donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Professor Qamar Rayees: Tarikiyon Mein Raushni Ka Meenara


 پروفیسرقمررئیس:تاریکیوں میں روشنی کامینارہ
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
۷۰ء کی دہائی میں جب ترقی پسندادیبوں اور شاعروں کی یک رنگی سے یکسانیت کی لوتیز ہوگئی تو جدیدیت نے اپنے پائوں پسارنے شروع کئے مگر قمررئیس ترقی پسندی کی وکالت کرتے رہے اور ترقی پسندی سے پیدا ہونے والی اردوادب کی ساری خوبیاں انہوں نے تحریری طورپر بیان کیں جبکہ اس وقت جدیدیت کاآسیب ادب پر سوار ہوگیا تھااور ترقی پسندیت کوکمٹمنٹ کاادب مان کر اس سے دامن بچانے کی منظم کوشش کی جارہی تھی۔ ویسے حالات میں قمررئیس متزلزل نہیں ہوئے۔ انہوں نے منطقی بحثیںجاری رکھیں اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ جدیدیت کارجحان ایک سازش ہے جوسماجی زندگی کے حقائق سے دور لے جانے کی ایسی کوشش ہے۔ جس سے ادب کا بھلا نہیں ہوسکتا۔ زبان کابھی نقصان ہوگا اور قاری کی تعداد بھی کم ہوجائے گی کیونکہ ا کی دلچسپی براہ راست زندگی سے ہے اور آج بھی زندگی کی حقیقتوں سے فراراور میں کاتصورکبھی اپنی ذات میں گم ہونے کاخیال اور اسی محور پراردو ادب کوگردش کرانا اور زندگی کے حقائق سہ منہ چراناادب کیلئے مہلک ہے۔ ان کی تحریرملاحظہ کیجئے:
 
’’شعروادب میں سماجی عناصر ایک متحرک انسانی وجود کے واسطے سے ان کی منفرد شخصیت اور مخصوص طبعی میلانات کاجزوبن کر اور فنی تخلیق کے مراحل سے گذرکر سامنے آتے ہیں۔ اس لئے ادب کے مطالعے میں سماجی اور تاریخی عوامل کے ساتھ ساتھ فنکار کی شخصیت کے تشکیلی عناصر اور داخلی محرکات کا مطالعہ بھی اہمیت رکھتا ہے دوسراپہلو جو ادب کے مطالعہ میں ہمیشہ میرے پیش نظر رہا ہے، فن اور ادب کی روایات ان کے تسلسل اور ان کے مخصوص ضابطے ہیں۔ سماجی نظام اور سماجی اقدار کی تبدیلی اور اس تبدیلی کے قوانین، ادب کی تخلیق ،معیار اور اس کے قوانین کواس رفتار سے اور اسی حدتک بدلتے ہیں جس طرح اور جس حدتک وہ انسانی اقدار، انسانی جذبات اور محسوسات کے مجموعی اور عمومیPatternپر اثر انداز ہوتے ہیں۔
قمررئیس جانتے تھے کہ ترقی پسندادب میں کچھ ایسے عناصر بھی شامل ہوگئے تھے جومحض تنقیدی ادب یا محض اشتراکیت کاجھنڈااٹھائے ہیں لیکن اس کی روح سے واقف نہیںہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چاروسسکوجورومانیہ کاسربراہ ہواکرتاتھا اس نے اشتراکیت کے نام پر اشتراکیت کامذاق اڑایا کیونکہ وہ فطرتا ایک آمرتھا اور اس کے شوق شاہانہ تھے۔ اس کاانجام بھی دنیا نے دیکھا اور روس کے ٹکرے ہوگئے۔ اس کے بھی برے اثرات اشتراکیت کے نظریہ پرپڑے جہاں سیاسی مفاد پرستی اور اشتراکیت سے پرے لوگوں نے ایک ایسا ماحول کھڑا کردیاتھاکہ دنیا میں اشتراکیت کی بڑھتی ہوئی طاقت کوروکا جاسکے اور اس کے پیچھے سامراجیت اورCapitalism کوفروغ دینے کاایک نیا نظریہ وجود میں لایاجاسکے تاکہ امریکہ کی دادا گیری اور کولینوںکوازسرنوبنانے کی مہم چل پڑے۔غیرترقی یافتہ ممالک اور کمزور ملکوں کوپسپا کرنے کاجب CIAنے فل پروف منصوبہ نافذ کرنے کاعمل جاری کیا تو اس نے سب سے پہلے اشتراکیت کی وکالت کرنے والے ادبی نظریہ کی بیخ کنی شروع کردی کیونکہ وہ ترقی پسندادبی تحریک اورنظریات سے ادب کو آنکتے تھے ۔انہوں نے خودلکھاہے:
 
میںاپنے ادبی موقف اور تنقیدی تفہیم میں مارکسزم سے روشنی حاصل کرتارہاہوں۔
مارسزم میرے نزدیک کوئی عقیدہ ہے لچک یامیکا نکی نظریہ نہیں بلکہ زندگی، تاریخ،
معاشرہ اور انسانی کلچرکے مظاہرکی تفہیم وتعبیرکاایک کشادہ سائنسی طریق کارہے جس 
سے کم وبیش گزشتہ سوسال کے عرصے میں ادب کے محرکات، ماخذوںاور ادبی سرمائے
کی تفہیم وتجزیہ میں مئوثراور کارگرطورپر کام لیا گیاہے۔
 
قمررئیس نے تعلیمی سطح پر ہونے والے سیاسی اتھل پتھل کاجائزہ لیا اور ادب کے اندر ہونے والے معرکوںکابھی تجزیہ کیا تو انہوں نے محسوس کیا کہ اس سیاسی سازش کاشکار ہماراادب بھی ہورہاہے اس لئے انہوں نے بہت ہی وضاحت کے ساتھ اشتراکیت کی تشریح اور ترقی پسندی کے نظریاتی اساس کوبیان کرنے کی کوشش کی گرچہ یہ ایک سیلاب تھا اس میں بہت کچھ بہہ گیا قاری سے ادب کارشتہ ٹوٹ گیا اور زندگی کی تخلیقی اور ماورئی فضا محیط ہونے لگی تو ایسی صورت میں ادب کاکوئی واضح سمت متعین نہیں ہوسکا اور ہرایک گروپ نے اپنے طورپر ڈفلی بجانی شروع کردی۔ لیکن قمررئیس کی زندگی میں ہی جدیدیت کاسیلاب آیا اور رخصت بھی ہوگیا اور گوپی چندنارنگ اور دوسروں نے مابعد جدیدیت کے نظریہ کوفروغ دے کر نئی زندگی عطا کی۔ لیکن زندگی کی سچائیاں، سماجی پس منظر، ہندوستان کے حالات قمررئیس کے نظریہ سے تال میل کھاتے تھے اس لئے لوٹ کرانتہاپسندی سے اعتدال کی طرف گئے شاعروں نے صرف میںکے دائرہ میں رہ کرسوچنا بند کردیا اور اردوکاافسانوی ادب دوقدم بھی چل نہیں پایا تھا کہ ان کے افسانے ہندوستان کے دیگر زبانوں کے مقابلہ میں گم ہوتے چلے گئے اگر کوئی افسانہ زندہ بھی رہا تو زندگی کی اسی آب وتاب اسی ترقی پسندی کی اساس پر قائم رہا گرچہ اس کااسلوب بدلا ہوا تھا لیکن اس کا ـContentاسے زندہ رکھے ہواتھا۔ مثلا غیاث احمدگدی کاافسانہ، پرندہ پکڑنے والی گاڑی، اور اسی قبیل کی دوسری کہانیاں آج بھی اپنے اندر سوچ کا وہ مادی عکس رکھتی ہیں جوزندگی کاقرینہ ہوتی ہیں۔
 
قمررئیس نے بہکے اور بھٹکے قدموں کوسمت دینے کی کوشش کی اور ادب کو گمرہی سے نکال کر ایک سچی زندگی اور ایک بڑے انسانی طبقہ کی زندگی سے ادب کو جوڑنے کاکام کرنے کی تبلیغ کی جس کی اساس پر آج بھی شعری اور افسانوی ادب سانس لے رہاہے۔ اتنا ہی نہیں جس گھٹن کاشکار ادب ہوگیا تھا اس کونئی فضاکی تروتازہ ہواسے ہمکنار کرنے کاکام بھی انہوں نے کیا۔
 
’’آزادی کے بعد دہلی میں اردو افسانہ، ’’اردو ادب میں طنزومزاح کی روایت اور ہمعصررجحانات، اردو ڈرامہ انتخاب مع مقدمہ، اردومیں لوک ادب ،ارمغان تاشقند ازبکستان کے قومی شاعر غفورغلام کی نظموں کاترجمہ، ازبکستان اور علی شیرنوائی، اصناف ادب اردو، اشتراک ڈاکٹر خلیق انجم، اقبال کاشعور وفن، اردو میں بیسویں صدی کاافسانوی ادب، بیسویں صدی کی ازبیک شاعری، پریم چندایک مطالعہ ، پریم چند فکر وفن ،پریم چند کا تنقیدی مطالعہ بحیثیت ناول نگار، پریم چندکے نمائندہ افسانے ، پریم چندوپچاریاترا، ہندی، ترجمہ کافن اور روایت، ترقی پسند ادب پچاس سال سفر، اشتراک عاشور کاظمی، تعبیر تحلیل، تلاش وتوازن ،تنقیدی تناظر، جوش ملیح آبادی خصوصی مطالعہ، رتن ناتھ سرشار، ہندوستانی ادب کے معمار علی سردار جعفری، سجاد ظہیر،شام نوروز، شعری مجموعہ، ترقی پسندادب کے معمار، انسائیکلوپیڈیاجلد اول ترتیب ومقدمہ، شعرائے ازبکستان، شعلہ آوارگی، تدوین، نیاز حیدر کامجموعہ کلام، ظہیرالدین محمد بابر شخص، شخصیت اور شاعری، مضامین پریم چند، منشی پریم چند شخصیت اور کارنامے، نغمہ جمال زمیں، نیاز حیدر کی غزلیات مع مقدمہ، نغمہ کشمیر، ترجمہ، نمائندہ اردو افسانے انتخاب، نیاافسانہ مسائل اور میلانات وغیرہ کے علاوہ انگریزی اور ازبیک کتابیں Impact of October revolution on Indian literature, sher lari یہ کتابیں احوال وکوائف کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔
 
قمررئیس پرکئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن سے ان کی شخصیت اور فن پوبھرپورروشنی پڑتی ہے۔ قمررئیس ایک زندگی، ڈاکٹر سلمی شاہین، ترقی پسندتنقید اور قمررئیس، ڈاکٹر محمد شہاب الدین ، قمررئیس علمی ادب شناخت خوشنودہ نیلوفر، قمررئیس کے ماہ وسال، نگارعظیم وراشدعزیز، قمررئیس احوال وآثار، ترتیب پروفیسرمحمد ظفرالدین وغیرہ۔
 
قمررئیس زندگی بھر ے بے حدمتحرک رہے ، انہوں نے کئی رسائل وجرائد ماہنامہ، ادیب ،عصری آگہی، آب وگل، نیاسفر، اور ایوان اردو، کی ادارت کی ۔کئی رسائل، انشاء، کلکتہ، کتاب نما، ایوان اردو، دہلی وغیرہ نے ان پرخصوصی نمبراور گوشے شائع کئے۔
 
قمررئیس ساری زندگی درس وتدریس سے وابستہ رہے۔ ہندوستان سے تاشقندتک انہوں نے علم کی روشنی پھیلائی نیزطالب علموں کی ایسی کہکشاں سجائی جواردو کیلئے ہی جیتے ہیں اردو کی روزی روٹی کھاتے ہیں۔ قمررئیس انتظامی امور میں بھی ماہر تھے جس کابڑا تجربہ ان کے پاس تھا۔ جس طرح سمندر میں لائٹ ہائوس روشنی کامینارہ تاریکیوں میں کشیتوں یاجہازوں کوسمت بتانے اوربھٹکنے سے بچاتے ہیں کچھ ایسی ہی حیثیت قمررئیس کی تھی۔
 
*************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 829