donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Gholam Shabbir Rana
Title :
   Haji Md Yousuf - Shahar Me Ik Chiragh Tha Na Raha


 حاجی محمد یوسف :شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا


 غلام شبیر


 کر رہا تھا غم جہاں کا حساب               آج تم یاد بے حساب آئے


          حاجی محمد یوسف جنھیں ہم دیکھ دیکھ کر جیتے تھے وہ آج سے بیس برس قبل دائمی مفارقت دے گئے ۔وہ آنکھوں سے تو  اوجھل ہو گئے مگر دل میں ان کی یاد ہمیشہ موجود رہی ۔ایسے یادگار زمانہ لوگ لوح جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیتے ہیںاور جریدہء عالم پر ان کی فقید المثال کامرانیوں اور عظیم الشان خدمات کی داستان  کے انمٹ نقوش تا ابد نگاہوں کو خیرہ کرتے رہیں گے ۔حاجی محمد یوسف 6۔اگست 1922کوممنا گیٹ  جھنگ شہر کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔عالمی شہرت یافتہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ )ان کے قریبی رشتہ دار تھے ۔ان کے والدکا آبائی پیشہ تجارت تھا ۔تجارت اور کاروبار کے سلسلے میں ان کے والد نے بر عظیم پاک و ہند کے اہم تجارتی مراکز کا سفر کیا اور اس عہد  کی جن نامور شخصیات سے ملاقات کی ان میں سر سید احمد خان ،مولانا شبلی نعمانی،محسن الملک ،وقار الملک ،حسرت موہانی ،مولانا ظفر علی خان ،مولانا محمد علی جوہر ،مولانا شوکت علی ،مولانا محمد حسین آزاد  ،ابولکلام آزاداور مولوی فضل حق کے نام قابل ذکر ہیں  ۔حاجی محمد یوسف کے آبا و اجداد نے اس علاقے میں تبلیغ اسلام کے لیے اہم خدمات انجام دیں ۔ فروغ تعلیم کے لیے ان کی مساعی کا ایک عالم معترف ہے،  برطانوی استعمار کے وہ سخت خلاف تھے۔ان کے والدین نے اپنے لخت جگر کی تعلیم و تربیت پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اورانھیں دینی و دنیاوی تعلیم کے لیے اس وقت کے ممتا ز تعلیمی  اداروں میں بھیجا ۔حاجی محمد یوسف دسویں جماعت کے طالب علم تھے  جب وہ اپنے والد کے ہمراہ علی گڑھ گئے ۔اس موقع پر انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  دیکھی اور سر سید  احمد خان کی تربت پر حاضری دی ۔بر عظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ کے اس محسن کے حضور اپنے جذبات حزیں کا نذرانہ  پیش کر نے کے لیے انھوں نے علامہ اقبال کی نظم ’’سید کی لوح تربت ‘‘بلند آواز سے تحت اللفظ پڑھی تو وہاں موجود تمام حاضرین پر رقت طاری ہو گئی۔

سنگ تربت ہے مرا گرویدہء تقریر دیکھ                  چشم باطن سے ذرا اس لوح کی تحریر دیکھ

       علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا  اس ہو نہار طالب علم کے جذبہء ملی سے بہت متاثر ہوئے اور حاجی محمد یوسف کو سر سید احمد خان کے رجحان ساز مجلے ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘کی جلد پیش کی ۔اس سفر نے نوجوان محمد یوسف کے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی اور جب وہ گورنمنٹ کالج جھنگ میں زیر تعلیم تھے تو انھوں نے اس مادر علمی میں بھی وہی ماحول پایا جو وہ علی گڑھ میں دیکھ چکے تھے ۔گورنمنٹ کالج جھنگ نے 1926میں روشنی کے سفر کا آغاز کیا۔حاجی محمد یوسف نے اس عظیم مادر علمی سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ان کی رائے تھی کہ اس ادارے میں داخلہ لینے ولا ہر طالب علم نیکی اور سعیء پیہم کا سفیر بن کر باہر نکلتا ہے ،یہاں سے نکلنے والی ہر راہ منزل کا پتا دیتی ہے  ۔وہ اس تاریخی درس گاہ سے بہت محبت کرتے تھے اورجب بھی اس طرف سے گزرتے تو جھک کر آداب بجا لاتے ،ایام گزشتہ کی تاریخ کے اوراق ان کی آنکھوں کے سامنے آ جاتے ،آنکھیں پر نم ہو جاتیں اور گلوگیر لہجے میںیہ شعر پڑھ کر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے تھے :

             اے وادیء جمیل میرے دل کی دھڑکنیں                آداب کہہ رہی ہیں تیری بارگاہ میں

         1940کا آخری مہینہ ان کی عملی زندگی کا پہلا مہینہ ثابت ہوا جب وہ برطانوی فوج میں بھرتی ہو گئے ۔  اس وقت دوسری عالمی جنگ زوروں پر تھی ۔انگریزوں نے نازیوں کے خلاف جاری  اپنی جنگ میں بر عظیم کے مظلوم عوام کو بھی جھو نک دیا ۔اس جنگ میں وہ مختلف محاذوں پر برطانوی فوج کے ساتھ خدمات پر مامور رہے ۔وہ جہاں بھی گئے سیاحت کا شوق انھیں اہم مقامات پر کشا ں کشاں لے گیا ۔برما میں اپنے قیام کے دوران وہ رنگون میں جلا وطنی کے عالم راہی ء ملک عدم ہونے والے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قبر پر بھی گئے ۔تاریخ کا لرزہ خیز اور اعصاب شکن سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔اقوام عالم جب تاریخ اور تاریخ کے مسلسل عمل سے غافل ہو جاتی ہیں تو ان کا جغرافیہ یکسر بدل جاتا ہے ۔سیل زماں کے مہیب تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو بہا لے جاتے ہیں ۔ تاریخ کے پیہم عمل پر ان کی گہری نظر تھی ۔حاجی محمد یوسف اکثر کہا کرتے تھے کہ آشوب زمانہ سے غافل رہنے والے عبرت کی مثا ل بن جاتے ہیں۔مغلوں کے زوال میں ان کی شامت اعمال کا بڑا دخل ہے ۔وہ قوم جو جری سپاہی ،جانباز  سالار ،زیرک مہم جو اور بلند ہمت قائد پید ا کرتی تھی وہ بانکے ، رجلے خجلے ،مسخرے اور شہدے پیدا کرنے لگی ۔قوموں کی اجتماعی زندگی میں یہ بہت برا شگون ہے ۔بہادر شاہ ظفر کی قبر پر پہنچ کر گریہ ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے ۔اس موقع پر انھوں نے بہادر شاہ ظفر کے یہ اشعار پڑھ کر اپنا تزکیہ نفس کرنے کی سعی کی :

 لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیا ر میں            کس کی بنی ہے عالم نا پائیدار میں

 کتنا تھا بد نصیب ظفر دفن کے لیے               دو گز زمیں بھی مل نہ سکی کوئے یار میں

        دوسری عالمی جنگ کے دوران حاجی محمد یوسف کو فوجی خدمات کے سلسلے میں برطانوی فوج کے سپہ سالاروں نے کئی محاذوں پر بھیجا۔وہ ان مسلسل تبادلوں سے دل برداشتہ نہ ہوئے بل کہ بڑے حوصلے اور اعتماد سے کہا کرتے تھے کہ کوئی بھی  ملازمت ہو اس میں ملازم  تو تقدیر کے تیر مانند ہے  اور افسر کی مثال مشاق  تیر انداز کی سی ہے جس جگہ  پر افسر نے تیر انداز کی طرح  نشانہ لگایا ماتحت ملازم  تیر کی طرح سیدھا  وہیں جا پہنچا ۔اس عمل میں جو تیر نشانے پر نہیں پہنچتا اس کی منزل رائیگاں جاتی ہے اور سراب اس کا مقدر بن جاتے ہیں ۔شکم کی بھوک انسان کو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیتی ہے لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ انسان کو دنیا کے حالات کا مشاہدہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔اس عالم آب و گل کے تجربات و حوادث ،مشاہدات و مناقشات اور نشیب و فراز فکر انسانی پر جو تاثر چھوڑتے ہیں وہ کسی نہ کسی صورت میں نئی نسل کو منتقل ہو جاتا ہے ۔دوسری عالمی جنگ میں حاجی محمد یوسف نے مصر ،عراق اور شام کے مختلف محاذوں پر فوجی خدمات انجام دیں ۔فوج میں اپنے عرصہء ملازمت کے دوران انھیں جن فوجی دانش وروں سے ملنے کا موقع ملا ان میںسید ضمیر جعفری ،  کیپٹن سید جعفر طاہر ،کرنل محمد خا ن اور بریگیڈئیر صدیق سالک  شامل ہیں ۔ان سے حاجی محمد یوسف کا معتبر ربط زندگی بھر بر قرار رہا ۔


        حاجی محمد یوسف اپنے عہد کے ایک ایسے درویش تھے جن کی ہر دعا قبول ہوتی تھی ۔اپنے زہد و تقویٰ او ر نیک اعمال و عبادات کی وجہ سے ہر مکتبہء فکر کے لوگوں میں انھیں بے حد عزت و احترام حاصل تھا ۔ اپنے معاصرین میں وہ ممتاز مقام رکھتے تھے ۔نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا ،نیکی کی تبلیغ کرنااور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ان کا معمول تھا ۔اللہ کے نیک بندوں اور مقرب بارگاہ درویشوں کی پہچان ان کا امتیازی وصف  تھا۔ان کے قریبی احباب میں اس دور کے کئی صاحب باطن فقیر  اور معرفت کے سمندر کے شناور درویش  شامل تھے ۔ان میں غلام علی چین ،میاں اللہ داد ،حکیم احمد بخش (چار آنے والا حکیم ) ،محمد شیرافضل جعفری ،امیر اختر بھٹی ،اللہ دتہ (ایک آنے والا حجام )،محمد بخش آڑھتی ،ملک محمد عمر حیات ،اللہ دتہ سٹینو ،حکیم محمد اسماعیل ،ڈاکٹر محمد کبیر خان ،میاں مودا (مراد علی )،رانا عبدالحمید خان ،ڈاکٹر سید نذیر احمد اور صاحب زادہ رفعت سلطان جیسے زعما شامل تھے ۔غلام علی چین کہا کرتے تھے جو حاجی محمد یوسف کا معتقد نہیں وہ تو آپ بے بہرہ ہے  جھنگ کے ایک درویش منش محنت کش کرموں موچی (کرم دین جفت ساز)جس کا ذکر قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت شہاب نامہ میں بھی کیا ہے کے ساتھ حاجی محمد یوسف کے قریبی مراسم تھے۔کسی نے سچ کہا ہے کہ ولی کی پہچان صرف ولی ہی کر سکتا ہے ۔حاجی محمد یوسف نے کرموں موچی سے زندگی بھر عہد وفا استوار رکھااور اس فقیر انسان کی زندگی کو مثالی قرار دیا۔ایک مرتبہ  حاجی محمد یوسف اپنے احباب ،معتقدین اور  اقرباکی محفل میں بیٹھے ان کو وعظ و نصیحت کر رہے تھے کہ کسی عقرب نے حاجی محمد یوسف کی موجودگی میں ان کے سخت اصلاحی رویے،خواتین میں  پردے کی پابندی پر اصرار،مغربی تہذیب سے نفرت اور نو عمر طالب علموں کی کوتاہیوں پر کڑی تنقید کی شکایت کی تومحفل میں موجو دسب لوگ طیش میں آ گئے۔ان سب کا خیال تھا کہ قحط الرجال کے موجودہ دور میں حاجی محمد یوسف جیسے مقرب بارگاہ فرشتہ صفت درویش کا وجود اللہ کریم کابڑا انعام ہے  ۔ایک شخص نے کہاکہ تم ایک ایسے مر د قلندر کے رویے سے نالا ںہو جس نے زندگی بھر کسی کا دل نہیں دکھایا اور جس نے اپنی تمام جمع پونجی تبلیغی اور اصلاحی کاموں میں صرف کر دی۔سارے جہاں کے درد کو اپنے جگر میں سمو لینے والے اس پیکر ایثار کا طر ز زندگی لائق تقلید ہے ۔اس محلے میں مسجد کی تعمیر میں ان کا سب سے بڑا حصہ ہے ۔حاجی محمد یوسف نے مسکراتے ہوئے سب باتیں خاموشی سے سنیں اور کوئی جواب نہ دیا ۔اس موقع پر پاس بیٹھے ہوئے ان کے پڑوسی اور مزاج آ شنا رانا سلطان محمود نے یہ شعر پڑھا تو وہ کور مغز اور بے بصر شخص اپنے کیے پر نادم ہوا اور اس عقرب کا ڈنک جھڑ گیا۔

اگر یوسف سا درویش نظروں میں نہیں جچتا             تو جا اور جا کے اہل اللہ کی پہچان پیدا کر


          پاکستان کی مسلح افواج سے ریٹائرمنٹ کے بعد حاجی محمد یوسف نے اپنا تما م وقت اصلاحی اور خدمت خلق کے کاموں کے لیے وقف کر دیا ۔ ڈسٹرکٹ آرمڈ سروس بورڈ  جھنگ نے ان کا تقرر بہ حیثیت ویلفئیر آفیسر کر دیا ۔اس عہدے پر وہ اعزازی خدمات انجام دیتے تھے۔انھوں نے اس عہدے پر اپنی تعیناتی کے بعد  سابق فوجیوں،سابق فوجیوں کی بیوائوں ، ان کی کم سن  اولاد اور قریبی رشتہ داروں کی فلاح کے لیے انتھک جد و جہد کی ۔بیوائوں کی فیملی پنشن کے لیے انھوں نے محکمہ ڈاک کے اہل کاروں کو منت سماجت اور ذاتی اثر و رسوخ استعمال کر کے  اس بات پر آمادہ کیا کہ ان ضعیف بیوائوں کو اس عالم پیری میں جب کہ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہیں ان کی فیملی پنشن کسی صورت میں ان کے گھر پہنچا دی جائے۔اس قسم کی چند استثنائی مثالوں سے جہاں محکمے کا وقار بلند ہوا وہاں ان چراغ سحر ضعیفوں نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ ضلع جھنگ کے دور افتادہ مقامات پر جا کر وہ سابق فوجیوں سے ملاقات کرتے اور ان کے مسائل کے بارے میں آگہی حاصل کرتے ۔ان کی تکالیف اور شکایات کے ازالے کے لیے وہ  متعلقہ شعبے سے رابطہ کرتے ۔  ضلع جھنگ کے دورافتادہ علاقوں کا یہ سفر حاجی محمد یوسف کے لیے دوہری افادیت کا حامل ثابت ہوتا تھا ۔ایک تو معمر فوجیوں کے مسائل معلوم ہوتے اور ان کی شکایات کے ازالے کی صورت پیدا ہوتی دوسرے ان کے دیرینہ رفیق اور سماجی کارکن  حکیم احمد بخش  (چار آنے والے حکیم )کے  مطب کے لیے درکار کئی نایاب جڑی بو ٹیا ں بھی بلا قیمت  وافر مقدار میں مل جاتیں ۔  اسی قسم کے ایک سفر میں ایک مرتبہ جب وہ کوٹ شا کر  گئے تو ان کا ایک عقیدت مند ڈوڈی والے پنیر کے تین ٹوکرے  تلاش کر کے لایا  اور حنظل  کے دو بورے بھر کر لایا ۔ اس نے یہ قیمتی جڑی بو ٹیاں بس کی چھت پر رکھوا دیں ،جھنگ پہنچ کرحاجی محمد یوسف نے مزدور کو بلایا اور گدھا گاڑی پر لدوا کر حکیم احمد بخش کے مطب میں جب یہ جڑی بوٹیا ںپہنچائیں تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے ۔کہنے لگے کہ ان کا دواخانہ جس انداز میں خدمت خلق کا سلسلہ  جاری رکھے ہوئے ہے اس کا تمام سہرا حاجی محمد یوسف اور غلام علی چین کے  سر ہے جو ان سے بھی زیادہ ادویات کی فراہمی کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ حکیم احمد بخش (چار آنے و الا حکیم )ان مریضوں کو جو آدھے سر کے درد یا پائوں کے تلوے میں جلن کی تکلیف میں مبتلا ہوتے یہ نسخہ تجویز کرتے کہ وہ ایک ماہ تک متاثرہ جگہ پر مسلسل بھیرے کہ مہندی کا لیپ کریں ۔ جھنگ میں مہندی کے پتوں کا کہیں سراغ  نہیں ملتا  ۔اب تو کھیتوںمیں جہاں سرو و صنوبر کثرت سے اگا کرتے تھے ،وہاں پوہلی ،کریر اور زقوم کی فراوانی ہے ۔جن پگڈنڈیوں پر سر شام چراغ فروزاں ہو جاتے تھے اب وہاں چراغ غول کے سوا کچھ موجود نہیں ۔عقابوں کے آشیانوں میں بوم اور شپر گھس گئے ہیں۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کس سمت میں چل نکلے ہیں۔منیاری والے ایک کون شکل کی پڑیا میں جو مہندی کے نام پر محلول فروخت کرتے ہیں اسے ہاتھوں پر لگانے سے وقتی طور پر تو ہتھیلیاں سرخی مائل ہو جاتی ہیں لیکن بعد میں تو ہتھیلیوں کی کھال ہی ادھڑ جاتی ہے۔اس تکلیف  کی وجہ سے مہندی سے ہاتھ رنگنے والوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں ۔اس لرزہ خیز  اعصاب شکن صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس تیزابی محلول کا سر پر لیپ کرنا گنجے پن کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ اب جھنگ سے سرگودھا  اور وہاں سے بھیرے جانا اور وہاں سے بھیرے کی مہندی لانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ حاجی محمد یوسف نے کئی بار حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم ) سے کہا کہ وہ بے بس مریضوں سے ہفت خواں طے نہ کرایا کریں لیکن حکیم صاحب کب ماننے والے تھے ۔ان کا تو ہر نسخہ مستند ہوا کرتا تھاجسے من و عن مکمل کرنا  مریض اور اس کے لواحقین کے لیے از بس ضرری تھا۔اس نسخے کے اجزا جمع کرنے میں کوئی اپنی جان سے جائے اس کی کسے پروا ہے ۔ حسن اتفاق سے حاجی محمد یوسف کے پاس ایک مرتبہ ایک متمول  ملاقاتی آیا جس کی سسرال بھیرے میں تھی ۔حاجی محمد یوسف نے اسے حکیم احمد بخش  (چار آنے  والا حکیم )کے طبی نسخے کے بارے میں بتایا  تو یہ گفتگو سن کر وہ بے تحاشا  ہنسنے لگا اور بولا کہ یہ بھی کوئی فرمائش ہے چند روز بعد اس کے سسر کا مزارع  چار من بھیرے کی مہندی لے کر آ پہنچا۔بوڑھا دیہاتی جب مہندی کی بوریاں مطب کے گودام میں رکھ رہا تھا تو وہ یہ ماہیا گنگنا رہا تھا :

              مہندی بھیرے کی
              سوکھ گئے غم سے
              جھوٹی رونق چہرے کی

           اس سادہ لوح دیہاتی کی بے تکلفی اور خلوص نے سب کو بہت متاثرکیا۔حاجی محمد یوسف نے کہا کہ حسن بے پروا کواپنی بے حجابی کے لیے بلاشبہ شہروں سے بن ہی پیارے ہیں۔دیہاتوں کی ہر چیز خالص ہے کہیں ملاوٹ کاشائبہ تک نہیں ہوتالیکن ایک چیز تو خالص ترین صورت میں ملتی ہے وہ ہیں جذبات۔ باہمی معاملات میں کسی ملاقاتی سے خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا یاغیظ و غضب کا مظاہرہ کرناہر شخص کا ایک اختیاری فعل ہے اوریہ اس کے لیے بے حد سہل بھی ہے لیکن اصل مشکل یہ ہے کہ ہم کسی ملاقاتی کو کیسے قائل کریں کہ وہ ہماری پسند یا نا پسند کا خیال رکھتے ہوئے موقع ومحل کی مناسبت سے ہمارے ذوق کے مطابق شیوہ ء گفتار اپنائے ۔اس کے لیے برداشت اور صبر و تحمل کی ضرورت ہے جو رفتہ فتہ عنقا ہو رہا ہے ۔آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سسکتی ہوئی انسانیت کے مسائل چلتے پھرتے ہوئے مردوں اور سنگلاخ چٹانوں کے سامنے پیش کرنے پڑتے ہیں ۔ان مسموم حالات میں غلام علی چین ،حکیم احمد بخش (چار آنے والا حکیم )،اللہ دتہ (ایک آنے والا حجام )،جھنگ کا کرموں موچی(کرم دین ) ،اللہ دتہ سٹینواور میاں مودا (مراد علی )کا وجود ایک نعمت ہے جو ہمیں آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے میں  ہمہ تن مصروف ہیں۔یہ صدی زبان حال سے جو کچھ کہہ رہی ہے اسے سن کر ناطقہ سر بہ گریباں ہے اور لفظ ہونٹوں پر پتھرا گئے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ نوائے سروش کو دھیان سے سنیں ۔لوگ ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے آنسو چھپا کر اپنی قناعت کا بھرم قائم رکھتے  ہیں ۔ان کا مجلسی تبسم ان کی زندگی کے حقیقی موسم کا ترجمان نہیں ہوتا ۔سب موسم تو دل کے کھلنے اور مر جھانے سے ہوتے ہیں ۔خزاں اور بہار تو محض علامات ہیں ۔


     جھنگ میں ضلعی صدر مقام پر سابق فوجیوں کے قیام کے لیے  اپنی مدد آپ کے تحت سولجر ریسٹ ہائوس کا قیام ان کی مساعی کا ثمر ہے ۔ اس سولجر ریسٹ ہائوس میں پاکستان کی مسلح افواج کے  ہر رینک کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس سولجرز کے قیام کا نہایت معیاری انتظام کیا گیا ہے ۔حاجی محمد یوسف کہا کرتے تھے کہ کٹھن  زندگی بسر کرنے کے عادی سولجرز نے اس سولجرز ریسٹ ہائوس کو کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا اور  ان کی خطر پسند طبیعت نے حیات جاوداںکے راز کو ستیز کے اندر ہی پو شیدہ سمجھا۔شاذ و نادر ہی کسی سولجر نے اس سولجر ز ریسٹ ہائو س کا رخ کیا ہوورنہ عام حالات میں تو اس عمارت میں دن کے وقت ڈسٹرکٹ آرمڈ سروسز بورڈ کا عمل دفتری کاموں میں مصروف رہتا ہے اور رات کے وقت ایک معمر چوکیدار عمارت کے بر آمدے میں ایک کھاٹ پر  پڑا  حقہ پیتا ااور کھانستا رہتا ہے ۔سچ ہے اس عمر میں وہ اور تو کچھ کرنے سے رہا۔مایہ ناز مزاح نگار اور اردو شاعری میں ظرافت کی اصلاحی  روایات کو استحکام بخشنے والے شاعر سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:


 تھی شب تاریک چور آئے جو کچھ تھا لے گئے       کر ہی کیا سکتا ہے بندہ کھانس لینے کے سو ا

           1966میں حاجی محمد یوسف نے جھنگ شہر میں نور شاہ گیٹ سے شروع ہونے والے بازار میں سبزی منڈی کے نزدیک نصابی کتابوں اور سٹیشنری کی ایک دکان کھولی ۔اس دکان پر  جماعت اول سے لے کر جماعت  دہم تک کی تمام نصابی کتب اور سٹیشنری  لاہور کے نرخ پر ملتی تھی۔طلبا و طالبات کے لیے قلم میں بھرنے کے  لیے  ہر قسم کی روشنائی مفت دستیاب تھی ۔علی الصبح نیلی ،کالی ،سرخ او ر سبز رنگ کی روشنائی سے لبا لب بھری دواتیں دکان کے سامنے تھڑے پر رکھ دی جاتیں اور  نہ صرف ہو نہار طلبا و طالبات ا س سے بھر پور فائدہ اٹھاتے بل کہ اساتذہ کے لیے بھی صلائے عام تھی ۔شہر میں جو بھی لکھنے پڑھنے کا شوقین تھا اپنا قلم یہیں سے بھرتا اور قلم و قرطاس سے تعلق کی ایک صور ت پید ا ہو گئی ۔ جھنگ شہر میں جو ں ہی یہ دکان کھلی رام ریاض نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے  مولانا الطاف حسین حالی کے ایک شعر (مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر        شہر میں کھولی ہے حالی نے دکاں سب سے الگ )میں معمولی تحریف کرتے ہوئے  اپنے مخصوص شگفتہ انداز میں کہا:

کتب ہیں ارزاں مگر  طلبا ہیں اکثر بے خبر     شہر میں کھولی ہے حاجی نے دکاں سب سے الگ

          کتابوں کی یہ دکان بھی خدمت خلق کی ایک صورت اور بہر ملاقات تقریب کی ایک تدبیر تھی ۔شہر کے ممتاز ادیب یہاں آتے اور حاجی محمد یوسف سے علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو کرتے ۔ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص کے ساتھ پیش آنا حاجی محمد یوسف کا شیوہ تھا۔ان مہمان ادیبوں کی خاطر تواضع کاخاص خیال رکھاجاتا ۔حاجی محمد یوسف نے غریب ،یتیم اور معذور طالب علموں کے لیے کتابیں مفت فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔وہ پوری کوشش کرتے تھے کہ غریب ،یتیم اور معذور طالب علموں کو اپنے تعلیمی اداروں کی فیس ادا کرنے میں کسی مالی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنی پنشن سے ایک رقم مختص کر رکھی تھی ۔اس کے علاوہ دکان سے جو ،منافع ملتا وہ بھی غریب طلبا و طالبات کی تعلیم پر خرچ کرتے ۔حاجی محمد یوسف نے شکوہء ظلمت شب کے بجائے اپنے حصے کی شمع کو فروزاں رکھنے کی ٹھان لی ۔ان کا وجود سفاک ظلمتوں میں ستارہ ء سحر کے مانند تھا۔خزاں کے سیکڑوں منظر دیکھنے کے باوجود وہ طلوع صبح بہاراں کا پختہ یقین رکھتے تھے ۔فروغ گلشن و صوت ہزار کے موسم کی تمنا میں انھوں نے اپنی زندگی کے شب و روز گزارے ۔اس شہر میںعلم و ادب کا جوسر  بہ  فلک قصر عالی شان اس وقت موجود ہے حاجی محمدیوسف اس کے بنیاد گزاروں میں شامل تھے ۔وہ زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز انسانیت کی خدمت اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے کوشاں رہے ۔انھیں  معاشرتی زندگی میں جو عزت ملی وہ ان کی بے لوث خدمت کا ثمر ہے ۔انھوں نے جو کار ہائے نمایاں انجام دئیے ہیں وہ ان کی انفرادیت کا ثبوت ہیںجس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔بہ قول اختر الا یمان:

        کون ستارے چھو سکتا ہے            راہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے

           حاجی محمد یوسف کو انگریزی ٹائپ میں بہت مہارت حاصل تھی۔وہ پچاس الفاظ فی منٹ کی رفتار سے انگریزی میں ٹائپ کر سکتے تھے  ۔ان کے پاس ایک نادر اور بیش قیمت چھوٹا ٹائپ رائٹر تھاجو ہمہ وقت ان کے سامنے دھرا رہتا ۔یہ1967کے اوائل کی بات ہے جب جھنگ میں ابھی کمپیوٹر اور فوٹو سٹیٹ سے کوئی واقف نہ تھا۔دفاتر اور اہم اداروں میں ٹائپ اور سائیکلو سٹائل مشین ہی کا استعمال عام تھا۔اس وقت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی کتابوں کی دکان کے سامنے ایک ٹائپ کالج قائم کیا ۔وہ خود ہی اس ٹائپ کالج کے انسٹرکٹر تھے ۔جھنگ شہر میں قائم ہونے والا یہ پہلا ٹائپ کالج تھا۔ٹائپ سیکھنے والوں کے استعمال کے لیے حاجی محمد یوسف نے لاہور سے دس نئی ٹائپ مشینیں منگوائیں ۔ان میںn    Remingto  ،Olympia   اور Smith  Crona برانڈ کی بیش قیمت ٹائپ مشینیں شامل تھیں ۔ اس ٹائپ کالج میں جو فیس لی جاتی تھی وہ شہر میں سب سے کم تھی یہ ٹائپ کالج بہت کا میاب ہوا یہاں بھی غریب طالب علموں سے کوئی فیس وصول نہ کی جاتی تھی ۔وہ  ماہر نوجوان ٹائپسٹ جو کسی ضرورت مند کے کاغذات ٹائپ کرتے اور انھیں اس کام کا کچھ معاوضہ ملتا وہ ان طالب علموں کو مل جاتا ۔اس طرح ان غریب طالب علموں کی مالی اعانت کی ایک صورت پیدا ہو جاتی ۔ اس زمانے میں  جھنگ شہر کے متعدد میٹرک  اور انٹر میڈیٹ پاس بے روزگار غریب نو جوانوں نے حاجی محمد یوسف کی نگرانی میں انگریزی ٹائپ میں اپنی محنت اور لگن سے جلد ہی مہارت حاصل کر لی ۔  ملک بھر میں سرکاری ،نیم سرکاری اورنجی اداروں میں حاجی محمد یوسف کے تربیت یافتہ نو جوانوں نے ملازمت کے لیے ٹائپ کے ٹیسٹ میں اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا اور ہر جگہ کا میابی نے ان کے قدم چومے ۔سیکڑوں بے روزگار نوجوانوں کو یہاں سے ٹائپ میں مہارت حاصل کرنے کے بعد روزگار میسر آیا اور وہ مفید شہری بنے ۔یہ اتنی بڑی قومی خدمت ہے جو بڑے بڑے ادارے نہ کر سکے مگر ایک فرد واحد نے ذاتی محنت ،لگن اور اپنے محدود ذاتی وسائل کو استعمال کر کے ید بیضا کا معجزہ دکھایا اور ستاروں پر کمند ڈالی ۔ نوجوان نسل کی فلاح و بہبود کے لیے حاجی محمد یوسف نے جو بے لوث خدمت کی اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں :

کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن  عشق                ہے مکرر  لب ساقی پہ صلا میرے بعد

            حاجی محمد یوسف سلطانی ء جمہور کے پرجوش حامی تھے ۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے طلبا نے 1926سے لے کر 1947تک برطانوی استعمار کے خاتمے کے لیے جو جد و جہد کی اس میں اپنے زمانہ طالب علمی میں حاجی محمد یوسف نے بھی بھر پور حصہ لیا۔  برطانوی استبداد کے خلاف گورنمنٹ کالج جھنگ کے طلبا کے  ایک پر امن جلوس پر انگریز ایس پی کے حکم پر پولیس نے گولی چلا دی ۔گورنمنٹ کالج جھنگ کا ایک طالب علم قاضی محمد شریف جو والدین کا اکلوتا بچہ تھا  غاصب حکم رانوں کی اس سفاکی کا نشانہ بن گیا  اور ایک مفلس گھر بے چراغ ہو گیا۔وہ آزادی کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ دے کر شہادت کے عظیم ترین منصب پر فائز ہو۔اس کا لہوآزادی کے افسانے کی شہ سرخی بن گیا ۔حریت فکر و عمل کے اس عظیم شہید کی آخری آرام گاہ مسجد نور کے احاطے  میں ہے ۔اسی کے نا م پر یہ شاہراہ قاضی محمد شریف شہید روڈ کہلاتی ہے ۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کو اپنے اس نامور سپوت کی دلیری پر ناز ہے ۔حاجی محمد یوسف کو اس بات پر قلق تھا کہ نئی نسل کو صر ف شہید روڈ کا تو علم ہے لیکن قاضی محمد شریف کی قربانی کے بارے میں وہ کچھ آگاہی نہیں رکھتے۔ہر سال 14۔اگست کو وہ امیر اختر بھٹی اور غلام علی چین کے ہمراہ  اپنے ساتھی قاضی محمد شریف کی قبر پر  پھولوں کی چادر چڑھاتے اور فاتحہ پڑھتے تھے ۔ان کا کہنا تھاکہ آزادی کی خاطر  جان کی قربانی دینے والوں کے بار احسان سے اہل وطن کی گردن ہمیشہ خم رہے گی ۔معاشرتی اصلاح اور سماجی خدمت کو حاجی محمد یوسف نے اپنا مطمح نظر بنایاا ور زندگی بھر اس پر عمل پیرا رہے ۔آفات ارضی و سماوی میں دکھی انسانیت کی خدمت کے کاموں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔  دریائے چناب میں  1973میں جو قیامت خیز سیلاب آیاا س کی مہیب  لہروں سے جھنگ کا حفاظتی بند ٹوٹ گیااور دریا کی پر شور ہولناک  طوفانی  لہروں کا آٹھ فٹ اونچا ریلا  شہر میں داخل ہو گیا ۔اس سیلاب سے شہر کے نشیبی علاقوں کی اینٹ سے اینٹ بج گئی ۔لوگ اس آفت نا گہانی سے بچنے کے لیے حفاظتی کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ۔ مصیبت کی اس گھڑی میں سیلاب سے متاثرین کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے حاجی محمد یوسف اور ان کے قریبی عزیزوں نے ذاتی وسائل سے ان کی مدد کی ۔

        مطالعہ اور تصنیف و تالیف سے حاجی محمد یوسف کو بہت دلچسپی تھی۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے کتب خانے میں ایک لاکھ سے زائد کتب موجود ہیں۔حاجی محمد یوسف نے تفسیر ،سنت ،فقہ  تاریخ اسلام  اور اردو ادب کی اہم کتب کا مطالعہ کر رکھا تھا۔عالمی ادب کے تراجم بھی وہ بہت شوق سے پڑھتے تھے ۔فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد انھوں نے ’’لبیک اللھم لبیک ‘‘ کے عنوان سے حج کا سفر نامہ لکھا ۔اس سفر نامے کا دیباچہ پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے لکھا ۔اپنی خود نوشت ’’کتاب زیست ‘‘کے عنوان سے تحریر کی اس کا پیش لفظ خادم رزمی نے لکھا۔مشاہیر ادب نے انھیں جو مکاتیب لکھے تھے وہ ’’نامے میرے نام ‘‘ کے عنوان سے مرتب کیے ۔اس کا پیش لفظ غلام علی چین نے لکھا ۔ان کی علم دوستی اور ادب پروری نے مجھے ہمیشہ ایک ولولہ ء تازہ عطا کیا۔میری خالہ کا گھر بھی ممنا گیٹ جھنگ شہر کے اسی علاقے میں واقع ہے جہاں حاجی محمد یوسف کی رہائش گاہ ہے اس لیے مہینے میں ایک بار  ضرور میرا ادھر سے گزر ہوتا اور ملاقات کی ایک صور ت پیدا ہو جاتی ۔ اس کے علاوہ انھوں نے بہ کمال بندہ پروری مجھے کئی بار اپنے ہاں بلایا اور ان کتب کے مسودے مجھے دکھائے جو وہ شائع کرانا چاہتے تھے۔ان کی پر تکلف ضیافتوں کی یادیں ان سے ملنے والوں کا اثاثہ ہیں۔وہ میرے استحقاق سے کہیں بڑھ کر میری پذیرائی اور قدر افزائی کرتے جو ان کی عظمت کی دلیل ہے  ۔26 ۔فروری  1993کو پروفیسر غلام قاسم خان نے مجھے  بتایا کہ حاجی محمد یوسف علیل ہیں ۔میں اسی روز سہ پہر کو ان کی رہائش گاہ واقع بیرون ممنا گیٹ پہنچا ۔میں یہ دیکھ کر گھبرا گیا کہ جب وہ گفتگو کر رہے تھے تو نہ تو الفاظ میں پہلے جیسی ترنگ تھی اور نہ ہی ہمیشہ کی طرح  ان کالہجہ  دبنگ تھا۔  اپنی علالت اور نقاہت کے با وجود وہ پورے اعتماد سے باتیں کر رہے تھے اور اپنی کتابوں کی اشاعت کے بارے میں اپنے لائحہء عمل سے مجھے آگا ہ کر رہے تھے ۔وہ اپنے بستر پر آرام سے لیٹے ہوئے تھے ۔ ملاقات سے قبل مجھے ان کے ایک عزیز نے بتایا کہ حاجی محمد یوسف کو چلنے میں دشواری ہے اور زیادہ باتیں بھی وہ نہیں کر سکتے ،اس لیے نشست کو مختصر رکھنا ہی مصلحت کا تقاضا ہے۔میں نے اس موقع پر ان کی کم زوری کا ذکر کیا تو انھوں نے ریاض خیر آبادی کا یہ شعرپڑھا :

 ضعف پیری جو چلا موت کے پیغام چلے                  آ گیا وقت سفر صبح چلے ،شام چلے

          میں نے دل تھا م لیا اور پر نم آنکھوں اور گلو گیر لہجے میں انھیں خدا حافظ کہا۔میں نے پلٹ کر دیکھا تو ان کے چہرے پر سد ا بہار مسکراہٹ تھی ۔یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔اس کے بعد کئی بار سوچا کہ ان کی عیادت کروں ۔ماہ صیام کا آغاز ہو چکا تھا ،روزے کے ساتھ باہر نکلنے میں میری تن آسانی حائل ہو گئی۔پروفیسر غلام قاسم خان ان کے پڑوسی تھے ،وہ مجھے مسلسل حاجی محمد یوسف کی علالت اور گرتی ہوئی صحت  سے مطلع کرتے رہے  ۔رمضان المبارک کا تیرہواں روزہ تھا اور یہ 8۔مارچ 1993 کا دن تھا جب پروفیسر غلام قاسم خان نے فون پر  زار و قطار روتے روتے ہوئے بتایاحاجی محمد یوسف ہم سب کو اس دھوپ بھر ی دنیا میں تنہا چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔اب ان سے قیامت کو ملاقات ہو گی ۔میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ور ایسا لگتا تھا کہ سارا ماحول سوگوار ہو گیا ہے اور ہر چیز گھوم رہی ہے  ۔مجھے یوں محسوس ہوا جیسے سورج واقعی سوا نیزے پر آ گیا ہے ۔شام کے سائے ڈھل رہے تھے شہر کا شہر سوگوار تھا۔ہزاروں لوگ اس عظیم انسان کے سفر آخرت پر روانہ ہونے کے وقت جنازے کے ساتھ پیدل چل رہے تھے کلمہ ء شہادت کاورد کر رہے تھے  اور میت کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کر رہے تھے ۔حاجی محمد یوسف کے جنازے میں شامل ہونے والوں میں ہر مکتبہء فکر کے لوگ شامل تھے ۔وہ شفیق اور فرشتہ سیرت انسان جس نے نئی نسل کو نصف صدی تک  اپنی گود میں لے کر اس کی پرورش کی اب اسے گور میں رکھ دیا گیااور منوں مٹی کے نیچے یہ آفتاب چھپ گیا۔یہ قیامت کامنظر تھا ہزاروں نوجوان دھاڑیں مار مار کررہ رہے تھے ۔ پروفیسر غلام قاسم خان نے سب کو صبر کی تلقین کی اور انا للہ و انا الیہ راجعون کا ورد کرتے ہوئے گلو گیر لہجے میں یہ شعر پڑھا:


 جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے                     کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

Ghulam Shabbir                                                                      
Mustafa Abad Jhang City        

                                                     
 
***********************************


          

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 661