donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Maulana Azad Aur Jange Azadi

مولاناآزاداورجنگ آزادی
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
جنگ آزادی میں مسلمانوں کا بہت اہم رول رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلمان اقتدار پرقابض تھے اور انگریزی حکومت کےنشانہ پر بھی تھے یہ بات بھی اہم ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریزوں کے توسط سے اور خصوصاًسامراجی پلاننگ کے تحت دنیا میں ایکTink Tank بنایا گیا تاکہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی سوچ کوقابو میں کیا جاسکے۔ اس لیے یہ پتہ لگا نے کی کوشش کی گئی کہ وہ کون سی ایسی طاقت یانظریہ ہے کہ جوان کی متحد رکھتا ہے۔اس لئے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی گئی کہ وہ کون سی ایسی طاقت یانظریہ ہے جوان کو متحد رکھتا ہے۔ اس لئے پروپگنڈہ کے ذریعہ اسلام کے بنیادی عقائد پر حملہ شروع کیاگیا۔ برٹش حکومت نے یہ محسوس کیا کہ ہرسطح پر ان کے اقتدار کی مخالفت مسلمانوں نے کی ہے۔ اس لئے مسلمان جہاں بھی رہے وہاںانگریزوں کی مخالفت کازورکم نہ ہوا۔
 
نوابوں اوربڑے زمینداروں نے انگریزوں سے صلح کرنے کی کوشش کی تاکہ مسلم عوام قابومیں رہیں۔ اس مشن میں انگریزکامیاب رہے اور نوابین اور زمینداروں کوزیادہ سہولتیں فراہم ہوگئیں لیکن عوام نے اور بالخصوص مسلم عوام نے یہ محسوس کیا کہ انگریزی حکومت کے آجانے سے ان کی مذہبی آزادی پر گہری ضربیں لگائی جارہی ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ انگریزوں نے مسلمانوں کیلئے خصوصی خفیہ محکمہ بھی قائم کیا تھا نتیجتابہت ساری تحریکیں دم توڑ چکی تھی۔ ان کے عقائدکی بنیادپر انہیں پنپنے نہیں دیا گیا کیونکہ یہ ساری تحریکیں انگریزوں کومسلم دشمن مانتی تھیں۔ اس میں ان کی شدت پسندی عیاں تھی لہذا برٹش حکومت نے انہیں متحدہونے نہیں دیا۔ ایسے ہی ماحول میں مولانا آزاد نے اپنی سوچ کارخ بدلاتھا اور ملک کی سیاسی صورت گری کیلئے انہوں نے ہمہ جہت اقدار کوہمیشہ پیش نظر رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اپنے خطبات میں انہوں نے بیبا کی کااظہار کیاہے اور برٹش حکومت پر وہ اپنا نشانہ سادھنے میں کبھی نہیں چوکتے تھے۔ ایک بارتقریرکرتے ہوئے انہوں نے اس طرح اعترافانہ مشورہ دے ڈالا تھا۔
 
’’ہاں ہاں میں نے سپاہیوں سے ہندوستان کی برٹش فوج سے یہ کہا ہے اور جب تک میرے حلق میں آواز پھنستی نہیں یہی کہتارہوںگا اور آج بھی اعلان کرتاہوں اور جب تک میری زندگی باقی ہے ہرصبح کو، ہرشام کومیرا پہلا فرض یہی ہوگا کہ سپاہیوں کو ورغلائوں اوران سے کہوں کہ گورنمنٹ کی نوکری چھوڑدو۔ کیا عظیم الشان برٹش گورنمنٹ جس کی حکومت میں کبھی سورج نہیں ڈوبتا، تیار رہے کہ گرفتار کرے۔ اور یہ جرم ہے تو اس جرم کاارتکاب تمام ملک کررہا ہے۔ میں سپاہیوں سے کہاہے اورلوگوں سے بھی کہا ہے کہ تم سپاہیوں کے پاس چھائونیوں میں جائواور یہ پیغام سنائو۔ پھر برٹش گورنمنٹ اگراپنی طاقت کا گھمنڈ رکھتی ہے تو کیوں نہیں قدم آگے بڑھاتی، کیاگورنمنٹ مشینری پرفالج گرگیاہے؟
 
مولاناآزاد کے ایسے خطبات میں چنگاری کی رمق ملتی ہے اور انگریزی حکومت سے منافرت کی بوبھی آتی ہے۔
مولانا آزاد ایک بڑے مفکر، دانش ور اورعالم دین تھے۔ ان پر بھی برٹش حکومت کی گہری نظر تھی۔ گرچہ ان کامشن انگریزوں کے خلاف تھا اور تحریک آزادی میں یہ کانگریس کے ساتھ تھے لیکن ساتھ ہی وہ اپنی ایک الگ مستحکم فکر رکھتے تھے اور ان کاماننا تھا کہ ہندوستان ایک قدیم تہذیبی گہوارہ ہے جسے یہاں کے تمام باشندوں نے مل سینچااور سنواراہے۔ اس لئے یہ ملک انگریزوں کی غلامی برداشت نہیں کرسکتا۔ مسلمان وطن پرستی کے جذبہ سے سرشارتھے اس لئے ان پر مولانا کی تحریروں کاخاصا اثرجنگ آزادی سے قبل اورجنگ آزادی کے بعد بھی ہوتارہا۔ مولانا نے اس کا احساس دلانے کیلئے اکثر اپنے خطبات میں اشارہ نہیں بلکہ کھلے الفاظ میں اعتماد پیدا کرنے اور اپنی انفرادیت کوسنوارنے کے سلسلے ممیں انقلاب آگیں غور وفکر اورعمل پیہم پرتوجہ دلائی ہے۔ ۲۴؍اکتوبر۱۹۴۷ء کوانہوں نے دہلی کی جامع مسجد میں ایک بڑے مجمع کومخاطب کرکے کہاتھا کہ
 
’’میں نے تمہیں ہمیشہ کہاہے اور آج پھر کہہ رہا ہوں کہ تذبذب کاراستہ چھوڑو،شک سے ہاتھ اٹھالواور بدعملی کوترک کردو۔ یہ تیز دھاروالا خنجر لوہے کی اس دودھاری تلوارسے زیادہ کاریہے۔ یہ فرارکی زندگی ہجرت نہیں ہے۔ آخرکہاں جارہے ہو اورکیوں جارہے ہو۔ یہ مسجد کے مینار تم سے جھک کرسوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کوکہاںگم کردیاہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ یہیں جمناکے کنارے تمہارےقافلوںنے وضوکیا تھا اور آج تم ہوکہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتاہے۔ حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے۔ اپنے اندربنیادی تبدیلی پیداکرو۔ بزدلی اور مسلمان ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔
چونکہ مولاناایک زبردست مقرربھی تھے اور ساتھ ہی اپنی تحریروں سے دلوں کومسخرکرنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے اس لئے انگریزوں کی کڑی نظرمولاناپررہتی تھی۔ ’’الہلال‘‘اور’’البلاغ‘‘ جیسے اخبارکلکتہ سے شائع کرکے ملک گیر پیمانہ پر غلامی کے خلاف جوتحریک وہ چلاتے رہے اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ہندواورمسلمان کے درمیان اتحاد کسی بھی حال میں ختم نہ ہونے پائے۔قومی یکجہتی اوربھائی چارگی کاجذبہ بیدار کرنااور اپنے دشمن انگریزکوہندومسلم منافرت پھیلانے میں کامیاب ہونے نہیں دیناان کا مقصد تھا۔
انہوں نے اپنے مشن کوبخوبی عوام کے درمیان مشتہرکیا لیکن انگریزوں کے مظالم نے ’’الہلال‘‘ اورالبلاغ‘‘ کوبند کرنے کی اپنی جابرانہ پالیسی کے تحت ہرممکن کوشش کی اورخیالات وافکار کی آزادی کاگلاگھونٹ دیا۔ مولاناکورانچی اوراحمدنگر جیل جیسے مقامات پر قید کردیا جہاں انہیں صعوبتیں بھی دی گئیں۔اور ان کے اندر آزادی کیلئے پائی جانے والی دیوانگی کوپامال کرنے کی کوشش بھی کی گئی مگر پھر بھی وہ انگریزوں کی مخالفت میں نرمی برتنے کیلئے بالکل تیار نہیں تھے۔
 
مولانا کی صلاحیتوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ان کے اندر بے پناہ ادبی، علمی اور مذہبی صلاحیت تھی۔ان کی تقریری خوبیوں کابھی برٹش حکومت لوہامانتی تھی اور عوام پرکانگریس کے پلیٹ فارم سے جوانہوں نے اثرات مرتب کئے تھے وہ قابل قدرتھے۔مولاناآزادایک عظیم مدبرتھے اورایک مدبرکی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ سوسال آگے تک کے حالات کوسمجھ لے اوراپنی رائے قائم کرے اور دوسروں کوبھی اس کی حقیقت سے واقف کرادے۔مولانا آزادایک مدبر کی حیثیت سے کھرے اترے۔۱۹۵۸ء میں ان کاانتقال ہوگیا۔وہ تقسیم ہند کی مخالفت کرتے رہے۔ اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ مذہبی بنیاد پر کسی ملک کابٹوارہ کتنا مضرہوتاہے اس کانتیجہ ہندوستان کے مسلمان اور پاکستان کے مہاجر اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ مولاناکی لاکھ مخالفت کے باوجود ہندوستان تقسیم ہوگیا اور پوراملک آگ اورخون کی ہولی کھیلتارہا اور برسوں تک اس کے برے نتائج سامنے آتے رہے۔ کشمیر کامسئلہ آج بھی دردسرہے۔ بنگال کے ٹکڑے ہوگئے تھے۔ پنجاب بٹ چکا تھا۔ سندھ کے دوحصے ہوچکے تھے۔ کشمیربھی آدھاادھرآدھاادھرہے۔ یہ کیسی تقسیم تھی، یہ کیسا بٹوارہ تھا جس سے دونوںممالک کے عوام خوش نہیں تھے۔ یہ ساری باتیںمولانا نے اپنی تقریروں اورتحریروں میں جابجا پیش کی تھیں لیکن فرقہ پرستی کے زہرسے دونوں طرف دوقومی نظریہ کی بنیادپڑچکی تھی۔ محبت کی جگہ نفرت نے لے لی تھی۔ عقل پر پٹیاںبندھ گئی تھیں دورتک دیکھنے کیلئے کوئی تیار نہیں تھا۔
 
لیکن شومی قسمت کہ برٹش حکومت نے سازش کرکے کانگریس میں بھی دو الگ الگ فکری نظریے پروان چڑھانے میں بہت حدتک کامیابی حاصل کرلی تھی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا آزاد نے دوراندیشی سے کام لے کردومختلف نظریے کے ردکیلئے اور کانگریس کو ایک ہی پلیٹ فارم پردیکھنے کے لئے کانگریس رہنمائوں کوفڈریشن کامشورہ دیاتھا۔اگر اس پر عمل آوری ہوتی توہندوستان اور پاکستان دو ملک نہیں بنتے بلکہ قومی یکجہتی کواستحکام ملتا اور مولانا آزاد کے نقطہ نظرکے پیش نظر دفاعی اتحاد مساوی طورپر مستحکم ہوتا اور انگریزحاکموں کے جابرانہ رویے میں بھی ایک الگ رجحان سے نفسیاتی اثر سامنے آتا لیکن مسلمانوں میںلیگی خیالات اورکانگریس میں ہندوکٹرپنتھی کی وجہ سے جوٹکرائو ہوااس کااثر یقینی طورپر ملکی سیاست پرپڑا جس کی تفصیل مولاناآزادکی تحریروں میں جابجاملتی ہے۔ مولانا آزاد نے اصلاحی کوششوں کےلئے قلم کوہتھیار بنایا اور اصلاح معاشرہ کی طرف ان کارجحان بڑھتا گیا لیکن سیاست میں بھی ان کی پکڑمضبوط ترہوتی گئی جس سے استفادہ نہروجیسےدیدہ وروسیاست داں تاعمر کرتے رہے انگریزبھی یہی چاہتے تھے کہ کانگریس کے اندر کے ہندوکٹرپنتھی اوراقتدار کے لالچی اس بنیاد پر خلیج پیداکرلیں اوریہ افواہ پھیلائی گئی کہ اس مشن میں انگریزکامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ باورکرانے کی کوشش کی گئی کہ ہندوکٹرپنتھی مسلمانوں کوان کاجائز مقام نہیںدیںگے اور ان کوفراموش کردیں گے تب مولاناآزادبھی ذہنی طورپر الجھن کے شکارہوئے۔ اوریہ بات صرف کانگریس کے کچن کیبنیٹ تک ڈھکی چھپی نہیں رہی بلکہ سیاسی گلیاروں سے لے کرعوامی شاہراہوں پر بھی موضوع بحث ہوگئی کہ آزادی کے بعدمسلمانوں کوکچھ نہیں ملنے والاہے۔ اس موقع پر مسلم لیگی ذہنیت ابھرکرسامنے آئی اورجناح نے اس افواہ کوسنجیدگی سے لیا اور ایک نئی خودمختار حکومت کے بارے میں سوچ کرریاست پاکستان کی مانگ کرلی۔ اس پرانگریزوں نے اپنی سازش کوکامیاب ہوتے دیکھ کرظاہر اتواپنارد عمل سامنے نہیں آنے دیا۔ لیکنTwo Nation Theory کی وکالت کومنظوری دے دی۔ مولاناآزادکی تمام ترکوششوں اور گاندھی جی کی یقین دہانیوں کے باوجود ملک تقسیم ہوگیا اور پاکستان میں جناح اورہندوستان میں نہرو اقتدار پر قابض ہوگئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد مسلم عوام کوبیدار کرنے میں مولاناابوالکلام آزادکے سواکسی مسلم لیگی رہنما کے اندر یہ صلاحیت نہیں تھی کہ تمام مسلمان انگریزوں کے خلاف صف آراء ہوجائیں ۔ مولاناکی جانب سے دوقومی نظریہ کی ناکامی کے لئے حکمت عملی بہت اپنائی گئی لیکن جناح اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے نہرو نے اقتدارپانے میں کامیابی حاصل کی اور برٹش حکومت کی سازش ہندوستان کے ہندومسلمان کے درمیان تفرقہ پھیلانے میں کامیاب ہوگئی اور مولانا آزاد جنہوں نے جنگ آزادی کواپنا لہو پلایاتھا، قربانیاں دی تھیں ان کے نظریہ کوتہہ خانہ میںبند کرکے رکھ دیا گیا۔ مولانا آزادہندکٹرپنتھیوں کے شکار ہوگئے اور انگریزوں کی سازش سے معتوب۔
 
مولانا آزاد نے جنگ آزادی میں جوقربانی دی اور جومدبرانہ فیصلے لیے اس کاحشر بھی اہم لوگ دیکھ چکے ۔مولانا کے مطابق دولسانی جماعتیں دومختلف علاقے میں بٹ کر ایک ملک نہیں ہوسکتیں نتیجتاًبنگلہ دیش اس کی مثال ہے اور یہ بھی کہ دوکمیونٹی یاقوم ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں جس کوجناح نے اپنی دلیل بنائی تھی اس کی مثال ہندوستان ہے کہ تمام دنگے اور فسادات کے باوجود آج بھی ہندومسلمان ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اور تمام شعبہ حیات میں اشتراک کے ساتھ کام کرتے ہیں۔اس لئے آج مولانا آزاد غیرمسلموں میں بھی مقبول ہیں اور مسلمانوں میں بھی مولانا آج کے تناظر میں جب بھی دیکھے جائیں گے تو وہ ہندواور مسلمان کی حیثیت سے نہیں دیکھے جائیں گے بلکہ آزادی کے علمبرداروںکی طرح ان کاجائزہ لیا۔جائے گا۔ کیونکہ برصغیر مشترکہ تہذیب کاگہوارہ تھا۔ اس مشترکہ تہذیب کو برباد کرنے والے لوگ کل بھی سرگرم عمل تھے اورآج بھی سرگرم عمل ہیں۔ اس میں ہندواورمسلمان کی کوئی قید نہیں کیونکہ نفرت کاکوئی مذہب نہیں ہوتا اور اس سے اتحاد پارہ پارہ ہوتاہے اور اس سے اجتماعی طورپر قوم کانقصان ہوتاہے۔ نظریے مہلک ہوتاہے۔یہ بات کل بھی مولانا نے سمجھائی تھی اورآج بھی اس بات سے ہرآدمی اتفاق کرے گا۔ کیونکہ انہوں نے تاریخی پس منظر میں ملکوں کے عروج وزوال کی داستانوں کودیکھاتھا اور اس کے نتائج بھی مولانا کے ذہن میں تھے اس لئے وہ عوام کوہلاکت خیزی سے بچانے کیلئے مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ میں اپنے مقالہ کواپنے ہی ایک قطعہ پرختم کرتاہوں۔
 
علم ودانش کے تھے پیکرابوالکلام آزاد
ابھرے جیدعالم بن کرابواکلام آزاد
اپنی مٹحی میں رکھتے تھے وہ دنیاکاعلم
کوئی نہیں تھا آپ کاہمسرابواکلام آزاد
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 944