donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Anwar Sadeed Ka Self Literary Zone

انورسیدید کا سلف لٹریری زون
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
ڈاکٹرانورسدید نے بہت لکھاہے تنقید، تحقیق، انشائیہ، غزلیں نظمیں، طنزومزاح تبصرے، اور خاکے وغیرہ پر ان کے بیش بہا مضامین ہیں اور کتابیں ہیں۔ وہ کالم نگار بھی ہیں۔ بعض ادبی رسائل سے بھی جڑے رہے ہیں۔
جس سال انور سدید پیدا ہوئے تھے اس سال دریا ئے جہلم میں زوروں کی طغیانی آئی تھی یہ طغیانی ان کے قلم میں بھی دیکھنے کوملتی رہی ہے۔ حالانکہ پیشہ کے اعتبار سے وہ انجینئررہے اورجب ملازمت میں آگئے تب انہوں نے سائنس کی بجائے بی اے کیا۔ یہ ڈگری ادیب فاضل کاامتحان پاس کرکے حاصل کی۔ پھر انہوں نے ایم اے کیا اور پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری لی۔ ان کی تھیس کے داخلی نگراں ڈاکٹر وزیرآغاتے۔
ڈاکٹر انورسدید کی پہلی کہانی بچوں کے رسالہ گلدستہ میں شائع ہوئی اور یہیں سے ان کاادبی سفر شروع ہوتاہے ۔ جلدہی وہ فلمی رسالہ چترا، میں لکھنے لگے لیکن ابتدا میں وہ افسانے لکھتے تھے۔ ان کے افسانے بیسویں صدی، ہمایوں، آجکل، اور ، ماہ نو، میں بھی چھپے ، لیکن ۱۹۶۶ء میں وزیرآغا نے جب اوراق نکالا تو ان کے مشور سے تنقید لکھنے لگے اور انشائیہ کی طرف خصوصی پرمائل ہوئے۔ شاعری کامطالعہ کرتے ہوئے شعر کہنے کی طرف بھی راغب ہوئے۔
 
انورسدید کے تمام رویوں کی بنیاد اسی نظریے پر ہے کہ آج کاباہوش فنکار انسانی جبلتوں اور جذبوں کااسیر محض نہیںہے۔ انہوں نے زندگی کے ہرشعبے میں عموما اور ادب وفن میں خصوصاشعور کی برتری کوتسلیم کیاہے۔ وہ جذبوں اور جبتوں کومسترد نہیں کرتے بلکہ بسااوقات انسانی فطرت کی قوتوں کوسامنے رکھ کرانسان اور فنکار کوسمجھنے کی قوت کواستعمال میں لاتے ہیں۔ وہ کسی کرب باطنی یاسوزنہانی کومقصود بالذات یااس کے حقیقت ہونے کومادی زندگی اور ماحول سے الگ نہیں سمجھتے۔
 
اردو کے شعراء ادبا اور نقا دعقل سلیم ، ذوق سلیم، احساس ،وجدان، ادراک ، آگہی وغیرہ کی بات تو کرتے ہیں لیکن وہ ان سب قوتوں کوجذبوں ہی کی مختلف کیفتیںسمجھتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب شعور کی قوت کے مختلف روپ ہیں۔ ہرنئی دہائی شعور کے تحت نئے کرشمے کی خبردیتی ہے۔ جذبوں جبلتوں اور شعور کے بارے میں یہ نظریہ انورسدید کے فکری ارتقااور ان کے رویوں کے یقین میں بنیادی حیثیت رکھتاہے۔ آج ہر عمل کے معانی اور ہرفعل کے جواز کایقین لازم ہوچکاہے اور ادب وفن بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
 
انورسدیدکے افسانوں کاجائزہ لیا جائے تو زبان کارس اور حسن وعشق کی صورت گری بیشتر افسانے میں ملتی ہے۔ وہ اپنے مافی الضمیر کی ترسیل میں فطری چستی اورہنرمندی کاثبوت دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک صالح حیات بخش اورانسان پرور معاشرے کاخواب بھی ان کے افسانوں میں ملتا ہے کردار کی نفسیاتی دوروں میں بنی بھی نظر آتی ہے جس سے داخلی محرکات کوسمجھاجاسکتاہے۔
 
انورسدید کی شاعری میں جذباتی وارفنگی اور احساس کی گہرائی ملتی ہے۔ وہ شاعری کے مروجہ پیمانوں کوقبول کرنے کے باوجود اپنی افتادطبع کومحدود نہیں کرتے بلکہ عصری زندگی کواپنی ذات کے حوالے سے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نقش قدم سے راستہ تلاش کرنے کے بجائے گردسفر میں اپنی منزل خود بناتے ہیں۔ ہرغزل اورہرنظم میں انورسدید نے زندگی سے تجربہ کشیدکیاہے اور شعور کی سطح پرمحسوس کیاہے۔ انورسدیدکے انشائیہ اور طنزومزاح میں زندگی کے وسیع ترخارزار کی سیاحت ملتی ہے آبلہ پائی کو حاصل سمجھ کرلطیف اورکومل روپ دینے کاہنروہ جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دھیمے لہجے اورنمایاںاسلوب میں نشتریت کوراہ دیتے ہیں اوررحم طلب نگاہوں کوبیکراںنظارہ اور دردکامداوابخشتے ہیں۔
انورسیدمحقق اورناقد ہیں۔ فکر وخیال اختلافات اردو افسانے میں دیہات کی پیش کشی، وزیرآغا، ایک مطالعہ انشائیہ اردو ادب میں، اردو میں سفر نامہ انیس، کے قلم رو، برسبیل تنقید، اردو نثر کے آفاق، اقبال کے کلاسیکی نقوش اور ادب کی تحریکیں وغیرہ کتابیں جدید اردو تنقید میں عمودی اور افقی پہلوئوں پرمحیط ہیں۔ انہوں نے ادب پارے میں مضمرجملہ تہوںتک رسائی حاصل کی ہے تاکہ تخلیق کے پورے اسٹرکچرکوگرفت میں لیاجائے۔ ان کے یہاں موضوعات میں تازگی اورمضامین کی ثقالت فکرانگیزی عطا کرتی ہے۔وہ معاصرادب سے آگہی پرزورردیتے ہیں اور تخلیق کاروں سے ذہنی قربت کراتے ہیں انورسدیدکی تنقید میں پاکستانیت پربھی زورملتا ہے پاکستانیت سے مراد مخصوص اجتماعی مزاج ہے جس سے اس خطہ ارض کی تہذیبی ،ثقافتی ، فکری، نظریاتی غرض ہرقسم کی انفرادیت معتمین ہوتی ہے۔ اس اجتماعی مزاج کی تشکیل میں آب وہوا، رسم ورواج مذہب اور عقیدہ ، سیاسی اور سماجی رجحانات ،ذہنی وفکری میلانات وغیرہ بے شمار عوامل مختلف سطحوںپر اور مختلف جہتوں میں اثر اندازہوتے رہے ہیں۔ انورسدید نے ادب میں پاکستانیت کے سوال کودوموقعوں پر ابھرتے دیکھا ہے ایک ۱۹۶۵ کی جگ کے بعد جب نظریاتی اساس کی طرف توجہ مبذول ہوئی۔ وہ سوچ کرمنظر پرابھاتے ہیں اور معاشرے کے داخلی مزاج کومنعکس کرتے ہیں۔
 
انورسدیدکے تبصرے پڑھ کر تخلیق کاروں سے ذہنی قربت کااندازہ ہوتاہے وہ کم سے کم الفاظ میں ان سب خوبیوں کوبروئے کارلانے میں کامیاب ہوتے ہیں جوکتاب میں درج ہوتی ہیں خارجی اور داخلی سطح کاانضمام اوربخوگ تبصرے میں قوت اور جاذبیت کاسب بنتے ہیں۔
 
انورسدیدکالم نگاربھی ہیں جن میں گہرائی اورگیرائی کے صفات ملتے ہیں۔ فکرانگیزی سے کام لے کروہ علم ودانش کے موتی چنتے رہتے ہیں۔
منجملہ طورپر دیکھاجائے تو انور سدیداپنے وجود کی کرچیاں چن کر جوڑتے ہیں اور ادب کی تخلیق کرتے ہیں اورتنقیدلکھتے ہیں۔ ان کے پاس عرفانی وجدان کی دولت ہے اور اعلیٰ نظریات کانورہے ان حسین پیکراپنا عکس ضرور مرتسم کرتے ہیں۔
 
انسان تہہ درتہہ متنوع وپرپیچ پہلوئوں کامالک ہوتاہے۔ اسے حقیت حال کاادراک تب ہوتا ہے جب وہ اس سے گذرتاہے یاپھر تنہائی میں ارتکازذات کے عمل سے گذرتاہے انورسدید لکھتے وقت روحانی ترفع سے مس ہوتے ہیں اسی لئے سوچنے اورتخلیق کرنے کی استعدادپرقدرت رکھتے ہیں۔
 
انرسدیدکی شخصیت کی یہ اہم خوبی ہے کہ وہ تعلی پسند ہیں ہیں۔ ڈاکٹر مناظرعاشق ہرگانوی کو انٹرویودیتے ہوئے ان کے ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں میں نے ابتداشاعری سے ہی کی تھی لیکن یہ طالب علمانہ قسم کی کوشش تھی۔ محض تک بندی، پھرافسانہ، تنقیداور انشائیہ کی طرف راغب ہوا تو شاعری پس پردہ چلی گئی اور اب بھی یہ میرے اظہار کی نمائندہ صنف نہیں۔ شاعری تومیں نے اپنے منہ ذائقہ تبدیل کرنے کیلئے ہی کی ہے اور یہ چند اں اہم نہیں شاعری کامطالعہ کرتے ہوئے بعض اوقات کوئی شعر خود بخود زبان پر آجاتاہے کبھی کوئی زمین اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ کبھی دوستوں کی فرمائش پرشعر کہہ لیتاہوں۔
ایسی سچائی کااعتراف کوئی صاحب دل ہی کرسکتاہے۔ اسی موضوع گفتگوکرتے ہوئے وہ مزید انکشاف کرتے ہیں۔
 
میرااحساس ہے کہ میں نے شاعری میں پوراریاض نہیںکیا۔ ہرفن اپنے تخلیق کارسے گہری وابستگی کاطلب گارہوتاہے۔ نثری اصناف میںمیری مصروفیت کل وقتی نوعیت کی ہے اور میں نے تنقیدکو زیادہ اہمیت دی ہے چنانچہ شاعری کی دیوی مجھ سے ناراض ہوگئی۔ اب بھی یہ مجھ پرشاذ ونادرہی مہربانی ہوتی ہے میں شاید اس کے التفات فراواں سے محروم ہوں۔
 
تخلیقی عمل اور تنقیدی نظریے کے بارے میں انورسدید اعتراف کرتے ہیں۔
تخلیقی عمل کیلئے آمد کالمحہ متعین نہیں ہے مجھے یہ ارتکاز فکر کانتیجہ نظرآتاہے۔ تخلیق کی نسبت تنقید ثانوی نوعیت کاادبی کام ہے۔ تاہم تنقیدلکھتے ہوئے جب نکتہ اپنااسرارکھولتاہے تو میں ایک عجیب نوع کی لطافت محسوس کرتاہوں۔ مقالہ لکھنے کے بعد جب خرمن سے بوجھ ہٹ جاتاہے تو میں اپنا کتھارسس مکمل کرلیتاہوں۔ اس نظریاتی تفسیروتفہیم سے بھی انورسدید کی فکر انگیزی پرروشنی پڑتی ہے۔ انورسدیدکی فکرونظرکی رعنائی میں ایک شان ہے، ایک تمکنت ہے اور جذبات کی ترسیل ہے۔
 
ڈاکٹرانورسدی د نے جتنا کچھ لکھاہے ان کے مقابلے میں ایک ہی نام اردو دنیا میں جلوہ گرہے اور وہ نام ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کاہے۔ خود انور سدید نے ہرگانوی کی ایک کتاب پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے۔
’’میں مناظر عاشق ہرگانوی کی ادبی لگن، ان کاذوق وشوق اوران کاتخلیقی وتنقیدی ولولہ دیکھتاہوں تو محسوس کرتاہوں کہ ایسے ہی منفرد اور انوکھے لوگ ناولوں کاکردار بن جاتے ہیں کوئی دن نہیں جاتا جب ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کاکوئی نہ کوئی ادبی کارنامہ منظر عام پر نہ آجاتاہو۔ اہم بات یہ ہے کہ مناظرعاشق ہرگانوی کی یہ تمام سرگرمی صلہ وستائش سے بے نیاز نظرآتی ہے اور وہ اپنے مخالفین کی منفی تنقیدکی زد میں رہتے ہوئے بھی ایک شان استغناسے اپناکام کئے جارہے ہیں۔
اوریہ سچ بھی ہے کہ اختراعی ذہن کے مالک ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے بہت کچھ نیااردو ادب کودیاہے جس کااعتراف ان کے مخالفین اورحاسد ین بھی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر انورسدیدکے بارے میں ڈاکٹرمناظرعاشق ہرگانوی لکھتے ہیں۔
 
’’انورسدیدشاعرہیں ،تنقیدنگار ہیں، انشائیہ نگارہیں افسانہ نگار ہیں اور طنزومزاح کے ساتھ ساتھ مستندکالم نگااور تبصرہ نگار ہیں وہ زندگی کے تمام مظاہرکوحسن نیکی اور خیرکے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ منطق ، تجزیہ تحریر اور تجسس بھی ان کی خوبیاں ہیں وہ انکشاف کے ساحرانہ عمل کواچھی طرح جانتے ہیں اور ادب سے والہانہ لگائوں رکھنے والوں کے بے حدعزیزرکھتے ہیں۔ ایکزی کیٹوانجینئر ہوتے ہوئے بھی وہ صرف اور صرف اردو کے قلم کار ہیں اور لکھنا، پڑھنا اور پڑھنالکھناہی ان کی زندگی کااولین مقصدہے
یہ جمالیاتی شعورہی ہے کہ انورسدیداور مناظر عاشق ہرگانوی ایک دوسرے کے بارے میں ایسی رائے رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کار کردگی کوسراہتے ہیں اور دائرہ فکر ونظرکو عظمت کی سندعطا کرتے ہیں۔
میرے خیال میں دونوں کے اظہار کاوسیلہ سچاہے، منفردہے اور مصورانہ ہے اسی لئے دونوں ادب کی تاریخ میں جداگانہ حیثیت کے مالک ہیں ساتھ ہی خوبصورت حقائق اور فطری سرمایہ تخلیق کے ایسے روشن مینار ہیں جن کے عکس میں باطن شناسی کی جاسکتی ہے اور تخلیقی ایج کوخود آگاہی کی شناخت تک پہنچایا جاسکتاہے۔ حقیقت کی بلاواسطہ معرفت حاصل کرنے کیلئے دل میں دیدہ بینا پیدا کرناہوتاہے تاکہ آنکھ حقیقت تک پہنچ سکے انورسدید کی تحریرکرشمہ سازی کچھ ایسی ہی ہے۔
 
++++
Comments


Login

You are Visitor Number : 1152