donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Gholam Shabbir Rana
Title :
   Hakim Ahmad Bakhsh - Har Rah Guzar Pe Tere Guzarne Ka Husn Hai


 حکیم احمد بخش :ہر رہ گزر پہ تیرے گزرنے کا حسن ہے


غلام شبیر


             جھنگ کو شہر صد رنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ ہر دور میں یہاں سے ایسے یادگار زمانہ لوگ اٹھے جن کی ہفت اختر شخصیت نے دلوں کو مرکز مہرو وفا کیا اور  اس علاقے کے لوگوں کی کشت جاں میں بے لوث محبت ،ایثار ،انسانی ہمدردی ،وفا ،خدمت ،خلوص و مروت  ،دردمندی ،بے باک صداقت اور انسایت نوازی کے ایسے تخم بوئے جن کے نمو پانے سے قریہء جاں معطر ہو گیا اور اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا ۔ہوس زر نے نوع انساں کو فکری انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔زر کے لیے بہتات کی حرص نے انسان کو اس قدر غافل کر دیا ہے کہ وہ ننانوے کے پھیر میں پڑ کر اپنے انجام سے بے خبر ہے ۔ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کا حصول آج کے انسان کا مطمح نظر بن چکا ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیںجو دولت کو ذاتی مفاد کے بجائے عوامی خدمت پر خرچ کرتے ہیںاور ہر قسم کے طمع ،ہوس  اور لالچ سے دامن بچا کر اپنی زندگی کو فیض رساں بنانے کی مقدور بھر سعی کرتے ہیں ۔  بڑے ادیبوں کو بالعموم نامور لوگوں پر لکھنے کا شوق ہوتا ہے ،ادب کے ایک عام طالب علم کی حیثیت سے میںایک گم نام شخص کا احوال لکھوں گا ۔ایک ایسے شخص کا حال جس نے زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیا رہتے ہوئے دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کی اور اپنی زندگی انسانیت کی فلاح اور بہبود کے کاموں کے لیے وقف کر دی ۔جو کچھ کمایا وہ سب کچھ درد مندوں ،ضعیفوں ،بیماروں اور لاچاروں پر بے دریغ لٹایااور اپنے لیے کچھ بھی نہ بچایا ۔جب اس تارک الدنیا اور قناعت پسند مر د درویش کا آخری وقت آیا تو گھر میں تجہیز و تکفین کے لیے کچھ بھی نہ تھا ۔ایک ایسا شخص چپکے سے راہ جہاں سے گزر گیا جس کی زندگی شمع کے مانند گزری ۔وہ معالج مسیحا زینہء ہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھا ر گیا جس کے تیر بہدف طب یونانی کے طبی نسخوں سے لاکھوں جا ںبہ لب مریضوں کو نئی زندگی کی نوید ملی ۔اس نے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کی ،اپنے پیشے سے وفاداری بہ شرط استواری کو اپنا نصب العین بنایا ۔عجز و انکسار کا یہ پیکر جس خاموشی سے پیمانہء عمر بھر گیا اس پر اس کے لاکھوں مداح دنگ رہ گئے ۔تقدیر کا یہی تو المیہ ہے کہ یہ ہر تدبیر کی دھجیاں اڑا دیتی ہے اور ہر سر کے ساتھ فقط سنگ ہی باقی رہ جاتا ہے ۔جھنگ شہر کے نواحی شہر خموشاں کے اک گم نام گوشے  میں یہ دبنگ لہجے میں بات کرنے والا مسیحا جس نے سات عشروں تک اس علاقے میں دکھی انسانیت  کے زخموں کے اندمال کی مساعی کیں آسودہء خاک ہے ۔آج بہت کم لوگوں کو اس عظیم انسان کے کام اور مقام کے بارے میں علم ہے ۔بہ قول ظفر اقبال :

نمود بھی نہیں اور نام بھی نہیں میرا                مقام خاص تو کیا عام بھی نہیں میرا

         درخشاں اقدار و روایات کا امیں قدیم ،عظیم اور تاریخی شہر جھنگ جس کی تاریخ چار ہزار سال قبل مسیح سے جا ملتی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ سکندر کی فوج نے اس شہر کے نواح میںڈیرے ڈالے اور حسن کی دیوی (ہیر )کا مندر آج بھی یونانیوں کی آمد کا پتا دیتا ہے ۔یونان میں حسن کی دیوی کو ہیر (Heer )ے نام سے یا دکیا جاتا ہے ۔امیر اختر بھٹی نے اس شہر صد رنگ کی قدامت کے بارے میں قیاس آرائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شہر اس وقت بھی موجود تھا جب طوفان نوح نے پوری دنیا کی بساط لپیٹ دی تھی ۔غلام علی چین کا خیال  تھا کہ اس شہر میں عربوں کی آمد کا سلسلہ  712 میں محمد بن قاسم کی شورکوٹ آمد سے پہلے بھی جاری تھا۔ جب آفتاب اسلا م طلوع ہوا اور حرا کے غار سے سر چشمہء آب بقا پھوٹا تو اس علاقے میں مقیم خزاں آباد ہستی کو بھی پیام نو بہار ملا ۔ہجرت مدینہ کے فوراً بعد مسلمان عرب تاجر  یہاں پہنچے  ۔وہ یہاں سے اونی مصنوعات ،سوتی کپڑے ،دریاں ،کھیس ،کھسے ،لنگیاں  ،پیتل اور تانبے کے بنے ہوئے برتن،تیر کمان  او  ر گھریلو دستکاریوں کے شہ کار خریدتے اور عرب لے جاتے تھے ۔اس طرح اس خطے میں آفتاب اسلام کی ضیا پاشیوں کے عظیم الشان سلسلے کا آغاز ہوا جس سے سفاک ظلمیں کافور ہوئیں ۔اسی شہر میں واقع تیرہ سو  برس قدیم مسجد شاہ علیانی جس کی عمارت چونے ،کچی اینٹوں اور گارے سے بنی تھی  اورچھت کھجور کے تنے اور پتوں سے تیار کی گئی تھی  جو کہ قدیم عربوں کے فن تعمیر کی یاد دلاتی تھی ۔پروفیسر غلام قاسم خان کے آبا و اجداد نے اس مسجد کی نسل در نسل خدمت اور دیکھ بھال کی ۔یہ قدیم اور تاریخی مسجد اب بھی موجود ہے لیکن 1960میں اس کی تعمیر نو ہوئی اور اب یہ مسجد قدیم و جدید فن تعمیر کے حسین امتزاج کی مثال ہے ۔گنبد ،محراب اور ڈاٹوں کو اسی قدیم انداز میں بنایا گیا ہے ۔اس قدیم اور  تاریخی مسجد کی تعمیر نو  غلام علی چین ،حاجی محمد یوسف ،میاں اللہ داد ،حکیم اسماعیل ،میاں محمود بخش بھٹی ،محمد بخش آڑھتی ،اللہ دتہ سٹینو ،محمد کبیر بھٹی  ،ڈاکٹر محمد عمراور حکیم احمد بخش (چار آنے و الے حکیم)کی انتھک مساعی کی مرہون منت ہے ۔ ان دنوں ممتاز ماہر تعلیم اور عالم دین ابو ذر غفاری اس مسجد کے خطیب ہیں ۔پروفیسر غلام قاسم خان اسی مسجد میں گزشتہ چار عشروں سے درس قرآن دے رہے ہیں۔ان سے قبل ان کے والد ،دادا اور پردادا یہ مذہبی فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔اب وہ اپنے بیٹے کو اس کا م کی تربیت دے رہے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ ہم چراغ آخر شب ہیں ہمارے بعد روشنی کا یہ سفر نئی نسل نے جاری ر کھنا ہے،اس لیے ان کو مستقبل کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیار کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے  ۔یہ قدیم تاریخی مسجد جو پروفیسر غلام قاسم خان کے آبائی گھر کے عین سامنے واقع ہے ان کی ذاتی دلچسپی اور توجہ کی وجہ سے ہمیشہ صاف اور پاکیزہ ماحول پیش کرتی ہے جہاں کا نورانی اور روحانی ماحول خالق و مخلوق میں کوئی پردہ حائل نہیں ہونے دیتا  ۔ہر سال ما ہ صیام میں وہ اور علاقے کے عابد و زاہد لوگ اسی مسجد میں اعتکا  ف میں بیٹھتے ہیں۔حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم) جب تک زندہ رہے اس مسجد میں اعتکاف میں بیٹھنے والوں کے لیے سحری و افطاری کے وقت  طعام کا بندو بست کرتے رہے ۔آج  بھی بزرگ نمازی ان کی پر تکلف ضیافتوں کو یاد کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی ہیں۔

        دریائے چناب کے کنارے واقع  جھنگ کے قدیم شہر کے چاروں طرف ایک بلند و بالا فصیل تعمیر کی گئی تھی ۔اس فصیل میں چاروں سمتوں میں ایک ایک  بہت بڑا دروازہ  موجود تھا ۔ پر زمانہ تو پرواز نور سے بھی تیز تر ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شہر پناہ تو سیل زماں کے تھپیڑوں کی تاب نہ لا کر رفتہ رفتہ نیست و نابو دہو گئی اور اس کے سنگ و خشت  اور دروازوں کے کواڑ بھی اٹھائی گیرے لے اڑے البتہ بے کواڑ دروازے اب بھی موجود ہیں۔جھنگ شہر کی فصیل کی شمالی جانب واقع ممنا گیٹ کے باہر حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم) کا مطب آج ایام گزشتہ کی نوحہ خوانی میں مصروف ہے  ۔حکیم احمد بخش المعروف چونی (چار آنے )والا حکیم گزشتہ صدی کی طبی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے ۔حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) نے جھنگ کے ایک ممتاز علمی گھرانے میں 1880میں جنم لیا ۔ابتدائی تعلیم جھنگ میں مکمل کرنے کے بعد دہلی کا سفر کیااور وہاں حکیم اجمل خان کے طبیہ کالج سے طب کی تعلیم حاصل کی حکیم اجمل خان کو اپنے اس ہو نہار شاگرد سے بہت محبت تھی ۔ 1920میں جب حکیم اجمل خان نے جامعہ ملی اسلامیہ دہلی  میں اہم ذمہ داریاں سنبھالیں تو حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) بھی اپنے استاد کے ہمراہ وہاں چلے گئے اور ان سے اکتساب فیض کا سلسلہ جاری رکھا ۔تاریخ اور تاریخ کے مسلسل عمل پر حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) کو پختہ یقین تھا۔بیسویں صدی میں طب یونانی کے فروغ کے سلسلے میں حکیم اجمل خان کی مساعی کو حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )ہمیشہ قدر کی نگا سے دیکھتے تھے ۔حکیم اجمل خان  کی عظیم شخصیت  خاک کو اکسیر بنا  دیتی تھی اور غبار راہ سے ایسے جلوے پیدا ہوتے جو نگاہوں کو خیرہ کر دیتے تھے ۔بیسویں صدی کے اس یگانہء روزگار طبیب ،دانش ور ،حریت فکر کے مجاہد اور مرد مومن نے پارس کی صورت مس خام کو کندن بنا دیا  اور ذرے کو آفتاب بننے کے فراواں مواقع میسر آئے۔زمانہ لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتا چلا جائے ایسے لوگ چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے نہیں مل سکتے ۔

         حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) نے جھنگ شہر میں اپنا مطب قائم کر کے دکھی انسانیت کی خدمت کا عزم کر لیا ۔ایک خستہ حال سی  جھونپڑی میں قائم یہ مطب بھی ان کی درویشی ،فقیری، سادگی،قناعت اور عجز و انکسار  کی عمدہ مثال تھا ۔حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم ) ایک چٹائی پر بیٹھتے ،سامنے گھڑونچی پر پانی سے بھرے مٹی  کے گھڑے رکھے ہوتے ان پر چپنی اور مٹی کے پیالے دھرے رہتے ۔ سامنے ایک الماری میں چند مرتبان ،کچھ بو تلیں اور  سفوف کے ڈبے رکھے ہوتے ۔وہ ہر وقت ہاون دستے میں کوئی نہ کوئی سفوف تیار کرنے میں مصرو ف رہتے ۔ان کا ایک شاگرد ان کا ہاتھ بٹاتا اور اس طرح مل جل کر ادویات کی تیاری کا کام جاری رہتا ۔ مقامی طور پر تیار کیے جانے والے کھدر کے  صاف اور سادہ لباس میں ملبوس سر پر کلاہ و دستار باندھے حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) اپنی گل افشانیء گفتار سے حاضرین کو مسحور کر دیتے ۔ان کے پاس جو بھی مریض علاج کی غرض سے آتا وہ اس سے صرف چار آنے وصول کرتے اور مریض کو ایک بوتل شربت ،ایک بوتل عرقیات ،معجون ،مربہ جات اور پھکی دیتے۔اگر کوئی مریض زیادہ رقم دینا چاہتا تو ہ رگز قبول نہ کرتے البتہ کم پیسے دینے والے سے کبھی جھگڑا نہ کرتے  ۔  وہ دوا بھی  دیتے اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے ا للہ کے فضل و کرم سے مریض شفا یاب ہو جاتا ۔ شہر کے لوگ آج تک محو حیرت ہیں کہ اس قدر کم قیمت میں علاج معالجہ کرنے والا حکیم اپنی گزرا وقات کیسے کرتا ہو گا ۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کہ یہ سب کچھ سات عشروں تک ہوتا رہا اور عقل ہمیشہ کی طرح محو تماشائے لب بام ہی رہی ۔چار آنے والا حکیم اس قدر مشہور ہوا کہ اکثر لوگوں کو اس کے اصل نام کا علم ہی نہیں ۔لوگ طویل مسافت طے کر کے یہاں آتے اور ایک ہی خوراک سے شفا یاب ہو کر گھروںکو لوٹتے ۔غلا م علی چین کا کہنا تھا کہ مریضوں کا دوا علاج ،نباضی اور تشخیص تو محض ظاہری صورت تھی ،باطنی کیفیات سے بہت کم لو گ آگا ہ تھے ۔اس کا تعلق ما بعد الطبیعات سے ہے کہ کبھی یہاں جھنگ شہر کے مغرب میں واقع  نو رشاہ گیٹ میں فٹ پاتھ پر زمین پر بیٹھ کر صرف  ایک آنہ  وصول کر کے حجامت کرنے ولا اللہ دتہ (ایک آنے والا حجام ) لوگوں کو حیرت زدہ کر دیتا ہے اور کبھی  زمین پر بیٹھا غریب راہ گیروں کے سفر کے دوران ٹوٹ جانے والے بوسیدہ  جوتوں کو مفت پیوند لگانے  والا جھنگ کا  کرموں موچی  (کرم دین جفت ساز)قدرت اللہ شہات جیسے سخت بیوروکریٹ پر ہیبت طاری کر دیتا ہے ،کبھی جھنگ کا ایک حال مست فقیر میاں مودا (مراد علی ) جون کی چلچلاتی دھوپ میںشہر کی پختہ سڑکوں پر ننگے پائوں بھوکا پیاسا چل کر یہ ثابت کرتا ہے کہ آج بھی اگر براہیم ؑکا ایماں پیدا ہو جائے تو آگ انداز گلستاں پیدا کر سکتی ہے اور دو پہر کے وقت  تانبے کی طرح تپتی زمین بھی شبنم افشاں گل تر کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہ پر اسرار بنجارے اپنی دنیا آپ پیدا کرتے ہیں ،حرص و ہوا کو ترک کر کے دکھی انسانیت سے عہد وفا استوار کرنے والے ایسے لوگ یادگار زمانہ ہوتے ہیں۔  مظلوم اور مفلوک الحال انسانیت کی بے لوث  خدمت  ان کے  وقار اور سر بلندی کو یہ علاج گردش لیل و نہار خیال کرتے ہیں اور ہر سو بچھے  دکھوںکے جال ہٹانا ان کا شیوہ ہوتا ہے ۔ متعدد قرائن و شواہد کو دیکھ کر  یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ حکیم احمد بخش (چار آنے والا حکیم) بھی ایک پر اسرار  اور یاد گار زمانہ شخص تھا جس نے واضح کر دیا کہ یہ دنیا ایک آئینہ خانہ ہے،وہ دولت پانے کے بجائے اسے ٹھکرانے کا قائل تھا ۔ وہ مال و دولت دنیا اور یہاں کے رشتہو پیوند کو بتان وہم و گماں سے تعبیر کرتا تھا اور اس میں وہ  دولت کے حریص اور ہوس کے مارے لوگوں کو تماشا بنا کر اس دنیا سے  چلا گیا ۔عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار  ایسے لوگوں  کے نام اور کام کی ہر دور میں تاریخ تعظیم کرتی ہے اس تمام سلسلے کو سمجھنے کے لیے بصیرت کی ضرورت ہے۔بڑے بڑے سگھڑ سیانے بھی ان نازک معا ملات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے  ۔مجروح سلطان پوری نے کیا خوب بات کہی ہے :

بے تیشہء نظر نہ چلو راہ رفتگاں                  ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح

          حکیم احمد بخش (چار آنے والاحکیم )نے سو سال سے زیادہ عمر پائی ۔اس کی جن بھومی وہ علاقہ تھ اجہاں سے ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان )،سید جعفر طاہر ،محمد شیر افضل جعفری ،حاجی محمد یوسف ،غلام علی چین ،مجید امجد  ،میاں اللہ داد ، فلائٹ لیفتنٹ خواجہ یونس حسن شہید ،حکیم یار محمد اور اللہ دتہ سٹینو جیسے متعدد مشاہیر نے جنم لیا ۔ان سب شخصیات نے اپنے زمانے میں اپنے اپنے  متعلقہ شعبوں میں جو گراں قدر خدمات  انجام دیں ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن بیماری کے جان لیوا کرب سے سسکتی  مجبور ،غریب ،بے بس و لا چار دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کی جو درخشاں مثال حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )نے قائم کی اس میں کوئی  ان کا شریک و سہیم نہیں ۔  وہ رات دن ،شام و سحر ہمہ وقت اپنے مطب کے دروازے پر بچھی چٹائی پر موجود رہتے ۔رات کے وقت کچھ دیر سستا بھی لیتے لیکن مطب کا درواز کبھی بند نہ کرتے  ۔وہ  پنجگانہ نماز با جماعت مسجد شلیانی میں ادا کرتے اور نماز تہجد اپنے مطب میں ادا کرتے تھے ۔ یہ فقیر سارے جہاں کے درد کو اپنے جگر میں سموئے دنیا و ما فیہا سے بے خبر ایام کا  مرکب نہیں بل کہ راکب بن کر زندگی گزارتا رہا اور کبھی حرف شکایت لب پر نہ لایا ۔اس کا طرز زندگی فقیری اور درویشی کا مظہر تھا اس نے زندگی بھر اپنی خودی کی حفاظت کی اور غریبی میں بھی قناعت اور استغنا کا بھرم قائم رکھا۔سچی بات تو یہ ہے کہ اس مر د فقیر نے مہر و مہ و انجم کے محاسب کا کردار ادا کیا ۔وہ دن بھر جو کچھ کماتا سر شام علاقے کے غریبوں ، بے سہارا  ضعیفوں ،مسکینوں ،یتیموں اور بیوائوںکو بھجوا دیتا تھا ۔اس نیک کام میں حاجی محمد یوسف ، غلام علی چین اور اللہ دتہ سٹینو اس کی مدد کرتے تھے ۔  خدمت خلق کایہ کام اس رازداری سے ہوتا تھا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی ۔اگرچہ وہ اپنے کام تک محدود تھا اور  وہ کبھی حصارذات سے نہ نکل سکا لیکن اس کی وسیع النظر ی کا ایک عالم معترف تھا ۔اپنی ذات میں سمٹے ہوئے اس معالج کے خیالات میںسمندر کی سے گہرائی اور وسعت تھی ۔یہ اس کی عالی ظرفی تھی کہ وہ دام غم حیات سے بچ کر  ہمیشہ خاموشی سے عوامی خدمت کے کاموں میں مصرو ف رہا۔ایک بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ وہ صرف چار آنے ہر مریض سے دوا اور علاج کے طلب کرتا تھا لیکن کچھ مریض ایسے بھی ہوتے جو ایک پائی ادا کرنے کی بھی سکت نہ رکھتے تھے ۔ایسے مریضوں کے قیام  ،طعام ،دوا ،علاج اور سفر خرچ کے تما م اخراجات بھی حکیم احمد بخش (چار آنے ولا حکیم )کے ذمے تھے ۔روشنی کا جو سفر اس شخص نے شروع کیا وہ ان کی زندگی میںجاری رہا اور یہ نیک کام تاریکیوں کی دسترس سے ہمیشہ دور رہا ۔راہ جہاں سے گزر جانے والے ایسے عالی ہمت لوگوں کی تقلید وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔لوح دل پر ان کی خدمات کے نقوش ہمیشہ ثبت رہیں گے ۔آج بھی دور دراز علاقوں سے آنے والے دکھی لوگ اس یگانہء روزگار طبیب کو یاد کر کے اس کے لیے دعا کرتے ہیں ۔فضائوں میں ہر سو اس مسیحا صفت معالج  کی یادیں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ ممناگیٹ میں جس سمت بھی نگاہ اٹھتی ہے اس کے مانوس ،پردرد اور ہمدردانہ لہجے کی باز گشت سنائی دیتی ہے  ۔فراق گورکھ پوری نے کہا تھا :

 بھولیں اگر تمھیں تو کدھر جائیںکیا کریں                 ہر راہ گزر پہ تیرے گزرنے کا حسن ہے

          مطب کے لیے درکار جڑی بوٹیا ں جمع کرنے میں حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم ) کو کبھی کوئی دشواری پیش نہ آئی ۔ان کے پنسار سٹور میں جڑی بوٹیوں کے انبار لگے رہتے ۔یہ سب جڑی بوٹیاں ان کے عقیدت مند انھیں مفت لا کر دیتے ۔ گورنمنٹ کالج جھنگ سے املتاس ،گلاب کی پتیاں  اور کیسو پھول مل جاتے ،کاسنی اور مکو کی بوریاں منڈی شاہ جیونہ کے علاقے سے آ جاتیں ،بھکراور منکیرہ سے جو حنظل آتے وہ خربوزے کی جسامت کے برابر ہوتے تھے۔ یہ حنظل  اس قدر کڑوے ہوتے تھے کہ ان کے ا ستعمال سے لبلبے میں پائی جانے والی شوگر میں معتد بہ کمی واقع ہو جاتی۔مرزا محمد رفیع سودا نے کہا تھا :

فیض تاثیر ہوا ہے کہ اب حنظل سے                       شہد ٹپکے جو لگے نشتر زنبور عسل

          سونف ،اناردانہ ،السی،ڈیہلے ،پیلوں ،لسوڑیاں اور پودینہ وغیرہ  شہر کے مضافاتی علاقوںسے  عبداللہ خان بھجوا دیتا ۔عرقیات اور شربت تیار کرنے کے لیے ایندھن کے لیے درکار لکڑی بھی ان کے عقیدت مند بھجوا دیتے۔غلام علی چین بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ  لیتے اور اپنے کھیتوں میں اگے درختوں کی موسم سرما میں صفائی سے جو شاخیں اکٹھی ہوتیں ان کے بڑے بڑے گٹھے بنوا کر بیل گاڑی پر لاد کر مطب کے عقب میںواقع خالی جگہ پر رکھوا دیتے یہ ایندھن عرقیات کی کشید میں کام آتا ۔ا س کے  علاوہ بازار سے جو اشیا خریدی جاتیں ان کے لیے رقم بھی اللہ کریم اپنے خزانے سے عطا کرتا ۔اس کے لیے حکیم احمد بخش کو کسی کے آگے دست سوال کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہ آئی ۔مطب کے سامنے ہر وقت قرع  انبیق کے نیچے آگ سلگتی رہتی  اس میں مختلف اوقات میں عرق گلاب ،عرق سونف ،عرق گائو زبان اور عرق کاسنی مکو کی موقع  پر تیاری کا عمل جاری  رہتا ۔اس مطب میں جو شربت تیار ہوتے تھے ان میں صندل ،بزوری ،انار اور بنفشہ بہت پسند کیے جاتے تھے ۔حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )نے گرمی میں لو سے بچنے کے لیے شربت مفرح  دل کشاتیار کیا جو تاثیر میںاپنی مثال آپ تھا۔حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )کا تیار کردہ  ’’شربت شفا ‘‘یک مجرب نسخہ تھا جو وہ ہر مریض کے لیے لکھتے تھے ۔کوئی مریض خواہ وہ کسی عارضے میں مبتلا ہوتا اسے ہر حالت میں پہلی خوراک ایک گلاس ’’شربت شفا ‘‘ چاروں عرقیات میں ملا کر اور ایک پڑیا ’’سفوف مفرح قلب ‘‘ لازمی دیا جاتا ۔  حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )با وضو ہو کر اپنے ہاتھوں سے یہ دوا پلاتے اور اشک بار آنکھوں سے زیر لب دعا بھی کرتے ر ہتے ۔اللہ پاک کی شان کریمی جوش میںآ جاتی اور جا ں بہ لب مریض ہنستا مسکراتا اٹھ بیٹھتا ۔ نامور ماہر تعلیم پروفیسر سمیع اللہ قریشی کہا کرتے تھے کہ حکیم احمد بخش  (چار آنے ولے حکیم )  اپنے مریضوں کو جو ادویات دیتے ہیں ان کا اثر تو واجبی سا ہوتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ تمام مریض اس صاحب باطن و لی کی دعا سے صحت یاب ہوتے ہیں ۔اور ظاہر ہے کہ مرد مومن کے دل سے نکلی ہوئی  دعا سے تو تقدیریں بھی بدل جاتی ہیں۔اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ حکیم احمد بخش نے درویشی کی خاطر طبابت اور  دنیا داری کا ایک پردہ بنایا ہوا تھا ورنہ لوگ جب سے زمانہ ساز ہوئے ہیں انھوںنے  تو اپنی انا کو ختم کر کے فقیری کی راہ اختیار کر لی تھی۔اس دنیا کے مال و دولت اور رشتہ و پیوند کو بتان وہم و گماں سمجھتے تھے ۔جھنگ کے علمی و ادبی حلقوں میں ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔وہ الحاج سید غلام بھیک نیرنگ کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی عصبیتوں ،افراد کا غیظ و غضب اور سماجی برائیوں پر وہ دلی کرب کا اظہار کرتے ۔ن کا خیال تھا کہ مسلسل شکست دل کے باعث معاشرتی زندگی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئی ہے ۔تشد د ،منشیات اور دہشت گردی کی فضا نے ان کی روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا ۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے وہ الحاج سید غلام بھیک نیرنگ کے یہ شعر اکثر پڑھتے تھے :

ایک آفت ایک شامت ہو تواس کو روئیے               ہے مصیبت نت نئی ہر روز فتنہ ہے نیا

 شامت اعمال تیری آنکھ کھلتی ہی نہیں                 جب تلک سر سے گزر جائے نہ سیلاب بلا

          حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )نے زندگی بھر قناعت ،استغنا اور صبر کا دامن تھامے رکھا ۔لاہور ،کراچی اور بڑے شہروں کے اہم دواخانوں نے انھیں بھاری معاوضے پر اپنے ہاں کام کرنے کی پیش کش کی لیکن اس درویش منش انسان نے روکھی سوکھی کھا کر اور ٹھنڈا پانی پی کر اس علاقے کے لوگوں کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائے رکھا جہاں کا ماحول آج بھی پتھر کے زمانے کی یا دلاتا ہے۔وہ جہاں بھی گئے انھیں اپنی جنم بھومی کے اداس بام اور کھلے در پکارتے رہے اور وہ جلد ہی واپس لوٹ آئے۔ان کا کہنا تھا کہ وطن کی محبت تو ملک سلیماں سے بھی زیادہ دل کش ہے یہاں تک کہ وطن کا ایک کانٹا بھی سنبل و ریحان اور گلاب اور چنبیلی  سے کہیں زیادہ عنبر فشاں ہے وطن کا کانٹا بھی قریہء جاںکو معطر کر دیتا ہے ۔وطن کو وہ محض چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں دیتے تھے بل کہ ان کاخیال تھا کہ وطن تو اہل وطن کے جسم اور روح سے عبارت ہے ۔وطن اور اہل وطن سے ان کی قلبی وابستگی ا ور والہانہ محبت ان کا بہت بڑا اعزاز اور امتیاز رہا ۔اپنے علاقے کے لوگوں کی خوشی اور غم میں شریک ہونا حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم ) کا معمول تھا ۔جب کوئی زیادہ علیل ہوتا تو اس کی عیادت کو جاتے اور دوا کے ساتھ دعا بھی کرتے ۔کئی غریب ،یتیم اور مسائل کے شکار طالب علموں کی مالی اعانت کرتے اور اس طرح ان کو مستقبل کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ۔

           اپنی عملی زندگی میں حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) نے متعدد فکر پرور تجربات اور خیال افروز بصیرتوں کی نمو کا اہتمام کیا۔ان کی بے لوث خدمت نے افراد کی سماجی ،معاشرتی اور معاشی زندگی کو  نئی جہات سے آشناکیا۔جس انداز میں انھوں نے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی سعی کی وہ ہر عہد میں فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت ہو گی ۔ان کے طرز عمل نے نہ صرف افراد معاشرہ کی جسمانی صحت پر توجہ مرکوز رکھی بل کہ ذہن و ذکاوت ،بصیرت ،فکر و خیال  اور شعور ی روح کی صحت یابی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔ان کا خیال تھاکہ معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں،کجیوں،بے ہنگم ارتعاشات اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنااز بس ضروری ہے ۔اس مقصد کے لیے تاریخی شعور کو بروئے کار لانا ضروری ہے ۔تاریخی شعور کے معجز نمااثر سے دلوں کو مرکز مہر و وفا کیاجا سکتا ہے ۔ہوس زر سے دامن بچا کر اور راہ طلب سے گریزاں رہ کر اس درویش نے جس طرح زندگی بسر کی اسے دیکھ کر میر تقی میر کا یہ شعر یاد آ گیا :

 راہ طلب میں گرے ہوتے سر کے بل ہم بھی           شکستہ پائی نے اپنی ہمیں سنبھال لیا

            حکیم احمد بخش (چارآنے والے حکیم)کے بعد وفا کے سارے ہنگامے عنقا ہو چکے ہیں ۔دنیا کی بے ثباتی اور کار جہاں کے ہیچ ہونے کا دکھ بڑھ گیا ہے ۔اس نے دنیا کو ایک نقش فانی اور اس کی روداد کو ایک کہانی سے تعبیر کیا ۔وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ کہ اس دنیا میں اس کا قیام سرائے میں رہنے والے مسافر کی طرح ہے ۔خدا اس کی مغفرت کرے جو اس سرائے سے نکل کر ابدی نیند سو گیا۔بہ قول افتخار نسیم :

سرائے چھوڑ کر وہ پھر کبھی نہیں آیا                     چلا گیا جو مسافر کبھی نہیںآیا      

Ghulam Shabbir -Mustafa Abad Jhang  City (Punjab -Pakistan)   

***************************

                                       
        

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 826