donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Prof. Khalid Sayeed : Naye Ravaiyon Ka Tanqeed Nigar


پروفیسر خالد سعید:نئے رویوں کا تنقید نگار
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
پروفیسر خالد سعید بنیادی طورپر ٹیچر ہیں اور ایک ٹیچر جب کسی موضوع پر لکچر دیتا ہے تو وہ سامنے بیٹھے طلبا تک اپنی بات Communicate کر کیلئے موضوع کواتناDiluteکردیتا ہے کہ طلبا کے ذہن کی رسائی اس موضوع کی روح تک ہوسکے۔ شعر ہم کہتے ہیں ہجے تم کرو، ایسا کام اپنی علمیت کادھونس جمانا تو ہوسکتا ہے لیکن قاری یاطلبا تک اپنی بات آسانی اور سہل انداز میں پہنچانا دشوارعمل ہے ۔خالد سعیداس عمل میں ماہرہیں اور ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
 
ان کی تین تنقیدی کتابیں تعبیرات، بارہ مضامین ، اور پس تحریر، کوپڑھنے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ وہ فن نقد پر خاصی گرفت رکھتے ہیں۔ مگر وہ بڑی انکساری کے ساتھ یہ بات کہہ جاتے ہیں کہ وہ ایک تنقیدنگارنہیں۔ سوال یہ اٹھتاہے کہ کیاتنقید نگار میں کوئی سرخاب کاپرلگارہتاہے، تنقیدنگار کاکام ہے فن پارہ کی ایماندانہ قدروقیمت متعین کرنا۔ چوں کہ ہر شخص کااپنا زاویہ نگاہ ہوتاہے اور فن پارہ کی ظاہری ساخت اور باطنی روح تک پہنچنے کیلئے فن کاراپنی کوششوں میں جن مراحل سے گذراہے ان ہی مراحل سے تنقیدنگارکوبھی گذرناپڑتاہے۔ خالدسعیدنے ایماندارانہ طورپر فن کار کی تخلیق کو اپنے زادیہ سے اس کافارم اور Content کے حساب سے جانچنے ،دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے۔
خالدسعیدنے سائنٹفک انداز میں مدلل اور منطقی باتیں پیش کرکے اپنی تنقیدی بصیرت کاثبوت دیا ہے۔ ظاہر ہے جس طرح کے فنکار کاتنقیدی جائزہ خالد سعیدنے لیا ہے اس کیلئے الگ الگ پیمانے طے کئے ہیں۔ کسی Rigidاصول پرتنقیدی رائے زنی نہیں کی ہے بلکہ فن کارکے عہد اس کے انداز، اس کے فکری رویے سب کااحاطہ کیاہے۔ یہ تمام عمل فنکارانہ ہے۔ انہوں نے یہ بی بتانے کی کوشش کی ہے کہ فنکارانہ عمل میں وہ خود بھی تنقیدی عمل سے گذرے ہیں اور اپنے قاری یاطلبا کو اس تخلیقی عمل سے گذرنے کی ترغیب دیتے ہیں تخلیقی عمل کی ترغیب وہی دے سکتاہے جو خود اس سے بخوبی واقف ہو۔ ایک اچھانقاد تخلیقی عمل کے تمام مرحلوں سے واقف ہوتاہے۔ خالد سعیدبھی تخلیقی عمل کے تمام مرحلوںسے واقف ہیں اس لئے جب تخلیق کرتے ہیں تو فنکار جس پیچ وخم سے گذرتاہے وہ خود بھی اس پیچ وخم سے گذرکراپنا تنقیدی جوہر دکھاتے ہیں۔ ان کے یہاں تنقیداور تخلیق کے درمیان کی خلیج عبورہوتی نظرآتی ہے۔ ایسا کم تنقید نگاروں کے یہاں ہوتاہے۔ ہمارے تنقید نگارایک طے شدہ فریم ورک چوکھٹے میں تخلیق کوجانچے اور پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں اورالگ الگ فن پارہ کیلئے الگ الگ فریم ورک نہیں بناتے اس لئے وہ قاری کو گمراہ بھی کردیتے ہیں۔ مخصوص نظریہ کی بنیاد پر فن پارہ کی جانچ پرکھ سے انصاف نہیں ہوتاہے۔ ایسا کرنے سے یاتو تنقیدکافرض پوراہی نہیں ہوتایاجزوی طورپر ہوتاہے۔ جہاں فن پارہ پرتنقیدنگارحاوی ہونے کی کوشش کرتاہے وہاں دھوکہ بھی ہوسکتاہے اور سچائی تک پہنچناایک دشوارعمل ہوجاتاہے نیزبھول بھلیوں میں کھوجانے کیلئے راہیںکھول دیتاہے جس سے خالص متن اور تحریری بصیرت کادم گھٹنے لگتاہے خالد سعیدنے اپنادامن ان تمام آلائشوں اور کثافتوں سے بچانے کی کوشش کی ہے۔
 
خالدسعید کے تنقیدی مضامین جامعیت رکھتے ہیں۔ وہ تخلیق اورتنقیددونوں کوایک دوسرے سے منسلک سمجھتے ہیں نتیجتاًان کی تنقیدمیں تنوع ،خوش خیالی،ملائمت اور مرکزی موضوع پر Pin Pointedرائے کی ایک روش خودبخودپیداہوگئی ہے۔ نئے تنقیدی رویہ کی تفہیم میں ان کی تینوں کتابیں کافی معاون اور مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ درسگاہوں اور نصاب میں ان مضامین کوشامل کرنا چاہئے اور تنقیدکادرس دیتے وقت اس تخلیقی رویہ کی بات بھی ہونی چاہئے جس کوخالد سعیدنے پس تحریرکانام دیا ہے اور بیشک ایک عام قاری اور دانشوردونوں کیلئے اس میں مواد ملتے ہیں۔ خالد سعیدبھلے ہی خودکو تنقیدنگارنہ کہیںلیکن وہ صحیح معنوں میں تنقیدنگارہیں۔
 
’’تعبیرات‘‘میں شامل مضامین نثری نظم کے باب میں کچھ گفتگومیلی چادر کے تانے بانے، آگ کادریا، ایک مطالعہ ایسے مضامین ہیں جن سے خالد سعیدکی تنقیدی بصیرت کااندازہ ہوتاہے۔ خاص طورپر بیدی کے ناولٹ، ایک چادر میلی سی، کابھرپورجائزہ پیش کیاہے اور بیدی کے علامتی پیرایہ اظہارکے ساتھ ساتھ اس ناولٹ کے اساطیری اور مابعد الطبیعاتی پہلو پروفیسر گوپی چندنارنگ کی تنقیدکابھی جائزہ لیاہے۔ 
خالد سعیدکے بارہ مضامین، میں ناصرکاظمی کی غزلیں،انتظارحسین کے افسانے، وارث علوی کاتنقیدی رویہ، کچھ جدیدادب کے بارے میں ،اپنے دکھ مجھے دے دو، خوابوں کی شکستگی انارکلی غالب کی عظمت، اقبال کی غزل گوئی، تنقیدکیاہے، ہاشمی بیجاپوری اردوکی پہلی نسائی آواز،سب رس کی ادبی وتاریخی اہمیت ،کلمۃ الحقائق، نثرکااولین نمونہ ،ایسے مضامین ہیں جن سے ان کے تنقیدی رویہ کااندازہ کیاجاسکتاہے، تنقیدکیاہے میںلکھتے ہیں:
 
وزیرآغانے ادب کوساحری سے تعبیرکیاہے یعنی ادب وہ جادو ہے جس میں ایک عام قاری پھنس کررہ جاتاہے،
 
وہ مزیدلکھتے ہیں
لیکن اس بات کی تشریح نہیں کرسکتاکہ لطافت کی کن کن منزلوں سے ہوکرآیاہے۔ تنقیدہی وہ اسم اعظم ہے جوادب کے جادو میں گرفتارہونے کے بجائے، جادو کواپنی گرفت میں لینے کاحوصلہ قاری میںپیداکرتی ہے جوادب کے جمال وجلال سے مرعوب ہونے کی بجائے، جلال وجمال کی کرنوں کوچھونے اور ان سے حظ اٹھانے کی صلاحیت قاری میںپیداکرتی ہے۔
 
پس تحریر،میں مشتاق احمدیوسفی کافن، بیانہ میں راوی کی مداخلت ،لاجونتی قول محال کاافسانہ، عزیزاحمد کے تصورات عشق عورت اور ازدواج، غالب کے خطوط میں فکشن کے آثار، عقل ودل ،ایک مطالعہ یوں بھی، خواب کادربندہے، حنصل ، اسلوب کی کش مکش کی مثال، جیسے مضامین خالد سعیدکی تنقیدکی بہترین مثالیں ہیں۔ بعض مضامین سے ان کے تعلیمی تصورات کوسمجھنے میں بھی مددملتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں ٹیکنک میتھوڈولوجی اور ترتیب وارپڑھنے کاعمل جاری رہتاہے اور اس سے ایک سائنٹفک اندازتحریراور تنقیدکی صلاحیت پیداہوتی ہے اور اسی شعور کوبیدار کرنے کیلئے خالد سعید نے کچھ ایسے مضامین بھی پس تحریرمیں شامل کئے ہیںاور طلباکی دشواریوں کاگہرائی سے مطالعہ کرکے انہیں حل کرنے کی کوشش کی ہے جوایک ایسا قدم ہے جس سے لکچرار کے دئے ہوئے لکچرکے ساتھ ساتھ اپنی ضرورت کے مطابق مواد جمع کرلینے کافن طالب علم سیکھ جاتاہے اور اسے ترتیب وارتحریرکرنے کاملکہ حاصل ہوجاتاہے ان کی یہ کوشش عملی تنقید کے تقاضوں کوبھی پوراکرتی ہے خالد سعید نے ایک مدبرانہ تنقیدنگار کی طرح رویہ اپنایاجوقابل تحسین ہے۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 671