donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Prof.Abdul Ghafoor Shahbaz Ke Maktoobat Mein Zaati Anasir


پروفیسر عبدالغفور شہباز کے مکتوبات میں ذاتی عناصر
 
گیسوئے تحریر: ڈاکٹرامام اعظم
 
نجی مکتوب ومراسلہ اظہار کاایک ایسا ذریعہ ہے جس سے مراسلہ نگار کی زندگی کے مخفی گوشے اجاگر ہوجاتے ہیں، وہ کھل کر سامنے آجاتاہے، مخاطب سے قربت اور لگائو کے لحاظ سے کئی لاشعوری احساسات خوابوں کی دنیا میں ،اٹھکھیلیاں کرنے کی بجائے جیتی جاگتی دنیا میں اپنے حجاب اتاردیتے ہیں۔ مراسلہ نگار کی زندگی آئینہ ہوجاتی ہے اور وہ اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ بے حجاب ہوجاتاہے اس سے اس کی شخصیت کی گہرائی وگیرائی کا مکمل اندازہ ہوجاتاہے۔ چونکہ ایسے مراسلوں میں نجی اور داخلی زندگی کا اظہار ہوتا ہے اس لئے مراسلہ نگار کی شخصیت میں دوئی کااحساس بھی ختم ہوجاتاہے۔
 
دنیا کی بیشتر زبانوں میں خطوط کے مجموعے شائع ہوتے رہے ہیں لیکن اکثر مشاہیرنےخطوط کو بھی اپنے فلسفیانہ ادبی خیالات کے اظہار کاذریعہ بنا دیا ہے چونکہ ایسے خطوط میں اشاعت کا ارادہ احساس پوشیدہ رہتا ہے اس لئے ان میں وہ بے ساختگی اور داخلیت کابے تکلف اظہار نہیں ہوپاتا جونجی خطوط کالازمہ ہے۔ یہاں بھی انسان خود کوباہر کی دنیا سے مامون نہیں سمجھتا نیز اپنے اورمخاطب کے درمیان کے فاصلہ کو نہیں مٹاپاتا ہے اس لئے بہت سے ایسے احساسات دبے رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشاہیرکے خطوط میں کئی مقام پر آمد کااحساس ہوتاہے۔
 
اردو میںمکتوب نگاری کی روایت نے غالب سے ادبی رچائو کی صورت اختیار کی۔ ان کے بعد سرسید، شبلی اور مولانا آزاد جیسے بہت سے اہم ادیبوں اور مشاہیرنے مکتوب میں اپنی شخصیت اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جلوہ گر نہیں ہوسکی ہے۔
 
مہدی افادی اور جاں نثار اختر کے خطوط ان اوصاف کے حامل ہوسکتے مگر جب ان کی اشاعت کا وقت آیا تو ان کی شریک حیات نے اپنی داخلی ،ذاتی اور گھر یلوزندگی کے واقعات کو حذف کردیا۔ اس طرح خطوط کی داخلیت متاثر ہوئی اور ان میں بھی ادبی وسیاسی رنگ غالب ہوگیا۔ نجی خطوط میں جوگھریلوپن اور ذاتی عناصر ہوتے ہیں وہ عبدالغفور شہباز کے ان خطوط میں بدرجہ اتم موجود ہیں جو انہوں نے اپنی بیگم کو لکھے ہیں۔ ان میں ان کی ادبی اور شاعرانہ رعنائی بھی بڑی بے تکلفانہ ہے۔ بے ساختگی اورنجی پن جوخطوط کالازمی جزہیں، ان خطوط میں جلوہ گرنظرآتے ہیں۔ یہ بے ساختہ پن کہیں اور نظرنہیں آتا۔ بعض اقتباسات ہمارے اس دعویٰ کی بین دلیل ہیں، ’’نامہ شوق‘‘ان کے خطوط کا پہلا مجموعہ ہے۔ اپنی بیگم کے نام لکھے گئے ان کے مکتوبات کو ان کے نبیرہ ڈاکٹر سید صابر حسن،’’سابق پروفیسر پی جی شعبہ اردو،‘‘بی آرامبیدکر بہاریونیورسٹی، مظفرپور، نے مرتب کرکے شائع کیاہے۔ پیش کردہ اقتباس اسی سے ماخوذ ہیں۔
یہاں گرمی اچھی طرح پڑنے لگی اور کیوں نہ پڑ؁ پھاگن کامہینہ بھی توشروع ہوگیا۔ پھاگن گرمیوںکاپھاٹک ہے۔ لیکن میں نے ابھی تک کشمیرے کی اچکن نہیں اتاری اور رات کووہی زرسمیں والا لحاف جس کو تم بالاپوش کہتی تھیں اوڑھتاہوںلحاف ہے جس کوتم نے بھی بہت دنوں تک اوڑھاہے اور اسی واسطے میرادل قبول نہیں کرتاکہ جلدی سے اس کو علاحدہ کردوں لیکن افسوس کہ قریب ہے وہ مصیبت کازمانہ جب کہ وہ لحاف مجھ سے چھوٹ جائے گا۔
 
دل لگی کی باتیں ہوچکیں اب کام کی باتیں سنو۔ تم کوآج تک میں جتنے خط بھیج رہاہوں۔ ان کی نسبت کچھ کہا نہیں، سوسنوخطوط کوحفاظت سے اپنے بکس میں پڑھ پڑھ کر رکھتی جائو میں آکر سب خطوط تم سے سمجھ لوںگا۔ اگر ایک بھی گم ہواہے تو میں ناراض ہوںگا۔ چلتے چلتے چند لفظوں کی فارسی بتاتا جاتاہوں۔ تم یاد کرلو۔ہندی داہنے طرف ہے اورفارسی بائیں طرف۔’’۲۸؍فروری۱۸۸۰ء‘‘
 
اسی خیال سے کبھی کبھی مجھے دوسری شادی کی دھن ہوجاتی ہے کہ وہ لطف پھرملتا۔ اس سے تم یہ نہ سمجھو کہ میں بیاہ کرنے کومستعدہوں میں کبھی دوسری شادی نہ کروں گا اور اگر کروں گا بھی تو تمہاری مرضی سے اور تمہاری اجازت لے کر اور میں دوسری شادی کیوں کروں تمہاری صفتیں دوسرے میں کہاں ملیںگی یہ حسن وجمال، یہ قدوقامت، یہ قیافہ، یہ صورت یہ رنگت ،یہ روغن بھلا دوسرے میں کہاں پائوں گا۔ اگر تم چاہو کہ میں دوسرابیاہ نہ کروں تو تم اپنی زبان صاف کرو نہیں تومیں ضرور دوسرابیاہ کرلوں گا۔ ہاں زبان درست کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ روز چارورق کتاب کے پڑھاکرو۔’’۲۹؍فروری۱۸۸۰ء‘‘
بڑی فکر تو مجھ کو تمہاری لگ رہی ہے۔ تمہارے میکے میں جودولت ہے وہ معلوم ہے خود تمہارے ماں باپ تکلیف میں ہیں تم کوکون پوچھتاہے تمہارے سسرال میں جودولت ہے وہ واجبی ہی واجبی کبھی کبھی تم کوخیال ہوتا ہوگا کہ کسی اچھے خاندان میں شادی ہوجاتی تو اس وقت آرام وچین سے بسرہوتی بیشک یہ خیال تمہارانہایت صحیح ہے اور میں شرمندہ ہوں کہ کیوں نہیں ہاتھ پائوں ہلاکر تمہیں آرام پہنچاتاہوں۔ بیوٰ صاحب معاف کروا اب میں بہت جلد کوشش کر کے کوئی نوکری کرلیتا ہوں تم سے زیادہ حقوق میرے ماں باپ کے مجھ پر ہیں۔’’۱۰؍مارچ ۱۸۸۰ء
 
تم کہتی ہو کہ میں نے تین قطعہ خط آپ کے یہاں لکھا ہے، میرے یہاں تو صرف دوہی پہونچے، معلوم ہوتا ہے کہ ایک خط تمہارا گم ہوا اور قسم لے لو جو مجھ کو ملا ہو ورنہ میں ضرور اس کا ضواب بھی لکھتا، تم کہتی ہو کہ میں سائیں کے ہاتھ حلوہ بھیج دوںگی۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ سائیں کلکتے ابھی گیا اب کوئی اور طریقہ سوچو، ۲۲؍دسمبر۱۸۸۲
 
لحاف کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ جب اوڑھ کر سونے لگتا ہوں اور لحاف کی اندھیری کوٹھری میں اپنے کوتنہاپاتا ہوں تو اس فکر میں ہوتا ہوں کہ کاش اس وقت تم یہاں ہوتیں کہ یہ تنہائی رفع ہوتی اور اس اندھیری کوٹھری میں تمہارے چہرے کی روشنی سے اجالا ہوتا۔ سید محمد خاں نے جب اس لحاف کوذکر سنا فرمایا جولوگ بھلے مانسوں کی طرح اپنی بیویوں کاخیال کرتے ہیں ان کی یونہی خاطر ہوتی ہے۔ میں نے کہا خاطر کیاہوئی خاطر تو جب ہوتی کہ بیوی صاحب بھی اس لحاف میں لپٹی ہوئی چلی آتیں۔۲۲
نومبر۱۸۹۰۔
 
غرض تمام خطوط اسی طرح کی بے ساختگی ،سادگی اور عام زندگی کی سچائیوں کے بے جھجھک اظہار کا نمونہ ہیں۔ ان میں ان کی داخلی اور نجی زندگی کے سارے واقعات بے محابہ نظر آتے ہیں اور ان کے دل کی دھڑکن صاف سنائی دیتی ہے نیز ان کی داخلی زندگی اور نجی دنیا میں جوکچھ ہورہا تھا اس کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جذبات کی رنگینیوں کے ساتھ انہوں نے جس والہانہ انداز میں اپنی بیگم کو مخاطب کیا ہے کوئی شاعرہی اس باریک بینی سے اپنے دل کے واردات اورقبلی احساسات کواپنے خطوط میں ڈھال سکتاہے۔ ـ
 
نامہ شوق کے مکتوبات پرجمیل مظہری نے یوں اظہارکیاہے۔
میاںبیوی کے خطوط میں گھریلوپن ہوناچاہئے۔ ایسے خطوط کاکوئی مجموعہ اب تک زیر نظر مجموعہ کے سوامجھے کہیں نظر نہیں آیا۔ شہباز مرحوم کے وہ خطوط جوانہوں نے اپنی بیگم صاحبہ کولکھے ہیں سراپا گھریلو ہیں۔ ان میں ان کی ادبی اور شاعرانہ رعنائی توموجودہے مگر بڑے بے تکلف انداز میں بس ایسا معلوم ہوتاہے کہ وہ اپنے خطوط میں کھل کھیلے ہیں۔ ان کی رومان پسندی ان کے ہرجملے سے ٹپکی پڑتی ہے۔ انہیں جو محبت بلکہ عشق اپنی بیگم سے تھا اس کااظہار بڑی بے ساختگی اور والہانہ اندازسے ہواہے۔
مقدمہ نامہ شوق مجموعہ مکتوبات۔
 
شہباز کی سب سے بڑی عظمت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کاکوئی گوشہ بے نور نہیں رہنے دینا چاہتے جوفنکارانہ دیانت داری ان کے یہاں ہے وہ شاذ ونادر ہی کہیں اور نظرآتی ہے انہوں نے کوئی شاعرانہ آہنگ نہیں اپنا یا لیکن جمالیاتی حسیت کو جس سلیقہ سے پرویا ہے اس سے بسااوقات شاعری بھی بے نیاز رہ جاتی ہے۔ ان کے مکتوب سے اندازہ ہوتاہے کہ انہوں نے زندگی نہ صرف گذاری بلکہ اسے خوب سے خوب تربنانے کی کوشش کی۔ اس کی عکاسی ان کے تمام مکتوبات سے ہوتی ہے۔
 
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مکتوبات میں داخلیت اور ذاتی زندگی کااظہار جیسا عبدالغفور شہباز کے یہاں ملتا ہے وہ دوسری جگہ خال خال ہی نظر آتاہے جس سے مراسلہ نگار کی شخصیت اور اس کا باطن اپنے جملہ گونا گوں اوصاف کے ساتھ قاری کے سامنے آتاہو۔
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 925