donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Monazir Ashiq Harganvi Ka Self Lierary Zone

مناظرعاشق ہرگانوی کاسلف لٹریری زون
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
محسوسات کے بحربیکراں، جمالیاتی حس اور قوت اور اک کے مالک اور فطرت انسانی اور کائنات کے وسیع مطالعہ کے دیدہ ورڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کانام جب بھی ذہن میں آتاہے تو یہ بات غور کرنی پڑتی ہے کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں پر ختم کروں کیوں کہ ادب کے حوالے سے ان کی شخصیت بہت پھیلی ہوئی ہے۔ تقریبا تمام اصناف میں انہوں نے تجربے کئے ہیں اور ان کے تجربے سے اردو ادب کے خزانے میں اضافہ ہوتارہاہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اپنے دامن کو میں سمیٹ کررکھوں اور ان اہم پہلوئوں پر اپنی تحریرکومرکوز کروں جن سے مناظر عاشق ہرگانوی کی شناخت کرنے میں قدرے آسانی ہو۔
دورجدید میں ایک رجحان یہ پایا جاتاہے کہ جو بھی تجربہ کیا جائے اس تجربے کوادبی پذیرائی حاصل ہولیکن بدلتے ہوئے حالات میں اور اس تیز رفتار زندگی کی بھاگ دوڑمیں قاری کاتلاش کرناایک دشوارامر ہے۔ کیوں کہ جدیددور میں ٹی۔ وی اور انٹرنیٹ جیسی سہولتوں کی موجودگی میں پڑھنے کاکام کم دیکھنے میں آنے لگا ہے۔ یہ الگ سی بات ہے کہ جوادبی کارنامے کلاسیکی ہوجاتے ہیں ان کومحفوظ کرلیا جاتاہے اور جب جی چاہے اپنی سہولت سے اس کاجائزہ لیا جاسکتاہے یا اس سے محفوظ ہواجاسکتاہے۔
 
مناظر عاشق ہرگانوی نے جتنا کچھ لکھاہے اس میں تنقیدی اورتحقیقی اوربعض حدتک انفارمیٹوچیزیں جوسامنے آئی ہیں وہ قابل قدرہیں۔ دوسری زبان وادب میں ہونے والے تجربوں کوبھی اردو میں پیش کرنے کی بھرپورکوشش کی ہے لیکن محض تجربوں کے طورپر کسی فارم یاتکنیک کااپنانا اور اس کو رواج دینے کیلئے کسی پلیٹ فارم یاتحریک کی غیرموجودگی میں اس کامحدود ہوجانا لازمی ہے۔ اس دورمیں جتنی سہولتیںحاصل ہیں اردوداں اس کااستعمال کرنے میں یاتوناکام ہیں یاان کے حصول کے لئے اتنی کوشش نہیں ہورہی ہے۔زیادہ سے زیادہ ہم اتناہی کرپارہے ہیں کہ رسائل میں اپنی تخلیقات بھیج دیتے ہیں اگرانٹرنیٹ کی سہولت ہے تواس پرجاری کردیتے ہیں۔ لیکن اردوآبادی کابڑاحصہ جس کاساراوقت دووقت کی روٹی کما نے میں گذرجاتاہے وہ چاہتابھی ہے کہ ادبی سرگرمیوں سے واقف ہواور محفوظ ہوسکے لیکن ایسا نہیں کرپاتا۔ ایسے ماحول میں مناظرعاشق ہرگانوی نے عالم رابطے سے اپنے حلقے کے لوگوں تک اپنی بات پہونچانے میں کامیاب حاصل کی ہے۔ اردو ادب سے تھوڑی بھی دلچسپی رکھنے والا شخص مناظر عاشق ہرگانوی کوضرورجانتاہے۔ کیونکہ ہرگانوی کے ذہن، دل اور فن میں کائنات گیرفراخی ہے۔
 
انہوں نے دورقدیم ، دورجدید، مابعدجدیداور ترقی پسندوں کے بیشترادباء وشعراکواپنے طورپر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔کلاسیکی فنکاروں کوبھی انہوں نے اپنے دائرہ قلم میں رکھاہے اور اپنی تنقیدی کسوٹی پران کی آراء کوجانچااور پرکھاہے اوران کے عیوب ومحاسن پراپنی رائے دی ہے مثلاًعبدالحلیم شرر، گوپی چندنارنگ، وزیرآغا، سہیل عظیم آبادی، مظہرامام، انورشیخ اخترپیامی، عبدالقوی ضیاء رفعت اختر، امریندر، رندساغری، بیکل اتساہی، عاصی کاشمیری، پنہاں، عبدالواسع، عبدالمنان طرزی، شاہد جمیل، ابراہیم اشک، اسحق ساجد، سعیدروشن، طاہرسعیدہارون، اصغرویلوری زہرادائودی، احمدوصی، نذیر فتحپوری، خوشترمکرانوی، محمدحسن، ساحرلدھیانوی، جوگندرپال، ایم اے حق وغیرہ پرباضابطہ طورپر کتابیںلکھی ہیں اور ترتیب دی ہیں اور میر ،نظیر، غالب، اقبال ،محمدحسین آزاد،سودا، نذیراحمد، پریم چند، جمیل جالبی، محمدعلی صدیقی ، انورسدید،قمررئیس،شمس الرحمن فاروقی، فرازحامدی، نذیرفتحپوری وغیرہ سے لے کرشارق جمال، افتخاراجمل شاہین، قیصرشمیم، علقمہ شبلی، منوررانا، احمد رئیس ،فراغ روہوی، امام اعظم اوردوسرے نئے پرانے لکھنے والوں پران کے سینکڑوںمضامین رسائل وجرائدمیں شائع ہوچکے ہیں۔
 
ان کادوسرابڑااہم کام یہ ہے کہ اپنی آرء کورسالے اورجریدے میںشائع ہی نہیں کرایابلکہ کتابی شکل میں محفوظ بھی کرلیا ہے۔ تیسرابڑاکام انہوں نے اردوشاعری کی مقبول صنف غزل میں ایک نئے تجربہ آزادغزل جس کے موجد مظہرامام ہیں کومقبولیت بخشنے کاکام کیاہے ۔یہ بڑی بات ہے کہ کوئی تجربہ کرتاہے اور کوئی اس تجربے کی تشہیرکرتاہے اور اس تجربے کودوسروں تک پہنچاتاہے اور دوسرے بھی اس سے متاثرہوکر اس راہ پرچل پڑتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کے اعتبارسے اس کی نوک پلک درست کرتے ہیں۔آزادغزل ایک ایسی کوشش تھی جس میں محض اوزان اوررکن کی ادائیگی کی پابندی سے گلوخلاصی حاصل کرنے کاتجربہ نہیں تھا بلکہ بھرتی کے الفاظ ،بھرتی کے مصرعے، غیرضروری ایمائیت اورغیر ضروری الفاظ کے طومارسے غزل کوپاک کرنے کی کوشش تھی ۔غزل خودہی اپنے اندرCompactnessکا نام ہے لیکن اس Compactnessمیں اگر کہیں جھول آجائے تواس کاحسن جاتارہتاہے۔ اسی فریم ورک کوپیش نظررکھ کرآزادغزل کاتجربہ ہوا اور اس کوآگے بڑھانے کاکام مناظر عاشق ہرگانوی نے کیا۔ مناظرعاشق ہرگانوی نے ’غزل نما‘جیسی صنف شاعری کوشناخت اورمقام دلانے کی بھی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس صنف پردوکتابیں شائع کرچکے ہیں اور کوہسار، کانمبر بھی آچکاہے۔
 
ساختیات جیسے پیچیدہ موضوع پر سہل انداز میں ساختیات کوسمجھانے اس کی افادیت کوبتانے اور اس کے نظریاتی سمت کوطے کرنے کیلئے جوپیمانہ منا ظرعاشق ہرگانوی نے اپنایاوہ بہرحال ساختیات کوسمجھنے  اوراپنا نے میں اہم رول اداکرتاہے۔ اس حوالے سے گوپی چندنارنگ اوروزیرآغاپران کی تین کتابیںمنظرعام پرآچکی ہیں۔’’تمثیل نو‘‘میں بائیس قسط میں ان کے مضامین اس کے علاوہ ہیں۔ 
 
مناظرعاشق ہرگانوی نے فکشنز کے تجربے بھی کئے ہیں جن میں افسانہ، ناول اور ڈرامہ شامل ہیں۔ افسانے ،ڈرامے اورناول، آنچ میں ڈاکٹر ہرگانوی نے زندگی کوبعینہ لیا ہے۔ جس میں کک اور تخلیقی عمل کاانعکاس دھیمے دھیمے روح میں اترتاہے اورگریزاور انکار کے دھارے پرانسانی رشتوں کی اساسی حقیقت کوقبول کرتاہے۔ انہوں نے بچوں کے ادب پر بہت کچھ لکھاہے۔ایک درجن سے زائد کیا کتابیں شائع ہوچکی ہیں اوراخلاقیات کادرس دینے کے ساتھ ساتھ جاسوسی اوربھوت پریت کی کہانیاں اورناول لکھ کرتفریح بھی مہیاکی ہے۔ اردو میں بچوں کے ادب کی پہلی اینتھولوجی ساہتیہ اکیڈمی نے ڈاکٹر ہرگانوی کے ذریعہ تیارکراکے شائع کی ہے۔ ہرگانوی تنوع پسندہیں۔ مشاہیرادب سے انٹرویوکی پانچ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ زہرہ دائودی اورانورشیخ سے الگ الگ موضوعات پرپوری پوری کتابیں ہیں۔ ماہیا،کہہ مکرنی تکونی، غزالہ، کہمن، دوہاغزل دوہا گیت وغیرہ اصناف سخن پر پہلا انتخاب اردو میں ڈاکٹر ہرگانوی نے ہی دیاہے۔ ان کی زودگوئی کے باوجود ان کے یہاں یکسانیت یامونوٹونی کااحساس نہیں ہوتا۔ مناظر عاشق ہرگانوی کے لکھے پرمتعددکتابیں دیکھ کرحیرت ہوتی ہے کہ اردو ادب میں جہاں کسادبازاری ہے جہاں تعصب ہے،جہاں استحصال کی کوششیں رہتی ہیں وہیں ان پرکتابیں لکھنے اورمرتب کرنے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ اسی کانتیجہ ہے کہ ملک کے الگ الگ شہروں سے ان پردرجن بھرکتابیں منظرعام پرآچکی ہیں۔
 
مناظرعاشق ہرگانوی ناقداور شاعرنظام صدیقی مناظرنامہ منظوم، پروفیسر عبدالمنان طرزی، ہرگانوی ناقد اور محقق ڈاکٹر شمس تبریز خاں، ہرگانوی بحیثیت شاعرڈاکٹر نیرحسن نیر، ہرگانوی بچوں کے ادیب ڈاکٹر سید جمشیدحسن، ہرگانوی شش جہت فنکار، ڈاکٹر نوشاد عالم آزاد، ہرگانوی کثیرالجہات  فنکار ڈاکٹر محمدمحفوظ الحسن، ہرگانوی، شخصیت ڈاکٹر فردوس خاں رومی، ہرگانوی کاادبی منظرنامہ نذیرفتح پوری مناظر جناب منظوم افروزعالم مناظرعاشق ہرگانوی اور زرف گوئی نذیرفتح پوری، ان کے علاوہ ۴کتابیں بہت جلد متوقع ہیں۔ جن میں دوپی ایچ ڈی تھیس ہیں ایک میرٹھ یونیورسٹی سے اوردوسراونوبھاوے یونیورسٹی ہزاری باغ سے جے پوریونیورسٹی سے ایم فل کی تھیس جلدہی کتابی شکل میں منظر عام پرآئے گی نیز ڈاکٹرفراز حامدی کی کتاب، مناظر عاشق ہرگانوی ہمارے پیش رو، پریس جانے کوتیارہے۔
 
ڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی نے اردو غزل کی روایت میں اضافہ کرتے ہوئے اکیسویں صدی کے ۲۰۱۰میں ۲۲جسمانی عضورپر ۲۴غزلیں کہی ہیں جوفل سائز ۲۲تصویر وںکے ساتھ ،عضویاتی غزلیں، کے نام سے منظر عام پرآچکی ہیں۔ ویسے ہرگانوی نے مختلف اصناف پر اردو کونئی کتابیں دی ہیں۔ ماں جسے موضوع پر منشوراور منظوم ان کی چارکتابیں ہیں۔ غزلوں کے کئی انتخاب بھی ان کے کارنامے میں شامل ہیں۔ طنزیہ ومزاحیہ ادب میں ان کی کتاب، ادب میں گھوسٹ ازم، اہمیت کی حامل ہے۔ درجنوں افسانوں ، نظموں اور مضامین کے تراجم کے ساتھ ترجمہ شدہ ناول، گاندھاری بھی منظر عام پرآکرادب کی فضامیں سانس لے رہاہے۔ زرف گوئی، جیسی منفرد کتاب بھی منظرعام پرآچکی ہے۔ غزل نما اور کتاب غزل نماسمت ورفتار، ایم اے حق افسانچہ نگاری کافن، برطانیہ کے ہمعصرادیب وشاعر، دہشت گردی، منظوم منتخب ہائیکو، رم جھم رم جھم ماہئے کامجموعہ کہمن غزالہ، کہہ مکرنی تکونی، جیسی متنوع اصناف سخن کی تصانیف اولیت کادرجہ رکھتی ہیں اور توجہ کامرکز بنی ہوئی ہیں۔ ابھی تک ان کی ایک سوپینتالیس کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور درجن بھرنئی کتابیں بہت جلد پریس سے آنے والی ہیں۔
 
مناظر عاشق ہرگانوی صحافی بھی ہیں۔ انہوں نے ادبی صحافت میں کئی اختراعی تجربے کئے ہیں اور اپنے رسائل کے ذریعے پوری اردو دنیا کے قارئین اور قلم کاروں کومتوجہ کیا ہے اور اپنے خیالات کے حصار میں لانے کی کامیاب سعی کی ہے۔ پوری اردو دنیا کے قریب تین درجن رسائل کی ادارت میں شامل رہے ہیں سوئڈن کے رسالہ، زاویہ، کوایڈٹ کرتے رہے ہیں اور ۱۹۷۹ء سے اپنار سالہ کوہسار، نکال رہے ہیں جس کے ذریعہ نئی اور متروک اصناف کی ترویج واشاعت ہورہی ہے۔ ابھی تک اس کے ۱۷۲ شمارے منظر عام پر آچکے ہیں۔
 
مناظر عاشق ہرگانوی ہندی، انکیکا اور انگریزی زبان میں بھی لکھتے ہیں، ہندی میں دس انگیکا میں چھ اور انگریزی میں دوکتابیں منظر عام پرآچکی ہیں۔ انگیکا زبان میں بچوں کے پہلے ناول نگار ڈاکٹر ہرگانوی ہیں۔ تین ناول تو اترسے شائع کراکے اپنا مقام محفوظ کرلیاہے۔ ٹی ایم۔ بھاگلپور یونیورسٹی کے ام اے۔ انگیکا کے نصاب میں ان کی چھ انگیکا نظمیں شامل ہیں۔
 
ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی شخصیت اورفن پرمیرٹھ یونیورسٹی ،ونوبابھاوے یونیورسٹی ہزاری باغ سے پی ایچ ۔ڈی۔ اور راجستھان یونیورسٹی ، جئے پور سے ایم فل۔ سے ہوچکی ہے۔ اور سدھوکانھو یونیورسٹی، دمکا جھارکھنڈ اور میرٹھ یونیورسٹی سے پی ایچ ۔ڈی کیلئے تحقیقی مقالے لکھے جارہے ہیں۔
 
غرض کہ جن اصنااف میں انہوں نے جولانی قلم دکھلایا ان میں تازگی بھی بخشنے کا کام کیاہے۔ سیاسی، مذہبی اور خواتین کے لئے مضامین اور کتابیں ڈاکٹر ہرگانی کے قلم کے جوہر ہیں۔ ان کے بارے میں مصدقہ طور پر کہاجاتاہے کہ وہ کئی فرضی نام سے ہرماہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ وہ جتنے شفیق اور ملنسار ہیں اتنے ہی فن کے سچے ار کھڑے ہیں۔ دوسروں کی صلاحیتوں کو بھی پنپنے کاموقع دیتے رہے ہیں اور درس وتدریس سے وابستہ رہنے کی وجہ سے لفظوں کونگینہ کی طرح چن کراستعمال کرتے رہے ہیں اورنئی نسل کی ذہنی تربیت کرنے کے ساتھ زندگی کی تلخ حقیقتوں کاسامنا بھی کرتے رہے ہیں اپنے جذبے، احساسات وکیفیات کی ترجمانی میں وہ ہمیشہ تیکھے انداز اپناتے رہے ہیں اور تبدیلیوں کو عصرحاضر کے تناظر میں شناسائی بخشتے رہے ہیں۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 922