donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Sahir Shevi : Musbit Fikr Aur Rujhan Ka Shayar

ساحرشیوی:مثبت فکر اوررجحان کاشاعر
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
مہاراشٹراکی سرزمین میں ممبئی اب ایک ادبی مرکز کی حیثیت رکھتاہے جس طرح کبھی لکھنؤ اوردہلی ادبی مراکز ہواکرتے تھے اسی طرح ممبئی بھی ادبی مرکز بن چکاہے اوریہ آزادی کے بعد ادیبوں اور شاعروں کیلئے خصوصی توجہ کاعلاقہ رہا ہے۔ فلمی گیتوں اور نغموں نے ہندوستان میں دھوم مچائی ہے اور اردوکی پہچان کی ایک نئی صورت پیدا کردی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس علاقے میں اور اس کے گردو نواح میں پیداہونے والاانسان نغمگی اور شاعری کے جراثیم سے نہیں بچ سکتا۔ ساحر شیوی بھی اپنی عمر کا بیشتر حصہ اس نغمگی کے علاقے میںگذارچکے ہیں اور بعد میں انگلستان جاکر رہنے لگے ہیں لیکن ان کے یہاں وہ شعری نغمگی کا جذبہ آج بھی برقرارہے۔ ان کامجموعہ کلام’’جگ بوڑی کی لہریں‘‘اس کی شہادت دیتاہے۔
ساحر شیوی ایک فطری فنکارہیں۔ انہوں نے شاعری کیلئے بہت کسب اورریاضت نہیں کی ہے بلکہ یہ جذبہ ان کے یہاں خود بخودابھرتاہے ان کے ہر شعر میں سادگی اور روانی ہے وہ اپنے وطن کی یادوں ،وہاں کے فطری مناظر یہاں تک کہ تباہ کرنے والے اور دل دہلانے والے قدرتی آفات وبلیات کوبھی اپنے ذہن میں محفوظ رکھے ہوئے ہیں اوراسے بھی اپنی وراثت کاحصہ سمجھتے ہیں، خودمجموعہ کانام جگ بوڑی کی لہریں، اس ندی کے نام پر ہے جو تباہیاں بھی پھیلاتی ہیں۔ انسان جن حالات میں رہتاہے اس میں اسے فطری طورپر ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت ہوجاتی ہے اور خود ساحر شیوی مثبت فکر کے آدمی ہیں۔ اس لیے ان لہروں سے حظ اٹھاناجانتے ہیں اورجونغمگی پیدا ہورہی ہے اسے شعری قالب میں ڈھال رہے ہیں۔
یہ زندگی توشہدبھی ہے صرف سم نہیں
جینے کاہوسلیقہ توپھر کوئی غم نہیں
 
ان کی غزلیں سادگی کے ساتھ ساتھ بے انتہاروانی سے مزین ہیں۔ ان کاہر شعر لفظوں کواس طرح اپنے اندر جذب کیے ہوئے ہے کہ ظاہری اورباطنی تمام ارتعاش کی کئی جہتیں کھل جاتی ہیں۔ رومانیت اورغم کی آمیزش جب کسی شاعرکی شاعرمیں درآتی ہے تواسے اسی قسم کی Trans میں لے جاتی ہے اور وہ اپنےوجودکووہاںگم کردیتا ہے جس سے ایک انجانا سرور قاری کوبھی اپنی طرف متوجہ کرتاہے۔ انہوں نے تجربے اورجدوجہد کے درمیان مثبت راہیں نکالنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ جب بھی فطری عناصر نغمگی پر حاوی ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنے تجربے کی رومانیت سے سرور میں تبدیل کرنے کاہنراپناتے ہیں۔
خداجانے وہ کس کولوٹ لے گی
وہ دوشیزہ دیوانی آگئی ہے
ایک لذت ہے انتظار میں بھی
رنج وغم پر کتاب مت لکھنا
آگیا دورِ بہاراں لے کے پیغام حیات
آئو سامانِ سکونِ قلب وجاں پیداکریں
انہوں نے شاعری کے جن مختلف ہیئت اور فارم میں تجربے کیے ہیں ان میں ’نغمانہ‘بھی قابل ذکر ہے۔’’نغمانہ، شاعری کی ایک قسم ہے جوغزل سے ہی نکلی ہے۔ اس میں آہنگ کی بڑی اہمیت ہے۔ ویسے ہر شاعری کےلئے آہنگ ضروری ہے۔ لیکن آہنگ میں ملاحت کاہوناایک اور بات ہے اورمحض لفظوں کی تراش خراش سے آہنگ پیداکرناالگ۔ نغمانہ، میں آہنگ ملاحت دیکھاجاسکتاہے۔ ان اشعار میں حسنِ غزل کی نغمگی ملاحظہ فرمایئے:
اگرجیناہے دنیا میں نہ ہوخائف زمانے سے
ہوجیون اپنانغمانہ، یہی جیون کاافسانہ 
جی رہاہوں میں ساحر جہاں کیلئے
چاندکی روشنی ہے مری زندگی
ساحرشیوی نے قطعات اورنظمیں بھی لکھیںہیں۔اردو میں مرکزی خیالات کوDiluteکرنے کے لئے عام طورپر ایک بے ربطی Communication Gap  پیداکیا جاتاہے اور اس کے بعد مرکزی خیالات تک آنے کاعمل جاری رہتاہے۔ یہ ایک حسن ہے اور اس کے ذریعے شاعرقاری کوسوچنے کے مرحلے سے بھی گزارتاہے، لیکن انہوں نے قطعات اور نغمانہ میں مرکزی خیال کواس انداز میں پیش کیا ہے کہ نظم کااینٹی کلائکس قاری کے ذہن میں سوچنے کیلئے سوالات کی شکل میں ابھرنے لگتاہے۔
 
ساحرشیوی زندگی کے تئیں مثبت سوچ رکھتے ہیں اور وہ زندگی کی اعلیٰ قدروں میں یقین رکھنے والے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کاتعلق دل اور دماغ دونوں سے ہے، وہ محض الفاظ کی جادو گری نہیں کرتے انسانی زندگی میں پائے جانے والے انتشار، منافقت ،بدعنوانی ، لوٹ کھسوٹ، انسانی رشتوں کی پامالی اور سامراجی نظام کی چیرہ دستیوں پران کاحساس دل بے چین ہوتاہے اور پھر وہ اپنے جذبات واحساسات کااظہار اپنی غزلوں، نظموںرباعیوں اور قطعات میں بڑی خوبصورتی سے کرتے ہیں۔ تلاش آزادی ،جنگ آزادی، یاجوج ماجوج، آج کی عورت کیا کہتی ہے، کتنا ہے بدنصیب ظفر، دیوانگی، یقین وغیرہ نظموں کے علاوہ، جگ بوڑی کی لہریں، میںشامل ان کی رباعیاں ، قعطات، ثلاثی اور کہہ مکرنیاں میرے اس خیال کی تائید کرتے ہیں:
اک قطرۂ شبنم ہوں، بکھرجاتاہوں
طوفان میں بے خوف اترجاتاہوں
زندہ ہوں مگرلاش کی صورت ساحر
جینے کیلئے روز میں مرجاتاہوں
آساں نہ تھا جوکام وہ کرناہی پڑا
جینے کیلئے رات دن مرناہی پڑا
یہ گردشِ ایام، یہ فکرعقبیٰ
مرنے سے نہیں جینے سے ڈرنا ہی پڑا
سرخ کتنا ہوگیا ہے آسماں
خون سے کس کے بھراہے آسماں
کھیلتاہے کون ہولی خون کی
اور آہیں بھررہا ہے آسماں
جینے سے گھبراتاہے
مرنے سے ڈرجاتاہے
ڈھونڈے فقط وہ روشنی
اے سکھی، ساجن
ناسکھی، آدمی
ساحرشیوی ایک فطری شاعرہیں اس لیے ان کاہنر ان کے اظہارکی قوت ہے اور یہ ملکہ اسی شاعر کے یہاں موجود وہوتاہے جس کے یہاں الہامی کیفیت ہوتی ہے۔ اور شاعرجب الہامی کیفیت سے عرفانی کیفیت تک پہنچ جاتاہے تو قاری کواپنی گرفت میں کرلیتاہے۔ یہ ساحرشیوی کی شاعرانہ خوبی ہے اور اسی لیے ہم ان کی شاعری میں انفرادیت کاجلوہ دیکھ سکتے ہیں۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 594