donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Manzar Ejaz
Title :
   Dr Suhail Mere Dost Mere Masiha

 

ڈاکٹر سہیل میرے دوست ،میرے مسیحا
 
ڈاکٹر منظر اعجاز ،صدر پوسٹ گریجویٹ شعبہ اردو ،اے این کالج ، پٹنہ ۔
 
800013
09431840245
 
ڈاکٹرسہیل احمد اور میں 1927کے نصف دوم میں وارد شہر مظفر پور ہوئے تھے ۔انہوںنے شری کرشن میڈیکل کالج کے چوتھے بیچ اور 72-73سیشن میں داخلہ لیا تھا ۔میں 1971کے نصف دوم میں بہار فارمیسی کالج ، پٹنہ میں داخلے کے لئے پٹنہ آیا تھا لیکن جو چاہا تھا نہ ہوسکا اور ناکام حسرتوں کے ساتھ پٹنہ سے اپنے گائوں رسول پور ترکی ،نزد بھگوان پور ریلوے اسٹیشن سے ہوتا ہوا مظفر پور پہنچا تھا ۔یہاں 1974کے نصف دور میں سینے میں دبی ہوئی شاعری کے شوق کی چنگاری بھرکی ۔تقریباً دو سال تک ظفر عدیم سے ہر روز ملاقات ہوتی رہی تھی لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ شاعر وادیب بھی ہیں اور رسائل و جرائد می ںان کی بعض تحریر یں شائع بھی ہوچکی ہیں ۔یہ جاننے کے بعد میرا اشرار شوق شعلہ بن کر بھڑکنے لگا۔
 
میں اس سے پہلے سے بے خوابیوں کا شکار اور سحر خیز تھا ، تقریباً فجر کی اذان کے وقت بیدار ہوجایا کرتا تھا اور کسی نہ کسی دوست کے درپر دستک دے ڈالتا تھا ۔ظفر عدیم صاحب کا اگر ٹور پروگرام نہیں ہوتا تو ان ہی کی کنڈی کھٹکھٹاتا ۔اس کے بعد چائے وائے اور گفتگو کا سلسلہ دیر تک چلتا رہتا ۔گفتگو بالعموم شعر و ادب سے متعلق ہوا کرتی تھی ۔کبھی دالان سے لگے ہوئے کمرے میںاور کبھی برآمدے والے بینچ پر بیٹھک جمتی ،کمرے میں بیٹھنا ہوتا تو دروازہ کھلا رہتا اورسامنے سے سڑک پر گذرتے ہوئے لوگ دکھائی دیتے ۔اسی دوران پہلی بار ڈاکٹر سہیل احمد پر نظر پڑی تھی حالانکہ ابھی وہ ڈاکٹر نہیں ہوئے تھے لیکن مستقبل قریب میں تو ڈاکٹر ہونا ہی تھا ۔ظفر ندیم بالعموم انہیں ڈاکٹر صاحب کہہ کر ہی مخاطب کرتے تھے ۔ظفرندیم کے دروازے سیان کا گزر ہوتا تو علیک سلیک کے بعد خیر و عافیت معلوم کرنے رسم عام تھی ۔دراصل وہ جس مکان میں رہتے تھے وہ پکی سرائے والی مسجد کے ٹھیک سامنے ملک جی کا مکان تھا۔اس کے ایک کمرے میں ڈاکٹر سہیل اور ڈاکٹر شکیل دونوں بھائی رہتے تھے ۔کمرے کی عقبی کھڑکی ظفر عدیم کے برآمدے کی طرف کھلتی تھی او رغالباً بلا ضرورت نہیں کھلتی تھی ۔غالباً شیو کرتے وقت کھلتی تھی کیوں کہ پورب سے روشنی آتی تھی ۔اس موقع پر بھی علیک سلیک اور خیرو عافیت کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا ۔میںنے پہلی بار اسی دوران ان دونوں بھائیوں کو دیکھا تھا ،دونوں ہی خوبرو نوجوان تھے 
 
ڈاکٹر سہیل احمد کا نکلتا ہوا قد، پتلا چھر ہرا بدن اور گندمی رنگ تھا ، پیشانی کشادہ ،آنکھیں مجھولی اور قدرے بھوری حائل تھیں ۔میری ہی طرح کم آمیز او رکم سخن تھے ۔میڈیکل سائنس کے طالب علم تھے ۔دابی ذوق فطری اورمورثی تھا۔شعرو سخن کی صلاحیت خداداد تھی لیکن علمی اکتسابی مصروفیات کی وجہہ سے انہوں نے حلقہ ادب میںاس حیثیت سے خود کو متعارف نہیں کرایا تھا جبکہ ماہنامہ انجو 1977-78کی اشاعت کے دوران شکیل احمد اکثرانجو کے دفتر میںاجایا کرتے تھے ۔پروفیسر خواجہ امین صاحب مرحوم سے ان کی بڑی قربت تھی ۔اکثر دونوں ایک ساتھ ہی وار ہوتے۔لیکن سہیل احمد سبھی ’’انجو‘‘ کے دفتر تشریف نہیں لائے ۔’’انجو ‘‘ بند ہوگیا۔انجو فیملی کا شیرازہ بکھر گیا ۔ظفر عدیم اور چندر بریلوی بمبئی چلے گئے ۔ہم نوجوانوں کی ادبی سرگرمیاں سرد پڑنے لگیں ۔لیکن 1980میں اپنی تعلیمی مصروفیات سے فراغت کے بعد ڈاکٹر سہیل احمد نے باضابطہ پریکٹس شروع کردی۔پہلے تو انہوںنے اپنے رہائشی کمرے کو ہی پیتھو لوجیکل لیب Pathological labبنایا۔اس کے بعد گرین میڈیکل ہال ، کنہولی ناکہ روڈ میں میڈیکل پریکٹس شروع کی ۔میں قریب ہی میں حاجی نوح کے ایک کمرے میں رہا کرتا تھا ۔چند نوجوان ہندی ادیب و صحافی حلقہ احباب میں تھے ۔انہی کے مشوروں کے انسکاس کے رجسٹریشن کی تگ ودود میں مصروف تھا۔اس سلسلے کے مشوروں میں ڈاکٹر سہیل احمد بھی شامل تھے ۔انہی دنوں ان کے ادبی و شعری ذوق کا علم ہوا ۔وہ افسانے بھی لکھتے تھے اور غزلیں بھی کہتے تھے۔فرصت کے اوقات میں سننے سنانے کا بھی موقع نکل آتا تھا ۔1980اور 81کے رمضان المبارک کے مہینوں میں ہم دونوں نے ایک ساتھ شب بیداری کی تھی لیکن اس کی نوعیت مختلف تھی۔نماز اور رات کے کھانے کے بعد تقریباً دس بجے ہم پکی سرائے پہنچ جاتے ،الیاس نجم (مرحوم )شاعر تھے او رنہایت ہی ستھرا اور نفیس مذاق رکھتے تھے ۔چائے بسکٹ کی ایک مختصر سی دکان تھی لیکن رمضان کے مہینے میںلسی ،فالودہ ،فیرنی وغیرہ کا اضافہ ہوجاتا تھا۔دور تک کرسیاں بچھی رہتی تھیں اور شائقین ان کی کرسیوں پر دور تک پھیلے اور آسن جمائے نظر آتے تھے ۔نوجوان ادبی دوستوں کی تعداد بھی درجن ڈیڑھ درجن ہوا کرتی تھی ہم لوگ دیر تک چائے ،سگریٹ کے شغل فرماتے رہتے تھے لیکن بارہ بجتے بجتے دوسرے احباب تو اپنے اپنے آشیانے کی طرف کوچ کرجاتے تھے ۔ہم آسن جمائے بیٹھے رہتے ۔اس دوران شعر و ادب کی گفتگو جاری رہتی۔
 
یہ وہ زمانہ تھا جب ترانہ سحر کی دھوم تھی ۔کئی کئی قافلے ادھر سے گذرتے ۔تھوڑی دیر تک پکی سرائے چوک پر بھی ٹھہرتے ۔چائے وائے کا دور بھی چلتا ۔ان دنوں ترانہ سحر سے میری تخلیقی وابستگی بھی تھی ۔چند قافلے والے دیدہ و شنیدہ لوگ تھے ۔ان کے اصرار پر میں کبھی کبھار قلم فرسائی کرتا ۔اکثر مقابلے بھی منعقد ہوتے ۔ان میں جیوری کی حیثیت مدعو بھی کیاجاتا تھا۔بہر حال پکی سرائے چوک پر ایک خاص قسم کی چہل پہل اور رونق دیکھنے کو ملتی تھی ۔سماں سہانہ ہوتا تھا ۔ہم اس سے بیحد لطف اندوز ہوتے ،جب فجر کی اذان کا وقت قریب آتا تو ایک پیالی فیرنی یا کھیر لیتے ۔چائے اور سگریٹ پیتے او راذان کی آواز سننے پر ہم اپنے اپنے لوج کی طرف کوچ کر جاتے تھے ۔
 
انعکاس کا اجرا پندرہ روز کے طور پر ستمبر 1981میں ہوا ۔میری کوشش کی تھی کہ انجو فیملی کا منشر شیرازہ انعکاس کے مرکز پرسمٹ آئے ۔اس سلسلے میں صلاح و مشورے کے لئے کئی نشستیں منعقد کیں۔احباب کو شرکت کی دعوت دی ۔لیکن اب ظفر عدیم اور چندر جیسے مخلص احباب شہرمیںموجود نہیں تھے ۔ڈاکٹر سہیل احمد کا تو دن رات کا ساتھ تھا ۔وہ ہر نشست میںپابندی وقت کے ساتھ شامل ہوتے رہے۔ایک دو دوست اور بھی آتے جاتے گئے لیکن مجموعی صورت حال ماحوس کن اور حوصلہ شکن ہی رہی ۔اس کے باوجود میںنے کمیٹی کی تشکیل کردی اور کسی نے کسی حانے میں تمام احباب کو سمیٹ لیا۔جب لیٹر ہیڈ چھپ کر آیا تو بنڈل گرین میڈیکل ہال ہی میں تھا ۔ڈاکٹر سہیل احمد کی اس پر نظر پڑی انہوں نے دیکھا تو برہم ہوئے اور یہ سب کچھ میرے غائبانے میںہوا تھا ۔جب میں وہاں پہنچا تو ان کے چہرے پر برہمی کے آثار ہنوز موجود تھے ۔انہوںنے اپنے نام پر بری طرح سے قلم تنسیخ پھیر دیا تھا ۔مجھ کو مخاطب کیا او رکہاکہ ’’میں اس ادارے میں نہیں ہوں گا ۔میںہکا بکا سا ان کا منھ دیکھتا رہا ۔وہ کہنے لگے کہ جب لوگ بار بار بلانے پر بھی مشاورت کی نشستوں میں شریک نہیں ہوئے تو واضح ہے کہ ان کیاس سے کوئی دلچسپی نہیں۔پھر ان سے تعاون کی امید رکھنا حماقت ہے ۔آپ نے کس امید پر ایسے لوگوں کو ادارے میںشامل کرلینا مجھ سے پوچھا ہوتا تو میں ہرگز اس کی رائے نہ دیتا۔‘‘
 
حقیقت تو یہ تھی کہ احباب کی عدم دلچسپی کے باوجود سہیل صاحب سے کوئی مشورہ نہیں کیا تھا ۔بیشتر احباب کی سرد مہری مجھ پر واضح تھی ۔باوجود اس کے ادبی رشتے کی بنا پر ان کے لئے میرے دل میںنرم گوشہ موجود تھا۔میںنے اپنے طور پر صفائی پیش کی اور سہیل صاحب کو کچھ دیر تک سمجھاتا رہا ۔لیکن صورت حال کے پیش نظریہ باتیں سمجھ میں نہ آنے والی تھیں ۔نہ آئیں ۔میں اپنے طور پر انعکاس نکالتا رہا ،بلکہ اسے جھیلتا رہا ۔یہاں تک کہ 1983میں اس کا صحیح فراق نمبر بھی شائع کیا۔
سہیل صاحب کی شادی 1981اور 1983کے درمیان ہی ہوئی تھی ،اس کے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے ۔وہاں کئی برسوں تک ملازمت کرتے رہے ۔جب چھٹیوں میںوطن واپس آئے تو مظفر پور کا چکر بھی لگاتے اور احباب کو ڈھونڈ کر ملتے ۔مجھ سے ملاقاتیں رہتیں ۔حاجی لوج میں ہم لوگ ایک ساتھ تھوڑا وقت گذارتے او راپنے اچھے برے تجربات شیئر کرتے ۔خط و کتابت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا۔
 
ڈاکٹر سہیل احمد نے سعودی عرب میںکنگ فہد ہاسپیٹل میں غالباً پانچ سال ملازمت کی ۔اس کے بعد وہ وطن واپس آئے اور پٹنے میں مستقل سکونت اختیارکرلی ۔سعودی کی ملازمت کے دوران ہی نیو عظیم آباد کالونی میں ان کا اپنا مکان بن کر تیار تھا جو غالباً ان کے عزیز و اقارب کی دیکھ ریکھ میں بنا تھا ۔انہوںنے یہاں ڈاکٹر سی پی ٹھاکر کے نرسنگ ہوم میں ملازمت اختیار کرلی تھی ۔میں جب مظفر پور سے پٹنہ اپنے ریسرچ کے سلسلے میں یا کسی دوسری ضرورت سے آتا تو میرا قیام مع طعام ان ہی کے مکان پران کے ساتھ ہوتا ۔فرائض منصبی کی انجام دہی کے بعد جو وقت ملتا ،اس میں وہ شعر و شاعری اور افسانہ نویسی کے تخلیقی عمل سے شغل فرماتے رہتے۔جب ہم ساتھ مل بیٹھتے تو سننے سنانے کا دور چلتا رہتا ۔تبادلہ خیال بھی ہوتا رہتا ۔تنقید یں بھی ہوتیں ۔وہ ان دنوں چھپنے چھپانے کی طرف بھی مائل تھے ۔میں بھی اپنے کیریئر میکنگ (Carreer Making) کی طرف متوجہ تھا ۔مختلف رسائل ، و جرائد میں مضامین شائع ہو رہے تھے ۔مگدھ یونیورسٹی میں لیکچر شپ (Lecturship) کے لئے درخواست دے رکھی تھی ۔انٹرویو(Interview) کے لئے کال لیٹر (Call letter) کا انتظار تھا۔بالآخر انتظار کی گھڑی ختم پرآئی ۔انٹرویو کے لئے مارچ 1992میں Call letterموصول ہوا ۔انٹرویو بہار اسٹیٹ یونیورسٹی کمیشن کے دفتر واقع بورنگ روڈ میں ہونے والا تھا میں مقررہ تاریخ سے ایک دن پہلے ہی پٹنہ آگیا اور حسب معمول ڈاکٹر سہیل احمد کے مکان پرقیام کیا۔مارچ کی کوئی تاریخ تھی ۔اتفاق سے رمضان بھی اسی مہینے میں شروع ہوگیا تھا ۔حسب معمول میں بھی روزہ داروں میں تھا۔ان دنوں ڈپریشن (Dipression) اور ہائپر ٹنشن (High Pertension) کچھ زیادہ ہی تھا۔عجیب طرح کی بے چینی تھی ۔مچھر دانی کے باوجود مچھروں کی یلغار بھی ایسی تھی کہ پلک کا جھپکنا دشوار ہوگیا تھا ۔ذہن میںیہ بات تھی کہ پتہ نہیں کیا کچھ پوچھا جائے اس سلسلے میںکچھ قیاسی سوالات ذہن میں ابھرتے رہے او رمیں جواب بھی دل ہی دل میں مرتب کرتا رہا ۔اسی اثنا میں سحری کا وقت بھی آگیا۔مچھروں کی یلغار کی وجہ سے دو ٹوسٹ ،ایک ابلا ہوا انڈا اور ایک پیالی چائے لینے میں بھی دقتیں پیش آئیں ۔اس کے بعد وقت ہی کیا بچ رہا تھا نیند کو نہ آنا تھا نہ آئی ، نہادھوکر تیار ہوا اور دورکعت نفل ادا کی اور مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی انٹرویو میں شریک ہونے کے لئے نکل گیا۔
’’اقبال اور قومی یکجہتی ‘‘ نظر ثانی کے مرحلے میں تھی ۔پٹنہ کی لائبریریوں سے استفادہ کے لئے آنے جانے کا سلسلہ جاری تھا ۔اس دوران شب بسری کی نوبت آتی تو قیام و طعام سہیل صاحب کے ساتھ ہی ہوتا تھا ۔ستمبر کی کوئی تاریخ تھی میں لائبریری کے کام سے ہی پٹنہ آیا تھا ۔یہاں اڑتی پڑتی خبر ملی کہ مگدھ یونیورسٹی میںاردو لکچرار کے تقرر کے سلسلے میں جو انٹرویو ہوا تھا اس کا پینل ریلیز ہوچکا ہے ۔سہیل صاحب نے کہا کہ ’’یہاں آہی گئے ہیں تو پتہ کر لیجئے ‘‘۔ ایک دو روز ادھر اُدھر مارا مارا پھرا۔لیکن کچھ معلوم نہ کرسکا۔البتہ یہ معلوم ہوگیا کہ پینل یونیورسٹی کو بھیجا جاچکا ہے ۔یونیورسٹی کے اردو حلقے میںاب یہ بات ڈھکی چھپی نہ ہوگی ۔ایک عزیز نے رائے دی کہ یونیورسٹی چلے جائیے اور ایک تیز قسم کے دوست کو ساتھ کردیا۔مصارف کے سلسلے میں مشکل یہ تھی کہ میں تنہا بھی یونیورسٹی کا چکر لگانے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔پھر دو آدمی کے اخراجات برداشت کیسے کرسکتا تھا ،میری مشکلوں کو دیکھتے ہوئے سہیل صاحب نے خود ہی دست تعاون بڑھایااور میری مشکل حل ہوگئی ۔جب تصدیق ہوگئی کہ اس پینل میںمیرا نام شامل ہے تو سہیل صاحب کی خوشیوں کی انتہا نہ رہی۔
 
ایس یو کالج ، ہلسہ جو ائن کرنے کے بعد بھی پٹنہ کی لائبریریوں سے استفادے کے لئے آنے جانے کا سلسلہ برقرار رہا ۔تقریباً پونے پانچ برسوں تک میں ہلسہ کی ملازمت میں رہا ۔اس دوران پٹنہ آتا تو قیام سہیل صاحب کے ساتھ ہی ہوتا ۔اس دوران کچھ دنوں تک محمد شمس تبریز اسلم بھی ٹرانسفر ہوکر ایس یو کالج ،ہلسہ آگئے تھے ۔وہ بھی نیو عظیم آباد کالونی ہی میں رہا کرتے تھے ۔چنانچہ ہم دونوں اکثر ساتھ ہی آتے جاتے رہے ۔
 
اسی دوران میں نے اپنے ڈپریشن اور ہائپرٹنشن کا علاج بھی ڈاکٹر سہیل ہی سے کرایا۔ان کی تشخیص بہت اچھی تھی ۔مجھے حیر انگیز طور پر فائدے کا احساس ہوا ۔اس طرح وہ میرے مسیحا بھی بن گئے تھے ۔لیکن میں ہی کیا ،میرے کئی عزیز واقارب اور لواحقین بھی علاج معالجے کے سلسلے سے ان کے بعد معتقد تھے ۔خود میرے افراد خانہ کو ان سے عقیدت اور بڑی ڈھارس تھی ۔میری عدم موجودگی میں بھی ان سے طبی مشورے بدریعہ آلہ اہوات بعید حاصل کرلئے جاتے تھے ۔کبھی بھی ایسا نہ ہوا کہ ان کی دوائوں اور مشوروں سے فائدہ نہ ہوا ہو ۔وہ دست شفا بھی تھے ۔دوائوں کے انتخاب کے وقت مریضوں کی جیب کا بھی خاصہ خیال رکھتے تھے ۔جانچ پڑتال کے معاملے میں بھی بے حد محتاط رویہ ہوتا تھا ۔مریضوں پر غیر ضروری بوجھ بالکل ہی نہیں ڈالتے تھے اور ضروری ہو تو اسے نظر انداز بھی نہیں کرتے تھے ۔
 
ڈاکٹر سہیل احمد بڑے ہی بااصول تھے ۔ان کا اصول نظری نہیں عملی تھا ۔مریضوں کے ساتھ امتیازی سلوک وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے ۔اس وجہ سے کبھی کبھی ان کے دوستوں کو بھی ان کا یہ رویہ پریشانی میں ڈال دیتا تھا ۔اس سلسلے میں وہ کسی بااثر مریض کی سفارش کبھی نہ سنتے تھے ۔مولانا سجاد میموریل ہسپتال میں میڈیکل آفیسر ہونے کی وجہ سے عمارت سے متعلق کچھ لوگ کبھی کبھی پیروی سے بھی اپنا کام نکالنے کی کوشش کرتے تھے ۔اکثر دوست بھی اُس خوش گمانی میں مبتلا ہوجاتے کہ ازراہ دوستی خصوصی عنایات سے نوازیں گے ۔خاص طور سے بغیر نمبر لگائے ہی ان کے معائنے کو اولیت دیں گے ۔ایسے لوگوں کو اکثر ان سے مایوسی ہوئی ۔ملنے جلنے والوں کو بھی ڈیوٹی کے اوقات میں ان سے ملنے میں پریشانی ہوتی تھی ۔خود میں بھی کبھی بے وقت یعنی ڈیوٹی کے اوقات میں پہنچ گیا تو انہوںنے صاف صاف لفظوں میں کہا ۔جائیے کہیں لاٹ کھائیے ۔فلاں وقت آیئے اوراگر وقت نہ ہو تو چلے جائیے ، پھر کبھی ملاقات ہوگی ۔لیکن لمبے عرصے کا ساتھ رہا ، اس لئے میں ان کے مزاج و میلان سے واقف تھا، اس لئے مجھے ان کا اس طرح کا سلوک کبھی گراں نہیں گزرا ۔مریضوں میں انہیں اسی وجہہ سے ہر دل عزیزی حاصل تھی ۔وہ مذہب و ملت ، ذات پات اورسماجی حیثیت کی تفریقات سے بلند ہوکر مریضوں کے ساتھ یکساں سلوک کے قائل تھے ۔اس سلسلے میں ان کی رواداری مثالی تھی ۔اگر اس دوران اچانک کوئی شعر ذہن میں تخلیق پاجاتا تو وہ اسے بھی نقل کرنے کے رواداد نہ ہوتے اور اکثر ایسے اشعار ذہن کے محو ہوجاتے ۔یعنی اپنے فرائض منصبی کی تکمیل میں اس قدر دیانت دار تھے کہ اپنے ذوق کی تسکین کا سامان کرنے سے بھی قاصر رہے ۔اسی وجہہ سے بحیثیت افسانہ نگار یا بحیثیت شاعر وہ اپنی خصوصی پہچان نہ بناسکے ۔
 
ڈاکٹر سہیل احمد جیسا کہ عرض کیاگیا ،شاعر بھی تھے او رافسانہ نویس بھی ۔کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ شاعری میں شفق تخلص فرماتے تھے ۔
شیشۂ دل شفق ٹکڑے ٹکڑے ہوا
دوستوں کی نوازش تھی ،احسان تھا
اور افسانے احمد سہیل کے نام سے لکھتے اور چھپتے تھے ۔ایک زمانے میں ان کی شعری اور افسانوی تخلیقات تواتر اور تسلسل کے ساتھ موقر رسائل و جرائد میں شائع ہوا کرتی تھیں ،چنانچہ شاعر کے ’’ہمعصرادی نمبر ‘‘ میں بھی ان کی تعارفی خاکے کے ساتھ ان کی غزل شائع ہوتی ۔علاوہ ازیں شاعر کے عام شماروں ’’گلبین ‘‘ ’’روح ادب‘‘ اور دوسرے رسالوں میں بھی ان کی شعری اور نثری تخلیقات شائع ہوتی رہیں ۔جہاں تک مجھے معلوم ہے ،اس فن میں ان کا کوئی استاد نہ تھا۔وہ وہی صلاحیتوں کے مالک تھے ۔نشستوں میں کم ہی شریک ہوتے ، دوستوں کی نجی محفلوں میں شریک ہوا کرتے تھے ۔اظہار خیال کی دعوت بھی دیا کرتے تھے ۔اس طرح سے کبھی کبھار فنی بے رکت بات کی صورت بھی پیدا ہوجاتی تھی ۔وہ کھڑا مزاج رکھتے تھے اور دو ٹوک اظہار خیال کے قائل تھے۔ مصلحت کوئی اور مصلحت پسندی ان میں قطعی نہ تھی ، ان کی شخصیت کے یہ امتیازی آیات و آثار تھے ۔یہی وجہہ تھی کہ مخلص دوستوں کے درمیان ان کی شخصیت غنیمت سمجھی جاتی تھی ۔ڈاکٹر سہیل احمد نے ایک دفعہ میرے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ’’انعکاس ‘‘ کی تجدید کی جائے اگر دس مخلص دوست ساتھ ہوجائیں اور ہر ماہ صرف ایک سو روپیہ نکال دیں تو سال میں دو ، تین چار شمارے انعکاس کے نکالا ئے جاسکتے ہیں ۔انہوںنے دو نام کی تجویز تو اپنے گھر ہی سے پیش کی ۔تین نام میں نے دئے اور اپنی رقم ان کے پاس جمع بھی کرنے لگا ۔کئی ماہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ایک موقع پر انہوں نے اپنے مخلص دوستوں کی ایک نشست منعقد کی ۔خلاف توقع لوگ نہیں آئے ۔وہ برگشتہ و برہم ہوئے ۔اس کے بعد مجھ سے ملاقات ہوئی تو برجستہ بولے ‘‘ آپ کی جو رقم انعکاس کے سلسلے میں جمع ہے لیتے جائیے ۔میں اپنی تجویز واپس لیتا ہوں ۔‘‘ میرے سابقہ تجربات بھی ایسے ہی تھے اس لئے مجھے کوئی حیرت نہ ہوئی ۔
 
ڈاکٹر سہیل احمد کے پس منظر سے جو لوگ واقف ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ ان کا گھرانہ سیاسی رہا ہے ۔ان کے دادا احمد عفور صاحب مرحوم مجاہد آزادی بھی تھے اور آزادی سے قبل بہار کے لیجس لیٹو کونسل کے ممبر بھی تھے ۔والد گرامی شکور احمد صاحب بھی مجاہد آزادی تھے اور کانگریس کے دور حکومت میں عرصہ تک بہار کے ڈپٹی اسپیکر رہے ۔ڈاکٹر شکیل احمد کا کانگریس میں جومقام و مرتبہ تھا اورہے ، وہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن کم لوگوں کو معلوم ہوگاکہ اس گھرانے کی گہری وابستگی جہاں سیاست سے رہی ہے ،وہیں گہرا تعلق علم و ادب سے بھی رہا ۔احمد عفور صاحب بھی شعر گوئی کا ذوق رکھتے تھے اور اپنی شاعرانہ صلاحیت سے کبھی کبھی سیاسی اور سماجی فائدے کی صورت بھی نکال لیتے تھے ۔ڈاکٹر سہیل احمد کے چچا پروفیسر سید احمد صاحب (پروفیسر آف اکنامکس ،مکما سٹر یونیورسٹی ،کینڈا )بھی شعری ذوق کے حامل ہیں ۔لغاتب ابجد شماری ‘‘ کی شکل میں انہوںنے جو علمی و ادبی کارنامہ انجام دیا ہے ،وہ اہل نظر حضرات کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ڈاکٹر شکیل احمد کی بھی کسی زمانے میں شعر و شاعری سے تخلیق وابستگی تھی لیکن سیاست آڑے آئی اور ان کی مصروفیات نے اس ذوق و شوق کو پنپنے نہ دیا۔لیکن سہیل احمد آخری وقت تک پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے ۔
 
ڈاکٹر سہیل احمد تقریباً دو ڈھائی سال پہلے اپنے مجموعہ افسانہ کی طباعت و اشاعت کی طرف مائل ہوئے تھے۔انہوں نے مسودے کی کمپوزنگ بھی کرالی تھی ۔چند افسانوں کے تجزیے بھی دوستوں سے کرائے تھے ۔چند مضامین بھی افسانہ نگاری کے حوالے سے لکھوائے تھے ۔افسانوں کے حوالے سے ان کے فن پر قلم فرسائی کرنے والوں میں جہاں تک مجھے یاد آتا ، اعجاز بن ضیا اوگانوی ، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں، احمد بدر، زین کوش اور فرد الحسن فرد وغیرہ شامل ہیں۔
 
ڈاکٹر سہیل احمد نے ایک ایسی ہی فرمائش مجھ سے بھی کی تھی ۔مسودہ میرے حوالے کیااور تھوڑے تھوڑے وقفے پر تقاضہ بھی کرتے رہے ۔میں اپنی شدید مصروفیات کی وجہہ سے مقررہ وقت تک یہ کام نہ کرسکا۔ایک روز شام میں پھلواری شریف ہی سے انہوں نے فون کیا ’’ میں آرہا ہوں ۔آپ نے کچھ لکھا ہو یانہ لکھا ہو، اس سے بحث نہیں ،مسودہ واپس کردیجئے ۔‘‘ اور وہ آبھی گئے ۔احساس ندامت سے میری کیفیت ہی کچھ اور تھی ۔کسی کسی طرح سے سمجھا بجھا کر ایکسٹنشن کرایا اور عدیم الفرضی کے باوجود افراتفری کی حالت ہی میں ایک مضمون لکھ کر حوالے کردیا ۔اس مضمون کی نوعیت پیش لفظ یا مقدمے جیسی تھی ۔یاد نہیں کہ کیا کیا لکھا تھا۔
 
بہر حال وہ اپنے افسانوں کا مجموعہ شائع کرانے کے موڈ میں آگئے تھے اور عجلت میں اسے شائع کرالینا چاہتے تھے ۔مسودے کی کمپوزنگ بھی انہوںنے کرالی تھی ۔اسی اثنا میں معلوم ہوا کہ راج بھاشا کی طرف مالی تعاون کے لئے درخواست کااشتہار شائع ہوا ہے ۔دوستوں کے مشورے سے انہوں نے بھی اپنا مسودہ جمع کردیا ۔لیکن اس سیشن کا فنڈ بھی پش ہوگیا ۔اگلے سال بھی ایسا ہی ہوا ۔گرانٹ کی منظوری نہ مل سکی اور اس طرح ان کا مجموعہ افسانہ شائع ہونے سے رہ گیا ۔یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اس ذوق کی تسکین اور شوق کی تکمیل نہ ہوسکی۔
 
ڈاکٹر سہیل احمد ’’راج بھاشا ‘‘ میں مسودہ جمع کرنے کے بعد اپنے چند افسانوں کا تجزیہ کسی خاتون افسانہ نگار سے کرانا چاہتے تھے ۔ان افسانوں کی نوعیت قدرے مختلف ہے ۔عورتوں کے جذبات اور نفسیاتی کیفیات پر مشتمل یہ افسانے طرز و اسلوب کے لحاظ سے بھی پیچیدہ ہیں ۔تجزیہ کراکے وہ یہ دیکھنے کے متمنی تھے کہ ایک مرد افسانہ نگار عورت کے جذبات اور نفسیاتی کیفیات کو افسانے کا روپ دینے میں کہاں تک کامیاب یا ناکام ہے ۔انہوںنے یہ ذمہ داری مجھے سونپ دی ۔میں غور کرتا رہا کہ اس کام کے لئے کسے زحمت دی جائے ۔اچانک میرے ذہن میں محترمہ ذکیہ مشہدی صاحبہ کا نام ابھرا جو ایک کامیاب افسانہ نگار بھی ہیں اور نفسیات کی طالبہ و معلمہ بھی رہتی ہیں لیکن ان سے میری دندو شیندیا ملاقات بات اب تک نہیں ۔البتہ شفیع مشہدی صاحب سے کبھی کبھار کی علیک سلیک رہی ہے ۔میں نے سوچا تھا کہ ان ہی کے توسط سے محترمہ ذکیہ مشہدی سے ڈاکٹر سہیل احمد کے تذکرہ افسانوں کا تجزیہ کرانے کی درخواست کروں گا اور میں سرچتاہی رہ گیا۔وقت کہاں سے کہاں نکل گیا۔افسوس ہے کہ اسی وقت کے ساتھ ڈاکٹر سہیل احمد بھی دبے پائوں اچانک نکل گئے ۔افراد خاندان ،عزیز و اقارب اور انصار و احباب کو سوگوار چھوڑ گئے وہ غالباً میرے ہم عمر تھے ۔ان کا انتقال 29جولائی 2012کو صبح کے وقت ہوا ۔رمضان المبارک کی نویں تاریخ تھی اسی دن بعد نماز عصر شاہ گنج والے قبرستان میں مدفون ہوئے ۔ان کا خلوص  ، ان کی محبت ،ان کی دوستی میرے لئے یادگار ہی نہیں ،حوز جان بھی ہے اور یہی سرمایہ غم اب یاد کی پونجی ہے ۔
 
***************
Comments


Login

You are Visitor Number : 892