donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Dr. Vidya Sagar Anand : Manzil Ki Justaju Ka Shayer


ڈاکٹرودیاساگرآنند:منزل کی جستجوکاشاعر
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
پرندہ لاکھ اڑجائے فلک پر
نگہ رکھتاہے اپنے آشیاںپر
 
ڈاکٹر ودیا ساگر آنند بھی ایسے ہی غریب الوطن ہیں جنہیں اپنے وطن کی مٹی کی خوشبو اور زبان اردو کی چاشنی سرشار کئے رہتی ہے۔ سات سمندر پاررہ کر بھی آنند اپنے وطن اور وطن کی ایک معتوب زبان اردو سے ایسی والہانہ محبت کرتے ہیں کہ دیارِ مغرب میں آننداور اردو ایک دوسرے کی شناخت بن گئے ہیں۔
پانچواں گگن، ان کاپانچواں شعری مجموعہ ہے۔ لیکن مغرب سے مشرق تک ان کی شہرت اردو شاعری میں محض مجموعوں کے اضافے کے سبب نہیں ہے بلکہ کلام میں جولطیف نکتہ سنجی ،حکیمانہ بصیرت، انسانیت کاپنداراور انسان کی عظمت کانقش ابھرتاہے، وہ انہیں ہمعصروں سے ممیزکرتاہے۔ ستھرے، سلیس اور رواں دواں اسلوب میں فنی تقاضوں کوپوراکرتے ہوئے جوشاعری ذہن وفکر کومہمیزکردے، قلب کو گرمادے اور روح کوتڑپادے وہ شاعری دل گداختہ کی مرہون منت ہوتی ہے اور بڑی فنی ریاضت اور وسیع مطالعے کے بعد رنگ لاتی ہے۔ یہی رنگ آنند کی شاعری کومنفرد بناتی ہے۔ ایک ہائیکو میں انہوں نے کہاہے:
یہ ہے میری جان 
ہوتا ہوں میں روزوشب
اردو پرقربان
اور یوں ان کے خون جگر سے ان کی شاعری نمود پاتی ہے
انہوں نے اپنےہمعصرادب اور اردو زبان میں ہونے والے نئے تجربوں کوگہرائی وگیرائی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اردوسے قلبی لگائو اور ادب سے روحانی لگائو کے سبب انہوں نے ہمعصرادب کے بدلتے ہوئے رنگوں کومحسوس کیا اور فارم اور Content کے لحاظ سے جوتجربے ہورہے ہیں اسے بھی اپنے مجموعہ، پانچواں گگن ، میں شامل کیاہے۔ جیسے جاپانی صنف سخن ہائیکو، اور پنجابی اندازکے ماہیے اور دوہے ۔
بھی انہوں نے اس میں شامل کئے ہیں:
یہ ہے میری دھن
فتنہ ہے ہرسو
آئینے جیسا ہی ہو
گلزاروں سے غائب ہے
ہراک کادامن
پھولوں کی خوشبو
ماہیئے،وحدت کے پیالے سے
توحرص نہ کرپیارے
کام شروع کرتو 
اس میں تباہی ہے
اللہ کے حوالے سے
یہ جاتی ہردوارہے
انساں وہ نہیں سچا
چڑھتے سورج کی
کرتاجوسداپوجا
دوہے:
دل میں پیدانور ہویا پختہ ہو ایمان
سوچ سمجھ کر گرپڑھے گیتاویدقرآن
دنیا کی مخلوق میں اشرف تھا انسان
لیکن اپنے کرم سے، بن بیٹھا شیطان
دریا، ساگر سے ملے چھوٹی سی ہے بات
سنگم ہوتاہے جہاں مٹ جاتی ہے ذات
دوہاغزل:
چننا گرہو ہمسفر اچھی عورت دیکھ
صورت کاکیا دیکھنا، اس کی سیرت دیکھ
دشمن بھی اس طرز سے ہوجائے گازیر
سن کرکڑوی بات کوتو، تومیٹھابول
اسی طرح نظمیں بھی اپنے خاص بانکپن کے ساتھ صفحۂ قرطاس پردیکھنے کوملتی ہیں۔ یہ نظمیںمحض فنی ارتکاز کی حامل نہیں بلکہ ایک تھیم، ایک مطمح نظر کے ساتھ جلوہ گرہیں خواہ وہ موضوعاتی ہوں یاشخصی نظمیںہوں۔ مثلانظم آتش شر، عہدنو، دوستوآئوجنگ کریں اور احساس برتری، فارم اور فکردونوں اعتبارسے جدیدشاعری کے نئے تجربے ہیں مگرصالح اقدار کی پاسداری واستواری کی ترغیب دیتی ہیں۔ نظم احساس برتری، کے منتخب اشعاردیکھیں
گوروں کے دیس میں رہتے ہیں
نفرت کوان کی سہتے ہیں
جن کارنگ نہیں گورا
کمتران کوسمجھتے ہیں
نسل پرستی کرتے ہیں
ہم سب سے بہتر کہتے ہیں
یہ تہذیب نوکے خوگرہیں آدھے ننگے رہتے ہیں
باقی نہیں ان میں شرم وحیا
کرتے بھی نہیں یہ د ل سے وفا
مرد وزن ہررستے پر
جونہ کرناہو وہ کرتے ہیں
اک دوسرے سے چمٹتے ہیں
اور بوسہ بازی کرتے ہیں
شادی بھی نہیں کرتے لیکن
ساتھ میں ہردم رہتے ہیں
جودل میں آئے کرتے ہیں
اللہ سے کبھی نہیں ڈرتے ہیں
رنگوں سے نہیں انساںکی پرکھ
کمتربھی نہیں بہتر بھی نہیں
انسانیت ہوانساں میں
ہوداغ نہ کوئی داماں میں
ہم کالے ہوکر اچھے ہیں
اللہ کے بندے سچے ہیں
ودیاساگر کی شاعری میں روحانی کسک موجودہے۔ ان کی حمدیہ شاعری اس کی بہترین مثال ہے۔انہوں نے نبی ﷺ کی شان میں نعت پاک بڑے ہی دلبرانہ اندازمیں پیش کی ہے۔ نعت کے چند شعردیکھیں:
ہم نے سیکھاہے انہیں سے جینا
راہِ خدمت ہیں مدینے والے
ہم چلیں نقشِ قدم پہ ان کے
ماہِ خلقت ہیں مدینے والے
جن کی اللہ نے بھی کی تعریف
فخر قدرت ہیں مدینے والے
غزلوں کاان کے یہاں ایک خاص اندازہے۔ ان کی غزلوں میں غم محبوب بھی ہے اور غم روزگار بھی موجود ہے لیکن ان کے یہاں انسانی قدروں کواہمیت وادلیت حاصل ہے۔ زندگی کے مثبت اورصالح اقدار کاذکر ان کی شاعری میں عام ہے لیکن غزل میں رجائی پہلویاسیت پرحاوی ہے۔ زندگی کے کاروبارمیں نشیب وفراز آتے ہیںلیکن زندگی کاسفر چلتارہتا ہے۔ مسافرت میں کہیں دھوپ، کہیں چھائوں۔سے سامناہوتاہے۔ وقت کی دھوپ کڑی ہوجاتی ہے تب بھی مسافرکامیابی کے ساتھ اپنی منزل کی جستجومیں گامزن رہتا ہے، کہیں ٹھہرجاتاہے، کہیں رک رک کرچلتا ہے کہیں رفتارتیز کرلیتاہے۔ لیکن منزل کی جستجومیں وہ سفر جاری رکھتاہے۔ مشکلیں ڈراتی ہیں لیکن وہ پست نہیں ہوتا۔ یہی حوصلہ ودیا ساگرآنندکوانسان دوست شاعربنادیتاہے۔ ان کی غزلیں اورنظموں کی مثالیں آپ خودکچھ کران کے بارے میں اندازہ کرسکتے ہیں۔ غزلوں کے چنداشعارملا حظہ ہوں:
ہوںگے فتنے ہی برپادنیا میں
آدمی جوہوآدمی سے خفا
ڈھونڈمت توادھرادھراس کو
ہوگا وصلِ خداعبادت سے
جس کے لاکھوں رقیب ہوتے ہیں
ایسی تم دلربانہیں ہونا
خودی کوکرنہ بلنداتنا جوگرائے ہمیں
غرور جس میں ہوایسی خودی سے دور رہو
کوئی ابلیس تو نہیں دیگا
کس طرح پائیں آدمی کاسراغ
مانگتے وہ نہیں خداسے، مگر
ہے ہجوم آج کل مزاروں پر
ہربشر کیلئے ضروری ہے
بنیں انسان آدمی سے ہم
نئی تہذیب کوسمجھ کہ ضیائ 
مجھ کودیکھومچل رہا ہوں میں
زباں پہ ہوتاہے کچھ اور دل ودماغ میں کچھ
ہوجس میں جذبہ حق، دوستی نہیں ملتی
ڈاکٹرودیاساگر آنند فطری طورپر فنکارہیں اوراپنے گردوبیش سے ،زمانہ کے حالات سےبشریت کے منفی کارستانیوں سے جواثرات دل پرمرتب ہوتے ہیں ان کوشاعری کاجامہ پہناتے ہیں۔ جو کچھ بھی لکھتے ہیں دل کی گہرائیون سے لکھتے ہیں۔پورے خلوص اور دیانت داری کے ساتھ اپنے فنکارانہ فرائض کوانجام دیتے ہیں تہذیبی اورانسانی اقدار کی آبیاری، بشری کجروی اورسماجی برتری پرتنبیہ فنکار کی اہم ذمہ داری ہے۔ آنند نے اپنی ذمہ داری کوخوب سمجھاہے۔وہ ہمہ دم اپنی ذمہ داریوں کونباہنے کہ لئے بیتاب رہتے ہیں اور یہی بیتابی ان کواعلیٰ درجے کافنکار بنادیتی ہے۔ لہذامحض ذوق کی تسکین کیلئے وہ شاعری نہیں کرتے بلکہ وہ اپنافرض فلاح انسانیت کے لئے جتنا ممکن ہوتاہے نبھاتے ہیں اور اس کاوسیلہ اپنی شاعری کوبناتے ہیں۔ اس اعتبارسے وہ منفردشاعرہیں۔
 
*******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 570