donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Prof.Gopi Chand Narang : Urdu Ke Memare Adab


پروفیسرگوپی چندنارنگ:اردوکے معمارادب
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
پروفیسر گوپی چندنارنگ اردو ادب کی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کولسانیات اور تنقید دونوں پر قدرت حاصل ہے۔ اردو تنقیدنگاری میں اتنی بڑی ہمہ جہت شخصیت بہت کم نظر آتی ہے اور نارنگ صاحب نے اسی تہذیب کواپنا ذریعہ اظہار بنایا۔ ان کی شخصیت میں جتنے بھی رنگ ہیں ان میں اسی کا انعکاس ہے۔ باوجود یکہ اردو ان کی مادری نہیں بلکہ اکتسابی زبان ہے مگر اردو سے والہانہ عشق نے انہیں اردو تہذیب وتاریخ کالانیفک جز وبنادیا۔ انہوں نے کبھی اردو میں کوئی اجنبیت محسوس نہیں کی اور نہ ہی ہندی اردومیں کسی غیریت کااحساس کیا۔ اردو میں خصوصی طورپر تنقید کادائرہ محدودتھا اور تاریخی پس منظر میں اسے دیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی۔ اردو زبان کے سلسلہ میں یہاں پرذکر کرتاچلوں کہ بہت ساری غلط فہمیاں اور متعصبانہ رویوں سے اسے نہ صرف نقصان پہنچا نے کی کوشش کی گئی بلکہ اردو کی اصل نوعیت اور اس کی Potentiality کوکسی محدود دائرے میں قید کرکے دیکھنے کی وجہ سے نقصان ہوا۔یہ سچ ہے کہ اردو زبان دربار کی زبان نہیں رہی لیکن زبان کے اندر ایسی خوبی تھی کہ خود بخوددرباری زبان کواپنا نے میں اپنی عافیت سمجھتے تھے ظاہرہے کہ ہرآدمی یہ جانتا ہے کہ ہندوستان اوربرصغیرکی یہ سب سے پیاری زبان ہے اور اسے اپنا نے میں لوگوں کوکوئی دشواری محسوس نہیں ہوتییہ بھی حقیقت ہے کہ اردو زبان ہندوستان میں پلی بڑھی اور وقت اور حالات کے ساتھ اس نے ضرورتوں کے ساتھ او حالات کے تقاضوں کے مطابق بے پناہ کشادگی پیداکی اور اس نے اپنا رشتہ عربی اور فارسی کے ساتھ ہندوستانی زبانوں سے بھی استوارکیا۔ اور ایسا مستحکم کہ اس کے عناصرترکیبی سے ہندوستانی عناصر کوالگ کیاہی نہیں جاسکتا۔ اس لئے پروفیسرنارنگ نے فارسی رسم الخط کی بنیاد پر اردو کے بدیسی ہونے کے الزام کوسختی سے مستردکیا اورثابت کیا کہ ہندی اور اردو میں اٹوٹ رشتہ ہے۔جتنا اشتراک اردو اورہندی کی لفظیات LesiconصرفیاتMorphology اور نحویاتSyntax میں پایا جاتا ہے، شاید ہی دنیا کی کسی دوزبانوں میں پایاجاتاہو۔ اردوکی تقریباًچالیس آوازوں میں صرف چھ ایسی ہیں جوفارسی وعربی سے لی گئی ہیںباقی سب کی سب ہندی اور اردو میں مشترک ہیں خاص طورسے ہکارAspiratedآوازیں، پھ، بھ، چھ، جھ، تھ، دھ، کھ، گھ اپنے سادہ روپ کے ساتھ پورے سٹ کے حیثیت سے ہندی اور اردو میں موجود ہیں۔ اسی طرح معکوسی Retroflex آوازیں یعنی ٹ، ڈ، ڑ،اور ان کے ہکار روپ ٹھ، ڈھ ، ڑھ بھی ہندی اور اردو میں مشترک ہیں۔ یہ چودہ آوازیں اردو کارشتہ پراکرتوں سے جوڑتی ہیں او یہ نہ عربی میں ہیں نہ فارسی میں ،گویاگنتی کی چندآوازوں کوچھوڑ کر اردو اور ہندی کے مصمتوں کاڈھانچہ تقریباایک جیسا ہے۔ مصوتوںVowels میں تواشتراک اس سے بھی زیادہے۔ یعنی صوتی ہمہ آہنگی سوفیصدہے۔ ’’بحوالہ:دیدہ ورنقاد:گوپی چندنارنگ ،مرتب:ڈاکٹر شہزادانجم ،ص:۲۶۳‘‘
 
اس طرح صدیوں پر محیط ہندومسلم کے اختلاط سے جونئی ہندوستانی تہذیب ابھری اس نے اردو کوجنم دیاجس نے عربی فارسی عناصر کی تہنید کی، انہیں ہندوستانی مزاج کی خرادپر اتار۔ جس کے نتیجہ میں رسم الخط کی اردوانے کے عمل کے دوران اتنی کایاپلٹ ہوچکی ہے کہ نہ صرف یہ اپنے اصل سے کوسوں دور ہوچکی ہے بلکہ اس میں ایسی علامتوں کااضافہ بھی ہوچکا ہے جونہ عربی میں ہیں نہ فارسی میںیوںرسم الخط کے اعتبارسے بھی اردو وخالص ہندوستانی کی طرح ہے۔ اسی بنیادپرپروفیسر نارنگ اردورسم الخط کی تبدیلی کے بھی سخت مخالف ہیں کہ اس کی تبدیلی سے اردو کاحسن، اس کی دلکشی، اس کی مقناطیسی قوت ضائع ہوجائے گی۔
 
اسی طرح انہوں نے’’ادبی تنقیداوراسلوبیات، اسلوبیات میر،سانحہ کربلاشعری استعارہ ،قاری اساس تنقید، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات جیسی تصنیفات کے ذریعہ فلسفہ ہائے ادب کی جس جامع آگہی اور تنقیدکاجونیازاویۂ نظر ترتیب دیاوہ حالی کے ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ کے ایک صدی بعد اردو میں ادبی تھیوری کاTurning  Pointہے۔ جس کی وجہ سے اردو ادب کو ایک نئی توانائی ملی ہے۔ ترقی پسندی اور جدیدیت کے مقابلے تخلیق کارکے سامنے مناظر اور روایتوں سے بھر پور ایسی تخلیقی فضا آگئی ہے جس میں تخلیقات کوندرت وتنوع اور نئے اسالیب کوزندگی مل رہی ہے۔ تفہیم کی نئی دنیائیںسامنے آرہی ہیں۔ 
 
یوں تو وقت کے ساتھ سماج کابدلنایاسماج کے ساتھ حالات کابدلناایک ایسا عمل ہےجس کے بارے میں سائنس بھی شفافیت سے کچھ بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ادب میں بھی وقت کااہم رول ہوتاہے۔ ماضی، حال اور مستقبل کچھ اس طرح ایک دوسرے سے مدغم ہونے لگتے ہیں کہ اس کے اثر سے انسانی فکر کی روکچھ ایسے کارنامے انجام دینے لگتی ہے جسے کبھی تحریک، کبھی انقلاب ،کبھی تبدیلی، کبھی رجحان کانام دیاجاتاہے۔ یہ فطری عمل ہے یہ الگ سی بات ہے کہ فطری عمل شعوری عمل اس وقت ہوجاتاہے جب اسی رجحان کی بساط پر کچھ مہرے شبہہ کو مات دینے لگتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کرحیرت ہوگی کہ دنیا میں جتنے بھی ازم آئے اس میں شعوری کوشش تو بعد میں کی گئی لیکن فطری عمل پہلے ہوا اور یہ تغیرپذیرلمحوں کاStretch اپنے اندر حال، ماضی اور مستقبل کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھتاہے۔
 
اردوادب میں بھی تین ایسے تغیرات تخلیقی سطح پردیکھے گئے جنہیں مختلف ناموںسے نوازاگیا، چونکہ ہرزمانہ میں رجحانات ،تغیرات کے سبب اپنی شکل اختیارکرنے لگتے ہیں اس لئے وہ شخص جوتغیرکوگرفت میں لے کرنئے رجحان کوآگے بڑھاتاہے اسے اس کابانی مان لیا جاتاہے۔ 
 
جدیدیت کے امام شمس الرحمن فاروقی نے ایک Established اصول کوجوکل تک تحریک کی شکل میں سکہ جمائے ہوئے تھے اسے یک لخت خارج کردیا اور نئی راہ متعین کرنے کے لئے کچھ ایسی سمتیں متعین کیں جس سے وقت کے تقاضے پورے ہورہے تھے۔ یہ الگ سی بات ہے کہ جب کوئی نیارجحانات سامنے آتاہے، جب کوئی تبدیلی کاسلسلہ شروع ہوتاہے تو سیلاب میں خس وخاشک بھی آجاتے ہیں، محض اس بناء پراس رجحان کورد نہیں کیاجاسکتا۔وقت کاتقاضہ پرانی قدروں کودھیرے دھیرے مسمار کرکے نئی قدروں کوEstablish کردیتاہے۔جدیدیت کے دور میں یہ بات سامنے آئی اور جب یہ اپنے نقطۂ عروج تک پہنچنے کے قریب ہوئی تو اس میں شدت پسندوں کاعنصر غالب ہونے لگااور یہی اس کے زوال کاسبب بھی بن گیا۔
 
اس کے بعدایک نئے رجحان کے آمد کی دھمک محسوس ہونے لگی اور اس میںماقبل رجحان کی طرح پیچیدگیاں، گنجلک خیالات اور ابہام کی کیفیت شروع ہوئی، حالانکہ وہ تارجو ماضی، حال اورمستقبل کوجوڑتارہتاہے وہ سمٹنے لگا اور سمٹ کرایک نئے رجحان میں تبدیل ہوا، جسے بعد میں مابعدجدیدیت کانام دیاگیا اور جس کے سالارپروفیسر گوپی چندنارنگ نے اس کوفروغ دیناشروع کیا۔ مابعدجدیدیت کے خدوخال، عکس درعکس ،رنگ نور،جمال،ماورائیت کاکہرسب کچھ سمٹنے لگااورایک نئی دنیاکی سیر کیلئے ادب میں تجربے ہونے لگے۔ کامیاب تجربے ہوئے اورآج مابعد جدیدیت اپنی شناخت قائم کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اردو میں مابعدجدیدیت رجحان اور پس ساختیات کی تھیوری نارنگ صاحب کی خود ساختہ نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر پیداہونے والے حالات خصوصی طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد کی روشن خیالی اور سائنسی آگہی نے جونئے راستے ہموار کئے تھے اس سے نئی سوچ نے جنم لیا۔ یہ الگ سی بات ہے کہ اس آگہی نے سہولیات کے دروازے کھول دیئے، دقانوسیت کا پردہ فاش کردیا اور روایتی طرززندگی کویکسربدل دیا۔ اس کی بنیادپر ایک نیا معاشرہ نئی سوچ کے ساتھ ابھرالیکن مسائل کی گتھیاں جتنی سلجھیں اس سے زیادہ الجھیں نارنگ صاحب نے اس بات کی وضاحت پورے تاریخی پس منظر میں بہت ہی وسیع النظری سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پس ساختیات کوبھی انہوںنے تھیوری کانام دیاہے اور اس کی فلسفیانہ اساس پر رائے دیتے ہوئے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس کی فلسفیانہ اساس کی موجودگی کے باوجوداس کی تشریحات اور وسعت میں کچھ نہ کچھ کمی کااحساس ہوتا ہے اردو میں مابعد جدیدیت یورپ کی طرح روشن خیالی کی بنیادپر نہیں ابھرابلکہ یہ جددیت کے ردعمل میں ابھرا کیونکہ روشن خیالی اور ردعمل میں جوفاصلے ہوتے ہیں اس کی موجودگی کے سبب اسے اتنی وسعت نہیں ملی جتنی ملنی چاہئے تھی۔لہذامابعدجدیدیت کے علمبردار بن کرابھرے۔ یقینامابعد جدیدیت نے جدیدیت کی اس آلودگی کوروک دیااور ادب میں ایک متوازن فکری اور اظہاری سمت کوجنم دیا۔ اس سے اردو ادب کوبے پناہ فائدہ ہوا۔ قاری سے رشتہ جڑااور لغویات سے بچنے کی صورت نکلی اور اس کی پہچان اور شناخت کرنے کاعمل اور رویہ جوگوپی چندنارنگ نے اپنایااسے اردو تاریخ میں اور تنقیدی رویے میں میل کاپتھر تسلیم کیاگیا۔ اس لئے گوپی چندنارنگ ایک ایسی شخصیت کانام ہے جس نے بین الاقوامی سطح پرلسانی اور ادبی تغیرات کواردو میں پیش کرکے اردوکادامن نہ صرف کشادہ کیا بلکہ اس کے خزانے کومالامال کردیا۔اسی لئے ان کواس دورکا معمارادب ماناجاتاہے۔ اردوادب کونئی صورت میں پھلنے پھولنے کاموقع دیا اور خودادبی حلقہ میں اگر بیشترادیبوں اورشاعروں سے پوچھا جائے تو وہ بتائیں گے کہ ردعمل سے جوجدیدیت نے نئی آلودگی پیداکی تھی اس سے جس کی کیفیت پیداہوگئی تھی اور تازہ کارادبی تخلیق میں بے پناہ رکاوٹیں پیداہورہی تھیں۔جدیدیت کی جکڑبندیوں کے بعدنارنگ صاحب نے ایک Relaxation کاپہلوعطاکردیاجہاں آزادی اظہاراور روشن خیالی کی گوناں گوںخوبیوں سے استفادہ کرنے کیلئے فنکارمتحرک ہوگئے۔اس طرح ادب میں تازہ دم ہوکر تازگی اور شگفتگی پھر سے پیداہوگئی۔ میں اپنی بات
 
اس قطعہ پرسمیٹتاہوں:
اردوادب میںلائے ہیں’بعد جدیدیت
نارنگ عہدسازہیں رجحان ساز ہیں
ان سے نیازمانہ، زمانے سے یہ نہیں
جوآپ عہدنوکے تغیرنوازہیں
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 755