donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Anwar Shaikh : Radifai Tajurbe Ka Shayer


انورشیخ:ردیفائی تجربے کاشاعر
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
انورشیخ کی غزلوں کوسمجھنا اس لئے آسان نہیں کہ وہ کسی ایک انداز سے غزلیں نہیں لکھتے قوافی وردیف جہاں بدلتے ہیں وہاں اندازبھی خود بخودبدل جاتاہے۔ اس لئے ان کے تجربے خصوصی توجہ چاہتے ہیں ۔ تخلیق کارنہ جدید ہوتاہے نہ قدیم شاعری محض لفظوں کی بنیاد پر قائم نہیں رہتی۔ لفظٖوں میں معنویت اشاریت علامت کیفیت سب کچھ موجود ہوناچاہئے اور اس فن کوانورشیخ جانتے ہیں۔وہ جب کوئی لفظ استعمال کرتے ہیں تو وہ محض لفظ نہیں ہوتا بلکہ اور بھی بہت کچھ ہوتاہے۔ اسی طرح جب بھی کسی قافیہ کو باندھتے ہیں تو وہ بھی محض قافیہ پیمائی نہیں ہوتی۔ قافیہ اور ردیف کے مابین رشتہ استوار کرنے میں صرف فنی مہارت ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ نازک خیالی کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس سے اظہار کی نئی جہتیں بھی کھلتی ہیں۔ انورشیخ کے یہاں یہ سب کچھ موجودہے۔ محض یہ سوچ لینا کہ شاعر کے ذہن میں کچھ آیا اور اسے صفحہ قرطاس پراتاردیا قافیہ پیمائی کردی ایسا کچھ نہیں ہے جہاں سے وہ تحریک حاص کرتاہے، جوبات اس کے دل کوچھوتی ہے، جو منظر ذہن میں ہیجان پیدا کرتاہے وہ اسے بہت دیرتک خودبھی نہیں سمجھ پاتا دھیرے دھیرے جب وہ کیفیات سے ابھرتاہے تب مطلع صاف ہوجاتاہے اور الفاظ خود بخود ان ساری کیفیات کے ساتھ فکری ہیجان کے ہمراہ فطری انداز میں نازل ہونے لگتے ہیں اور غزل کاروپ اختیار کرلیتے ہیں۔ ایک ہی نشست میں کوئی غزل مکمل ہوجاتی ہے اور کئی نشستوں کے بعد بھی غزل کاروپ اختیار کرلیتے ہیں۔ ایک ہی نشست میں کوئی غزل مکمل ہوجاتی ہے اور کئی نشستوں کے بعد بھی غزل ادھوری رہ جاتی ہے۔ جتنی فنی مہارت غزل کے اظہار کیلئے ضروری ہے اتنی نازک خیالی بھی درکارہے۔شگفتہ ،خوش رنگ، معطر،دلکش،رنگین، پرسوز المناک وغیرہ حسیت کے مراحل طے کرنے میں شاعرکوغزل کے پیمانے،لفظوں کے انتخاب، غنائیت کاخیال، دل کوچھونے کی کیفیت ،احساس کی پرت، ایمائیت، اشاریت اور ابہام کی ضرورت ،انور شیخ ان مرحلوں سے گذرتے رہتے ہیں تب کوئی غزل پیش کرتے ہیں۔
 
غزل کے لب ولہجہ پر بڑی باتیں کہی جاتی ہیں۔لب ولہجہ ایسا ہوناچاہئے شعرایسا ہو کہ جس کی نثرنہ ہوسکے سادگی وشگفتگی کے ساتھ غزل کاپیرہن نازک ہوناچاہئے وغیرہ وغیرہ لیکن کیا اردو کے کلاسیکی شعراء کے یہاں یہ سب کچھ موجود ہے؟ کیاترقی پسندوں نے اسے پورے طور پر اپنایا ہے؟ کیا جدیدیت نے اسے قبول کیا ہے؟مابعدجدیدیت اس کی وکالت کرتاہے؟ جب ایسی بات نہیں توان گھسی پٹی باتوں کوباربار دہرانے سے کیافائدہ ہرتجزیہ نگار کوشاعرکی تخلیق کے عین مطابق کوئی پیمانہ طے کرنا چاہئے اور اس پیمانہ میں اتنی لچک ضرور ہونی چاہئے کہ تخلیق جس پیمانہ میںSuitکرتی ہو اس کسوٹی پراسے دیکھا جائے۔انورشیخ کی غزلوں کوبھی میں نے بندھے ٹکے تنقیدی پیمانے میں جانچنے کی کوشش نہیں کی ہے۔میں نے شعر دیکھا اور الفاظ کاتجزیہ کیا۔ شعری وجمالی پہلو کاجائزہ لیا اور مافی الضمیر ادا کرنے میں اگر انور شیخ کامیاب ہیں تو میں نے ان کوایسی غزل کاشاعر کہہ دیا جس کی پہچان آپ ہے۔ اس کا مواز نہ دوسرے شاعروں سے کرنا غیر مناسب ہے کیوں کہ اس سے انور شیخ مواد کاشعر سے رشتہ کس طرح جوڑاہے۔ کیا کہیں ترسیل وبلاغ کی پیچیدگیاں اس قدر زیادہ تو نہیں کہ شعرکی ہجے کرنے کی ضرورت پڑجائے انور شیخ نے سادہ سادہ سیدھا سیدھا، صاف صاف جو کچھ سوچا جو کچھ دیکھا جو کچھ جھیلا کہہ دیا ہے اب اس کہنے میں کہیں جمالیاتی حسن کادامن بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ یہ حسن کاری ،یہ رنگ، یہ تیز روشعوری ترنگیں جوغزلوں میں انور شیخ نے پروئے ہیں کیا یہ کافی نہیں کہ انہیں ایک بڑا شاعر تسلیم کرلیا جائے کیوں کہ ہر تجزیہ نگار ذاتی زاویے سے دیکھتا ہے اور اس کاذاتی زاویہ اس کے اصول سے ٹکرا جاتاہے تو شاعربڑا ہوتاہے اور اگر نہیں ٹکراتا ہے توشاعر میں کمی آنے لگتی ہے۔ انورشیخ کو اس انداز سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ ان کاشعری مجموعہ، اسراردل اسرارحیات بھی ہے چند شعرملا حظ فرمائیں۔
دھوکہ، فریب ہی بتا، کیا ہے محبتیں
ہم کو ہے اور کیاملا؟اے بدادا سنو
میں اسے ڈھونڈوں کہاں انور نہیں تاب تلاش
مدتوں سے لاپتہ، جب دل گیا تو سب گیا
کیفیات کے اظہار میں وہ کسی مفروضے کی بنیادپرکوئی بات نہیں کہتے بلکہ حقیقی انداز میں کوئی بات سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مٹھی بھرا ہوتو ملائیں ہاتھ وہ ضرور
گرہاتھ میں نہ کچھ تو کریں دورسے سلام
جوہوناہے وہ ہوناہے ، اسے بہتر ہے ہونے دو
تجھے کس بات کاہے غم، بتاجوتیرے دل میںہے
فقط ہیں چاہتے انور محبت کی جہانبانی
غلط کیا اس میں ہے اے یار!ہم پیغمبر الفت 
آخر کئی ہے کیسی کٹی؟یہ نہ پوچھئے
اے عمر!مہریاستم، جانِ فریب ہو
ردیف کابھی مزہ ان کی غزلوں میں کم نہیں ہے ملاحظہ ہو
ہونٹوں پہ تو ہے جنت تہہ میں چھپا جہنم
خوش کن یہ حادثہ ہے، دل توصنم کدہ ہے
لڑے جم کراگر ساتھی !مگربازی نہ ہاتھ آئی
ہوتم اکبر،نہیں اصغر،پریشاں کس لئے ہوتم؟
فکرکااندازدیکھئے:
کہامجنوں نے لیلیٰ سے کیسلی گالیاں کھاکر
یہ تلخی توحلاوت ہے، مرے دل میں ذراجھانکو
تمہیں چاہوںبھلاناتو بڑی شوخی سے اے گل رو
خیالوں میں بھٹکتے ہو، مرادل تم جگر تم ہو 
خم ہونے کوتو سمجھے اک پیشہ نادانی
یہ کم بڑا بے جا، اے ہمت مردانہ!
بتاانور یہ واعظ کو،نہیں افسانہ جنت
حسیں دنیا بساتا ہے، ترے ہونٹوں سے پی لینا
انورشیخ مسلسل ردیفوں میں غزل کہنے کااندازرکھتے ہیں۔لیکن ردیف کونبھاتے بھی ہیں اوریہ بڑی بات ہے۔ اس کے باوجود ذائقہ دار اور اپنے اندر پوری کیفیت سموئے رکھنے کی خوبیاں انورشیخ کوممتاز کرتی ہیں۔
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 626