donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Dr.M.A.Haq - Khurduri Duniya Ka Haqiqat Shanas

ڈاکٹرایم اے حق:کھردری دنیا کاحقیقت شناس
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
ڈاکٹرایم اے ریاست جھارکھنڈکے ایڈمنسٹریٹوسروس سے وابستہ رہے ہیں مگردل گداختہ رکھتے ہیں لہذا میں سماج میں جاری عوامل کے درمیان انسانی اقدار سے عدم مطابقت کااحساس اور ناآسودگی یاناموافق صورت حال کاافکاریااظہار ان کے اندر احتجاج کی شکل اختیار کرتاہے تویہ اسے فنکارانہ صورت عطاکرکے منی کہانی یاافسانچے میں سماج ہی کے حساس لوگوں تک ترسیل کردیتے ہیں نئی صبح ان کی منی کہانیوں اور افسانچوں کاپہلا مجموعہ ہے۔
 
منی کہانی افسانچے کہانی ہی کے تجرباتی افق سے ابھرے ہیں۔T.O.Bleach craftنے اپنی تصنیف''The Modest art: Some Problems میں لکھاہے۔ کہانی کے مقابلے میں افسانہ یانئی کہانی تحریر کے پیرائے میں بیان ہوتی ہے اور اس طرح بیان ہوتی ہے کہ قاری کی توجہ حاصل کرسکے اور پڑھنے والوں کوتنہائی میں زیادہ گہرائی سے سوچنے اورمحسوس کرنے کاموقع مل سکے، اپنے گردوپیش سے عدم مطابقت کے احساس سے پیدا ہونے والی ناآسودگی اور احتجاج کوڈاکٹر حق نے آرٹ کاروپ دینے کی ایسی ہی کامیاب سعی کی ہے۔ نئی صبح، کے مطالعہ کے بعد اس کے پیش لفظ میں درج معرف افسانہ نگار جوگیندرپال کی رائے مجھے بڑی صائب لگی کہ:
 
کوئی کہانی خواہ چپ چاپ پورے ناول کی طوالت اختیار کرلے، خواہ چندسطروں میںہی ہولے، پوری وہ بہرحال قارئین کے ذہن میں ہوتی ہے۔ ایسانہ ہوپائے تو قارئین کہانی کارکی تخلیقی واردات میں شامل ہونے سے رہ جاتے ہیں اور یوں اپنے ذاتی معانی کی نشاندہی نہیں کرپاتے ، اور کہانی پڑھ کریہی لگتاہے کہ ہم نے اچھے برے عدالتی فیصلوں کامطالعہ کیاہے اور بس۔
 
لیکن واقعہ یہ ہے کہ نئی صبح کی ان منی کہانیوں کے معافی کہانی کارکے دوٹوک فیصلے کی بجائے قاری کے تخلیقی تجسس سے انجام پاتے ہیں۔ مثلاًافسانچہ ،کرپشن، دیکھیں:منتری جی سے ملناچاہتاہوں۔
کیاکام ہے؟ ان سے ہی کہناہے۔وہ ابھی باتھ روم میں ہیں۔
 
وقفے کے بعد: میراان سے ملناضروری ہے۔ ابھی بیٹھئے انتظارکیجئے
مزیدوقفے کے بعد۔اور کتنا انتظارکرناہوگا۔ میں کیابتائوں، انہیں فرصت ملے تب نا۔ آپ چاہیں تو اور اس نے جیب سے سوروپئے کانوٹ نکال کراس کی ہتھیلی پررکھ دیا آپ کاکوئی کارڈہے؟ہاں۔کارڈپرطائرانہ نظرڈالتے ہوئے پی اے مسکرایا ،شنکرپرساد، صدربھرشٹا چارانمولن سمیتی اسی طرح افسانچہ الزام، کی بنت ملا حظہ فرمائیں۔
روجیہ ٹرانسپورٹ کی بس اچانک رک گئی۔ کیاہوا بس کیوں رک گئی۔گاڑی خراب ہوگئی ہے کیا؟ یہاں تو کوئی اسٹاپج بھی نہیں ہے۔ لوگوں نے بڑبڑانا شروع کردیا۔ پتہ کیا تومعلوم ہواکہ ڈیزل ختم ہوگیاہے۔ 
ارے یہ راجیہ ٹرانسپورٹ والے چورہوتے ہیں چور، ڈیزل تک ہڑپ جاتے ہیں اور ہم مسافروں کوناحق مصیبت میں ڈال دیتے ہیں۔
 
آوازکچھ مانوس سیلگی پیچھے مڑکردیکھاتو بے ساختہ ہنسی آگئی۔ سپلائی انسپکٹرمشراجی غصے سے تمتمارہے تھے۔ 
 
دیکھاآپ نے !بیشترافسانچہ نگاروں کی طرح ڈاکٹرحق واقعاتی طوالت کی ترغیب کے باعث اپنی راہ سے بھٹک کرمنزل سے دور نہیں ہوئے بلکہ عین اپنی جگہ پر آکر رکے اور رک کراپنے قاری کی طرف مسکراکردیکھنے لگے تاکہ اس سے آگےوہ اپنے ذہن میں جدھرچاہے خود آپ ہی پائوں پائوں ہولے کیاکہنا ہے، کیا نہیں کہناہے اور کب کہناہے کے رازسے یہ واقف نظرآتے ہیں جوافسانچہ نگاری کاآرٹ ہے۔ 
ڈاکٹر حق بیسویں صدی کے آخری دور کے قلمکاروں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں مگر اپنے دور کے بیشتر قلمکاروں کی طرح قلمی کاوشوں کوشہرت کاوسیلہ بنانے کی للک نہیں رکھتے ۔اس لئے بہت زیادہ نہیں لکھتے مگرجب بھی لکھتے ہیں پوری سنجیدگی کے ساتھ موضوع اورکہانی میں ڈوب کرلکھتے ہیں زندگی اور معاشرہ میں مثبت اقدار کی تلاش کرتے ہیں۔ یہ قدروں کے زوال ،فکری تضادات اورسماجی تبدیلیوں پرگہری نظررکھتے ہیں اورچھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی نتائج اخذکرلیتے ہیں۔ حتیٰ کہ سماجی سرگرمیوں کوفنی مہارت سے تخلیق کادرجہ دے دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو معمولی واقعے یاخبر بھی افسانچہ بنادیتے ہیں۔ اس لئے ان کی کہانیوں میں ہمارے آس پاس کی زندگی اپنے تمام ترحسن وقبح اور تضادات کے ساتھ نظر آتی ہے۔ افسانچے خصوصاًایک سبب، پسند، لیٹ لطیف، خلافِ توقع، جھوٹی شان، چسکا نئی، صبح نفرت کی زنجیر،میں اپنی کلہاڑی اپنا پیر، آخری تحفہ، گریبا، تحفظ طمانچہ ،شفقت وغیرہ کاتخلیق کارموجودہ سماجی سروکاروں اور معاشرتی مسائل کے نشیب وفراز کے زیراثردھڑکتاہوادل رکھنے والا ایک حساس اور حقیقی آگہی کاحامل نظر آتاہے جس کی آگہی ،خارجی عوامل کے ردعمل کے طورپرپیداہونے والے ان داخلی مدوجزرکی کیفیات پرمبنی ہے جس کے آرٹ میں ہر کس وناکس اپنے آس پاس رونما ہونے والے حالات کاواضح طورپر مشاہدہ کرسکتاہے۔ 
رضیہ سجادظہیرنے اردو افسانہ ایک مختصرجائزہ میں لکھاہے:
 
اردوافسانے میں تکنیک کے نت نئے تجربے ہمیشہ ہوتے رہے لیکن جس طرح ایک صحت مندبیج سے پودااور پھر ایک تناور پیٹربن جاتاہے اور ہرپیڑ کی شاخیںاپنے انداز سے پھیلتی اوربڑھتی ہیں اسی طرح ایک جاندار اور صحت مندومضبوط خیال اپنے ادب پارے کوخود ترتیب دیتا ہے اور اس کی نشونما فطری ہوتی ہے۔ تکنیک کوزیادہ الجھانا ایسا ہی ہے جیسے آپ ٹائی کو ماڈرن سے ماڈرن طریقے پرباندھنے کی فکر میں اپنی گردن جکڑالیں۔ ’’کتب مطبوعہ، نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی۔۶،
 
افسانچہ بھی تکنیک کے نت نئے تجربے کی دین ہے اور اسے اب بھی ماڈرن سے ماڈرن بنانے کے تجربوںکاسلسلہ جاری ہے مگر ڈاکٹر حق نے اپنی تخلیق کوماڈرنائزکرنے کی فکر میں اپنے فن کی گردن نہیں جکڑی ہے ان کی کہانی کی بنت فطری بہائو کے ساتھ انجام کوپہنچتی ہے۔ایک منی کہانی نفرت کی زنجیرجوہندوستانی سماج میں جاری صدیوں پرانی اچھوتوں کی تذلیل کے رویہ کی عکاسی ہے، کاکلائکس بطور نظیرپیش کرتاہوں۔
 
ٹھاکرہری سنگھ علی الصبح جاگ گئے اور معمول کے مطابق لوٹالے کرمیدان کی طرف جانے لگے ۔اندھیراابھی پوری طرح ختم نہیں ہواتھا۔ کتے ابھی تک رورہے تھے۔ 
 
انہیں بہت برالگا۔ غصہ میں زمین سے ایک چھڑی اٹھائی اور آوازکی جانب تیزی سے بڑھنے لگے نزدیک جانے پر انہوں نے جومنطر دیکھا وہ ان کے دل کوخوش کرنے کیلئے کافی تھا۔ کتوں کے جھرمٹ میں کالوکی اکڑی ہوئی لاش پڑی تھی ۔ٹھاکر کے ہاتھ میں چھڑی دیکھ کرکتے فوراًوہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔لاش پرنفرت بھری ایک نگاہ ڈال کرانہوں نے منہ پھیرلیا۔انہیں یہ سوچ کرکافی سکون ہواکہ بلاآئی نہیں بلکہ ٹل گئی۔
 
ٹھاکر صاحب نے جب یہ بات شانتی کوبتائی تووہ پوچھ بیٹھی لیکن کتے روکیوںرہے تھے۔ آخر؟ٹھاکرزوردارانداز میں جواب دیا، کتے کی موت پرکتے ہی آنسوبہایاکرتے ہیں۔ یہ سن کرننھاچندن بے اختیار خوشی سے تالیاں بجانے لگا۔ بغیر کچھ سوچے سمجھے۔ مختصربات کونئے معانی دینے کی انفرادیت کی وجہ سے ایم اے حق اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہیں۔
 
ایم اے حق کے افسانچوں پرڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی کی یہ رائے فکروخیال کی رفعت کو ارتقاع کے آمیزہ سے منور کرتی ہے۔ نئی سچائی کادروازہ وہ تفکر اور بصیرت کے نئے زاویے سے کھولتے ہیں اورمظاہراور محسوسات کومنظر اور جزئیات کاحصہ بناتے ہیں۔ ایسی خصوصیات کے افسانے اور افسانچے یقینا اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
 
مختصریہ کہ ڈاکٹر ایم اے حق کی منی کہانیاں اورافسانچے نہ صرف زبان وبیان اور آرٹ اینڈ کرافٹ کے اعتبار سے چست ودرست نظرآتے ہیں بلکہ موضوعاتی تنوع کابھی احساس دلاتے ہیں ان میں نئی تخلیقیت فنی، اقدار کے پس منظر میں رونما ہوتی ہے۔ ان میں تخلیقی کائنات کی تلاش اور تعبیر ہے۔ ذہنی بیداری، اصلاح اورتعمیر کے اجتماعی میلانات کے واضح نشانات ہیں اور اپنے خالق کے جاندار صحت مند اور مضبوط خیال کی عکاس ہیں لہذا مجھے یقین ہے بقول جوگندرپال۔
ڈاکٹر حق کی تخلیقی بے چینیوں کے اسباب ہمیں سدااسی مانند متجس کرتے رہیں گے اور یوں وہ اپنے پرگواور ذومعنی اختصارکوکام میں لالا کراپنی افسانچہ نگاری کے باب میں فکروفن کے اور بھی کئی نازک مقام سر کرتے چلے جائیں گے۔
 
عصرموجودگی سچائی ایم اے حق کودوسروں سے الگ کرتی ہے۔ روزنئے ذائقہ سے روشناس کرانے میں معاون بنتی ہے۔ کیوں کہ کھردری دنیا کو انہوں نے خوبصورت انداز دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
 
+++++    
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 877