donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Rafiuddin Raz - Ganjina Maani Ka Shayar


رفیع الدین راز:گنجینہ معنی کا شاعر
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
شاعری میں سوز وساز
پیش کش بھی دلنواز
صاحب علم وہنر بھی
ہیں رفیع الدین راز
رفیع الدین راز ایک ایسے شاعرہیں جن کاتعلق سرحد پار سے ہے۔ چونکا نے والی بات یہ ہے کہ رفیع الدین رازنے اپنے ماضی کے تجربوں کوبھی اتنا ہی اہم سمجھا ہے جتناآج کے مامساعدحالات سے نبردآزماہوکر حاصل کیاہے۔ اس لئے دونوں سرحدوںکی دوریاں ان کے یہاں سمٹتی ہوئی نظرآتی ہیں۔ مٹی کی خوشبو، انسانیت ، انسانی اقدار، اور اپنی تہذیب وتمدن سے لگائو ان کی شاعری میں جابجا دیکھنے کوملتا ہے۔ 
 
رفیع الدین راز نے جومحسوس کیاہے اس کاپیرایۂ اظہارجس فارم میں بھی نظرآتاہے وہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہمارے معاشرے، ہماری زندگی، ہمارے تقاضوںکے عین مطابق ہے۔ شاعری برائے شاعری، برائے ذہنی لذت کشی یاتفریح ان کے یہاں کچھ نہیں ہے اپنے جذبوں کی تسکین اپنے اندراٹھتے ہوئے طوفان کونرم وشگفتہ لہجہ میں پیش کرنے کاہنر انہیں معلوم ہے۔ اس لئے ان کی شاعری میں ایک جذبی کیفیت قاری محسوس کرتا ہے۔ ایسا اس لئے ہوتاہے کہ جب کوئی شاعرڈوب کرکچھ کہتاہے تو ذہن ودل کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں اور بات مصلحت کوشی یاذاتی سرور تک نہیں رہ جاتی ۔ وہ بات دورتک اور اتنی دور تک جاتی ہے کہ سننے والا یاپڑھنے والا مسحورہوجاتاہے۔رفیع الدین راز کی شاعری فنی اعتبارسے بھی چست ودرست ہے اور فکری اعتبارسے بھی گنجینہ معنی کاطلسم ہے جیسے جیسے معنوی پرتیں کھلتی جاتی ہیں شعر کی معنویت میں اضافہ ہوتا جاتاہے۔ اسی لئے وہ شاعری جومحض خیالی آوارگی اور لفطوں کاطومارباندھنے پر قائم ہوتی ہے اس کے نقوش دیر پانہیں ہوتے۔ شاعری ایک سنجیدہ عمل ہے اور اس میں شاعر کو اپنے تجربات، کیفیات لفطیات کو ترتیب وار کرنے میں جن مراحل سے گذرناپڑتاہے وہ ایک بڑا تنقیدی عمل ہوتاہے اسی لئے رفیع الدین رازکے یہاں وہ تنقیدی عمل شعری اظہار اور ٹریٹمنٹ میں جابجادکھائی دیتاہے۔
 
ہم عصروںمیں رفیع الدین رازکے سرحدکے اس پاراورسرحدکے اس پارشاعروں کاایک قافلہ ہے لیکن ان کی آوازمنفردہے۔ ان کی آوازمنفردہے۔ ان کی آوازاس لئے منفردہے کہ انہوں نے دونوں سرزمین کی مٹی کی خوشبوئوں کو ہم آہنگ کردیا ہے۔ ادب کاکسی گروہ یا کسی سرحد میں بانٹناان کوپسندنہیں ایک آفاقی رنگ شاعری کوعطاکرناان کامسلک ہے۔ اسی لئے جب بھی ہم ان کی شاعری کوپڑھتے ہیں توایسا محسوس ہوتاہے کہ انہوں نے دردکوسنبھال کررکھاہے۔ ایسے انجانے سوالات جوہر کسی کوحیران کرتے ہیں اور جوزندگی کی پیچیدگیاں انسان کوبے چین کردیتی ہیں اس کوسکون دینے کاذریعہ شاعری کیسے بن سکتی ہے اس کاملکہ رفیع الدین رازکوہے۔
 
ان کے تازہ شعری مجموعہ اتنی تمازت کس لئے کوپڑھ کریہ محسوس کیاجاسکتاہے۔
پرخارراستوںکاسفر ہے مجھے پسند
کچھ انفرادیت توہوطرزِحیات یں
کچارہناہے جسے اے رازروزِ حشرتک
ایسی مٹی کیلئے اتنی تمازت کس لئے؟
اس سے قبل ان کامجموعہ، روشنی کے خدوخال، جس میں تاریخ کاوہ پہلوجواپنے اندر انقلاب کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کومسدس کے فارم میں جس سلیقہ سے پیش کیاگیا ہے وہ بھی دل کوچھولیتاہے۔ اس نعتیہ مجموعہ میں بعث نبوی سے سلسلے کو مسدس کے فارم میں جس سلیقہ سے پیش کیاگیا ہے وہ بھی دل کوچھو لیتاہے۔ اس نعتیہ مجموعہ میں بعث نبوی سے پہلے کے تمدنی اور معاشرتی رویوں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آنے والے انقلاب کی داستان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسانیت کی مرجھائی ہوئی کھیتی کو سیراب کرنے کے عمل کونعتیہ مسدس میں جس اندازسے پیش کیا گیا ہے شاید اس سے بہتر اندازاختیار نہیں کیاجاسکتاتھا۔ یہ بنددیکھئے:
آدمی آزادتھا اخلاق کی زنجیرسے
روح کی دنیا تھی عاری عقل کی تنویرسے
دوستی اس کی تھی یاتعذیریاتقصیرسے
خودکوگھائل کررہاتھاآپ اپنے تیرسے
آپ نے فکربرہنہ کوردائے عقل دی
مرحباصل علیٰ اے آئینہ اے روشنی
شاعرکاایک مصرعہ کبھی کبھی صدیوں پربھاری ہوتاہے اور وہ تاریخ کے تمام نشیب وفراز کاآئینہ بن جاتاہے اور نقش تلاطم کی صورت میں ابھرتے اور ڈوبتے نظرآتے ہیں کبھی چٹانوں سے ٹکراتے ہیں تو کبھی ساحل تک توڑتے چلے جاتے ہیں اور کبھی واپس ہوجاتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتارہتا ہے اور ایک فسوں کی کیفیت میں خودشاعر اور اس کاقاری غلطاں وپیچاں رہتاہے ۔یہ ساری خوبیاں رفیع الدین راز کی شاعری میں موجودہیں۔
 
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 757