donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Gholam Shabbir Rana
Title :
   Obaidullah Baig - Hesare Sang Me Balkhati Aab Jo Tera Gham


 عبید اللہ بیگ :حصار سنگ میں بل کھاتی آب جو تیرا غم


ڈاکٹر غلام شبیررانا


       جمعہ  بائیس جون 2012کو مجھے اطلاع ملی کہ پاکستان کے نامور ادیب ،ممتاز محقق،با کمال براڈ کاسٹر ،بے مثال ماہر ماحولیات ،لازوال تخلیق کار ،ہر دل عزیز کمپیئر ،عالمی شہرت کے حامل دانش ور ،فلسفی اور حریت فکر کے عظیم مجاہد عبید اللہ بیگ دائمی مفارقت دے گئے ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔اللہ کریم عبید اللہ بیگ کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے کروڑوں مداحوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔عبید اللہ بیگ کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے وہ پاکستان کا بہت بڑااثاثہ تھے ۔ان کی وفات پر بزم ادب سوگوار ہے اور ہر آنکھ اشک بار ہے ۔ان کے لاکھوں رفقا اس جان لیوا صدمے سے نڈھال ہیں ۔ایک ایسی شام الم ہم پر مسلط ہو گئی جس میں درد کی ہوا چلنے سے رتیں بے ثمر اور آہیں بے اثر ہو کر رہ گئی  ہیں۔  ان کے اس جہاں سے اٹھ جانے کے بعد رنگ ،خوشبواور حسن و خوبی کے تما م استعارے بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں ۔صحن چمن میں ویرانی کا ایسا عالم پہلے کبھی نہ تھا ۔دیوار و در کی صور ت  ہی یکسر بدل گئی ہے پورا  ماحول ہی سائیں سائیں کرتا محسوس ہوتا ہے ۔اس نے جاتے جاتے وفا کے سب سلسلے ہی توڑ ڈالے ۔شہرآرزوکی ویرانی کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے ۔ایسے دیدہ ور کا دنیا سے اٹھ جانا ایک ایسا سانحہ ہے جس کے باعث فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم اب خزاں  کے مسموم بگولوںکی زد میں آگیا ہے۔
       علم و ادب کا وہ آفتاب جو 1936میں رام پور (بھارت )سے طلوع ہوا ،پوری دنیا کو اپنی ضیاپاشیوں سے بقعہ ء نور کرنے کے بعد 22جون 2012کو کراچی میں غروب ہو گیا ۔ڈیفنس کراچی کے شہر خموشاں کی زمین نے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔عبیداللہ بیگ کی وفات ایک ایسا سانحہ ہے جس کے فکر و خیال پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے ۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان تھے ۔ان کی رحلت سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی نشریات کی اس عظیم الشان روایت کو شدید ضعف پہنچا جس کے سوتے تہذیب اور شائستگی کے ابد آشنا خزینے سے پھوٹتے تھے ۔ادب میں شرافت ،وضع داری ،استغنا ،انکسار کا عملی پیکر ہمارے درمیان اب مو جود نہیں رہا۔حب الوطنی ،انسانی ہمدردی ،بے لوث محبت ،بے باک  صداقت ،خلوص  ومروت ،ایثار اور کمال فن کی مجسم تصویر سوئے عدم رخصت ہوئی ۔اردو زبان  وادب کا بے لوث خادم  اپنی تمام تخلیقی فعالیتوں کا سلسلہ توڑ کر ادب کے طالب علموں کو بے یار ومدد گار چھوڑ گیا۔ شکاریات ،حالات حاضرہ،جغرافیہ  ، ماحولیات ،عمرانیات ،تاریخ ،فلسفہ ،نفسیات ،فنون لطیفہ ،ادیان عالم اور تہذیب و ثقافت کا وقیع دائرۃ المعارف اب کہاں ملے گا؟ ۔وہ دانش ور جس نے ہر مکتبہء فکرکے لوگوں کو قامو س و لغت سے بے نیاز کر دیا تھا داعی ء اجل کو لبیک کہتے ہوئے ہم سے رخصت ہو گیا۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ایک ایسی ہفت اختر شخصیت کا عدم کے لیے رخت سفر باندھ لینا   ،ایک بیش بہا قومی اثاثے سے محرومی اور ایک تہذیبی معیار کی علامت شخصیت کا منوں مٹی کے نیچے دفن ہو جانا اتنا بڑا نقصان ہے جس کے اثرات وقت گزرنے کے سات ساتھ روز بہ روز گمبھیر ہوتے چلے جائیں گے ۔ حیف صد حیف کہ اب ہمیں کوئی ایسا شخص دکھائی نہیں دیتا جسے عبیداللہ بیگ جیسا کہا جا سکے ۔اپنی پرخلوص گفتگو سے سامعین کے دلوں کو مسخر کرنا ان کا شیوہ تھا۔اپنی حاضر دماغی ،بر جستگی ،شگفتہ مزاجی اور وسیع مطالعہ کے اعجاز سے انھوں نے انسانیت کے بلند ترین مقام تک رسائی حاصل کی ۔

 مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں         تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

        عبیداللہ بیگ نے 1961میں ریڈیو پاکستان سے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔انھیں ریڈیو کی نشریات میں لانے والی شخصیت کانام اسلم اظہر ہے ۔انھیںا چھی طرح معلوم تھا کہ ایسے نابغہ ء روزگار دانش ور کی موجودگی سے ذرائع ابلاغ کی وقعت اور ثقاہت میںاضافہ ہو گا ۔ریڈیو کے پروگراموں کی میزبانی اور کمپیرنگ میں انھوں نے اپنی ْصلاحیتوں کا اس طرح استعمال کیا کہ  پوری دنیا میں ان کی دھاک بیٹھ گئی ۔1970میں جب انھوں نے کوئز پروگرام کسوٹی پیش کیا تو ان کو اس قدر پذیرائی ملی جس کی نشریات کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔ان کی عظیم قومی خدمات  کے اعتراف میں انھیں پرائڈ آف پرفارمنس کاایوارڈ چودہ اگست 2008کو حکومت پاکستان نے عطا کیا۔پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ 2009میں ملا ۔ان کی فقید المثال کامرانیوں نے انھیں جو بلند مقام عطا کیا اس میں وہ اپنی مثال آپ تھے ۔ان کا اسلوب ان کی ذات تھا  ۔اگرچہ وہ انٹرمیڈیٹ سے آگے تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے لیکن اپنے وسیع مطالعہ کے اعجاز سے وہ علوم و فنون کا بحر بے کراں ثابت ہوئے ۔

 کون ستارے چھو سکتا ہے                راہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے

       ’’سیلانی کے ساتھ‘‘ کے عنوان سے انھوں نے جو ڈاکو منٹریز تیار کیں وہ اپنی نوعیت  اور افادیت کے لحاظ سے بہت اہم ہیں ۔ان ڈاکو منٹریز کے ذریعے وہ عوام میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کے متمنی تھے ۔ان کی ایک ایک تصویر اور ایک ایک منظر سے جو صدا نکلتی ہے وہ ناظرین کے دل کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے ۔وطن اور اہل وطن کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ان کا امتیازی وصف ہے ۔ان کے اسلوب کی پہچان یہ ہے کہ ان کے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجے سے ایک ہی سر نکلتا ہے کہ اے نگار وطن تو سلامت رہے ۔تحفظ جنگلی حیات کے لیے ان کی خدمات کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔وہ سمجھتے تھے کہ جب کسی مقام  پر جنگلی حیات پر عرصہ ء حیات تنگ کر دیا جائے اور یہ بے بس مخلوق وہاں سے کوچ کرنے پر مجبور ہو جائے یا حبس کے ماحول کے باعث طیور اپنے آشیانوں میں دم توڑ دیں تو یہ آفات ناگہانی کا اک اشارہ ہوتا ہے ۔  اردو ناول اور افسانے کے فروغ کے لیے انھوں نے انتھک کا م کیا ۔اردو افسانے میں انھوں نے حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کا اعلیٰ ترین معیارپیش نظر رکھا۔ان کے دو ناول شائع ہوئے ۔ان کا پہلا ناول ’’اور انسان زندہ ہے ‘‘ان کے تجربات ،احساسات اور مشاہدات کا آئینہ دار ہے ۔ان کا دوسرا ناول ’’راجپوت ‘‘کے نام سے شائع ہوا۔اس ناول میں انھوں نے تاریخ کے مسلسل عمل کی جانب متوجہ کیا ہے ۔اس شہر خفتگاں میں ان کی آواز تاریخی صداقتوں کی مظہر ہے ان کی شخصیت کے تمام اوصاف ان کے اسلوب میں سمٹ آئے ہیں ۔وہ کتا ب کلچر کے نمائندہ تھے ۔ایک وسیع ا  لمطالعہ ادیب کی حیثیت سے انھوں نے اپنے تبحر علمی، وسیع النظری اور تخیل  کی جولانیوں سے پوری دنیا کو ورطہء حیر میں ڈال دیا ۔ ان کے لائق صد رشک کام کو دیکھ کر یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ان کی تخلیقات زمان  و مکان کی حدود سے بالا تر ہیں اور ان کی سرحدیں آفاقیت تک جا پہنچتی ہیں ۔روح عصر سے مزین ان کی تخلیقات میں ایک ایسا جذبہء بیدار جلوہ گر ہے جو  ہر دور میں دلوں کو ایک ولولہء تازہ عطا کرتا ر ہے گا ۔ان کا اسلوب ان کی عظمت فکر  اور روحانی بالیدگی کا عمدہ نمونہ ہے ۔ان کے ناول اورافسانے جدت ،ندرت، رفعت تخیل اور پر تاثیر جذبات کے امین ہیں ۔ان کے مطالعہ سے جمود کاخاتمہ ہوتا ہے اور  قاری کے متخیلہ میں ایک ہلچل پیدا ہوتی ہے ۔عبیداللہ بیگ کا نام رہتی دنیا تک باقی رہے گا ۔ان کا نام اور وقیع کام تا ابد قارئین ادب کویاد رہے گا ۔تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی ۔

 پھیلی ہیں فضائوں میں اس طرح تیری یادیں               جس سمت نظر اٹھی آواز تیری آئی


Dr.Ghulam Shabbir Rana (Mustafa Abad -Jhang City   Punjab -Pakistan)                                         

********************************

 


          

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 513