donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Khurshid Akbar : Naye Diction Ka Shayar

خورشیداکبر: نئے ڈکشن کاشاعر
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
شاعری میں نئی جہتیں تلاش کرنا عام سی بات ہے لیکن شاعری کو شاعری رکھنا عام بات نہیں ہے۔ خورشیداکبر نے شاعری کو شاعری کے دائرے سے باہرنکلنے نہیں دیا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ شعر کہنے کافن ہی ان کو معلوم نہیںبلکہ فکر کو شعر میں برتنے کافن بھی انہیں سلیقے سے آتاہے۔ غزل کے بدلتے ہوئے تیوروں کومحض لفظی صناعی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس میں ڈوب کرنکلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خورشید اکبر نے شعر کے اندر ڈوب کر جولفظوں کے جواہربکھیرے ہیں ایسی مثال بہت کم ملتی ہے۔ رنگ وبو، سورج کی کرنیں، موسم کے بدلتے رنگ ، آسمان کی سازشیں اور زمین پر لاتعداد الجھنوں کے ساتھ عشق کاوہ جذبہ جوزندگی سے انسانوں کوجوڑتاہے وہ خورشیداکبر کی شاعری میں زیریں لہروں کے طور پر بہت سبک رفتاری کے ساتھ رواں دواں دکھائی دیتا ہے۔ مجھے اس کااحساس اس وقت ہوا جب میں لفظوں کی معنویت کے نئے نئے پہلو کی تلاش میں مختلف شاعروں کے مجموعوں کی ورق گردانی کررہاتھا تو مجھے خورشیداکبر کے شعری مجموعوں ،سمندرخلاف رہتاہے،بدن کشتی بھنورخواہش ،اور فلک پہلو میں کوبھی پڑھنے کاموقع ملا اور یہ عین اتفاق ہے کہ خورشیداکبر کواوران کی شاعری کوان کی شخصیت کے لحاظ سے نہ دیکھ کراگرخالص شاعرکی حیثیت سے دیکھاجائے تومحسوس ہوگاکہ وہ کسی دائرے میں قیداور محصور نہیں ہے بلکہ:
دل سے جوبات نکلتی ہے اثررکھتی ہے
پرنہیں قوت پروازمگررکھتی ہے
اوردھڑکتاہوا انسانی دل جب کسی دنیا کی گردشوں کواور شب وروزکے تماشوں کو دیکھتا ہے توکبھی مچل جاتاہے، کبھی بوجھل ہوجاتاہے، کبھی الجھنوں کا شکار ہوجاتاہے اورکبھی ایک معصوم بچے کی طرح ہمکنے لگتاہے۔
 
خورشیداکبر نے نئے ڈکشن کومحض تلاش نہیں کیابلکہ اس ڈکشن کواس طرح جذب کرکے شعری پیمانوں میں ڈھالاکہ تازگی وشگفتگی کااحساس ان کے قاری کوہونے لگتاہے کبھی قاری چونک بھی جاتاہے، ٹھہربھی جاتاہے، خط بھی اٹھاتاہے اور دیرتک اس کے ذہن پر ایک طلسماتی کیفیت ڈوبتی اور ابھرتی رہتی ہے جوایک خوبصورت شعرکی بڑی پہچان ہوتی ہے۔میں کچھ زیادہ کہنا نہیں چاہتا۔ آپ خودان کے لہجہ اورندرت کودیکھ سکتے ہیں ،محسوس کرسکتے ہیں، اس میں گم ہوسکتے ہیں اور ایک انجانے سرور کااحساس کرسکتے ہیں ان کے چند اشعارپیش کررہاہوں:
میرے اصول کے بچے بھی احتجاجی ہیں
ذراجھکوں تو مرا گھر خلاف رہتا ہے
وہ بدن درد کی لہروں پہ بھی مل سکتے ہیں
اس رسالت کوکہاں بادصباسمجھے گی
اے شہرِ ستم زادتری عمربڑی ہو
کچھ اور بتانقلِ مکانی کے علاوہ
ساحل کی امیدڈبوجاتی ہے کشتی
بیچ بھنورمیں تختہ بھی گھربن جاتاہے
کچھ پھول ہیں شاخوں سے ابھی جھول رہے ہیں
رخسار پہ رکھے ہوئے رخسار میری جاں
روتاہوں تو سیلاب سے کٹتی ہیں زمینیں
ہنستاہوں توڈھہ جاتے ہیں کوہسارمیری جاں
پھر بسائوں گاتجھے حیرتِ جاں
پہلے درپن میں بسالوں پانی
آسماں اپنے ستاروں کی خبرلے پہلے
کوئی موسم ہومگر پھولتی پھلتی ہے زمیں
اتنامعصوم ہے پھر کوئی دریچہ نہ کھلا
کیاترے گھر مرے گھر نے کہا آہستہ
تمام نورنظارےبجھے بجھے ہیں مگر
اب اپنی ذات سے بھی انجمن کہاں ہوں میں
بندکمرے کامکیں سورج ہی ساراپی گیا
میں کھلے میداںمیں ہوں پھر بھی کہاںلگتی ہے دھوپ
سات رنگوںکے مناظرخورشید
اٹھ گئے جتنے تھے سارے آخر
یہ طلسماتی اندازِ شعر گوئی خورشیداکبرکاوصف ہے۔ فن پارہ یاحسن پارہ آدمی کی تخلیق ہے۔ لہذااس کا فوری سرورکارآدمی سے ہی ہے۔ ایک حقیقی فنکار کے روپ میں اس حقیقی رشتہ کسی تحریک یاتنظیمی یاجماعتی آدمی سے نہیں، صرف آدمی سے ہے۔ کسی آدمی کاہونا، انسان ہونااس کی رشتہ داری کیلئے کافی ہے۔ وہ نہیں جانناچاہتا کہ اس کی ذات کیا ہے؟مذہب کیاہے مشرق کیا ہے مغرب کیاہے؟آدمی جہاں ہے اس کااس سے رابطہ ہے۔ یہ رابطہ روٹی کاہے، آزادی کاہے فکری انصاف کاہے، انسانیت کے احترام کاہے، ہمہ جہت تخلیقی ارتقاکاہے، عالمی تہذیب کاہے تخلیقیت افروزادب، ریزہ کارسیاست کے مانندریزہ کارنظریہ کادست نگرنہیں ہوسکتا۔اس کاموضوع پوراآدمی ہے۔ اس کاوسیلہ بھی آدمی ہے۔ حقیقی فنکار جب قلم ہاتھ میں لیتا ہے تو ہر نوع کی ظلمت پرورصورت حال پرآدمی کی فتح کارجزلکھتاہے۔ خورشیداکبر کی شاعری میں یہ رجزنئے ڈسکورس میں نظر آتاہے ۔ایک جھلک دیکھیں:
اپنی تہذیب کوپانی کی ضرورت ہوگی
چوم آیاہوں لبِ گنگ وجمن آگ ہے آگ
زندگی تجھ کو مگر شرم نہیں آتی کیا
کیسی کیسی تری تصویرنکل آئی ہے
وہ مکینِ دل ہوا خورشیداکبر
گھرکا دروازہ کھلاہونے سے پہلے
خاکساری ہے بڑی چیزمگریہ کہئے
آپ کوکتنی بلندی سے گرایاجائے
شعری لمسیات اور شعری لفظیات کو جاننا اور برتنا بڑی فنکاری کاکام ہے۔ تصورات کی دنیا جیسی بھی ہوخوابوں کے دھندلکے، اپنی تہوں میں ایک نرمی اور نمی کی بازیافت کرتے ہیں عکس درعکس جسے امیجری بھی کہتے ہیں اس میں پیکروںکاابھرنا جدیدآرٹ میں تودیکھا جاتاہے اور پینٹنگ کرنے والا کچھ نہ کہہ کے بھی بہت کچھ کہہ جاتاہے۔ حالانکہ تجریدی تجربوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی طورپر بھی افہام وتفہیم کے مرحلوں میں زیادہ پیچیدگیاں نہ پیداکرے۔ اس لئے ضروری ہے کہ لمسیات اور لفظیات پرقدرت حاصل ہو۔ خورشیداکبرکوان دونوں جہتوں میں غضب کاملکہ حاصل ہے۔ اس لئے ان کے اشعار کوپڑھ کر ایک کہرآمیزفضاکی تشکیل ہوجاتی ہے جس سے قاری محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہتااور دیر تک غنائی اور صناعی قوتوں کی گرفت میں اپنے کومحسوس کرتاہے۔ یہی خوبی خورشیداکبرکوایک منفرد شاعراور تازہ کارشعری تخلیق کاخالق بناتی ہے۔ اسی انفرادیت کے سبب خورشیداکبر نے اپنی نئی ڈگرروایت سے ہٹ کرجدیدیت سے منحرف ہوکر بنائی ہے اور معنویت کی گہرائی اور گیرائی بھی وہ شعری قالب میں بحسن وخوبی ڈھال لیتے ہیں۔ ان کی شاعری کالہجہ تروتازہ ، سبک اوردل پذیرہے مثلاً
نیاکچھ بھی نہیں چلتاکہوظل الہیٰ سے
ادھرمیں سراٹھاتاہوں ادھرتلوارچلتی ہے
زندگی بھی کسی بازار کی عورت کی طرح 
نہ بیاہے کی ہوئی اور نہ کنوارے کی ہوئی
یہ اور بات کہ وہ پاک سرزمیںہے مگر
وہاں کی خاک سے ہندوستان نکلتاہے
ملک آزادہے تہذیب کاچہرہ ہے سیاہ
ہم سے اچھا کبھی انگریزرہا ہے شاید
جس میں تازگی اظہار کی دلکشی اورجدیدحسیت کی موسیقی ملتی ہے۔ انہوں نے جذبوں کے والہانہ پن کوشائستگی اور خوبصورتی سے شاعری کاروپ دیاہے۔ وہ زندگی کے الگ الگ پہلوئوں سے لذتِ حیات حاصل کرتے ہیں اور تخلیقی وجدان سے کام لے کرفطرت، ذات اور معاشرہ کے حدود میں فکری اور حسی تخیل کے ساتھ ہی مشاہدہ کی توسیع کرتے ہیں۔
شعر کہنے کاسلیقہ کوئی ان سے سیکھے
فکراورفن کاتقاضہ کوئی ان سے سیکھے
ہیں حقیقت میں وہ خورشیدبھی اور اکبر بھی 
ذرہ کب بنتاہے شعلہ کوئی ان سے سیکھے
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 605