کے ساتھیوں کی مصلحت اندیشی پر اش اش کر اُٹھے اور سب نے یہ کہا کہ ہینگ لگی نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چو کھا آیا ۔
 
         جھنگ کا پس ماندہ علاقے  ’’گھڑے بھن‘‘کاماحول آزاد ی کے وقت پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا تھا ۔قیام پاکستان سے پہلے یہاں ہندوؤ ں کی اکثریت تھی اور انھوں نے اس جگہ شمشان گھاٹ بنا رکھا تھا ۔اسی جگہ مقامی ہندو اپنے مُردوں کو سپر دِ آتش کرتے تھے۔آزادی کی صبح ِ درخشاں طلوع ہوئی تو ہندو بھارت چلے گئے اور اس جگہ پر چلتے پھرتے ہوئے مُردوں نے ڈیرے ڈال دئیے ۔ اکرو بھاٹ ان درندوں کا گُرو تھا جب کہ زاہدو لُدھڑاس کا شریک ِجرم ساتھی تھا۔ اس جرائم پیشہ گروہ کے سبز قدم پڑتے ہی یہاں ظلمتیں بڑھنے لگیں اور جنس و جنون کے علاوہ منشیات فروشی کا زہر معاشرتی زندگی کے ریشے ریشے میں سرایت کرنے لگا۔کسی نے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ اس مقام پر مرنے  کے بعد جلنے والے ہندوؤں کی بد روحیں سرِ شام اکٹھی ہو جاتی ہیں اور باہر سے آنے والے زندہ انسانوں کاخون پی جاتی ہیں۔ ڈرگ مافیا کے اس گھناونے کھیل سے مضافاتی علاقے کے باشندوں میں سرا سیمگی پھیل گئی اور وہ حاجی محمد وریام کے پاس پہنچے۔حاجی محمد وریام نے ان مظلوم انسانوں کے حق میں دعا کی ۔اُسی شام جب رقصِ مے اور ساز کی لے پر محفل عالمِ وجد میں تھی، اچانک ایک اژدہانمودار ہوا جس کے ساتھ بہت سے پھنکارتے ہوئے کالے ناگ بھی تھے ۔جب تماشائیوں نے اژدہا اور کالے ناگ اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھے تو سب عیاش دُم دبا کر بھا گ نکلے ۔اس کے بعد یہ سب ننگ انسانیت درندے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔حاجی محمد وریام کی دعا سے اب اس مقام پر غریب محنت کشوں کی ایک سادہ اور پر وقار کچی بستی بن چکی ہے جہاں علم کی روشنی پھیل رہی اور ترقی و خوش حالی کا سفر جاری ہے ۔
 
         علم وہنر سے بے بہرہ اور عقل و خر د سے تہی ’’ تلا کمھار اپنے مسکن ’’ تلے والا ‘‘ میں پروان چڑھا ۔ کچھ عرصہ ’’ دُلے والا ‘‘ (دریا خان )میں اپنے ناناکے پاس رہا،گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے اور در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد گھوم پھر کر یہ بدھو پھر تلے والا آدھمکا ۔ اس جنونی افیونی کی حماقتوں کے باعث لوگ اسے بُدھو کہہ کر پکارتے اس کے بارے میں یہ شعر بہت مشہور ہوا :
 
            ہوگئے لوگ کیا سے کیا  بُدھو
           تُو  وہی  کا  وہی  رہا   بُدھو
 
          یہ مُورکھ تلا کمھار اپنے بدھو ہونے پر جب تلملاتا تو خادم مگھیانوی اُسے لاہور میں دفن اس کے خاندان کے مورث اعلا سُدھواور اس کے بیٹے بدھو کمھارکا حوالہ دیتا جس کا آوا اور مرقد (تعمیر شدہ :1641) آثارِ قدیمہ میں شامل ہے اوراُسے اہم ثقافتی ورثہ سمجھا جاتا ہے ۔ حاجی محمد وریام نے لاہور میں موجود تمام آثار قدیمہ دیکھ رکھے تھے اس لیے وہ خادم مگھیانوی کی تائید کرتے ۔یہ باتیں سن کر تلا کمھار خوشی سے پھولا نہ سماتا اور بدھو ابن بدھو ہونے پر گھمنڈ کرتا ۔ بیس سالہ تلا کمھار گدھا گاڑی چلاتا اور شہر کی تھوک مارکیٹ سے خریدا ہوا پرچون فروش کریانہ کے دکان داروں کا سودا سلف اپنی گدھا گاڑی پر لاد کر ان کی دکانوں میں پہنچاتا ۔ تلا کمھار ایسا مسخرہ تھاجو ہر پرا ئی برات میں دھمال ڈالنے کے لیے بِن بلائے جا پہنچتا اور بڑی تعداد میں کر نسی نوٹ لُٹاکر اپنی حماقتوں کاا ثبات کر تا ۔ اِس متفنی کی پچاس سالہ پڑوسن عیار کٹنی ’’سلونی‘‘  اپنے ہی حربوں سے جب چوتھی بار بیوہ ہوئی تواگلی مرتبہ اس نے تلا کمھار کو ہدف ٹھہرایا ۔ایام کا راکب ہونے کی وجہ سے مستقبل کی پیش بینی کرتے ہوئے حاجی محمد وریام کی حالات پر گہری نظر تھی ۔اپنے سب محرم راز ساتھیوں کی مشاورت سے انھوں نے بدھو کمھارکو اس بے جوڑ شادی سے باز رہنے کی تلقین کی مگر عقل کے اندھے بدھو تلا کمھار نے ہر نصیحت سُنی ان سُنی کر دی ۔ حاجی محمد وریام کی پیش بینی سے یہ بات واضح تھی کہ جہاں تلا کمھار نے اپنے گھر کے بے خواب مقفل کواڑوں کے در کھول کر نئی زندگی کا آغاز کرنے کا قصد کیا ہے وہاں کٹنی سلونی بھی اپنی برسوں پرانی روش پرقائم رہے گی ۔ گردشِ ایام پر گہری نظر ر کھنے والے اور اس مفا دپرست جوڑے کے میل جول کے راز سے آ گاہ لوگ حاجی محمد وریام کی باتو ںسے متفق تھے۔وہ یہ بات بلاخوف و خطر کہتے کہ اس میں کوئی شُبہ نہیں ہونا چاہیے کہ بہت جلد ساتواں در کھلے گا اور کوہِ ندا کی صدا سُن کر تلا کمھار اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔
 
       جب حاجی محمد وریام اور ان کے رفقا کو پختہ یقین ہو گیا کہ مُورکھ تلا کمھار سلونی کی محبت میں ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے اور موت کے منھ میں جانے پر تُل گیا ہے تو سب نے مِل کر اسے نصیحت کی کہ سادگی اور خاموشی سے عقد کر لے ۔معمر اور آزمودہ کار بیوہ سے نکاح کے لیے مولوی الف دین کو بلا لے اور کسی بے دین کو شادی کی دعوت اور دھمال کے لیے ہر گز نہ بلائے۔قرض انسان کا جانی دشمن ہے اس سے بچ کر رہے اور جعلی نمود و نمائش اور دھوم دھام سے بچے مگر تلا کمھار توسلونی کا دیوانہ تھا اور اپنے بے لگام ساتھیوں کے مشوروں پر عمل کرتا تھا ۔شادی کے دن گدھا گاڑی چلانے والے تلا کمھار کے خرچے پر اس کے گھر کے سامنے کرائے کی بیس پجارو گاڑیوں اور تین ائیر کنڈیشنڈ بسوںکا انتظام کیا گیا تھا ۔شہر کے سب تلنگے ،لچے ،مسخرے ،شہدے اور منشیات کے عادی جو تلا کمھار کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے ان گاڑیوں اور بسوں میں گُھس گئے اور اُودھم مچانے لگے ۔تلا کمھار چھیلا بن کر اپنے کچے گھروندے سے نکلا مگرکرائے کی گاڑیوں کی سب سیٹیں تو کب کی بھر چکی تھیں ،نا چار تلا کمھار ڈھٹائی سے ایک بس کے پائیدان پر کھڑا ہو کر گیت سُننے اور سر دُھننے لگا ۔موسیقار نے بینڈ پر یہ دُھن بجائی اور خواجہ سرا یارو سازندہ نے گلا پھاڑ کر حسبِ حال یہ گیت گایا :
 
        پردیساں دا راجااپنے بابل دا پیارا
         ٹھگاں دے دِل دا سہار ا 
        بُدھو  بس دا  ڈنڈا  پھڑیا 
 
      سب سے پہلے براتیوں اور دولھا نے ہیر ،رانجھا کے مقبرے پر پھولوں کی چادر چڑھائی ۔اس کے بعد بدھو کے ساتھیوں نے تریموں ہیڈ ورکس پر دریائے چناب اور دریائے جہلم کے سنگم پر اُٹھنے والی طوفانی لہروں میں جوئے کے رسیا، اجرتی بد معاش اور منشیات کے عادی اس مُردے کو غسل دینے کی غرض سے ایک خاص مقام کا رخ کیا۔دریا کے کنارے پہنچ کر تلا کمھار کے ساتھیوں نے اسے دریا کے کم گہرے پانی میں کھڑا کر کے نہلانے کا قصد کیا ہی تھا کہ سیکڑوں خون آشام نہنگ جبڑے کھولے اس ننگ وجود مُوذی پر چھپٹے ۔ فضا میں بے شمار زاغ و زغن نیچی پرواز کر کے اس کورمغز گدھا گاڑی ہانکنے والے کو اپنی باری بھرنے اور سُوئے عدم چلنے کے بارے میںخبر دار کر رہے تھے۔ بُدھو کے ساتھی اِسے گھسیٹتے ہوئے بڑی مشکل سے بچا کر واپس دریا کے کنارے پر لائے اور برات فوراً واپس  تُلے والا کی جانب روانہ ہو گئی ۔ دو گھنٹے کی لا حاصل مسا فت کے بعد جب یہ ناہنجار اپنی پڑوسن دلہن کے گھر پہنچا تواس مسخرے کی ہئیت کذائی دیکھ کر کسی ستم ظریف نے کہا :
 
             موٹر پہ اُڑ رہا ہے وہ تُلا کمہار دیکھ
             ہے دیکھنے کی چیز اِسے بار بار دیکھ
 
        شادی کیا تھی سود در سود کے قر ض کی صورت میں تلا کمھار کی بر بادی تھی۔ جلد ہی قر ض خواہوں نے اس کور مغز عاشق کا جینا دشوار کردیا ۔شادی کے ایک ہفتے بعد ہی قرض خواہوں اور تلا کمھار میں ہشت مشت کا آغاز ہو گیا ۔جب بھی ان میں کھٹ پٹ کی صور ت پیدا ہوتی پڑوسی جھٹ پٹ اپنے بچنے کی فکر کرتے ۔ایک دن قرض خواہوں کی تُوتکار جب حد سے بڑھی تو فریقین میں دھینگا مشتی اور مار کٹائی کی نوبت آ گئی ۔اس پیکار میں تلا کمھار نے چاقو نکال لیا اور چاقو کے پے در پے وار کر کے ایک ضعیف قرض خواہ کو اَدھ مُوا کر دیا ۔تلا کمھار کو اِقدا م قتل میں دھر لیا گیا اور عدالت کی طرف سے اس کے حبسِ دوام کا حکم صادر ہوا ۔طویل اسیری کے بعدجب تُلا کمھار زندان سے رہا ہو کر اپنے گھر پہنچا تو  اس کے عشق کی سب شورش کافور ہو چکی تھی مگر زمانہ بدل چکا تھا ۔سلونی اپنے نئے شوہر کے ساتھ تُلاکمھارکے آبائی گھر کی مکین اور قابض بن گئی تھی ۔ تیل کے ساتھ تیل کی دھار دیکھ کر تلا کمھار دل برداشتہ ہو کر اپنی جان بچانے کی غرض سے لاہور پہنچا اور شاہدرہ کی سبزی منڈی میں پانڈی بن گیا ۔شام کو وہ اپنے شجرہ کے مورث اعلابدھو کے آوے میں لیٹ جاتا ،جب اس کے اعضا مضمحل ہو گئے اور عناصر میںاعتدال عنقا ہو گیا تو وہ بدھو کے بوسیدہ مقبرے کا مجاور بن گیا اور گزر اوقات کے لیے کاسۂ گدائی تھام لیا مگر اب تو اُسے مانگنے پر بھیک بھی نہ ملتی تھی ۔اسی کس مپرسی ،بے چارگی اور درماندگی کے عالم میں ایک صبح و ہ زینہ ٔ  ہستی سے اُتر گیا۔ مقامی بلدیہ کے ملازمین نے اس اجنبی شخص کی لاوارث لاش کو ٹھکانے لگا دیا۔حاجی محمد وریام کی پیشین گوئی حرف بہ حر ف سچ نکلی۔ حالات کے نباض ،حقائق کی گرہ کشائی پر قادر ،تمام حالات سے آگاہ اورگردِ شِ ایام کے گواہ  لوگ جب اس جانکاہ المیے کے بارے میں سوچتے تو بے اختیار ان کی آ نکھوں سے آ نسو بہنے لگتے اور وہ سب اس نتیجے پر پہنچتے کہ کا ش تُلا کمھار نے عبقری دانش ور اور بے لوث مصلح حاجی محمد وریام کی نصیحت پر عمل کیا ہوتا۔
 
          حرص و ہوس کی کچلی ہوئی مادی دنیا کی تیرگی ٔ مسلسل میں حاجی محمد وریام جیسے بزرگوںکا وجود سرابوں میں بھٹکنے والوں کے لیے نشانِ منزل اور ظلمتوں کے اسیر لوگوں کے لیے ایک مینارۂ نور ثابت ہوا ۔نظام دہر کو تیورا کر دیکھنے والوں پر انھوںنے واضح کر دیا کہ رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام تر اِستعارے سعی ٔپیہم کے مرہون منت ہیں ۔نظام کائنات کو ایک بے ربط سی زنجیر والے سمجھنے قنوطیت کے مارے اور یبوست زدہ لوگوں کی ژولیدہ خیالی کو مسترد کرتے ہوئے ایک جری ،فعال اور مستعد خادم خلق کی حیثیت سے حاجی محمد وریا م نے وطن عزیز کی نئی نسل کو حوصلے اور ہمت کا پیغام دیا اور دلوں کو ایک ولولہ ٔتازہ سے متمتع کیا۔ اپنے ساتھی دانش وروں سے مِل کر حاجی محمد وریام نے فکری بیداری کا اہتمام کیا۔انھوں نے نظام ِکہنہ کے سائے میں عافیت سے بیٹھنے والوں پر واضح کر دیا کہ یہ سب کچھ توایک گِرتی ہوئی عمارت کے ما نند ہے نظامِ کہنہ جو کہ خود ہی غرقاب ہو رہاہے ، اُسے ڈبونے کی سعی  ٔرائیگاں کرنا وقت اور محنت کے ضیاع کے سوا کچھ بھی نہیں۔عمرانیات،علم بشریات اور تہذیب و ثقافت سے حاجی محمد وریام کو گہری دلچسپی تھی۔ان کا خیال تھاکہ سیلِ زمان کی مہیب موجیں جاہ و حشم کے سفینوں کو تو غرقاب کر سکتی ہیں مگر تاریخ کے دفینوں تہذیب و ثقافت کے قرینوں کو کوئی گزند نہیں پہنچتا ۔ہر خطے کی تہذیب و ثقافت ہر صورت میں اپنا وجود برقرا ر رکھتی ہے ۔ حسنِ فطرت سے مالا مال دیہی علاقوں کی تاریخ اور یہاں کی صدیوں پرانی تہذیب و تمدن سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ اس خطے کے ارضی وثقافتی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے دیہاتیوں کی معاشرتی زندگی اور سماجی معاملات پر روشنی ڈالی اور حسنِ فطرت کے دلدادہ پرانے بزرگوں کی وضع داری ،عجز و انکسار ،کفایت شعاری ،قناعت اور مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہوئے بتایا : 
      ’’ مہمان کی گھر میں آمد کو نیک شگون سمجھ کر یہ سادہ لوح مگر بے حد مخلص  میزبان دیدہ و دِ ل فرش ِراہ کر دیتے نہایت بے تکلفی سے پیش آتے اور مقامی سطح پر بلا قیمت دستیاب سادہ غذا سے مہمان کی خوب خاطر تواضع کرتے۔گرمیوں میں گھر میں دھو کر صاف کی ہوئی اور گھر کی چکی پر پیسی ہوئی گندم کے آٹے کی روٹی کے پیڑے میں تاندلہ اور مکھن ملا کر تنور پر روٹیوںکو پکایا جاتا اورپھر اسے کنگ کے سا تھ کھا یا جاتا۔اِسی موسم میں جھنگ کے حفاظتی بند کی دوسری جانب دریائے چناب کے کنارے رہنے والے دیہاتی لوگ کاسنی، تاندلہ، بھیہہ، الونک ، گنار،  پیلکاں ،کُھمبیاں،باتھو اور اکروڑی جیسی خود رو سبزیاں پکاتے جو دیہاتوں میں مفت دستیاب ہیں مگر شہروں میں عنقا ہیں۔ سُنجاونا کے پُھولوں اور پَھلیوں سے چٹخارے دار اچار تیار کیا جاتا تھا۔اسی طرح چنے،گاجریں ،لیموں، لسوڑیاں اور ڈیہلے بھی اچار بنانے میں کام آتے تھے،یہ لوگوں کی من پسند غذا تھی۔ بیر، پیلوں ،پیلکاں ،لسوڑے ،ڈیہلے اور کھجوریں ان لوگوں کے مرغوب پھل تھے قسام ازل نے جن کی مفت فراہمی کا ذمہ لے رکھا تھا۔ موسم کی فراواں سبزیوں مثلاً شلجم ،کریلا،ساگ،مولیاں ،پودینہ، اورمیتھی کو دھوپ میں رکھ کر یادھاگے میں پر وکر ان کے ہار بناکر اُنھیں کھونٹی سے لٹکاکرخشک کر لیا جاتا ،اس کے بعداِنھیں مٹی کے کورے چٹورے میں ڈال کر چٹورے کے منھ پر چپنی رکھ کر لپائی کر کے انھیں محفوظ کر لیا جاتا۔ یہ چٹورے اور چٹوریاں کثیر المقاصد ہوتے تھے ان میں زیورات اور کرنسی نوٹ بھی رکھے جاتے تھے۔ موسم گزرنے کے بعد ان سوکھی سبزیوں کو چٹورے سے باہر نکال کر گھر کے آنگن میں کچی مٹی سے بنائے گئے سروڑ میں پڑے اُپلوں کی آ گ کی آ نچ پرکور ی ہانڈی میں پکا کردسترخوان کی زینت بنایا جاتا۔ ملک کے بڑے شہروں کے ایوانوں میں رہنے والے یورپی، انگریزی اور چینی کھانوں کے دلداہ فیشن زدہ نو جوانوںکو ان خالص ،لذیذ ،مقوی اور صحت بخش پکوانوں کے بارے میں کیابتائیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ کو رچشم بسنت کی بہار کے بارے میں کچھ بھی نہیں سمجھ سکتا۔ سردیوں میں سرسوں کی گندلوںکا ساگ جس میں خود رو بُو ٹی باتھواور ہری مرچ ملائی جاتی تھی ،اس قدرخوش ذائقہ ہوتا کہ کھانے والے اُنگلیاں چاٹتے رہتے ۔  باجرے ،جوار،چنے اورمکئی کی روٹی پر مکھن لگا کرپراٹھے پکائے جاتے ،ان کے ساتھ سرسوں کا ساگ اور چاٹی کی لسی کا مشروب ساتھ، میٹھے کے طور پر گھی شکر یا چُوری میزبان کی دریا دِلی اور مہمان نوازی کا اعلا ترین معیار تھا۔ چنے ، مکئی ،جوار ،باجرے اور منڈوے کی مِرچ مصالحے والی تنوری روٹیوں اور توے کے پراٹھوں کا اپنا مزہ تھا۔گرمیوں میں جو کو بُھون کر اور اسے پیس کر ستُو جیسا فرحت بخش مشروب تیار کیا جاتا تھا جو دِل ، جگر اور معدے کو خنکی کے صحت بخش احساس سے سرشار کر دیتا ۔ سردیوں میں مولی کو کُتر کر اسے دو روٹیوں کے درمیان رکھ کر دیسی گھی میں توے پر پکا کر انتہائی لذیز روٹی تیار کی جاتی جسے ’’بُھسری‘‘کا نام دیا جاتا تھا ۔ قدیم بزرگ اپنی غذا میں گوشت کا استعمال بہت کم کرتے تھے ۔اس زمانے میں مر غ کے گلے پر چھری صرف اسی وقت پھیری جاتی جب یا تو مرغ پر جان کنی کا عالم ہوتا یا مرغ کا مالک شدید علیل ہوتا اور علاج کی خاطر اُسے یخنی پلانے کی نوبت آ جاتی۔اب تو برائلر مرغ کا گوشت باتھو سے بھی سستا ہے مگر ذائقے میں برائلر مرغ کا گوشت باتھو کی گرد کو بھی نہیں پہنچ پاتا۔ برائلر مرغ کے گوشت کی ارزانی دیکھ کر طیورِ آوارہ منقار زیر ِ پر ہیں اور اس فکر میں کھو ئے رہتے ہیں کہ اب ان کے طلب گار کہاں سے آ ئیں گے؟  دریا کے کنارے رہنے والے محنت کش لوگ پیٹ بھر کر گوشت کھانے کے لیے عید ِقرباں کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔ دیسی گھی سے گھر میں تیار کی گئی مٹھائیاں جن میںتمام دستیاب دالوں اور ہرقسم کے خشک میووں کی گُڑ اور دیسی گھی سے تیا ر کی ہوئی میٹھی پھکی ،چینے کا بھت ، بُھنی ہوئی اجناس خوردنی اور گُڑ کے شیرے سے تیار کیا ہوامرنڈا، ٹِکڑے ، بُوندی ،گجریلا ، ٹانگری ، الائچی دانہ ،پتاشے ، پُھلیاں،ریوڑی ،حلوہ ،وڑا ، اور پنجیری شامل ہیں ان کو تیار کرنے والے اور انھیں پسند کرنے والے نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے ۔آج بھی ان قدیم مہربانوں کی بے تکلفی اور بے ساختگی کی مظہر مہمان نوازی اور خوئے دِل نوازی کی یاد آتی ہے تو ان کی دردمندی،وفا،بے لوث محبت اور خلوص کی انمٹ یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔یہ سب دائمی مفارقت دے گئے،ان محفلوں کے ذکر سے دِل میں اِک ٹِیس سے اُٹھتی ہے ،اب دنیا میں ایسی ہستیاں کہاں؟‘‘
         حاجی محمد وریام اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا قلق تھا کہ اس خطے کے صدیوں پرانے پیشے اور ان سے وابستہ محنتی اہلِ حرفہ اب رفتہ رفتہ نا پید ہوتے جا رہے ہیں۔بر صغیر میں برطانوی استعمار کے نوّے سال ایک ایسی تاریک اور بھیانک رات کے مانند تھے جس نے منزلوں کو سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا ۔فکر و خیا ل اور اظہار و ابلاغ کی اس سے بڑی محرومی کیا ہو گی کہ پاکستانی زبانیں اب پرانے پیشوں سے قطعی نا آشناہو چُکی ہیں۔ حاجی محمد وریام مثالیں دے کر واضح کرتے کہ نوے سال کی غلامی نے یہاں کے باشندوں کو ایک مستقل نوعیت کے احساس کم تری میں مبتلا کر دیا جس سے گلو خلاصی کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔اب تو یہ حال ہے کہ ہر پیشے میں انگریزی زبان کی پخ لگانا لوگوں کا وتیرہ بن چکا ہے ۔ اب پرانے پیشوں کا ذکر سُن  کر موجودہ دور میںان سے وابستہ افراد کے غیظ و غضب کا عالم دیدنی ہوتا ہے ۔ماضی کا کنجڑااب ویجی ٹیبل مر چنٹ ،  منیاری کی دکان اب جنرل سٹور ،ونگاں اور چوڑیاں اب بینگلز،مشاطہ اب بیوٹیشن ،صراف اب جیولر ،سقہ اب واٹر مین،  پہلوان اب ریسلر ،ڈُوم اور بھانڈ اب آرٹسٹ ، بہروپیے ،مسخرے اور سوانگی اب ایکٹر،چتڑی کباب اب سنیک بار، ماچھی اور نان بائی اب بیکر ،حجام اور نائی اب باربر، کھوجی اب ٹریکر ،مالشیا اب مساج سپیشلسٹ اور خیاط اب ٹیلر بن گیاہے۔ دیہی علاقوں میں فطرت کی فیاضی کے مظہرکئی لذیذ پھل ،مجرب ٹونے ٹوٹکے اب  شہر و ں کے مکینوں کے لیے اجنبی بن چُکے ہیںاب تو کسی کو ڈیہلوں ، مُساگ،داتن،مِسی،منجن،گُھٹی، سنجاونا،پیلوں،لسوڑوں ،مکو، تاندلہ ،الونک ،اکروڑی،باتھو، عسل،حنظل، منڈوا ،چینا ،سوانک ،جو،کھمبی،تلسی، اکڑا ،بھکڑا ،دھتورا،پٹھ کنڈا،سد اسہاگن،برگد ،نیم اور جنگلی پودینے کی تاثیر کا علم ہی نہیں۔قدرتِ کاملہ نے نہایت فیاضی سے یہ اشجار و اثماردیہات اوران کے قُرب و جوار میں اُگا دئیے ہیں۔ جہاں سے یہ بلا قیمت حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن کوئی شخص اس طرف توجہ ہی نہیں دیتا ۔قدرتِ کاملہ کو اپنے حسن کی عطا کے لیے شہروں سے بن زیادہ عزیز ہیں ۔اب تو ہر شخص بڑے شہروں کا رخ کر رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیہات اپنی دل کشی کھو رہے ہیں۔ان کا خیال تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے افراد کے لیے آسائشوں اور تن آسانی میں اضافہ کر دیا ہے اور کٹھن زندگی کی باتیں اب نا پید ہیں ۔ریفریجریٹر کی فراوانی سے کُوزوں ،صراحیوں،کنالی ، پر ٹوٹے ،مٹکوں ،گھڑوں ،صحنک اور گھڑونچیوں کا قصہ ختم ہوا ۔ اب ماشکی ،مشکیزے،کہار اور ساقی کہیںدکھائی نہیں دیتے ۔ مغل بادشاہ ہمایوں کے عہد میں نظام سقہ نے مجبور عوام کے چام کے دام چلائے مگر بدلتے ہوئے حالات میں نظام سقہ کے حاشیہ بردار نئے روپ میں مشق ستم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب تو چکنے گھڑوں کی فراوانی ہے آج کی سوہنی کو دریائے چناب میں تیرنے کے لیے کوئی گھڑا دستیاب نہیں۔لوٹوں اور لٹیروںکا جھمکا دیکھ کر ہر شخص یاس و ہراس کا شکار ہے۔سگریٹ اور پائپ کا چلن کیا ہوا کہ چلمیں اور حقے عنقا ہو گئے۔ مکانوں میں ا ئیرکنڈیشنر کی تنصیب اور برقی پنکھوں کی فراوانی کے باعث ہاتھوں سے بنائی جانے والی شیشوں سے سجی رنگین پنکھیاںبنانے والی اور یہ پنکھیاں جھل کرسخت گرمی سے نڈھال عزیزوں کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے مسحور کرنے والی سعادت مند لڑکیاں اب کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ مشین گن کی ایجاد کے بعد نہ تیر رہے نہ ترکش، نہ تیرانداز نہ کمان باقی ہے نہ ہی کمان گر کہیں دکھائی دیتے ہیں۔ میزائل ،راکٹ ،ڈرون اور ایٹم بم کی ایجاد کے بعد آلاتِ حرب بھی بدل گئے ہیں بھالا، چَھرا ،چُھرا، زرہ بکتر ، نیزے ،برچھی،خنجر،خود،گُرز اور شمشیر و سناں سب ماضی کا قصہ بن چُکے ہیں۔سٹین لیس سٹیل کے برتنوں کا چلن عام ہوا تومٹی، پیتل ،تانبے اور جست کے برتن ، ان برتنوں کو تیا رکرنے والے اوراس صنعت سے وابستہ دست کاراور صناع سب تاریخ کے طوماروںمیں دب گئے۔اب برتنوں پر نقاشی کرنے والے ماہرینِ فن کہیں دکھائی نہیں دیتے۔پیتل اور تانبے کے برتنوں کو قلعی کر کے چمکانے والے قلعی گر بھی اپنی دُکان بڑھا گئے۔موٹر سائیکل ر کشے ،لوڈر ،ٹرک اور منی ٹرک جب سڑکوں پر ظاہر ہوئے تو رتھ بان،شتر بان ،کوچوان،بیل گاڑیاں اور تانگے غائب ہو گئے ۔بال پوائنٹ اورکاغذ کی ارزانی نے سلیٹ ،سلیٹی، لکڑی کی لوح ،سرکنڈے سے تیار کیے گئے قلم اور سیاہ روشنائی کے ساتھ خوش نویسی کو بھی قصۂ پارینہ بنا دیا۔ برقی ڈاک ،فیکس ،مختصر پیغام کی خدمت (SMS) اور کمپیوٹر کیا آیا کہ ٹیلی پر نٹر ،تار بابو ،ڈاک کا ہرکارہ ،کاتب اور قاصد سب کی چُھٹی ہوگئی۔ ہاں گدھوں اور گدھا گاڑیوں کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی ، ایک گدھے کی تلاش میں نکلو توایک سے بڑھ کر ایک مہا گدھا ہنہناتا ہوا اوردولتی جھاڑتا دکھائی دے گا۔زندگی کی برق رفتاریوں نے ہمیں اپنے ماضی کی نشانیوں سے محروم کر دیا ہے۔ان کا قیاس تھا کہ ماضی کی یہ نشانیاں اب آثار قدیمہ کا حصہ بن کر عجائب گھروں کی زینت بن جائیں گی ۔
       اپنے مشاہدے اور تجربات کی روشنی میں حاجی محمد وریام نئی نسل کو اس بات سے آگاہ کرتے کہ رخشِ حیات سدا رو میں رہتا ہے ۔سلسلۂ روز و شب  کے بارے میں ان کا تاثر یہ تھا کہ نئی منازل کی جستجو اور بلند آفاق تک رسائی اس کا مطمح نظر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر زوردیا اور نئی نسل کو اس جانب مائل کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔مواصلات کے شعبے میں سائنسی ترقی اور اس کے محیر العقول کرشموں سے وہ بہت متاثر تھے اور ان سے مستفید بھی ہوتے تھے۔نعت اورقولی کے وہ دلدادہ تھے ،مولانا ظفر علی خان اور حفیظ تائب کی نعت گوئی کے وہ مداح تھے ۔وہ غلام فرید صابری اور عزیز میاں قوال کواپنے فن میں یکتاقرار دیتے تھے۔فنون لطیفہ اور ادب سے ان کی دلچسپی زندگی بھر بر قرار رہی ۔ قرآن حکیم کی تفسیر ،حدیث کی کتب اور تاریخ اسلام کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا ۔ اس کے علاوہ انھوں نے الطاف حسین حالیؔ، شبلی نعمانی، مولوی نذیر احمد، محمد حسین آزادؔ،سر سید احمدخان، میرزا ادیب ، سجا دحیدر یلدرم ،سعادت حسن منٹو،ممتاز مفتی،قدرت اللہ شہاب ،بانو قدسیہ ،عبداللہ حسین ، انتظار حسین ،صہبا اختر،احمد ندیم قاسمی ،شہرت بخاری، حفیظ ہوشیار پوری ،معین تابش ،ساغر صدیقی ،حبیب جالب،جیلانی کامران،قرۃ العین حیدر اور وزیر آغا کی تصانیف کا مطالعہ کیا ۔ وہ شہر کی ادبی نشستوں میں شرکت کرتے اور شاعری کو ایسا سچا جذبہ قرار دیتے جو تخلیقی فعالیت کے دوران میںسب سے پہلے فکر وخیال کی شکل میں تخلیق کار کے ذہن میں نمو پاتا ہے اِس کے بعد الفاظ کے قالب میں ڈھل کر قاری کے دِل کو مسخر کر لیتا ہے ۔ جھنگ کے ممتاز شاعرمحمد شیر افضل جعفری نے اپنی اردو شاعری میں پنجابی زبان کے الفاظ کو جس سلیقے سے برتا ہے وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ یہ بلند آ ہنگ شاعری ایک ایسی گونج ہے جس کی باز گشت معجزۂ فن کی نمود کے لیے قارئین کے دِل  کے گلشن میں سایہ طلب دکھائی دیتی ہے ۔جھنگ رنگ کی آئینہ دار یہ شاعری قوسِ قزح کا جو دِ ل کش منظر نامہ پیش کرتی ہے، وہ حاجی محمدوریام کو بہت پسند تھا۔
 
           پُھول پُھول  زندگی ،رنگ رنگ زندگی                      
            ہیر ہیر زندگی ،جھنگ جھنگ زندگی 
           دھڑکنوں کے تال پر ناچتی سہاگنیں                            
          بانہہ بانہہ زندگی ، وَنگ  وَنگ زندگی 
           دل ربا گوالنیں رس بھری کٹوریاں
            دُودھ  دُودھ  زندگی ، کنگ کنگ زندگی
           ٹہنیوںکی گِسنیوںمیں ریشم کی ڈوریاں ہیں                    
             پینگوں پہ لہلہاتی چونچال چھوریاں ہیں
          اَلہڑ سوانیاں ہیں،اُٹھتی جوانیاں ہیں                             
           چاندی کی گردنوں میںسونے کی گانیا ں ہیں
 
      قدیم شہر کے مغربی حصے میں حاجی محمد وریام کے گھر کے سامنے ایک کشادہ کوچہ ہے جس میں ہاتھ سے چلنے والی کھڈی پر دریا ں تیار کرنے والے دست کاروں کے چالیس گھر آباد ہیں۔مقامی لوگ اسے کوچۂ چہل دست کاراںکے نام سے پکارتے ہیں۔اسی کوچے میں بصارت سے محروم ایک ضعیف دست کار نُور خا ن بھی رہتا ہے ۔حاجی محمد وریام کے ساتھ اس کی عقیدت سے لبریز رفاقت پچا س سال کے عرصے پر محیط ہے ۔ فرشی دریوں کے کاروبار میں اُس نے رِزقِ حلال کما کر تلاوت اور حمد و نعت کی محفلوں کا انعقاد کرکے خوب انجمن آ رائی کی اور فلاحی کاموں میں بھی حصہ لیتا رہا ۔وہ اکثر کہا کرتا ہے کہ بصار ت سے محروم ہونے کے باوجود اسے جوبصیرت نصیب ہوئی وہ حاجی محمد وریام کی دعاؤںکا ثمر ہے ۔جن کی روحانیت ،معرفت اور کشف و کرامات کے سیکڑوں مظاہر نہ صرف اہلِ عالم نے دیکھے بل کہ چشم مہر و مہ و انجم
 
 نے بھی ان کی تحسین کی ۔اس نے بتایا کہ ان کے فیضانِ نظر سے مجھے اپنے دِل کے آئینے میں کاروبارِ جہاں اور جلوہ ٔ تقدیر دیکھنے کا قرینہ آ گیا۔میں اگرچہ پیدائشی طور پر محروم تماشا تھا مگر حاجی محمد وریام کی دعائے نیم شب کے معجز نما اثر سے میںاپنے دِ ل کی آ نکھ سے زرقا الیمامہ کی طرح مستقبل قریب میں رُو نما ہونے والے واقعات کی دُھندلی سی تصویر دیکھنے لگا۔
      جھنگ کے قدیم شہر اور اس کے مضافات میں واقع کھنڈرات اور بوسیدہ عمارات کو دیکھ کر اہلِ در دپتے کی بات کرتے ہوئے انھیں طوفانِ نوحؑ کی باقیات قرار دیتے ہیں۔اپنے مافی الضمیرکے اظہار و ابلاغ کے سلسلے میں حاجی محمدوریام کا منفرد انداز تھا۔ وہ زبان کے بجائے نگاہ سے فیصلہ کرتے تھے اور جب وہ یہ باتیں سنتے تو ان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی۔شہر کے جنوبی سرے پر قدیم شہر کو نئے شہر سے ملانے والی سڑک کے مغربی کنارے پر کمبل بنانے کا ایک کارخانہ ہے اور اس سڑک کے مشرقی کنارے پر طالبات کا ایک ثانوی سکول ہے۔چند قدم آگے چلیں تو اِس سڑک کا ماحول انتہائی پُر اسرار ہو جاتا ہے
 
 ۔اس سڑک کے مغرب میں تیرہ سو سال پرانا شہر خموشاں ہے جس کے وسط میں مذبح خانہ تعمیر کیا گیا ہے ۔اسی سڑک کے مشرق میں حد ِ نگاہ تک پھیلا ہوا ہزاروںسال پرانا ایک بے آب و گیاہ ریگستان تھا جس کے آخری سرے پر قیام پاکستان سے پہلے شمشان گھاٹ تھا۔اس صحرا کے بارے میں یہ روایت مشہور ہے کہ ہر عہد کے مجنوں اور پُنوں یہاں صحرانوردی کرتے رہے۔ مافوق الفطرت عناصر نے شہر خموشاں اور صحرا کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا تھا۔رات کی تاریکی میں اس جگہ بُھوت،چڑیلیں ،پریاں ،جِن،آدم خور ،سر کٹے مُردے اور اُچھلتے ہوئے کاسۂ سر دیکھے جاتے۔ نصف النہار کے قریب شمشان گھاٹ سے نمودار ہونے والے مردہ انسانوں کے سوختہ ڈھانچے رقص ِابلیس میں اپنے ہذیاں کازیاں کرتے۔فضا میں بڑے بڑے اُلّو،گدھ ،زاغ و زغن اور چمگادڑ رات بھر محو پرواز رہتے اور مافوق الفطرت عناصرسے اظہار نفرین کرتے ہوئے ان پربے دریغ ضماد گراتے۔رات ڈھلنے کے بعد شہر کے لوگوں کے لیے شہر خموشاں اور صحرا ممنوعہ علاقہ بن جاتا۔ تیس برس قبل ایک منحوس صبح اسی صحرا کے ایک ٹنڈ منڈ درخت کے نیچے منشی گل خان کے نوجوان بیٹے کی لاش ملی۔ صحرا میںجنڈ کے درخت کے نیچے اپنے نوجوان اکلوتے بیٹے کی لاش دیکھ کر منشی گل خان کادِل ٹُوٹ گیا۔وہ ہر وقت جنڈ کے درخت کے نیچے چپ چاپ پڑا رہتا ۔اِس تلخ یاد کو مٹانے کے لیے جنڈ کے سُو کھے درخت کو کاٹ دیا گیا۔درخت کیا کٹا کہ اس کے ساتھ ہی منشی گل خان کا رشتۂ جاں ہی کٹ گیا ۔پے در پے نہ ہونے کی ہونی دیکھنے کے بعدمنشی گل خان فرشِ زمین پر ایسا بیٹھاکہ پھر اُس کا جنازہ ہی اُٹھا۔ مصیبت زدہ بُوڑھے باپ کو نو جوان بیٹے کے پہلو میںسپردِ خا ک کردیا گیا۔ زندہ در گور پس ماندگان نوحہ کناں تھے اور یہ سوچتے تھے کہ اس علاقے کے اجل گرفتہ مظلوموں کی تشنہ لب روحیں کب تک ہزاروں سال پُرانے اس پُر اسرارصحرا میں انصاف طلب بن کر بھٹکتی رہیں گی۔ شام ہوئی تو سیکڑوں طیور کٹے ہوئے درخت کے گِرد اکٹھے ہو گئے ۔ا س جگہ رات بھرپرندے زمین پر چونچیں مار مار کر اورچیخ چیخ کر اس المیے پر دلی کرب سے دہائی دے رہے تھے جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس سانحہ کے بعد ان مصیبت زدہ طیور کا کلیجہ پھٹ جائے گا:
 
       کٹ گیا درخت مگر تعلق کی بات تھی 
       بیٹھے رہے زمیں پہ پرندے ہی رات بھر
 
          منشی گل خان کے ساتھ حاجی محمدوریام کا درد مندی اور خلوص کا گہرا تعلق تھا ۔حاجی محمد وریام نے موقع پر پہنچ کر ریت کے صحرا کے اس مقام کو اپنے آنسوؤ ںسے سینچتے ہوئے اپنے خالق کے حضور گِڑ گِڑا
 کر دعا مانگی۔ باطن کے چمن زار پر نظر رکھنے والے اس درویش کی دعا نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا اور ایک خا ک نشین فقیر منشی گل خان کے بیٹے کا خون جو صحرا کی ریت میں جذب ہو گیا تھا جلد رنگ لایا ۔ اب یہ صحرا  سکردو کے دیو سائی نیشنل پار ک کے مانند ایک وسیع و عریض باغ میں بدل چکا ہے۔ اس کے وسط میں ایک عالی شان کتب خانہ بن چکا ہے اور مشرقی سمت طالبات کا ایک ڈگر ی کالج روشنی کے سفر کا آغاز کر چکا ہے ۔ اس پارک میں سیکڑوں اقسام کے پھول دار اور پھل دار پودے اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ شہرِ خموشاں کے چاروں طرف بلند چار دیواری تعمیر کر دی گئی ہے ۔رات کے وقت ان مقامات پر روشنی کا انتظام ہے اور مسلح محافظ ہر وقت مستعد رہتے ہیں۔مافوق الفطرت عناصر کا اب کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔اب کسی بھی ان جانے خوف سے اس جگہ اُگنے والے پودوں کے تنے اور پتوں کا رنگ زرد نہیں ہوتا اور اجل کے مسموم بگولو ںکی سرسراہٹ ان پودوں کی نمو کو کبھی روک نہیں سکتی ۔جس جگہ سے کوئی شاخ ٹُو ٹتی ہے ،وہیں سے نئی کو نپل پُھوٹتی ہے ۔
        حاجی محمد وریام اور ان کے ساتھیوں کی معرفت خداوندی ،فقر و استغنا ،اللہ مستی اور خود گزینی اور کشف و کرامات کے بارے میں عقل محو تماشائے لب بام دکھائی دیتی ہے ۔اقلیم معرفت کے فرماں روا اور آدابِ خود آ گہی کے رمز آ شنا ان بزرگوں کی زندگی روشنی کا ایک مینار رہی ۔فقر و مستی اور درویشی و قلندری کا قریہ بھی عجب قرینہ رکھتا ہے جہاں کے محرم راز جذبِ دروں سے سرشار ہو کر مال و دولتِ دنیا سے بے تعلق رہتے ہیں اور پارس جیسے پتھروں کو بھی پائے استحقار سے ٹھکر ا دیتے ہیں ۔حاجی محمد وریام کی زندگی سر چشمۂ فیض تھی اور وہ ایک شجرِ سایہ دار کی طرح دُکھی انسانیت کو آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں رہتے  تھے۔ان کی رحلت کے بعد وفا کے سب افسانے دم توڑ گئے ۔ حاجی محمد وریام جیسے مقرب بارگاہ بزرگوں کا وجود اہل عالم کے لیے خالق کائنات کا بہت بڑا انعام ہے ۔ان کے افکار و اعمال ان کے معتقدین کے لیے سدا خضرِ راہ ثابت ہوئے ۔ان کی وفات پرہم خو دکو فکری اعتبار سے تنہا اور بے بس محسوس کرتے ہیں ۔اب اپنی دعائے نیم شب میں ہماری کامیابی ، مسرت ،سلامتی اور صحت کی دعا کون کرے گا؟ہمارے گھر کے درو بام پر محرومی ،اُداسی اور حزن و یاس کے سائے بڑھنے لگے ہیں ۔ان کی رحلت کے بعد بھی موضوع گفتگو نہیں بدلا بل کہ ہر محفل میں ان کا ذکر اچھے لفظوں  میں کیا جاتا ہے ۔اس وقت اُردو زبان کے جدیدلہجے کے شاعر اسلم کولسری (1946-2016)کے یہ اشعار میرے جذبات حزیں کی تر جمانی کر رہے ہیں : 
 
         سوچ سوالی کر جاتے ہیں
       صبحیں کالی کر جاتے ہیں
       اسلم ؔ چھوڑ کے جانے والے
        آنکھیں خالی کر جاتے ہیں
 
----------------------------------------------------------------------
 
Dr.Ghulam Shabbir Rana
(Mustafa Abad Jhnag City)
     
Comments


Login

You are Visitor Number : 936