donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Professor Md. Motiur Rahman : Insani Qadron Ke Ameen


پروفیسر محمد مطیع الرحمن :انسانی قدروں کے امین
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
پروفیسر مطیع الرحمن صاحب کوتین زاویوں سے دیکھا جاسکتاہے۔ ایک حیثیت ان کی استاد کی تھی، دوسری حیثیت ان کی ان علوم کے ماہر کی تھی جن کو آج کے عہد میں کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ تیسرے اعتبار سے ان کی جغرافیہ سے خصوصی دلچسپی تھی۔ ان تینوں پہلوئوں پر اگر نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ وہ کسی بھی طور پر ایسے انسان نہیں تھے جن کا انسانی قدروں سے گہرارشتہ نہ ہو۔ استاد جتنا کچھ جانتا ہے وہ اپنے شاگرد کو دینا چاہتا ہے۔ یہ الگ سی بات ہے کہ شاگردکی دلچسپیاں ان چیزوں سے نہیں رہی ہوں جن کو استاد نے بتانے کی کوشش کی۔ ایسی صورت میں ایک ذہنی تصادم سے شاگرد اور ان کے ملنے جلنے والے گذرتے رہے اس لئے ان کی شخصیت کے ان نمایاں پہلوکولوگوں نے نہیں سمجھا۔ ادب یازبان کا جہاں ذکر ہوگا وہاں سارے علوم اور فنوں بالواسطہ یابلا واسطہ شامل ہواکرتے ہیں۔اگر کوئی شاعری کو Mathematicsسے قریب بتائے تو آپ کوایسا لگے گا کہ شاعری کاMathematicsسے کیا تعلق ہے لیکن جو شخص قطعہ تاریخ کی واقفیت رکھتاہے اس کے سامنے اعدادشمار کی اہمیت ہوتی ہے اور اس طرح جوڑگھٹائو کاعمل اسےMathematics سے قریب کردیتا ہے ظاہراًتویہ عمل جس کی واقفیت عام آدمی کو نہیں ہوتی اس کیلئے لایعنی ہوگا اور واقف کارکے لئے کارآمد۔ اس لئے جب مطیع الرحمن صاحب کوئی لکچر کلاس میں دیا کرتے تھے تو اس کے حوالے مزارات، صوفیائے کرام، علاقہ کی جغرفیائی اہمیت پتھروں کی تاثیروغیرہ سے جڑجاتے تھے ایسا اس لئے ہوتا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ محض سامنے کی کوئی تخلیق یافن پارہ کی ظاہری شکلوں کونہ دیکھا جائے بلکہ یہ کوشش کی جائے کہ اس سے متعلق تمام باتیں طلباکے سامنے آجائیں پروفیسر محمد مطیع الرحمن صاحب چونکہ خود موضوع کے متعلقات سے گہری واقفیت رکھتے تھے اس لئے وہ اپنے شاگردوں کوبھی ان سے بہرہ ور کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ یہ یقیناان لوگوں کیلئے دلچسپی کا حامل ہوتاتھا جومحض کتابی باتوں سے ہی تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ کتاب کے علاوہ تہذیبی وثقافت کے پس پروفیسر محمد مطیع الرحمن صاحب کی شخصیت اور شکل وصورت بارعب تھی۔ انہوں نے پوری زندگی ایک باقاعدہ انسان دوست ، ہمدرداور ایک مشفق استاد کی حیثیت سے گذاری لیکن ان کے رعب میں بھی اصلاح اور شفقت کاپہلو ہوا کرتاتھا۔ وہ اصول کے پابندتھے اور کسی بھی ایسی بات کو قبول کرناپسند نہیں کرتے تھے جواخلاقی اعتبار سے انسان کوپست بنانے میں معاون اور مددگار ثابت ہو۔ پروفیسر مطیع الرحمن صاحب اپنی تہذیبی وراثت کوآنے والی نسلوں تک پہنچاناچاہتے تھے اور ایک مہذب قوم کے دانشوروں کی ایک جماعت بنانے کامثبت خواب دیکھا کرتے تھے ہرچیز کیلئے منطقی اور استدلالی مفروضہ طے کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ بہت سی باتیں ظاہری شکل میں قابل قبول نہیں ہوتیں لیکن ان باتوں سے انکار نہیںکیا جاسکتا جوزندگی میں رونما ہوتی رہتی ہیں اور کبھی کبھی Super Naturalباتیں دیکھنے اور سننے میںملتی ہیں۔ اسے مکمل طور پر ردبھی نہیںکیاجاسکتا کیونکہ علوم وفنون ان مرحلوں سے ہوکر نہیں گذرتے جواس کی صداقتوں کی تہوں کوواضح کرسکیں۔ اس لئے انسان کہیں خاموش ہوجاتاہے اور دانشور غوروفکر کرنے لگتا ہے۔ مطیع الرحمن صاحب کے ارشادات غورفکرکی دعوت دیتے تھے اور جن لوگوں نے غور وفکر کیا ان لوگوں نے ان علوم کی طرف بھی توجہ کی اور ان جغرافیائی حقائق کی طرف بھی نظر دوڑائی جن میں نہ جانے کتنی تاریخ پوشیدہ ہے جن کا ذ کر مطیع الرحمن صاحب کرتے رہتے تھے۔ 
 
ظاہرہے مزارات کی بھیڑسے مطیع الرحمن صاحب کاکوئی لینا دینا نہیں تھا لیکن اس سے جڑی ہوئی تاریخ بزرگوں کے احوال اور تاریخی پس منظرسے واقفیت کرانے کی وہ کوشش کرتے تھے۔ پتھروں کی اہمیت سے انکار کیا جاسکتا ہے لیکن قدیم زمانہ سے آج تک پتھروں پریونان سے لے کرہندوستان تک باضابطہ کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے اثرات کاتذکرہ ملتاہے اگرچہ ان کاکوئی Scientificجوازاب تک تلاش نہیں کیاجاسکا ہے اور اس پر مزید کام جاری بھی نہیں ہے کہ اس کیScientific analysis ہوسکے لیکن اس کے باوجود اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ یہ باتیں مطیع الرحمن صاحب اس لئے نہیں بتاتے تھے کہ ہم پتھروں پرایمان لے آئیں بلکہ یہ روایت بیان کرتے تھے کہ مختلف قدیم کتابوں میں پتھروں کی اہمیت کاذکرملتا ہے ظاہرہے یہ ذکردل بہلانے کیلئے نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان پتھروں کی خاصیت بتانے کیلئے کیاگیاہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں غوروفکرکی دعوت دیتی ہیں اور قدیم روایت سے واقفیت بھی کراتی ہیں۔ یہ ساری خوبیاں مطیع الرحمن صاحب کے یہاں موجود تھیں۔ جب دکن کے کسی داستان کاتذکرہ کرتے تھے توایسی روایات بھی ضمناذ کرکرتے جاتے تھے جن سے طلباء وطالبات کاتجس بڑح جاتاتھا اور وہ کلاسیزان کے ذہن پر گہرے نقش مرتسم کرتے تھے۔
 
ایل این متھلایونیورسٹی ،دربھنگہ کے شعبہ اردو کی صدارت کے زمانہ میں انہوں نے جہاں میتھل کی آنکھوں کاتذکرہ کرہ کیاجہاں ان کی ذہانت کاذکر کیاوہیں ان کی مکاری اور ناقابل اعتبار عمل کابھی مفصل جائزہ لیا ہے اور جب میتھل مسلمانوں کاتذکرہ کیا تو یہ بتانے کی کوشش کی کہ ان کی زبان پر علاقائی اثرات بہت زیادہ ہیں جن کے سبب اردو زبان کے تلفظ کی ادائیگی میں یہاں کے طلبا کو دشواریاں ہوتی ہیں وہ اپنے طلبہ کواس اثرسے محفوظ رکھناچاہتے تھے اور طلبابھی ان کی موجودگی میں اس بات کالحاظ رکھتے تھے کہ تلفظ میں غلطی نہ ہو، اور جملوں کی ترتیب میں آہنگ اور حسن برقراررہے۔
 
پروفیسر محمد مطیع الرحمن صاحب سراپا درس گاہ تھے۔ ان کی مجلسوں سے اٹھنے والا ہر شخص کوئی نہ کوئی سبق لے کراٹھتاتھا۔ باکمال استاد ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئی کتابیں ،آئینہ ویسی، حضرت شیخ فاروق سرندی، قبرحضرت ایوب، مقاماتِ متعلقہ مولانا عبدالعزیزرحیم آبادی، حیات وخدمات ہندوستان میں صوبوں اور ریاستوںکے قیام کاتاریخی پس منظر اورتین نئی ریاستیں ، مملکت نیپال اور راسخ کے دوشاگرد،محسن اورفرحت، بھی تصنیف کیں۔ ان کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں ۲۰۰۳ءمیں انہیں راج بھاشا کے حضرت شرف الدین یحیٰ منیری ایوارڈسے بھی سرفرازکیاگیا۔
 
متھلایونیورسٹی کاشعبہ اردوان کے احسانات کونہیں بھلاسکتا۔وہ Man of Integrity تھے اور انہوں نے ہرممکن کوشش کی کہ شعبہ کوفعال اور متحرک رکھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ یہاں Inter Disciplinery کام بھی ہوں لیکن ملازمت کی مدت کم رہی اس لئے وہ اپنے بڑے بڑے منصوبوں کی خواہش کے باوجود تکمیل نہ کرسکے۔ بلاشبہ وہ ایک گرانقدراور قابل قدرشخصیت تھے۔
 
************************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 592