donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Ahmad Faraz : Zindagi Ke Talkh Haqaiq Ka Shayer


احمد فراز : زندگی کے تلخ حقائق کاشاعر
 
گیسوئے تحریر: ڈاکٹرامام اعظم
 
احمد فرازؔ اردو شاعری کے ایک ایسے ستون تھے جس نے اردوشاعری کوکلاسکیت سے جدا بھی نہیں ہونے دیا اور نئے ذائقہ سے ہمکنار بھی کیا۔ کہنے کا اندازاتنارواں دواں سادہ اور مکالماتی ہوتا تھا کہ غزل میں ڈرامائی رنگ ابھرنے لگتاتھا۔ ایسا لگتا ہے غزل نہیں کہہ رہے ہوں گفتگو کررہے ہوں۔ ان کی شاعری کا کوئی دوسرا نثری بدل نہیں ہوسکتا جس طرح نثر میں شاعرانہ حسن پیدا کرنے کیلئے شاعری کی جاتی ہے شاعری کے ہنر اپنا ئے جاتے ہیں اسی طرح انہوں نے شاعری کی ہے جس کی دوسری نثر نہیں ہوسکتی ہے۔ یہ ملکہ بہت کم شعراکے اندر پایا جاتاہے۔ عشق کی معاملہ فہمی اورزندگی کے تلخ حقائق کے بیان کی آمیزش ان کے یہاں اس طرح ہے کہ غزلوں میں زندگی اور عشق دونوں ایک دوسرے کے قریب ترہوجاتے ہیں۔ احمد فرازکی یہی خوبی ان کو منفرد بنادیتی ہے ان کے عہدکا کوئی دوسرا شاعراس انداز میں کہنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ ان کے اپنے اسلوب تھے جو شعری قالب میں ڈھل گئے۔
 
احمد فرازکے انتقال سے اردو دنیا نے ایک ایسا شاعرکھو دیا جوماضی وحال کی ایک کڑی کی حیثیت رکھتاتھا جس نے کلاسیکی اور نئے زمانے کے تقاضوں کے درمیان جوخلیج حائل تھی اسے پاٹ دیا تھا۔ احمد فرازنے روحانیت کوصحیح معنوں میں برتنے کی کوشش کی اور زندگی کے وہ نازک گوشے جوزندگی کے ہر موڑ پر ہر عمر میں کچوکے دیتے ہیں ان کے زخموں پرمرہم بھی لگایاہے اور اتناہی نہیں یاد ماضی کوبھی تازہ کردیاہے۔
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سےحافظہ میرا
لیکن اس عذاب میں ایک لذت ہوتی ہے آدمی بھلانا بھی چاہتا ہے اور نہیں بھی بھلاناچاہتا ہے۔ احمدفرازکی شاعری کو پڑھ کرایک معجزہ جاتی احساس ہوتاہے کہ جیسے وہ تمام پردے حقیقت کے کھل رہے ہوں جوروحانیت کے راستے سے گذرجاتے ہوں۔ ایک انجانا سااحساس، ایک انجانی سی لذت جو لفظوںمیں بیان نہیں کی جاسکتی احمد فرازکی شاعری کو پڑھ کر اور سن کرہوتیہے۔ زندگی کی گہری باتیں جس رومانیت کے لہجہ میں بیان کی گئی ہیں ان کو سمجھنے کیلئے ایک اہل دل چاہئے۔ احمدفرازاسی لئے ایک بڑے شاعرہیں۔
دلوںمیں گھربنانے والے احمد فرازکی مقبولیت کااندازہ اس بات سے کیاجاسکتاہے کہ برصغیرمیں اوربیرون ممالک میںکتنے ہی گھرانوں کی نئی پودکانام ان کے نام پر رکھا گیاہے۔
 
شاعر جتنا بھی بڑا ہومگر اس کے اشعارا گردل کونہیں چھوتے تو اس کامطلب ہے کہ وہ دل کی گہرائیوں سے نہیں نکلے ہیں۔ بعض شعراء کی غزلیں مشاعروں میں سننے میں اچھی لگتی ہیں لیکن پڑھنے میں اچھی نہیں لگتیں۔ بعض شعراء مشاعرہ میں اچھا نہیں پڑھتے لیکن ان کی غزلوں میں روحانی تازگی موجود رہتی ہے جس کو پڑھنے کے بعداس کی شگفتگی کااحساس قاری کو بھی ہوتاہے۔ احمد فرازاس لئے مقبول رہے کہ ان کی شاعری مشاعروں کو بھی لوٹتی رہی اور پڑھنے میں بھی بے پناہ لذت سے آشناکراتی رہی۔ احمدفرازکی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے شعری غنائیت کابھرپور اہتمام کیا ہے اور اس غنائت سے جو کیفیت پیداہوتی ہے، وہ ایک انجانے سرورسے ہمکنارکرتی ہے۔ شاعرکی یہی خوبی اس کی شاعری کویاد گار بناتی ہے۔ نشاطیہ یایا سیت بھراپہلوجوبیان کی لذتوں سے اگر خالی ہے تو وہ دل کو نہیںچھوسکتا۔ احمد فرازنے مایوسی میں رجائی پہلو اور حالات کے تقاضے کواپنے شعری پیمانہ میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ رنگ وبوسے آشنائی ،قدرت کی جلوہ گری ، دل کے اندر اٹھتے ہوئے جذبات ،احساسات کی ترنگ یہ ساری چیزیںانسانی زندگی کے ہرموڑ پر محسوس کی جاتی ہیں۔ حسن کی لذت سے آشنامحبت کی بے پناہ ستم گری، محبت سے حاصل شدہ خوشی، ہجر وصال کے لمحے تمام کی تمام چیزیں اپنے طورپر انسان کی زندگی میں رونماہوتی رہتی ہیں لیکن ایک شاعرکادل اس کو محسوس کرتا ہے اور اسے اپنی شاعری میں ڈھال دیتا ہے اس کے لئے اہل زبان ہونا ضروری نہیں احمدفرازجن کی مادری زبان پشتوتھی ان کی شاعری میں بھی لفظوںکی بندش، احساس کی گرفت اور کیفیات کی جھنکارمحسوس کرسکتے ہیں۔باوجود یکہ وہ لکھنؤکی سرزمین پرپیدانہیں ہوئے، ان کی شاعری کی روانی ،دلکشی ،بے پناہ احساس کی ترنگ کی رواں دواں لہریں ان کی شعریات میں بکھری پڑی ہیں۔ وہ کسی ازم سے متاثرنظرنہیںآتے۔انہوں نے جوکچھ دیکھا جو کچھ محسوس کیا بالخصوص واردات قلب کوجس خوبصورتی سے پرویاہے ان کے کسی ہم عصرشاعرمیں یہ لہجہ یہ اسٹائل موجود نہیں ہے وہ منفرد اورنئی آواز کے ساتھ اپنی نئی پہچان بنانے میں کامیاب وکامران رہے ہیں۔ ان کے یہ اشعاراس بات کی کھلی دلیل ہیں۔
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میںملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ
آ،پھر سے مجھے چھوڑکے جانے کیلئے آ
کس کس کوبتائیں گے جدائی کاسبب ہم
تومجھ سے خفا ہے تو زمانے کیلئے آ
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کوجلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیربتانے والا
تم تکلف کوبھی اخلاص سمجھتے ہوفراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
 
تری قربت کے لمحے پھول جیسے
مگر پھولوںکی عمریں مختصر ہیں
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑگئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
اب تو ہمیں بھی ترک مراسم کادکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغازتو کرے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی ایک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
وہ مروت سے ملا ہے تو جھکادو ںگردن
میرے دشمن کاکوئی وار نہ خالی جائے
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کردیکھتے ہیں
سواس کے شہر میں کچھ دن ٹھہرکے دیکھتے ہیں
سناہے اس کوبھی ہے شعر وشاعری سے شغف
سوہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سناہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
سناہے رات اسے چاند تکتا رہتاہے
ستارے بامِ فلک سے اترکے دیکھتے ہیں
سناہے دن کواسے تتلیاںسجاتی ہیں
سناہے رات کو جگنوٹھہرکے دیکھتے ہیں
سناہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سناہے اس کے شبستاںسے متصل ہے بہشت
مکیںادھرکے بھی جلوے ادھرکے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیںاس کاطواف کرتی ہیں
چلے تو اس کوزمانے ٹھہرکے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہرمیں ٹھہریںکہ کوچ کرجائیں
فرازؔ آئو ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
کسی کوگھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھی سفر میں رہا
اس نے سکوتِ شب میں بھی اپناپیام رکھ دیا
ہجرکی رات بام پرماہِ تمام رکھ دیا
اس نے نظرمیں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میںنے تو اس کے پائوں میں ساراکلام رکھ دیا
اور فرازچاہئیں کتنی محبتیں تجھے
مائوں نے تیرے نام پربچوں کانام رکھ دیا
شعری ڈکشن بدلتے ہولیکن دل کامعاملہ اور معاملات فہمی اپنی جگہ الگ الگ انداز میں غنائیت کے ساتھ ساتھ ان کے شعری فارم کے تجربے بھی قابل لحاظ ہیں۔ان کی نظمیں اپنے دور کی عکاسی کرتی ہیں لیکن کہیں بھی اظہار کابراہ راست وسیلہ نہیں بنتیںاور شعری محاسن اپنی جگہ مسلم ہیں۔ ان کی نظم ’’انتساب ‘‘کاایک حصہ دیکھئے:
یہ تحریریں
ہماری آرزومندی کی تحریریں
بہم پیوستگی اور خواب پیوندی کی تحریریں
فراق ووصل ومحرومی وخورسندی کی تحریریں
ہم ان پر منفعل کیوں ہوں
یہ تحریریں
اگر اک دوسرے کے نام ہوجائیں
توکیا اس سے ہمارے فن کے رسیا
شعرکے مداح
ہم پرتمہتیں دھرتے
ہماری ہمدمی پرطنزکرتے
اوریہ باتیں
یہ افواہیں
کسی پہلی نگارش میں
ہمیشہ کیلئے مرقوم ہوجاتیں
ہماری ہستیاںمذموم ہوجاتیں
نہیںایسانہیں ہوتا
اگر بالفرض ہوتابھی
توپھر ہم کیا
سبک سارانِ شہرحرف کی چالوںسے ڈرتے ہیں؟
سگانِ کوچہ شہرت کے غوغا
کالے بازاروں کے دلالوں سے ڈرتے ہیں
ہمارے حرف جذبوں کی طرح
سچے ہیں، پاکیزہ ہیں ،زندہ ہیں
گرہماری قبرکے کتبے
تمہارے اورہمارے نام سے منسوب ہوجاتے!
ان کی نظم’’سرحدیں‘‘بھی بے حدمقبول ہوئی اس کے دوبندملاحظہ فرمائیں۔
روم کے بت ہوں کہ پیرس کی ہومونالیزا
کیٹس کی قبرہویا تربیت فردوسی ہو
قرطبہ ہو کہ اجنتا کہ موہنجوداڑو
دیدۂ شوق نہ محروم نظربوسی ہو
کس نے دنیاکوبھی دولت کی طرح بانٹاہے
کس نے تقسیم کئے ہیں یہ اثاثے سارے 
کس نے دیوار تفادت کی اٹھائی لوگو
کیوںسمندرکے کنارے پہ ہیں پیاسے پیاسے
ان کے علاوہ’’چلواس شہر کاماتم کریں’’نئی مسافت کاعہدنامہ‘‘ہم اپنے خواب کیوں بیچیں، اے میرے سارے لوگ، محاصرہ، مت قتل کرآوازوںکو،ابوجہاد، اے شہر میں تیرانغمہ گر ہوں، حرف شہادت، وغیرہ نظموں میں ان کی فکری اور شعری ٹریٹمنٹ کی غمازی ملتی ہے۔
احمد فرازکی نذر ڈاکٹر امام اعظم کی درج ذیل غزل ملاحظہ فرمائیں جس میں ان کے انتقال کے بعد جو تاثرات ابھرتے ہیں وہ انہی کی زمین میں موجود ہیں، جوان کی اہمیت کی نشاندہی کرتی ہیں۔
تمہارے جاتے ہی ہردیدہ تر کو دیکھتے ہیں
وہیں ہے ماتم غم ہم جدھر کو دیکھتے ہیں
فرازہوگئے رخصت ہوا ہے سناٹا
اداس ادا ہم شعری سفر کودیکھتے ہیں
کہاں وہ عشق جواں کی ٹھہرگئیں کرنیں
رکی رکی ہوئی بامِ سحر کودیکھتے ہیں
سناہے فیض سے آگے نکل گئے تھے فراز
غزل کے سوز دوروں کے اثر کودیکھتے ہیں
سناہے اس کی غزل کابڑا کرشمہ تھا
اسی دیار کے جادو نگر کودیکھتے ہیں
وہ جب رہا تو سجی غمزدوں کی بزم سخن
سناہے لوگ اب اس کے ہنر کودیکھتے ہیں
کہاںفرازکہاں اعظم شکستہ جاں
ذراسی چل کے ہم اس کی ڈگرکودیکھتے ہیں
احمدفرازکی شاعری ترسیل کی کسوٹی پرکھری اترتی ہے اور اسلوب نگارش کلاسیکیت اور روایت سے قریب ترہے۔
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 936