donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Gholam Shabbir Rana
Title :
   Quraish Pur : Zamee Kha Gayi Aasma Kaise Kaise


قریش پور:زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے


ڈاکٹر غلام شبیر رانا


           قریش پور نے 5۔اگست 2013کی صبح عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ 1932میں بھوپال (بھارت )میں جنم لینے والے اس نابغہ ء روزگار دانش ور نے اپنی فقید المثال کامرانیوں کی پوری دنیا میں دھاک بٹھا دی ۔پاپوش نگر کراچی کے شہر خموشاں کی  زمین نے اردو ادب کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا ۔ان کی رحلت سے علمی و ادبی دنیا ایک ایسے دائرۃ المعارف سے محروم ہو گئی جس نے اذہاں کی تطہرو تنویر کے لیے گراذ قدر خدمات انجام دیں ۔قریش پور (ذوالقرنین قریشی )کا شمار عالمی شہرت کے حامل ان ممتاز پاکستانی دانش وروں میں ہوتا تھاجنھوں نے وطن ،اہل وطن اور بنی نوع انسان سے ٹوٹ کر محبت کی اور زندگی بھر انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے کوشاں رہے  ۔ان کے تخلیقی محرکات میں ذوق سلیم کی ثروت نمایا ں ہے جو قاری کے لیے ایک انوکھے  تجربے کی نوید لاتی ہے ۔انھوںنے اپنی ذاتی محنت ،لگن اور ابلاغیات سے والہانہ محبت کی بدولت جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔وہ پاکستان کے ممتاز دانش ور ،ناول نگار،مصنف ،کالم نگار اور میڈیا ایکسپرٹ تھے  ایک ایسے  یگانہ ء روزگار فاضل کا  ہماری محفل سے اٹھ جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔وہ اپنے عہد کے نابغہ تھے ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا ۔  ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن نے ستر کی دہائی میں اپنی نشریات کوبا م عروج پر پہنچا دیا۔اس تمام تر کامیابی اور نیک نامی کا سہرا اس عہد کے ممتاز براڈ کاسٹرز کے سر ہے جنھوں نے اپنے خون جگر سے ان نشریاتی اداروں کو معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرے نہ صرف قومی تشخص کو اجاگر کیا بل کہ ان قومی اداروں کو پوری دنیا میں معزز و مفتخر کر دیا۔ان نشریاتی اداروں کے اس عہد زریں میں جن مایہء ناز ہستیوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں ان میں مصطفیٰ علی ہمدانی ،انور بہزاد ،شکیل احمد ،انیتا غلام علی ،شائستہ زید ،مہ پارہ صفدر ،نیلو فر عباسی ،یاسمین طاہر  ،عبیداللہ بیگ ،قریش پور ،اشفاق احمد اور سید جعفر طاہر کے نام قابل ذکر ہیں ۔پاکستانی ذرائع ابلاغ کا وہ دور  تشریات کی تاریخ کا یادگار دور سمجھا جاتا ہے ۔اس قدر معیاری پروگرام پیش کیے جاتے تھے کہ گھر کے تمام افراد مل کر انھیں دیکھتے اور اور نہ صرف تفریح کے مواقع سے فیض یاب ہوتے بل کہ ان کی معلومات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا۔مثال کے طور پر ففٹی ففٹی اور الف نون کو کلاسیک کی حیثیت حاصل تھی۔اسی زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن سے ایک ایسا پروگرام ٹیلی کاسٹ کیا جاتا تھا جسے ہر عمر کے ناظرین میں بے پنا ہ مقبولیت حاصل تھی ۔سوال و جواب (quiz)پر مشتمل یہ پروگرام ’’کسوٹی ‘‘کے نام  سے پیش کیا جاتا تھا۔  یہ پروگرام پاکستان کے ذرائع ابلاغ  کی تاریخ میںہمیشہ یادگار رہے گا جس نے سب سے طویل عرصے تک جاری رہنے والے پروگرام کا اعزاز حاصل کیا اور اپنی بے پناہ مقبولیت کو بھی بر قرار رکھا۔کسوٹی نے اس عہد میں مقبولیت کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے ۔اس رجحان ساز پروگرام میں جن نامور ہستیوں نے حصہ لیا ان میں عبیداللہ بیگ (جو گزشتہ برس خالق حقیقی سے جاملے )اور قریش پور کے نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ان دو میڈیا ایکسپرٹس نے کسوٹی کو معلومات عامہ ،علوم و فنون ،تاریخ وا دب ،سائنس و ٹیکنالوجی ،جغرافیائی حالات ،عالمی سیاسیات ،مذاہب عالم اور علم بشریات کا ایک اہم ترین اور معتبر مخزن معلومات بنا دیا۔قریش پور کی شخصیت  کسوٹی میں اہم ترین کردار ادا کر رہی تھی ۔سوال و جواب پر مشتمل ایک خشک سے پروگرام کو انھوں نے اپنی باغ و بہار شخصیت اور گل افشانیء گفتار سے سدا بہار بنادیا۔وہ بولتے تو ان کے منہ سے پھول جھڑتے جس سوال کا جواب دیتے سب کو لاجواب کر دیتے ۔اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ عبید اللہ بیگ اور قریش پور ہی  کی معجز نما شخصیات کی بدولت کسوٹی کوفقید المثال کامیابی نصیب ہوئی ۔قریش پور یک وسیع المطالعہ دانش ور تھے ۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دائرۃ المعارف تھے جس نے علم و ادب کے لاکھوں طالب علموں کے ذوق سلیم کو نکھارا  ۔ان کے تبحر علمی کا ایک عالم معترف تھا۔علوم کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جو ان سے مخفی ہوتا ۔جو بھی موضوع ہوتا وہ اس پر پورے اعتماد سے گفتگو کرتے  ان سے جو بھی سوال پوچھا جاتا وہ اس کا فی الفور جواب دینے کی صلاحیت سے متمتع تھے ۔اس عہد کے سب چاند چہرے دائمی مفارقت دے گئے ۔کیسے کیسے آفتاب و ماہتاب زیر زمین چلے گئے ۔کتنے بلندو بالا آسمان زمین نے نگل لیے ۔اجل کے اس چاک کو سوزن تدبیر سے رفو کرنا ممکن ہی نہیں ۔ایک ہنستا بو لتا چمن مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا ۔علم و ادب کی دنیا کا کو لمبس اپنے لاکھوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر ایک نئی دنیا میں جا بسا ہے ۔یہ دنیا ہم سے اتنی دور ہے کہ ہم اپنی بقیہ زندگی صرف یاد رفتگاں میں گزارنے پر مجبور ہیں۔

          1992میں وہ  پاکستان ٹیلی ویژ ن کی ملازمت سے سبک دوش ہو گئے اور نارتھ ناظم آباد کراچی میں واقع اپنی رہائش گاہ میں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے لگے ۔  مسلسل شکست دل کے باعث بے حسی بڑھنے لگی ہے ۔بے مہریء عالم کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ وہ عظیم دانش ور جس نے اپنے علم و فضل سے لاکھوں طالب علموں کو فیض یاب کیا ،جس کے افکار کی ضیا پاشیوں نے دنیا کو بقعہء نور کر دیا ،جس کے خیالات کا پانی بحر بے کراں کے ما نند ٹھاٹیں مارتا تھا، اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے کمرے اور اپنی ذات میں سمٹ کر رہ گیا ۔ان کے عہد جوانی اور عروج کا دور موج نسیم کے مانند ثابت ہوا ،زندگی کے نشیب و فراز کا مشاہدہ کرتے کرتے سب حقائق خیال و خواب ہو گئے اور وہ اپنے دیرینہ ساتھیوں کی جدائی کے زخم کی تاب نہ لا سکے  ۔تنہائی کے اس عالم میں  جب ان کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا توانھوں نے اپنا وقت تخلیق ادب کے لیے وقف کر دیا ۔ کتب بینی ہی ان کا واحد مشغلہ تھا ،ہر موضوع  پروہ نئی کتب کے متلاشی رہتے تھے۔جیسے ہی کو ئی نئی کتاب ان کو ملتی وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے اور احباب کو اس کتاب کے محاسن سے آگاہ کرتے۔  وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ پاکستان کے قومی تشخص کواجاگر کرنے کے لیے یہاں فروغ علم و ادب پر توجہ نا گزیر ہے ۔سنگ  وخشت سے تعمیرنو  اور فکری منہاج کا تعین  ممکن ہی نہیں بل کہ جہان تازہ کی نمود صرف اور صرف افکارتازہ کی مر ہون منت ہے  وطن ،اہل وطن اور انسانیت کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اوروالہانہ محبت ان کے مزاض کا اہم وصف تھا۔انسانیت  کے  وقار اورسر بلندی کے لیے انھوں نے زندگی بھر جدو جہد کی ۔وہ سلطانیء جمہور کے زبردست حامی تھے۔وطن کو محض بلند و بالا عمارتوں سے پہچان نہیں ملتی بل کہ یہ تو اہل وطن کے جسم اورروح سے عبارت ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ اگر وطن عزیز میں علم و ادب کے فروغ پر توجہ دی جائے اور یہاں علوم و فنون میں دلچسپی بڑھنے لگے تو اس کے نتیجے میں قوم اقوام عالم کی صف میں معزز و مفتخر ہو سکتی  ہے ۔ہمارے علمی و ادبی ذخائر ہی ہمارے لیے سرمایہء افتخار ثابت ہوسکتے ہیں ۔پاکستانی تہذیب و ثقافت کی بقا اور فروغ میں انھوں نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی ۔ان کاخیال تھا کہ پاکستانی قوم کو اللہ کریم نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔اگر ان کی طرز زندگی پر تحقیق کی جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انتہائی کٹھن حالات میںبھی اس قوم نے اپنی تہذیبی اور ثقافتی اقدار و روایات کی پاسداری کی ہے ۔ان کے اسلوب میں خیالات کی جو تونگری ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔۔ان کے ا حباب ان کی فکر پرور اور بصیرت افروز رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے ۔وہ ادب میں مقصدیت کو بہت اہم خیال کرتے تھے اسی لیے ان کی تخلیقات میں واقعیت ،حقیقت اور مقصدیت کا غلبہ نظر آتا ہے ۔ان کی تخلیقات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جہاں تک مواد کا تعلق ہے یہ ایک اجتماعی کیفیت کی مظہر ہیں لیکن جب اسلوب کا مطالعہ کیا جائے تو ان کی تخلیقات میں انفرادیت کی شان قلب  ونظر کو مسخر کر لیتی ہے ۔   وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان علم و ادب تھے ۔ان کا حلقہء احباب بہت وسیع تھا ۔خاص طور پر ذرائع ابلاغ سے وابستہ مشاہیر کے ساتھ ان کے قریبی مراسم ان کے لیے  راحت اور سکون قلب کا وسیلہ تھے ۔ اپنے دیرینہ رفقائے کار کی دائمی مفارقت پر وہ بہت دل گرفتہ تھے  ۔عبیداللہ بیگ اور لطف اللہ خان کے ساتھ ان کے بہت قریبی تعلقات تھے ۔وہ ان کے قریبی ساتھی اورغم گسار تھے ان کی وفات کے بعد قریش پور اپنے جذبات حزیں کا اظہار کرتے تو ان کی آنکھیں پر نم ہو جاتیں۔قریش پور کی وفات سے نشریات کے عہد زریں کی حسین یادیںتاریخ کے طوماروں میں دب گئیں ۔اللہ کریم انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ایام گزشتہ کی یادوں میںکھویا میں اپنی محفل کے ان مشاہیر کو نشیب زینہ ء ایام میں اترتے دیکھ کر اپنے آنسو ضبط نہیں کر سکتا ۔ان مشاہیر کا نوحہ لکھ کر تزکیہ نفس کی ایک صور ت تلاش کرنے کی سعی کرتا ہوں ۔رفعت سروش نے یاد رفتگاں کے حوالے سے بڑی دردمندی سے لکھا ہے :

 نوحہ ان کا نہیں گزر گئے جو                    زندگی کی اداس راہوں سے
 پھینک کر بوجھ اپنے کاندھوں کا                نوحہ ان کا جو اب بھی جیتے ہیں

 مرنے والوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے

          قریش پور کی حسین یادیں اب تو زندگی بھر ان کی دائمی مفارقت کا احساس دلاتی رہیں گی ۔اپنی محفل سے رخصت ہونے والوں کو یاد کر کے در اصل ہم اپنے قلب اور روح کو ان کی حسین یادوں اور دائمی مفارقت کے غم و اندوہ سے منور رکھنے کی سعی کرتے ہیں ۔ قریش پور نے زندگی بھر حریت فکر کا علم بلند رکھا ۔وہ حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوہء شبیر ؓپر عمل پیر ا رہے ۔جبر کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔وہ ایک گوشہ نشین درویش تھے ۔وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیا ز تعمیر وطن کے کاموں میں مصروف رہتے ۔انھوںنے کبھی در کسریٰ پر صدا نہ کی وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کھنڈرات میں موجود جامد و ساکت بت زندہ اور جان دار انسانوں کے دکھ درد کو محسوس کرنے سے قاصر ہیں ۔انھوں نے پوری دنیا میں جو عزت و تکریم اور بلند مقام حاصل کیا وہ ہر عہد میںلائق تقلید سمجھا جائے گا۔تاریخ ہر دور میں ان کے فقید المثال کام اورعظیم نام کی تعظیم کرے گی ۔انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام حاصل رہے گا ۔ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔بہ قول فراق گورکھ پوری :

 بھولیں اگر تمھیں تو کدھر جائیں کیا کریں
 ہر  رہ گزر پہ تیرے گزرنے کا حسن ہے


Ghulam  Shabbir
Mustafa Abad  Jhang City


***************************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 540