donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Sahir Ludhianvi : Hayat Va Shayari Ka Ajmali Jayeza

ساحرلدھیانوی:حیات وشاعری کااجمالی جائزہ
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
زیرنظرتحقیقی کتاب، ساحرلدھیانوی حیات اور شاعری، کے عنوان سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لئے ال ۔ ان متھلا یونیورسٹی دربھنگہ میں ڈاکٹر سید ضیاء الرحمن سابق صدرشعبہ اردو، ایل ۔این متھلا یونیورسٹی دربھنگہ، نے داخل کیا اورانہیں مارچ۱۹۸۹ء یں اس تحقیقی کام کیلئے سنددی گئی۔ یہ کتاب ۲۰۰۹میں منظرعام پرآئی ہے۔
 
یہ کتاب ۱۸۲صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں ات ابواب ہیں جن کی تفصیل وترتیب اس طرح ہے۔ ۱۔تمہید۲۔سوانح حیات وشخصیت۳۔ساحر کے شعری مجموعے ۴۔پنجاب ولاہور کی قدیم وعصری تہذیبی وادبی رویات وماحول اورساحرپراس کے اثرات۵۔ترقی پسندتحریک اور اس کے زیراثرہونے والی شاعری کے ساحرپراثرات۶۔ساحرکی شاعری۷۔اختتامیہ
 
ڈاکٹرسیدضیاء الرحمن نے اپنی تمہیدمیں ہی اس بات کاانکشاف واعتراف کیاہے کہ ساحرکی شاعری کی عظمت کااندازہ اس بات سے کیاجاسکتاہے کہ اس نے اپنی زندگی میں اتنی شہرت حاصل کی جوبہت کم ہی شعراء اورادبا کوحاصل ہوتی ہیں۔ ایک پہلوان کی فلمی دنیا سے وابستگی بھی ہے۔ جس کے سبب بھی عوامی مقبولیت انہیں حاصل ہوئی۔ ان کے گیت اوران کی شاعری زبان زدعام ہوئی جس زمانے میں انہوں نے فلمی نغمہ نگاری کاآغازکیا اس عصرمیں خودفلمی شاعری میں ادبی عناصرنمایاں تھے۔ اس لئے محض فلمی شاعری کہہ کرساحرکی ان دیکھی نہیں کی جاسکتی۔ اس کے علاوہ محقق موصوف نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ فلموں میں نغمہ نگاری شروع کرنے سے قبل ہی ۱۹۴۴میں ساحرکاپہلا مجموعہ کلام،تلخیاں، شائع ہوااوربقول مخمورسعیدی۔
 
اس کی نظمیں نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئیں۔ ان کی آوازایک ایسے ناکام عاشق کی آوازتھی جسے آزادی اور انصاف کی قدریں بھی دل وجان سے عزیزتھیں۔ ساحرلدھیانوی ایک مطالعہ
فاضل محقق نے لکھاہے، آوازوں کے اس ہجوم میں اپنی آوازکوایسا بنالینا کہ وہ دورسے پہنچائی جاسکے کوئی آسان کام نہ تھا۔ لیکن چونکہ ساحرلدھیانوی کی شاعری ان کے تیز احساسات کی زائیدہ اور گہرے جذبات کی پروردہ ہے اس لئے وہ یہ کرشمہ دکھاسکے۔ انہوں نے اردو شاعری کوکچھ دیاہے، اس کے بارے میں خودان کایہ قول بالکل صحیح ہے کہ دنیانے تجربات وحوادث کی شکل میں جوکچھ مجھے دیاہے وہ لوٹارہاہوں میںاس تمہید،میں موصوف نے یہ باورکرانے کی کوشش کی ہے کہ بلاشبہ ساحرکی گراں قدرخدمات ناقابل فراموش ہیں۔
 
ساحرکے شعری مجموعے، اس مقالے کاتیسراباب ہے جس میں ان کے شعری مجموعے، تلخیاںپر چھائیاں، گاتاجائے بنجارا، اور آئو کہ کوئی خواب بنیں، کاتنقیدی جائزہ لیا گیاہے۔ پنجاب ولاہور کی قدیم وعصری تہذیبی وادبی روایات وماحول اورساحرپراس کے اثرات یہ ایک بڑاہی گراں قدرباب ہے جس میں موصوف نے اپنی زندگی کے تجربوں، مشاہدوں علمیت اورغوروفکرکاپورا استعمال کیاہے جس سے اس عہد کے ادبی ماحول، سماجی پس منظر اور شعری رجحانات کاپتہ چلتاہے انہوں نے قدیم ادبی روایات سے لے کرعہدترقی پسندی تک کااجمالی جائزہ لیا ہے اورجن عوامل وعناصرنے ادبی رجحانات اورتحریکات کومتاثرکیا اورخودساحرجس ادبی فضاسے متاثرہوئے اس کااس باب میں بھرپورجائزہ لیاگیاہے۔ یہ باب اپنے اندرادبی تاریخ کوسمیٹے ہوئے ہے جس سے عہدبہ عہدارتقائی سفرکااحساس بھی ہوتاہے اورعہدساحرکے بدلتے ہوئے ادبی نظریات سے واقف بھی کراتاہے۔
 
ترقی پسندتحریک اور اس کے زیراثر ہونے والی شاعری کے ساحرپراثرات کتاب کاپانچواں باب ہے اس میں ڈاکٹرسیدضیاء الرحمن نے ترقی پسند تحریک کااجمالی جائزہ لیا ہے اوراشتراکیت کے نظریے سے وابستہ ان تحریک نے کس طرح ہماری ادبی دنیا کومتاثرکیااسے بتانے کی کوشش کی ہے اور اس تحریک کی بنیاد، اس کی تاریخ کوبھی اختصار کے ساتھ بیان کیاہے۔ اس تحریک کے کیااثرات اردوادب پرہوئے، کس طرح ایک نئی ٹولی ابھری اور کس طرح یہ تحریک ساحرکوبھی متاثرکرنے میںاپنارول اداکرتی رہی۔
 
چھٹاباب ،ساحرکی شاعری، توجہ طلب ہے۔ جس میں ساحرکی شاعرانہ Form & Contentہئیت اورمواددونوں سے بحث کی گئی ہے۔ ظاہر ہے ساحرنظریاتی طورپر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اور مارکسی نظریے کے علمبرداربھی۔ اس لئے سماج کے اندرعدم مساوات، استحصال اور انسانی قدروں کی پامالی کی خامیاں موجودتھیں۔ اس کے خلاف انہوں نے آوازاٹھائی اوردبے ،کچلے اور استحصال زدہ لوگوں کوبیدار کرنے کیلئے اپنی شاعری کوذریعہ بنایا۔ساحر نے اپنی شاعری کے ذریعہ پیغام دیا، دنیا کے امن کے لئے اور ظلم کے خلاف صف آراہونے کیلئے تمام حدوداور پابندیوں سے اوپر اٹھنے کی بات جوساحرنے پیش کی ہے، اس کے پیچھے مارکسزم کاجونظریہ کام کررہاتھا اس کی بھی وضاحت فاضل مقالہ نگارنے کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ شاعراپنے عہد کااپنے ماحول کاپروردہ ہوتاہے اس لئے اگرکوئی شاعراپنے اردوگردسے بے خبررہتا ہے تویقینی طورپر اس کایہ عمل سچائیوں کی بنیادپرقائم نہیں ہوگا اوراس کی فکراور مشاہدے محض ماورای دنیاتو پیداکرسکتے ہیں لیکن اس میں اپیل نہیں ہوسکتی بلکہ وہ ایک طلسماتی فضا میں فریب کے درمیان جینے کی ترغیب دے سکتاہے۔ سچائی اورحقیقت نگاری میںجوشدت اورتاثرہوتا ہے وہ ساحر کی شاعری میں موجود ہے اور ساحرکے یہاں اس سچائی اورحقیقت نگاری کے نقوش موجودہیں۔
 
اس میں ساحرکے اسٹائل ،پیش کش اوراسلوب کی بھی بھرپور تعریف کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود ساحرکی شاعری میں جابجاسپاٹ پن ہے، نظریات کی شدت پسندی ہے فن سے بے راہ روی ہے اور جہاں جہاں روایت سے انحراف ہے اسے بھی اجا گرکیاگیاہے جس سے ان کی علمی بصیرت اورادبی شعور کااندازہ ہوتاہے۔اختتامیہ کے باب میں تحقیق کی اساس وبنیاد کی وضاحت کی گئی ہے اور ساحر کی شاعری اور شخصیت سے جوخاکہ ابھرکرسامنے آتاہے اس کو بہت جامع اندازمیں پیش کیا گیا ہے جس سے ساحرکو سمجھنے میں کافی مددملتی ہے۔
 
ڈاکٹرسیدضیاء الرحمن کی یہ کتاب اس لئے بھی اہم ہے کہ اس میں انہوں نے اپنے سارے تجربات اور مطالعہ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ خود بھی ترقی پسند تحریک سے عملی طورپر وابستہ رہے اور اپنے تحقیقی مقالے کیلئے ایک ایسے شاعر کاانتخاب کیا جواعلنیہ طورپر نہ صرف اشتراکی تھا بلکہ اس نے کسی موقع پر بھی اسلوب فارم اور مواد کے سلسلے میں کبھیCompromise نہیں کیا۔ اس لئے خالص ادبی عینک سے دیکھنے والے اس کے سماجیاتی اور فلسفیانہ عملی اساس کوسمجھنے سے قاصرہے۔
 
ڈاکٹر موصوف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ زبان وادب خواہ کتنی بلندی پر پہنچ جائے اور وہ اپنی بات کوCommunicateکرنے میں خاص اورعام دونوں سطح پر ناکام رہے تو وہ اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں ناکام ثابت ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی بتایاکہ ساحرکی شاعری جہاں Direct Communicateکرنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہاں علمی وادبی سطح پر معاشرتی اورانسانی ذہن کے ان مسائل کو بھی ابھارتی ہے جو کسی عام آدمی سے ممکن نہیں بلکہ یہ کوئی شاعراور فنکارہی کرسکتاہے۔ ساحرکی شاعری کے ساتھ اس کی زندگی کے ان رشتوں کوبھی جوڑاہے جواسے وراثت میںحاصل ہوئے۔ بالخصوص گھرکاماحول اوروالدین کے کشیدہ تعلقات کس طرح اس کی شاعری اورشخصیت پراثراندازہوئے اس کابھرپور تجزیہ ان کی محنت ایمان داری، شعور اور بصیرت کابین ثبوت ہے۔ ساحرکی طویل نظموں کاتنقیدتجزیہ محض اس کے فارمٹ اور اس کے گہرے تاثرتک محدود نہیںبلکہ اس کے اندرزندگی ،معاشرہ نفسیاتی، الجھنیں، تمنائیں اور خواہشیں سب کامحاسبہ کیاہے۔ جس سے ساحرکی شاعری کی اہمیت تو ابھر کرسامنے آتی ہی ہے ساتھ ہی تخلیقی مرحلوں سے گزرنے کے ان دشوار، پیچیدہ اور تجزیدی مرحلوں کابھی بھرپورجائزہ سامنے آیاہے یہ کتاب ایک تاریخی پس منظر بھی پیش کرتی ہے اور شاعری کے بدلتے ہوئے تیوروں کوسامنے لاتی ہے۔ ظاہر ہے ساحر نے جوشاعری کی وہ محض اتفاق یابیانیہ شاعری نہیں تھی اور محض اشتراکی شاعری بھی نہیں کہی جاسکتی۔ اب یہ عین اتفاق ہے کہ وہ عہد بھی ایسا ہی تھا جہاں استحصال کادوردورہ تھا اور ساحرکی زندگی بھی الجھی ہوئی تھی اس میں وہ بھی سوچتا و ہ اشتراکیت سے میل کھاتا اور ایک سچے شاعر کی پہچان یہ ہے کہ وہ جن حالات وحادثات سے گذراہے اسے اپنے فن پارہ میں ایمانداری سے پیش کردے۔ ساحرنے ایسا ہی کیا ہے اور اسی بات کوپروفیسرسیدضیاء الرحمن نےDiluteکر کے پیش کیاہے۔ اس کتاب کی ترتیب وتزئین ان کی صاحبزادی ڈاکٹر نکہت افشاں خاتون نے اہتمام کے ساتھ کیاہے ورنہ یہ تحقیقی مقالہ زمانے کے گردمیں گم ہوجاتا۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 680