donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Prof. Wahab Qaiser - Adab Mein Science Ka Ramze Shanas

پروفیسروہاب قیصر:ادب میں سائنس کارمزشناس
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
گمان اور قیاس کی منزلوں سے آگے نکل کر کوئی سائنسداں حقیقی زندگی کے پہلوئوں پرنگاہ ڈالتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ زندگی کے ہر عمل کی سائنسی تفسیر ہوسکتی ہے اور سائنس کی بنیادی اور ابتدائی جستجو اور تلاش کاجوسلسلہ شروع ہوتاہے تو کہاجاتاہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے اور زندگی میں ضرورتوں کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ حالات کی تبدیلی کے ساتھ سائنسی اصول بدلتے نہیں ،لیکن اپروچ میں تبدیلیاں ضرور رونما ہوتی ہیں اور شاعریا ادیب جوکچھ لکھتاہے وہ سماج کاعکس ہوتاہے۔ ان کہی یاغیرمحسوس باتیں جب سامنے آتی ہیں تو لوگ متحیرہوجاتے ہیں اور ایسا لگتاہے کہ فنکارنئی تلاش وجستجوکے مرحلہ سے گزراہے۔ وہاب قیصرنے ان تمام پہلوئوں کاسائنسی نقطہ نظر سے تجزیہ کیاہے اور انہوں نے وہ پرتیں کھولی ہیں جوالہام کی صورت میں شعری یافکری لوازمات کے ساتھ اردو ادب میں موجود ہیں۔
 
سائنس کی برکتیں جتنی زیادہ اور اس کی جہتیں جتنی وسیع ہیں، ادب کادامن بھی اتناہی کشادہ ہے ضرورت ہے تلاش وجستجو کی ۔اس لیے کہ ادب جن پہلوئوں کوسامنے لاتاہے، سائنس بھی ان ہی پہلوئوں سے دوچارہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اردو شاعری میں شمع اور پروانہ کے موضوع پرہزاروں اشعار ملیںگے۔ سائنسدانوں نے یہ ثابت کیاہے کہ شمع کی روشنی پرپروانوں کافداہوناایک سائنٹفک عمل ہے۔ گرچہ یہ عشق کاجنون بھی ہے۔ اپنے تجربوں سے سائنسدانوں نے یہ بتایاہے کہ جومادہ پروانہ ہوتی ہے، وہ ایک طرح کی روشنی یاشعاعیں رات کی سیاہی میں پیدا کرتی ہیں اور ان شعاعوںکی ہم شکل جوشعاعیں انہیں دکھائی دیتی ہیں جیسے کہ شمع کی روشنی، اس پرنرپوانے منڈلانے لگتے ہیں اور ان کی فدویت کایہ عالم ہوتاہے کہ اپنی جان بھی دے دیتے ہیں۔یہ سائنسی معلومات ہیں لیکن ہمارے ادب میں یہ مضامین بہت زمانہ سے موجودہیں۔
 
ہمارے یہاں قطعہ تاریخ بھی لکھاجاتاہے، اس کاتعلق ریاضیات سے ہے لیکن اس ریاضی فارمولے کوعام کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ وہاب قیصرنے ادب کی اس نوع کی سائنسی توجیہات پیش کرکے ادب کونئی وسعت دی ہے۔ان کی تحریروں سے وہ مخفی پہلو بھی سامنے آئے ہیں، جن سے ہم نا آشنا تھے۔ وہاب قیصر کے خیال میں اچھے ادیب کی پہچان یہ ہے کہ اس کے اندر بدلتے ہوئے حالات کوتیزی کے ساتھ بھانپ لینے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اپنے مضمون غالب کاسائنسی شعور،میں وہاب قیصرکہتے ہیں، کسی بھی زبان کے بلندپایہ ادیب اور شاعرزمانے کے نبض شناس ہوتے ہیں۔ وہ ماضی اور حال سے واقف اوربہتر مستقبل کے نقیب ہوتے ہیں۔ بدلتے ہوئے تہذیبی ثقافتی ،سیاسی اورسماجی حالات کوتیزی کے ساتھ بھانپ لیتے ہیں۔ ان کی تخلیقات آفاقی، زمان ومکان کی قید سے آزادہوتی ہیں۔ جونہ صرف تخلیق کارکے عہد کی آئینہ دار ہوتی ہیں بلکہ آنے والے عہد پر اثراندازبھی۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ وہاب قیصردورکی کوڑی لانے اور اپنے سائنسی علم کازور دکھانے کیلئے یہ سب کررہے ہیں۔ حالاں کہ ایسی سوچ رکھنے والے ایک محدود دائرہ میں سوچ رہے ہیں کیوں کہ انسان کادماغ محشرستاں ہوتاہے اوراس کے ذہن کے اندر طرح طرح کے ایسے خیالات آتے رہتے ہیں جوسائنسی تخلیق سے مناسبت رکھتے ہیں۔ اب غورکریں کہ شاعراگرکسی Refraction کے نظریہ کو شعر میں ڈھال دیتاہے تویہ فزکس کی بات ہوی اور اس کی تشریح کوئی فزکس کاماہر ہی کرسکتاہے۔
 
علامہ اقبال نے’’مسجدقرطبہ‘‘لکھی ۔یہ ایک ادبی کارنامہ ہے اور ایک خوبصورت نظم ہے۔ لیکن Space & Timeکانظریہ جس کوآئینس ٹائن نے پہلی باردنیا میں پیش کیاہے، اس کی مکمل تشریح اور رعکاسی ہے، کیوں کہ یہ Theory of Relativity ماضی ،حال ومستقبل  کے مابین رشتوں کوایک سریزمیں پروتاہے۔ ایسے ادبی کارنامے جن کی سائنسی توضع ضروری ہے۔اس کاحق وہاب قیصرجیسے دانشورہی کرسکتے ہیں۔
وہاب قیصرکی کتابیں، سائنس کے نئے افق، سائنس اور غالب ، سوالوں میں رنگ بھرے، مولانا آزاد کی سائنسی بصیرت، مولانا آزاد کے سائنسی مضامین اور مولانا ابوالکلام آزادفکر وعمل کے چندزاویے اردو ادب میں ایک گراں قدراضافہ ہیں۔
 
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 850