donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Khursheed Rizvi
Title :
   Goshae Majeed : Main Ne Usk Dekha Hai

 گوشہ مجید

میں نے اُس کو دیکھا ہے


ڈاکٹر خورشید رضوی


میں  نے اُس کو دیکھا ہے اجلی اجلی سڑکوں پراِک گرد بھری حیرانی میں کون ہے جو بَل کھاتے ضمیروں کے پرُپیچ دھندلکوں میں  رُوحوں کے عفریت کدوں کے زہر اندوز محلکوں میں  لے آیا ہے یوں بِن پوچھے، اپنے آپ  عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ
یہ سطور مجید امجد کی ایک نظم سے اقتباس کی گئی ہیں جو انھوں نے منٹو پر لکھی ہے۔ میں نے چوں کہ منٹو کو نہیں دیکھا اور مجید امجد کو دیکھا ہے اس لیے ’گرد بھری حیرانی‘، ’ضمیروں کے پر پیچ دھندلکوں‘ اور ’عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ ’کا ذکر آتا ہے تو میرے ذہن میں معاً ایک کہنہ سال عینک کے سفید شیشوں کے پسِ منظر میں مجید امجد کی اپنی شبیہ اُبھر آتی ہے جس میں دُور دیس سے آئے ہوئے ایک اجنبی ہنس کی سی خوفزدہ معصومیت کا تاثّر ملتا تھا۔


1958ء کی بات ہے۔ میں گورنمنٹ کالج منٹگمری… (اب ساہیوال)… میں سال سوم کا طالب علم تھا۔ شاعری کا جنون نیا نیا سر میں سمایا تھا۔ دیوانِ غالب اور آبِ حیات کے مطالعے کے بعد میں نے خاصی بزرگانہ قسم کی غزلیں کہنی شروع کر دیں اور کمالِ سادگی سے انھیں تنقیدی مجلسوں میں پیش کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ نتیجہ یہ کہ یار لوگوں نے میرے
خوب خوب پُرزے اُڑائے، لیکن انھیں مجلسوں سے مجھے وہ فیض بھی حاصل ہوا جس کی یاد آج میرے لیے اَزحد قیمتی اور خوشگوار ہے۔ یعنی مجید امجد سے مُلاقات۔
’شبِ رفتہ‘ انہی دنوں شائع ہوئی تھی۔ میرا اَدبی شعور ہنوز ناپختہ تھا اور مجھے ان کے صحیح مقام اور مرتبے کا اندازہ نہ تھا۔ تاہم کتاب کی دھوم بہت تھی لہٰذا اِس کے شائع ہوتے ہی مجھے اس سے فیض یاب ہونے کا موقع مل گیا۔ بعدازاں یہ کتاب مسلسل چار پانچ برس میرے حواس پر شب و روز سوار رہی اور اُس کا اکثر حصہ مجھے اَزبر ہوگیا۔

آج بھی میں محسوس کرتا ہوں کہ ’دیوانِ غالب‘ کے بعد جس شعری مجموعے کو میں نے سب سے زیادہ پڑھا ہے وہ ’شبِ رفتہ‘ ہی ہے۔ پہلے پہل مجھے ’پنواڑی‘ بہت پسند تھی۔ منٹگمری کا ایک بوڑھا سا کلاسیکی قسم کا پان فروش مجھے یاد ہے۔ اس نظم کو پڑھتے ہوئے اس کی سفید کمانی دار عینک خاص وضع کی ڈاڑھی اور نحیف سا جسم ذہن میں گھومنے لگتا ہے۔ کیا عجب کہ مجید نے یہ نظم اسی پر کہی ہو۔ ان دنوں یہ شعر اکثر میری زبان پر رہتے تھے:

عمر اس بوڑھے پنواڑی کی پان لگاتے گزری
چونا گھولتے، چھالیا کاٹتے کتھ پگھلاتے گزری
سگرٹ کی خالی ڈبیوں کے محل سجاتے گزری
کتنے شرابی مشتریوں سے نین ملاتے گزری
چند کسیلے پتوں کی گتھی سلجھاتے گزری
کون اس گتھی کو سلجھائے دنیا ایک پہلی
دو دن ایک پھٹی چادر میں دُکھ کی آندھی جھیلی
دو کڑوی سانسیں لیں، دو چلموں کی راکھ انڈیلی
اور پھر اِس کے بعد نہ پوچھو کھیل جو ہونی کھیلی
پنواڑی کی ارتھی اُٹھی بابا اللہ بیلی

منٹگمری میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر جناب نیاز احمد نے ایک دارالمطالعہ قائم کیا تھا جسے ’نیاز لائبریری‘ بھی کہہ لیتے تھے۔ یہاں ہفتہ وار‘، ’بزمِ فکر و اَدب‘ کے اجلاس ہوا کرتے تھے جن میں مجید امجد باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔ ان کے علاوہ منیر نیازی، ظفر اقبال، حاجی بشیر احمد بشیر، عطا اللہ جنون اور جعفر شیرازی وہ معروف شعرا تھے جو اُن مجلسوں میں آتے جاتے تھے۔ نئی پود میں ناصر شہزاد اور اشرف قدسی قابلِ ذکر تھے، میں اور قیوم صبا، کالج کے نو مشق مسکین شعرا تھے جو کسی شمار قطار میں نہ تھے، لیکن ہم بھی پانچویں سوار کی حیثیت سے ان مجلسوں میں موجود رہتے تھے۔

ان مجلسوں میں جناب مجید امجد کو بہت قریب سے دیکھا اگرچہ بے شعوری کے عالم میں دیکھا۔ وہ اَدھیڑ عمر کے کم گو، دھیمے لہجے میں بات کرنے والے، سمٹے ہوئے سے انسان تھے۔  تاہم تمام تر متانت و وقار کے باوجود وہ مریضانہ قسم کی سنجیدگی کا شکار نہ تھے۔ ذہنی خلوت گزینی کے علی الرغم، وہ ادبی مجلسوں میں چٹکیاں بھی لیتے تھے اور پھلجھڑیاں بھی چھوڑتے تھے اور اپنی روز مرّہ کی زندگی میں ہمہ وقت لوگوں کی رسائی میں بھی تھے۔

ان مجلسوں مین ان کی خصوصی چھیڑچھاڑ حاجی بشیر صاحب کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ یہ معلوم کرکے افسوس ہوا کہ آخری دور میں یہ خوشگوار ادبی نوک جھونک ایک سنجیدہ تلخی کی صورت اختیار کر گئی تھی جس کے باعث مجید امجد ادبی مجلسوں سے بھی دست کش ہوگئے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ان دنوں اس چھیڑچھاڑ میں ہمیشہ ایک برادرانہ اور شگفتہ ادبی رنگ ہوا کرتا تھا مثلاً ایک بار حاجی صاحب نے تنقید کے لیے غزل پڑھی:

زہر بھرا اِک بان تھی پیارے رات تری ہر بات
رات تری ہر بات گئی دل چھید مرا دل چھید
کس جمشید کی کس پیالے کی لے بیٹھے ہو بات
تم بھی اپنے دل میں جھانکو تم بھی ہو جمشید

امجد صاحب نے ’پیالے‘ کے وزن پر گرفت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں یائے متحرک ہونی چاہیے۔ یعنی ’پیالہ‘ اور ساتھ ہی غالب کے مصرعے سے استشہاد کیا:

پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے

اس پر حاجی صاحب نے کہا کہ ’پیالہ‘ بسکون یائے کہنے میں بھی کچھ حرج نہیں اور بڑی خُوب صورت طنز کرتے ہوئے خود امجد صاحب کا مصرع پڑھا:

اپنے ہاتھ سے میری چائے کی پیالی میں چینی گھولو

لیکن امجد صاحب نے اصرار کیا کہ ’پیالی‘ ہندی ہوچکا ہے لہٰذا اِس پر قیاس درست نہیں، جب تک یہ ’پیالی‘ ہے فارسی لفظ ہے اور اِسے متحرک ہونا چاہیے۔ چوں کہ دارالمطالعہ کی فضا خالص علمی تھی اور چاروں طرف شیشے کی خُوب صورت الماریوں میں بڑی مستند کتابیں موجود ہوتی تھیں، لہٰذا بعض مواقع پر ایسی بحثوں کے دوران اچانک ’فرہنگ آصفیہ‘ جیسی کتابیں تلواروں کی طرح میانوں سے نکل آتی تھیں اور صحیح لفظ اور تلفظ کا جھگڑا وہیں چکایا جاتا تھا۔

میں نے محسوس کیا کہ امجد صاحب صحت علمی کے بارے میں بہت حساس تھے۔ وہ ان جدید شعرا میں سے نہیں تھے جو روایت کی زمین میں جڑ پکڑے بغیر ہی آسمان سے باتیں کرنا چاہتے ہیں اور اپنی خودسری کے زور میں قدما کے کہے کو لغو جانتے ہیں۔ اس کے عین برعکس امجد صاحب کو کلاسیکی سرمایۂ اَدب سے گہرا شغف تھا اور عروض، بیان، معافی اور بدیع جیسے علوم پر فاضلانہ و مجتہدانہ دسترس حاصل تھی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ ان علوم کے مالک تھے نہ کہ مملوک۔ آخری دور میں ان کی ایک مخصوص اور کٹھن عروضی اپج نے بعض اہلِ نظر کو اِس دھوکے میں بھی ڈال دیا کہ وہ نثری نظمیں کہنے لگے ہیں۔

فصاحت و بلاغت کے کلاسیکی معیاروں کے بارے میں بھی ان کا ذہن بڑا حساس تھا۔ ایک بار حاجی بشیر صاحب نے ایک اور تنقیدی نشست میں ایک غزل پڑھی جس کی ردیف ’دریا‘ تھی۔ ایک شعر یوں تھا:

تشنہ لب آئیں، تشنہ لب جائیں
  زندگی ہے فرات کا دریا

امجد صاحب کو اعتراض تھا کہ فرات کے دریا سے تشنہ لبی کی روایت دائمی ربط نہیں رکھتی بلکہ صرف ایک المناک تاریخی سانحے سے وابستہ ہے۔ چناں چہ یہاں استعارہ کامل نہیں ہوسکا۔ انھوں نے کہا کہ اگر میں حاجی صاحب کی جگہ ہوتا تو یوں کہتا:

تشنہ لب آئیں، تشنہ لب جائیں
 زندگی ہے سراب کا دریا

اس پر بڑی گرما گرم بحث رہی اور اگرچہ حاجی صاحب نے امجد صاحب کے اعتراض کو رَد کر دیا، تاہم امجد صاحب بھرپور انداز میں استعارے کے اس نازک سے جھول پر انگشت نمائی کرتے رہے۔  ان مجلسوں میں ہم نے امجد صاحب کو اپنا کلام پڑھتے بھی سُنا۔ یہ ایک خاص لطف تھا جس کا سراغ آ ئندہ کبھی نہ مل سکے گا۔ بہت کم شعرا اپنا کلام پڑھتے ہوئے، اس میں اس حد تک ڈوب سکتے ہیں جس حدتک امجد صاحب ڈوب جاتے تھے۔ جب وہ ایک خفیف سی جنبشِ سر، ایک چراغ کی لرزتی ہوئی لو جیسی مسکراہٹ، بند آنکھوں، تھرتھراتی ہوئی دراز پلکوں اور دھیرے دھیرے کپکپاتی ہوئی مخروطی انگلیوں کے ساتھ پڑھتے تھے:

گھاس کی گٹھڑی کے نیچے وہ روشن روشن چہرہ
روپ جو شاہی ایوانوں کے پھُولوں کو شرمائے
راہ گزر پر سوکھے پتے چننے والی باہیں
باہیں جن کو دیکھ کے موجِ کوثر بَل کھا جائے
بیلوں کے چھکڑوں کے پیچھے چلتے زخمی پائوں
پائوں جن کی آہٹ سوئی تقدیروں کو جگائے
تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ گو تم کو گیان نصیب ہو رہا ہے۔

وہ اپنے کلام کو ایک ایسے رواں زیرو بم کے ساتھ پڑھتے تھے کہ اس کی موسیقیت کے اسرار اور عروضی حُسن نکھر کر سامنے آجاتا تھا۔ گورنمنٹ کالج منٹگمری کی ایک ادبی نشست میں انھوں نے اپنی ہر دل عزیز نظم ’کنواں‘ سُنائی تھی:

کنواں چل رہا ہے مگر کھیت سوکھے پڑے ہیں نہ خرمن نہ فصلیں نہ دانہ
نہ شاخوں کی باہیں نہ پھُولوں کے مکھڑے نہ کلیوں کے ماتھے نہ رُت کی جوانی
گزرتا ہے کیاروں کے پیاسے کناروں کو یوں چیرتا تیز خوں رنگ پانی
کہ جس طرح زخموں کی دُکھتی تپکتی تہوں میں کسی نیشتر کی روانی
اِدھر دھیری دھیری
کنویں کی نفیری
ہے چھیڑے چلی جا رہی اِک ترانہ
پُراسرار گانا

اس نظم کا آہنگ ہی کچھ ایسا تھا کہ امجد صاحب کے پڑھنے کا جادو اور بھی جاگ اُٹھا تھا۔ یہ نظم ایسے خُوب صورت انداز میں اب کبھی سننی نصیب نہ ہوگی۔  کچھ اپنے طبعی حجاب کی بنا پر کچھ ان کی خاموش گمبھیر طبیعت اور کچھ عمر اور مرتبے کے بے اندازہ تفاوت کے باعث مجھے کبھی ان سے کھل کر بات کرنے کی ہمت نہ ہوسکی۔ بی اے کے طالب علم کی حیثیت سے ایک روز میں نے ولیم ورڈز ورتھ کی مشہور نظم “The Solitary Reaper”کا اُردو میں منظوم ترجمہ کرنے کی کوشش کی۔ اس ترجمے کے بعض حصے گوارا تھے لیکن بعض حصے انتہائی ناقص اور کمزور تھے۔ مگر خیر اُس وقت تو یہ میرا شاہکار تھا۔

میں نے اصل نظم کو بڑے اہتمام سے ٹائپ کروایا اور ساتھ یہ ترجمہ لکھ کر منسلک کیا اور ایک روز دارالمطالعہ سے نکلتے ہوئے ہمت کرکے امجد صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا کہ اس کی اصلاح کر دیجیے۔ انھوں نے کمال شفقت سے لے کر اِسے کسی ایسی جگہ محفوظ کر دیا کہ پھر کبھی اس کی رسید نہ دی۔ شاید اس مبتدیانہ حماقت کی پردہ داری کی یہی بہترین صورت ہوسکتی تھی۔

بی اے کے آخری ایّام میں میَں نے بزمِ فکر و اَدب کے ایک مشاعرے میں ایک غزل پڑھی جس پر میرے احباب نے جو دیانت داری سے مجھ پر تنقید کیا کرتے تھے، دیانت داری ہی سے مجھے داد بھی دی۔ لیکن اس غزل کے ساتھ جو نہایت ہی نایاب و خوشگوار یاد وابستہ ہے وہ ایک خاموش جنبش ابرو کی یاد ہے۔ دارالمطالعہ سے نکلتے ہوئے امجد صاحب نے میری طرف دیکھا اور اپنی مخصوص جنبش سر کے ساتھ ایک ابرو کو داد کے انداز میں حرکت دی۔ شاید میں اس جنبش ابرو کو کبھی فراموش نہ کرسکوں گا۔

اس کے بعد دو سال ایم اے کے سلسلے میں لاہور میں گزرے اور امجد صاحب سے رابطہ رسالوں میں چھپنے والے ان کے تازہ کلام تک محدود ہوگیا۔ انہی دنوں امجد صاحب نے صابرکنجاہی کا نوحہ کہا جو ’لیل و نہار‘ میں شائع ہو کر ہم تک پہنچا اور ہمیں بے حد دُکھی کر گیا۔ اس نوحے سے اندازہ ہوتا تھا کہ اپنے ساتھی انسانوں کے لیے امجد صاحب کے دل میں کتنا گہرا خلوص اور کیسی شدید وابستگی موجود تھی۔ صابر کنجاہی صاحب غالباً بسلسلۂ مُلازمت منٹگمری آئے تھے۔ جتنا عرصہ وہاں رہے ادبی مجلسوں میں تواتر کے ساتھ شریک ہوتے رہے۔ وہ بڑے خُوش آواز شاعر تھے اور اُن کا پُرسوز ترنّم بہت جلد ہر دل عزیز ہوگیا تھا۔ ان کی ایک غزل:

مسرور بام و در ہیں تو خنداں گلی گلی
 بٹتی ہیں تیرے شہر میں خوشیاں گلی گلی

ان دنوں بہت پسند کی جاتی تھی۔ وہ کسی کام سے اپنے وطن ’کنجاہ‘ گئے تو کسی خاندانی عداوت کی بنا پر انھیں ناگہانی طور پر قتل کر ڈالا گیا۔ اس پر امجد صاحب نے یہ بپھری ہوئی نظم کہی جسے میں اپنے حافظے سے نقل کرنے کی کوشش کرتا ہوں:

سطح سحر، سفینہ غم، جوئے لالہ گوں
کنجاہ کی گلی کا سکوتِ اجل سکوں
قاتل کی ضرب، سینۂ صدچاک موجِ خوں
اِک صاحبِ قلم پہ جو گزری میں کیا کہوں
نوک اس کے دل کو چیر گئی جس کٹار کی
اس پر گرفت تھی ستمِ روزگار کی
اک ہاتھ بڑھ کے شانۂ دیوار پر رکھا
ہائے وہ چند ڈولتے قدموں کا فاصلہ
اِک سانس اور سب سفرِ درد طے ہوا
اِک گام اور جادۂ ہستی سمٹ گیا
اِک آخری تڑپ جسدِ لرزہ گیر کی
مٹی پہ ایک قوس لہو کی لکیر کی
اِک زندگی کراہتے لمحوں میں ڈھل گئی
اِک شمع موجِ اشک پہ بجھ بجھ کے جل گئی
اِک بے گنہ پہ ظلم کی شمشیر چل گئی
خونی انی پہ ایک جوانی مچل گئی
ہے بھی یہاں غریب کی ہستی کا کوئی مول
میں پوچھتا ہوں مدعیٔ عدل کچھ تو بول

آخری بار مجید امجد سے اس وقت ملاقات ہوئی جب میں ایم اے کرنے کے بعد منٹگمری گیا۔ وہ حسبِ دستور اپنی یادگار اور خاکسار بائیسکل کو پہلو میں لیے خراماں خراماں اپنے اس کوارٹر سے نکل رہے تھے جس میں بالآخر وہ ایک صبح بے جان پائے گئے۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا۔ غالباً انھوں نے مجھے پہچانا نہیں۔ بہرحال ازروئے مروّت حال احوال پوچھا۔ میں نے بتایا کہ میں نے عربی میں ایم اے کر لیا ہے۔ کہنے لگے ’’تب توآپ نے بڑی مہم سر کی ہے۔‘‘ ’مہم‘ کے آخری میم کو انھوں نے بالالتزام مشدّد بولا۔

شاید عربی ایم اے کی مناسبت سے۔ پھر میرے ساتھ ساتھ سڑک پر پیدل چل پڑے۔ مجھے یہ سوچ کر گھبراہٹ سی ہو رہی تھی کہ وہ محض میری وجہ سے بائیسکل پر سوار نہیں ہو رہے، چناں چہ میں نے کوئی اور بات کیے بغیر چند ہی قدم چل کر اُن سے رُخصت چاہی اور آخری مرتبہ ان کو بائیسکل پر سوار ہو کر جاتے ہوئے دیکھا۔  گزشتہ کئی سالوں میں بار بار یہ خیال آتا رہا کہ امجد صاحب سے ملنے کے لیے ساہیوال کا سفر اختیار کیا جائے۔ میں خود تو اِس خیال کو عملی جامہ نہ پہنا سکا لیکن میرے ایک عزیز شاگرد اور دوست حُسین احمد، جن سے اکثر امجد صاحب کا ذکر رہتا تھا، ساہیوال گئے اور امجد صاحب سے مل کر ایک خط مجھے روانہ کیا جس کے بعض اقتباسات بے محل نہ ہوں گے۔

’’کل مجیب الرحمن شامی کی دعوتِ ولیمہ میں شرکت کے لیے ساہیوال گیا۔ دعوت سے فارغ ہو کر قیوم صبا صاحب کے ساتھ اسٹیڈیم ہوٹل چائے پینے کے لیے گئے۔ مجید مجد پہلے ہی سے ہوٹل میں موجود تھے۔ تنہا سوچوں میں گُم صُم بیٹھے تھے۔ انتہائی کمزور ہوچکے ہیں۔ جیسے آپ نے بتلایا تھا عین اسی کے مطابق انتہائی فقیر ہیں۔ ایک روز قبل لاہور ٹی وی والے ان کا انٹرویو ریکارڈ کرنے ساہیوال آئے تھے۔ انٹرویو اسٹیڈیم ہوٹل کے ایک کمرے میں تقریباً پانچ گھنٹے تک ہوتا رہا۔ کہہ رہے تھے انھوں نے مجھے بے حد تھکا دیا ہے۔ انٹرویو لینے والے حضرات امجد صاحب کے فوری جواب میں اپنی تکنیکی ضرورتوں اور سیاسی مجبوریوں کے تحت ردّوبدل کرنے کے لیے کہتے تھے۔

اس وجہ سے انٹرویو بہت طویل ہوگیا۔ امجد صاحب نے ایک دو اہم سوال اور اُن کے جواب سُنائے۔ انٹرویو لینے والے صاحب نے سوال کیا کہ آپ کا تعلق نہ تو ’ترقی پسندوں‘ سے ہے اور نہ ’اسلام پسندوں‘ سے اور نہ ہی آپ کسی ادبی اور سیاسی دھڑے سے منسلک ہیں،آخر آپ شعر کس مقصد کے لیے کہتے ہیں۔ امجد صاحب نے اس کا جواب یہ دیا۔

’’جب سے یہ دُنیا ہے اور جب تک زمین سُورج کی روشنی سے زندہ رہے گی یہاں ایک چیز جاری رہی ہے اور وہ ہے ’عملِ خیر کا تسلسل‘ اور میں اسی تسلسل میں شعر لکھتا ہوں۔‘‘

دوسرا سوال غزل کے بارے میں تھا۔ اس بارے میں امجد صاحب کا جواب یہ تھا کہ قدیم غزل کے ہر شعر میں مضمون مکمل اور قطعیت پائی جاتی ہے اور جدید غزل کے شعر میں مضمون ادھورا پایا جاتا ہے۔امجد صاحب نے کہا کہ مضمون کا ادھورا ہونا کوئی خامی کی بات نہیں۔

امجد صاحب نے یہ بھی کہا کہ پچھلے دو سو سال میں غزل نے اُردو زبان کو زندہ رکھا ہے اور غزل کی بدولت ہندوستان کے مسلمان شاعروں میں ایک تنظیم پائی جاتی تھی۔ صبا صاحب کا کہنا ہے کہ امجد صاحب نے جتنی باتیں آج کی ہیں اتنی وہ کئی مہینوں میں بھی نہیں کرتے۔ اکثر خاموش رہتے ہیں۔ امجد صاحب کو دیکھ کر یوں احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے زندگی سے اپنے لیے کچھ بچا کر نہیں رکھا اور جیسے انھوں نے نباتاتی و حیواناتی سطح پر بہت کم لمحات گزارے ہیں۔ امجد صاحب کا انٹرویو بدھ کی رات کو لاہور ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ ہوگا۔‘‘

میں نے ٹی وی کا یہ پروگرام بصد اشتیاق دیکھا۔ گلے میں مفلر کو ٹائی کے انداز میں باندھے، پہلے سے نحیف و نزار، وہ گزرے ہوئے دنوں کی ایک پھیکی سی تصویر بن کر رہ گئے تھے۔ بہرحال ٹیلی وژن کی وساطت سے ایک بار اور اُنھیں دیکھنے کی خواہش پوری ہوگئی تاہم یہ خلش رہی کہ انٹرویو بہت مختصر تھا، بہت سے اہم حصے نکال دیے گئے تھے مثلاً غزل کے بارے میں مجید امجد صاحب کے خیالات کو پیش نہیں کیا گیا۔ گانے کے لیے ان کے کلام کا انتخاب نامناسب تھا اور اُس کی گائیگی بھی معیاری نہیں تھی۔ کاش! اس انٹرویو کو زیادہ تفصیل اور بہتر اہتمام کے ساتھ دوبارہ ایڈٹ کیا جائے۔

گزشتہ سال مئی میں جب میں نے اپنا شعری مجموعہ ’شاخِ تنہا‘ مرتّب کیا تو اُس کا انتساب مجید امجد صاحب کے نام کیا۔ شاید یہ پہلی کتاب تھی جس کا انتساب ان کے نام تھا لیکن تقدیر کے اسرار عجیب ہیں۔ جس روز اس انتساب کی کتابت ہوئی عین اسی دن امجد صاحب نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔

تری لحد پہ کھلیں جاوداں گُلاب کے پھُول
 
موسمِ عشق جو آیا تو
امین الرحمن | گوشہ مجید

 

میونخ  کے بارے میں سمرسٹ ماہم نے کہا تھا کہ یہ وہ شہر ہے جہاں سانس لیں تو ادب آپ کی رُوح میں سما جاتا ہے۔ یہی حال اُن دنوں منٹگمری کا تھا جسے بعد میں ساہیوال کا نام دیا گیا۔ شاہد سلیم جعفری، سجاد میر، فہیم جوزی، قیوم صبا، حفیظ الرحمن، پیر جی اقبال نقوی، منظور اعجاز، امین اویس، ریاض پوسوال، راقم الحروف اور سینئرز میں علامہ عطاء اللہ جنوں، عظامی صاحب، اکرم خاں قمر، گوہر ہوشیار پوری، جعفر شیرازی، منیر نیازی، حکیم محمود رضوی، محمود علی محمود، مراتب اختر، ناصر شہزاد، اشرف قدسی، بشیر احمد بشیر جنھوں نے کہا تھا:

من ٹگمری کی مہکتی شام کیا کہنا ترا
تیرے کوچے میں غمِ دل ہے غمِ دُنیا نہیں

اُدھر گورنمنٹ کالج میں ’بزمِ ادب‘ ڈراما سوسائٹی ’فلم فیسٹیول‘ اور ہفت روزہ ادبی اجلاس، قدآور اساتذہ ڈاکٹر اے ڈی نسیم، راجا عبدالقادر، نذیر احمد بھلی، جی ایم ڈین مرزا (جہاں ن م راشد اکثر تشریف لاتے) اور مجید امجد یہاں بھی مرکزی شخصیت تھے، جن کی وجہ سے ہم طالب علموں کو وہ بحثیں سننے کو ملتیں، جو اَدب کے عالمی تناظر کی خبر دیتیں۔ شہر اور کالج کی فضائوں میں ہم سے سینئر لوگوں کی ابھی خوشبو محسوس ہوتی تھی۔ ڈاکٹر خوا جہ مہدی حسن، طارق عزیز، نذیر ناجی، عباس اطہر، ارمان عزیز، عرفان عزیز، ظفر اقبال، ڈاکٹر خورشید رضوی۔ یہ ایک ایسا ہی ماحول اور فضا تھی جس کے بارے میں میونخ مشہور تھا۔

اب اُن گلی محلوں میں فرنیچر مارکیٹ بن چکی ہے جہاں سانس لیں تو لکڑی کا بُور آپ کی رُوح میں سما جاتا ہے۔ یہی وہ محلہ ہے جس میں شاہد سلیم جعفری نے فرید ٹائون منتقل ہونے سے پہلے اپنا بچپن گزارا تھا اور پاس ہی سکھ چین والی گلی میں سجاد میر سے دوستانہ اور ہمعصری کی چپقلشیں ہمہ وقت معانقہ کرتی نظر آتیں۔ کبھی یہ تپش گھر تک جا پہنچتی تو اُس کی ماں جو سب کی اماں تھی، ایک شعری تبرّیٰ مرسل کرتیں ’ابے جا‘ فکر ہرکَس بقدرِ ہمتِ دوست ’اور بچپن کی یہ متحارب قوتیں مغلیہ کلچر کے طاقتور پسِ منظر میں شرمندہ یا فرحاں ہو کر بکھر جاتیں۔

بزمِ قمر کے ماہانہ طرحی مشاعرے سے مجید امجد چوک مور والا کی طرف پیدل ہی سائیکل بدست چلتے تو نوجوان شاعروں کا پُرعقیدت گروہ اُن کے ہمراہ ہوتا۔ مراتب اختر، ناصر شہزاد، گوہر ہوشیار پوری، بشیر احمد بشیر، صابر کنجاہی، محمود علی محمود اور ایک دوسرا منتظر گروہ بڑی چابکدستی سے انھیں گھیر کر بااَدب ہو کر کسی چِٹ پر دستخط کرواتا اور کسی دوسرے کے لیے جگہ خالی کر دیتا، یہ لوگ مجید امجد کو چینی والا صاحب کہتے تھے (امجد صاحب محکمہ خوراک میں اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر تھے۔ اُن کی چٹوں پر ڈپو ہولڈر ایک دو کلو چینی کنٹرول ریٹ پر دے دیتے تھے۔)

بزمِ قمر سے خراماں خراماں کیفے ڈی روز جا پہنچتے جہاں سب سینئر شاعر جمع ہوجاتے۔ ہم طالب علم جھجکتے ہوئے اس محفل میں جاتے تو ایک خنداں چہرہ ہمارا استقبال کرتا۔ مجید امجد ہمیشہ میر محفل ہوتے اوربڑی دھیمی آواز میں ایک ایک کا نام لے کر کسی تازہ تخلیق کے بارے میں پوچھتے۔شاعروں کی اس محفل میں ریاض پوسوال مرتضیٰ سکھیرا اور میں افسانہ لکھتے۔ امین اویس شاعری کی طرح اپنا مختصر افسانہ زبانی سُنا ڈالتا۔ شاہد سلیم جعفری مختصر نظم سُناتا۔

وہاں دھیمے سروں میں زندہ رہنے والے ادیبوں میں کبھی کبھی ع غ اور عزیز خاں، (محمود علی خان عزیز) پاپ میوزک کا سماں پیدا کردیتے۔ عبدالغنی عرف ع غ کا پیشہ کلرکی اور شوق اساتذہ کے یادگار شعر سُنانا تھا، چبھتا ہوا فقرہ اور حسبِ حال شعر اُس کی ہر دل عزیزی کا سبب تھا، وہ اور عزیز خاں مل جاتے تو محفل کا رنگ ہی بدل جاتا، لیکن یہ بھی مجید امجد کی موجودگی میں ’خیالِ خاطر احباب‘ کا اہتمام کرتے۔

شاہد سلیم جعفری پنجاب یونیورسٹی جانے تک کیفے ڈی روز کا ایک خاموش کردار تھا۔ یونیورسٹی میں فہیم جوزی، مشتاق صوفی، منظور اعجاز، سعادت سعید، امین اویس اور سجاد میر کے ملاپ نے ’نئے لوگ‘ کی بنیاد رکھی۔ میں ساہیوال میں ’نئے لوگ‘ کا نمائندہ تھا۔ پہلے میں ادبی تنظیم ’گوشۂ ادب‘ کا سیکرٹری تھا اور ہفت روزہ ادبی اجلاس منعقد کرواتا تھا، اب ہمارا خودنوشت سائیکلو اسٹائل دعوت نامہ یوں شروع ہوتا ’’نئے لوگ‘‘ کے زیرِ اہتمام ’گوشۂ ادب‘ کا ہفتہ وار اجلاس فلاں تاریخ کو بمقام… منعقد ہوگا۔‘‘

دو مواقع ایسے تھے کہ میں نے مجید امجد کو شاہد سلیم پر بہت خوش دیکھا۔ ایک بار جب وہ لاہور میں ’نئے لوگ‘ کی ترقی پسند طلبا تنظیم کے بارے میں بتا رہا تھا اور دوسری بار وائی پی ایف (ینگ پیپلز فرنٹ) کے نام سے ڈاکٹر عزیز الحق کی سربراہی میں بننے والی تنظیم کا ذکر سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔ میں ساہیوال میں وائی پی ایف کا بھی نمائندہ تھا، دونوں تنظیمیں یونیورسٹی طلبا کا ترقی پسند چہرہ تھیں۔ اب ہمارے ساہیوال کے لاہوری دوستوں میں فکری تقسیم واضح ہوگئی۔ سجاد میر کھلم کھلا دائیں بازو کے ساتھ اور سعادت سعید اور امین اویس در پردہ اس کے ساتھ تھے۔ آنے والے دنوں میں تقسیم زیادہ واضح ہوگئی۔ یہی وہ تقسیم تھی جس نے بعد میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف اہم کردار ادا کیا۔

آج جب ان واقعات کو گزرے پینتالیس سال ہوچکے ہیں تو میں مطمئن بھی ہوں اور فخر بھی محسوس کرتا ہوں کہ میری سنگت بھی درست تھی اور نظریہ بھی۔ دُور کہیں ماضی میں یہ چمکدار ستارے آج بھی جگمگا رہے ہیں، جن میں ابرار ترمذی بھی تھا جسے ہم سب مصور بابا کہتے، وہ اپنے اسٹوڈیو میں تجریدی پینٹنگز بنانے میں مگن رہتا۔ شام سمے وہ تینوں میں سے کسی ایک محفل میں آجاتا۔

یہ محفلیں باقاعدگی سے کیفے ڈی روز، جی ایم ڈین کے گھر یا پروفیسر راجا عبدالقادر کے ہاں منعقد ہوتیں۔ راجا صاحب کی بیٹی نبیلہ بھی یہاں گفتگو میں حصہ لیتی۔ مجید امجد نے ایک نظم ’اس دن اُس برفیلی تیز ہوا‘ نبیلہ کے لیے کہی تھی۔ نظم کے یہ حصے میرے ذہن کی اسکرین پر ہمیشہ جھلملاتے رہتے ہیں:  اُس دن، تم نے مجھ سے کہا تھا
اِک دن میرے لیے تم اس دُنیا کو بدل دوگی، یہ تم نے کہا تھا
اس دن بھری سڑک پر، تم نے پیدل روک کے

اپنے بائیسکل کو میرے بائیسکل کے ساتھ ساتھ چلا کر، مجھ سے کہا تھا:
’’آپ ایسے لوگوں کو بھی روز یہاں پتھر ڈھونے پڑتے ہیں، روٹی کے ٹکڑے کی خاطر۔‘‘

اور میں اب بھی تمھارے کہے پر
اس پٹڑی کے اِک تختے پر
عمروں کی گنتی کے چھٹے دہے پر
اُس دُنیا کا راستہ دیکھ رہا ہوں، جس میں تمھارے

ازک دل کی مقدّس سچائی کا حوالہ بھی تھا
جانے پھر تم کب گزرو گی اِدھر سے اس دُنیا کو ساتھ لیے


ماضی کے تمام کرداروں سمیت۔ ان میں شاہد سلیم جعفری سمیت سبھی خواب دیکھنے والے دوست شامل ہیں۔ 1968-69ء میں پنجاب یونیورسٹی کی فضائوں میں شاہد سلیم جعفری کا یہ مصرعہ گونج رہا تھا۔ ’’تم نہ آئیں پیاری شبو پاگل مارچ بیت گیا۔‘‘  اور مصّور بابا انگلینڈ جانے کے لیے مسلسل کوشاں تھا۔ اُس وقت پاکستان میں ایم اے فائن آرٹس کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ جاتے ہوئے اُس نے تمام دوستوں سے کہا کہ اگر وہ سِٹنگ “Sitting”کے لیے تیار ہوں تو وہ ان کا پوٹریٹ بنا کر بطور تحفہ اور یادگار اُنھیں پیش کرے گا۔ مصّور بابا نے میرے علاوہ فہیم جوزی، شاہد سلیم جعفری، میاں حفیظ الرحمن، قیوم صبا اور نبیلہ کا آئل پینٹنگ میں پوٹریٹ بنایا۔


میرے پاس وہ تصویر ہارڈبورڈ پر اَب بھی محفوظ ہے جس پر انگریزی میں ’ابرار اپریل 1967‘ لکھا ہوا ہے۔ تین سال پہلے خبر آئی تھی کہ ابرار ترمذی لندن کے ایک فلیٹ میں مردہ پایا گیا:

؎میں روز اِدھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب اِدھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

مصّور بابا کے بنائے پوٹریٹ پر اپریل1967ء اور نبیلہ والی لکھی نظم پر مئی 1968ء کی تاریخ درج ہے۔ یہ ہماری زندگیوں کا موسمِ عشق تھا، اُن دنوں ہم یوں تھے کہ ایک دوسرے کے بغیر زندگی ناممکن نظر آتی۔ پھر ہم دھیرے دھیرے بکھرتے گئے۔ اتنے سال بعد نعیم نقوی نے شاہد سلیم کے حوالے سے یادوں پر مبنی تحریر کا کہا۔ عزیز خان نے اُسی لہجے میں حکم دیا، زنگ آلود چاقو کی طرح قلم بھی اپنا کام نہیں کرتا۔ ذہن پہ زیادہ زور دیا تو یہ بے ترتیب تحریر لکھ ڈالی۔ خدا‘ شاہد سلیم جعفری کو ہمیشہ خوش رکھے، اُس کے سارے دوستوں کو بھی، حامد کمال کو بھی جس سے ملے صدیاں بیت گئیں۔ بس یوں محسوس ہوتا کہ:

؎موسمِ عشق جو آیا تو قیامت لایا
پھر وہ موسم تو گیا اور قیامت نہ گئی
 
تم پھر نہ آسکو گے
سجاد احمد | گوشہ مجید

 

اُردو  شاعری کے سر سے ایک ولی کا سایہ اُٹھ گیا۔ مجید امجد کی علالت اور کمزور صحت سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود یقین نہ آتا تھا کہ موت ان پر اتنی آسانی سے فتح پا لے گی۔ میرا اَب بھی ایمان ہے مجید امجد موت کے ہاتھوں شکست نہیں کھاسکتے۔ البتہ گزشتہ چار پانچ ماہ سے کچھ ایسی باتیں ضرور ہوئیں کہ گمان گزرتا تھا کہ اب مجید امجد اور ہماری ظاہر بین نگاہوں کے درمیان حجاب پڑنے والا ہے، وہ ہم سے بہت دُور، بہت دُور جانے والے ہیں، اتنی دُور کہ ہمیں ان ہی کی زبان میں کہنا پڑے:

تم پھر نہ آ سکو گے بتانا تو تھا مجھے
 تم دُور جا کے بس گئے میں ڈھونڈتا پھرا
راتیں ترائیوں کی تہوں میں لڑھک گئیں
 دن دلدلوں میں دھنس گئے میں ڈھونڈتا پھرا

لیکن اب میرے یا آپ کے ڈھونڈنے سے کیا ہوتا ہے؟ وہ تو امر ہوچکا۔  کچھ عرصہ پیشتر مجھے ساہیوال سے مراتب اختر کا خط ملا جس میں مجید امجد کی شدید بیماری کا یوں سمجھئے کہ بس روتے ہوئے ذکر تھا۔ مجھے اس اطلاع میں مراتب کی مجید امجد کے سلسلے میں پُرخلوص فکرمندی کا عنصر بھی شامل نظر آیا اس لیے کچھ زیادہ پریشان نہ ہوا۔

دفتر گیا تو پتا چلا کہ لاہور سے شہزاد احمد کا فون آیا تھا۔ فوراً بات کروں۔ شہزاد بھی مجھ سے یہی بات کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ لاہور میں مجید امجد کی بیماری کا تذکرہ عام ہے اور لوگ خاصے فکرمند ہیں۔ انتظار حُسین اور احمد مشتاق کہیں ساہیوال گئے تھے۔ واپسی پر انتظار نے ’’مجید امجد درپریشانی و آشفتہ حالی‘‘ کے نام سے ایک کالم لکھا اور
احمد مشتاق غزلوں میں ایسے مصرعے کہنے لگا:

اسے دیکھ کے میلے کپڑوں میں مجھے اپنے کپڑے بُرے لگے

اسی شام لاہور سے شامی صاحب کا فون بھی آیا۔ مسئلہ دراصل یہ تھا کہ مجید امجد کے علاج اور معاشی مسائل کے سلسلے میں بہت سی تجاویز تھیں۔ مگر سوال یہ تھا کہ اس غیرت مند ، مردِ قلندر سے بات کرنے کا حوصلہ کون کرے۔ احباب کی نظر انتخاب مجھ پر پڑی، مجھے پہلی بار معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوا اور اُس دن میں بہت رویا۔  ساہیوال پہنچا تو امجد معمول کے مطابق اسٹیڈیم ہوٹل میں احباب کے درمیان موجود تھے۔

ان کی چائے سے انکار ممکن نہ تھا مگر وہ ساتھ کباب اور بِسکٹ کھلانے پر بھی مصر تھے۔ مجھے علم ہوچکا تھا انھیں ریٹائر ہوئے ڈیڑھ سال ہوگئے ہیں اور ابھی تک پنشن کے کاغذات مکمل نہیں ہوسکے۔ مگر اتنی ہمت کہاں تھی کہ مسلسل انکار کرکے ان کی وضعداری اور اندازِ محبت کو ٹھیس پہنچاتا۔ اسٹیڈیم ہوٹل ہم لوگوں کا پُرانا ٹھکانا ہے۔ یہاں روزانہ آنا امجد کا معمول ہے اور یہ معمول آخری وقت تک قائم رہا۔ ان کی سائیکل کے دو پہیے راستہ ٹٹولتے ہوئے ہوٹل پہنچتے اور پھر شام ڈھلے واپس روانہ ہوجاتے کہ بینائی اتنی کمزور ہوچکی تھی کہ دن کو بھی دُور تو دُور قریب کی چیزیں بھی ٹھیک طرح نظر نہیں آتی تھیں۔ پر انھیں اس سے نفرت تھی کہ کوئی انھیں سہارا دے۔ وہ ساری زندگی بغیر کسی سہارے کے تنہا دُنیا سے نبردآزما رہے: 

دل نے ایک ایک دُکھ سہا تنہا
  انجمن انجمن رہا تنہا

اسٹیڈیم ہوٹل کے مالک صادق حُسین جوگی امجدسے بڑی محبت کرتے تھے۔ اگر کسی دن وہ گھر سے نہ آتے تو آدمی بھیجتے کہ ’’چُپ چاپ دیکھ کر آئو امجدکس حال میں ہیں، مگر انھیں یہ نہ بتانا آپ کو دیکھنے آیا ہوں۔‘‘ امجدکی بیماری کے دوران جوگی نے ڈاکٹر سے لے کر ہر اُس شخص سے رابطہ رکھا جو امجد سے متعلق تھا۔ چناںچہ بیماری کی اصل نوعیت کے بارے میں صحیح خبر احباب کو انھیں کی معلومات کی بنا پر پہنچی۔

صادق حسین نے اپنے ہوٹل کے ملازمین سے کہہ دیا (اور یہ آخری دنوں کی بات ہے) کہ دیکھو رزق خدا کا ہے، اس سے فائدہ ہوتا ہے تو میرا تمھارا کچھ نہیں جاتا، یاد رکھو اِس درویش کی خدمت کرو گے تو اِس کا اجر صرف خدا سے پائو گے۔ میں تمھیں کچھ نہیں دے سکتا۔ امجد کو پتا چلا کہ ان سے بِل نہیں لیا جارہا تو ہوٹل آنا چھوڑ دیا۔ اس شخص کو کسی کا بھی تو احسان گوارا نہ تھا۔

میں کہہ رہا تھا مجید امجدآخری وقت تک اپنے دستور و روایات پر قائم رہے مثلاً سردی ہو یا گرمی وہ صبح کی سیر کے لیے ضرور جاتے حتیٰ کہ بارش ہو رہی ہو تو بھی ایک نحیف و نزار شخص آپ کو سیر کرتا ہوا ضرور نظر آئے گا۔ صحت زیادہ خراب ہوئی تو احباب نے مشورہ دیا، ابھی کچھ عرصہ سیر سے احتراز کریں، انہی دنوں انھوں نے یہ شعر کہا:

بچا کے رکھا ہے جس کو غروبِ جاں کے لیے
  یہ ایک صُبح تو ہے سیرِ بوستاں کے لیے
سحر کو نکلا ہوں ’مینہ میں‘ اکیلا کس کے لیے؟
  درخت، ابر، ہوا ،بوئے ہمرہاں کے لیے

جس بوئے ہمرہاں سے امجد کو اتنی محبت تھی، وہ ہمرہاں بھی امجد سے ٹوٹ کر پیار کرتے تھے۔ شاعروں، ادیبوں، کا تذکرہ کیا، میں آپ کو ایک واقعہ سُناتا ہوں۔ اسٹیڈیم ہوٹل میں کسی شاعر نما حاسد نے یہ دیکھ کر کہ اِردگرد کسی سخن فہم کا وجود نہیں، امجدکے بارے میں کچھ نامناسب بات کردی۔ پاس ہی شہر کا ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ واجبی سی تعلیم شاید میٹرک بھی نہیں، اپنا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرتا ہے۔ اس نے سُنا تو غصے میں اپنی کُرسی سے اُٹھا اور چِلانے لگا ’’اپنی زبان بند کرو… امجد ولی ہے ولی… ہم اس کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے۔‘‘ اور پھر وہ بڑبڑاتا ہوا واپس اپنی کرسی پر چلا گیا۔

’’جھنگ نے دو ولی پیدا کیے ہیںــ۔ ایک سلطان باہو اور دوسرے مجید امجد۔‘‘ یہ فقرہ تو میں نے بہتوں کی زبان سے سُنا، آخر کوئی بات تو ہو گی امجد میں جو لوگ یوں  مجھتے تھے۔ میں نے ان جیسی شریف النفس، وضعدار اور مرنجاں مرنج شخصیت اور کوئی دوسری نہیں دیکھی۔  بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ بات چلی تھی امجدمیں کچھ ایسی تبدیلیوں سے جو اِس ساعتِ فراق کی خبر دیتی تھیں۔ خیر تو احباب نے میرے ذمہ جو ذمہ داری لگائی تھی۔ سب کی حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ امجدنے بالآخر کسی بات کا انکار نہ کیا۔ انھوں نے نہایت وضاحت سے اپنی بیماری اور پنشن وغیرہ کے معاملات کی تفصیل بتائی اور میری تجویز کو بھی رد نہ کیا۔

شاید انھیں صرف اس مان کی لاج رکھنا مقصود تھا جو مجھے ان کے سامنے یہ سب کچھ کہنے کا حوصلہ دے رہا تھا یا دوستوں کو میرے بارے میں جو حُسنِ ظن تھا وہ از راہِ محبت اسے توڑنا نہیں چاہتے تھے۔ بہرحال میں اس دن بہت خوش تھا۔  مجھے ڈیڑھ دو ماہ کے لیے لاہور ہی ٹھہرنا پڑا ’زندگی‘ بند جو ہوچکا تھا تو مجھے دو باتوں کا شدید احساس ہوا۔ پہلی تو یہ کہ امجد کے مزاج میں ایک محسوس تبدیلی آ چکی تھی۔ مثلاً یہ کہ پہلے وہ کبھی اپنے بارے میں بات نہیں کرتے تھے، مگر اَب اکثر اپنے ماضی کے قصے سُناتے تھے۔ ’زندگی‘ بند ہونے کے بعد وہ میرے بارے میں زیادہ فکرمند تھے۔

بعد میں مراتب نے بتایا کہ روز یہی تذکرہ لے بیٹھتے… میں آیا تو مجھے سمجھانے لگے بلکہ شاید پہلے کچھ اِس طرح ڈانٹ پلائی، کہنے لگے ’’دیکھو ابھی کل ہی کی بات ہے، ریواز ہوسٹل کی سیڑھیوں سے اُتر رہا تھا اور آج عمر بیت گئی ہے۔ تمھیں ابھی وقت کا احساس نہیں ہے۔ وہ باتیں کر رہے تھے اور میرے ذہن میں اُن کا یہ شعر گونج رہا تھا جو انھوں نے انہی دنوں کہا تھا:

اور اَب یہ کہتا ہوں یہ جُرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا

پھر وہ اپنے قصے سنانے لگے کہ کس طرح انھوں نے ایک طالب علم کی حیثیت سے مختلف تحریکوں میں حصہ لیا، یہ سب باتیں ہمارے لیے نئی تھیں۔ ایک جلوس کی رُوداد سنائی جس میں امجد ان چار طالب علموں میں سے ایک تھے جو مولانا ظفر علی خان کے کہنے پر لاہور کی سڑکوں پر احتجاج کرنے نکلے تھے۔ امجدپہلے تو ایسی باتیں سنانے سے ہچکچاتے تھے اور بھی بہت سی باتیں کہ یوں لگتا تھا امجد نے جس شے کو تمام عمر سمیٹ رکھا ہے اب بکھر رہی ہے اور میں ڈر گیا۔

میں اس بات پر بھی چونکا تھا کہ لاہور میں امجد کا تذکرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ٹی وی اور ریڈیو والے انٹرویو کے لیے ساہیوال آ رہے تھے۔ حلقۂ اربابِ ذوق میں امجد پر نظمیں اور مضمون پڑھے جا رہے تھے۔ ’سویرا‘ کے ظفر اقبال، امجد کی 25,20نظمیں ’سویرا‘ میں چھاپنے کے لیے لے گئے تھے۔ یہ لوگ تو شاید بیماری کی خبر سے متحرک ہوئے تھے مگر میں ڈر گیا کہ امجد کبھی شہرت کا احسان مند نہیں ہوا، اب لوگوں کا ممنون کرم کیسے ہوگا؟ افتخار جالب گزشتہ دنوں کراچی آئے تو کہنے لگے۔ مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے بتائو امجد سے بڑا شاعر آج کوئی ہے۔

بھئی کوئی نہیں ہے ان کا مجموعہ چھپنا چاہیے۔ کوئی ڈھنگ کا پبلشر نہیں ملتا تو خود مل کر ہی چھاپ دیں اور امجد صاحب کو یہ نہ بتائیں کہ کیسے چھاپا ہے۔ میں نے دوست احباب سے مل کر اِس بار اس طرح کے بہت سے منصوبے بنائے تھے مگر یوں لگتا ہے امجد کو اس کی خبر ہوگئی اور وہ بھلا کسی کے ممنون احسان کیوں ہونے لگے سو دُنیا ہی سے چل دیے اور اَب ہم ساری زندگی یہی داغ سینے میں لیے رہیں گے کہ افسوس ان کی زندگی میں اس کے لیے کچھ نہ کرسکے۔
امجدکے قُرب نے ہماری بھی کچھ ایسی تربیت کر رکھی تھی کہ میں تو عموماً ان کا تذکرہ کرنے سے اس لیے کنی کتراتا رہا کہ لوگ یہ نہ کہیں ذاتی تعلقات کی وجہ سے میں انھیں اس دور کا سب سے بڑا شاعر سمجھتا ہوں۔ حالاں کہ مجھے قسم ہے اس دور کی کہ جس میں خودزندہ ہوں، امجد اس دور کا سب سے بڑا شعری ذہن ہے۔ گزشتہ چار پانچ ماہ سے جب مختلف نشستوں میں امجد کے اس تذکرۂ عظمت کو اپنے لبوں پر آنے سے روک نہ سکا تو ایک دن خوف سا ہوا تھا کہ میرے اندر سے بھی وہ اُصول کرچی کرچی ہو کر بکھر رہا ہے جو امجد ہی کے قرب نے مجھے سکھایا تھا۔ میں ڈر گیا، امجد میرے تذکرۂ لب کے احسان مند نہیں ہوسکے۔ کہیں وہ روٹھ ہی نہ جائیں۔

مجھے وہ دن کبھی نہیں بھولتا جب ایک چلچلاتی دوپہر، مراتب اختر اور میں امجد کو ملنے ان کے دفتر جا ر ہے تھے، میرے لبوں سے یہ حرف دُعا نکلا ’’اگر کبھی ہم امجد کا بُرا سوچیں تو اے خدا ہم سے ہماری سب صلاحیتیں چھین لینا۔‘‘ مراتب اختر کے منہ سے بے ساختہ آمین نکلا۔ میں نے ایسی دُعا کسی کے لیے نہیں مانگی جو اپنے لیے بد دعا بھی ہوسکتی ہو۔ لیکن میں کیسے بتائوں وہ کتنے بڑے تھے، مجھے خود پر قابو کہاں ہے کہ بات کر سکوں۔ گزشتہ دس سال کی رفاقت کا لمحہ لمحہ میرے سامنے کئی سوال لیے کھڑا ہے۔ بس اتنا جانتا ہوں جب تعصبات و تعلقات کی گرد بیٹھے گی تو اِس عہد کے شاعروں میں روشن ترین نام مجید امجد کا ہوگا۔ اسے ابھی مرنا نہیں چاہیے تھا۔

اس کے بغیریہ عہد اپنا مفہوم کھو بیٹھا ہے۔ حرف مر گیا تو معافی کی خوشبو کہاں ڈھونڈنے جائیں اور جب یہ خوشبو قابو میں نہ رہے تو زمینیں بنجر ہوجاتی ہیں اور اُن پر گُلاب کھلنا بند ہوجاتے ہیں۔ مصطفی زیدی نے
اپنی ایک نظم میں امجد کو یوں مخاطب کیا تھا:

اے واقفِ اسرارِ دلِ ہوز و ابجد

مگر آج تو ہوز و ابجد کے دل ہی کی دھڑکن رُک گئی۔ اب اس کے اَسرار کیسے کھلیں گے؟
میں اس وقت اپنے شہر سے دُور یہ حرف لکھ رہا ہوں، وہ شہر جہاں امجد نے رُبع صدی گزاری۔ مجھے نہیں خبر وہاں مراتب اختر پر کیا بیتی ہوگی، قیوم صبا کس حال میں ہوگا؟ ناصر شہزاد اور اشرف قدسی نے اس خبر کو کیسے سُنا ہوگا۔ اسٹیڈیم ہوٹل کا بیرا طفیل کس طرح رویا ہوگا؟ بھائی گوہر ہوشیار پوری تم تو بڑا زور دار نوحہ لکھ کر اپنا غم ہلکا کر لو گے میں اپنا دُکھ میلوں دُور بیٹھ کر کیسے کہوں، کس سے کہوں؟ ٹھیک ہے کہ یہاں بھی کہرام مچ گیا ہے۔ سلیم احمد سر پکڑے بیٹھے ہیں، قمر جمیل رُو رہے ہیں اور احمد ہمیش بوکھلایا بوکھلایا پھر رہا ہے، مگر میرا دُکھ کون سنے گا؟

غبارِ رنگ میں رَس ڈھونڈتی کرن، تری دُھن!
گرفتِ سنگ میں بَل کھاتی آب جُو ترا غم
مجید امجد
 
آسمانِ نظم کا تابندہ ستارہ
اختر عباس | گوشہ مجید

 

پلٹ پڑا ہوں،شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایّا م پر عصا رکھتا

یہ منفرد آواز مجید امجد کی ہے، جو ان کے دنیا سے رُخصت ہونے کے 40سال (وفات 11مئی 1974ئ) مکمل ہونے پر بھی حیران کیے دیتی ہے۔ انھیں آج بھی آسمانِ نظم کا تابندہ ستارہ مانا جاتا ہے۔ بلاشبہ اُردو نظم کو نئے رجحانات سے ہم کنار کرنے والی یہ شاعری دورِغلامی سے طلوعِ آزادی تک کے سفر پہ مشتمل ہے۔ ذاتی زندگی کے دُکھ، تنہائی، اکیلا پن اور محرومیاں ان کے اشعار میں روزن بنائے جگہ جگہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔

او مسکراتے تارو او کھلکھلاتے پھولو
کوئی علاج مری آشفتہ سری کا

مجید امجد کی تخلیقی عمر کا بڑا حصہ جھنگ اور منٹگمری میں گزرا۔ محبت سے محرومی اور مالی ناآسودگی کا شکار رہنے کے باوجود ان کے شعری ذوق کی خوب صورتی اور حسنِ ادا نے 60ء کی دہائی میں انھیں فیض احمد فیض، ن، م راشد کے پائے کا شاعر بنا دیا تھا۔ تب یہ بحث ہوا کرتی تھی کہ میرا جی کے بعد ان تینوں میں بڑا شاعر کون ہے۔  ان کا پہلا شعری مجموعہ شبِ رفتہ 1958ء میں شائع ہوا، دوسرا 1976ء میں اور کلیات ِ مجید امجد 1989ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔

انھیں انگریزی، ہندی، عربی اور فارسی پر عبور تھا مگر ان کی شاعری کی ایک خوبی یہ بھی مانی جاتی ہے کہ فارسی اور عربی کے الفاظ اور تراکیب فیض اور راشد کی طرح استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ ڈسٹرکٹ بورڈ جھنگ میں کلرک اور محکمۂ خوراک میں انسپکٹر رہے۔مختلف ذائقے کی شاعری کے علاوہ ایک پرانی سائیکل، ایک جرمن خاتون شالاط سے ناکام محبت ان کی میراث تھی۔

ترے خیال کے پہلو سے اُٹھ کے جب دیکھا
مہک رہا تھا زمانے میں سُو بہ سُو ترا غم

کسی نے ان سے پوچھا تھا آپ نہ ترقی پسندوں میں سے ہیں نہ اسلام پسندوں میں سے پھر شعر کس لیے کہتے ہیں۔ بولے جب تک زمین سورج کی روشنی سے زندہ رہے گی یہاں ایک چیز جاری رہی ہے اور وہ عملِ خیرکا تسلسل اور میں اِسی تسلسل میں شعر لکھتا ہوں۔ خواجہ رضی حیدر کا شکریہ کہ جنھوں نے بڑی کاوش کے بعد مجید امجد پر ایک عمدہ کتاب ’’مجید امجد ایک منفرد آواز‘‘ ترتیب دے کر آج کے قارئین کو مجید امجد سے ملوانے کا اہتمام کیا۔ یہ گوشہ شبِ رفتہ کے شاعر اور مسافر کے نام کہ جس کی آرزو تھی۔

کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول

http://urdudigest.pk/asmane-nazam/

​​آسمانِ نظم کا تابندہ ستارہ
اختر عباس | گوشہ مجید

 

پلٹ پڑا ہوں،شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
​      ​نشیبِ زینۂ ایّا م پر عصا رکھتا

یہ منفرد آواز مجید امجد کی ہے، جو ان کے دنیا سے رُخصت ہونے کے 40سال (وفات 11مئی 1974ئ) مکمل ہونے پر بھی حیران کیے دیتی ہے۔ انھیں آج بھی آسمانِ نظم کا تابندہ ستارہ مانا جاتا ہے۔ بلاشبہ اُردو نظم کو نئے رجحانات سے ہم کنار کرنے والی یہ شاعری دورِغلامی سے طلوعِ آزادی تک کے سفر پہ مشتمل ہے۔ ذاتی زندگی کے دُکھ، تنہائی، اکیلا پن اور محرومیاں ان کے اشعار میں روزن بنائے جگہ جگہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔

او مسکراتے تارو او کھلکھلاتے پھولو
کوئی علاج مری آشفتہ سری کا

مجید امجد کی تخلیقی عمر کا بڑا حصہ جھنگ اور منٹگمری میں گزرا۔ محبت سے محرومی اور مالی ناآسودگی کا شکار رہنے کے باوجود ان کے شعری ذوق کی خوب صورتی اور حسنِ ادا نے 60ء کی دہائی میں انھیں فیض احمد فیض، ن، م راشد کے پائے کا شاعر بنا دیا تھا۔ تب یہ بحث ہوا کرتی تھی کہ میرا جی کے بعد ان تینوں میں بڑا شاعر کون ہے۔  ان کا پہلا شعری مجموعہ شبِ رفتہ 1958ء میں شائع ہوا، دوسرا 1976ء میں اور کلیات ِ مجید امجد 1989ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔

انھیں انگریزی، ہندی، عربی اور فارسی پر عبور تھا مگر ان کی شاعری کی ایک خوبی یہ بھی مانی جاتی ہے کہ فارسی اور عربی کے الفاظ اور تراکیب فیض اور راشد کی طرح استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ ڈسٹرکٹ بورڈ جھنگ میں کلرک اور محکمۂ خوراک میں انسپکٹر رہے۔مختلف ذائقے کی شاعری کے علاوہ ایک پرانی سائیکل، ایک جرمن خاتون شالاط سے ناکام محبت ان کی میراث تھی۔

ترے خیال کے پہلو سے اُٹھ کے جب دیکھا
مہک رہا تھا زمانے میں سُو بہ سُو ترا غم

کسی نے ان سے پوچھا تھا آپ نہ ترقی پسندوں میں سے ہیں نہ اسلام پسندوں میں سے پھر شعر کس لیے کہتے ہیں۔ بولے جب تک زمین سورج کی روشنی سے زندہ رہے گی یہاں ایک چیز جاری رہی ہے اور وہ عملِ خیرکا تسلسل اور میں اِسی تسلسل میں شعر لکھتا ہوں۔ خواجہ رضی حیدر کا شکریہ کہ جنھوں نے بڑی کاوش کے بعد مجید امجد پر ایک عمدہ کتاب ’’مجید امجد ایک منفرد آواز‘‘ ترتیب دے کر آج کے قارئین کو مجید امجد سے ملوانے کا اہتمام کیا۔ یہ گوشہ شبِ رفتہ کے شاعر اور مسافر کے نام کہ جس کی آرزو تھی۔

کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 976