donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Md. Farooq Azam
Title :
   Shanti Ranjan Bhattacharya - Urdu Ki Aik Naqabile Faramosh Shakhsiat

 

شانتی رنجن بھٹا چاریہ :اردوکی ایک ناقابل فراموش شخصیت 


ڈاکٹر محمد فاروق اعظم ،پوسٹ گریجویٹ شعبہ اردو ٹی ڈی بی کالج، رانی گنج،بردوان


     شانتی رنجن بھٹا چاریہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ان کا شمار بیک وقت محقق ، نقاد ،مترجم ، افسانہ نگار اور ناول نگاروں میںہوتا ہے۔ ان کا مطالعہ ومشاہدہ نہایت عمیق اور تجربات و افکار میں کافی تنوع تھا۔ وہ اس تہذیب کے پروردہ تھے جسکے نشان اب ہمارے ذہن سے محو ہوتے جارہے ہیں۔ بنگالی برہمن ہونے کی وجہ سے انکی مادری زبان بنگلہ تھی لیکن انہوںنے اردو زبان کی اس گنگا جمنی تہذیب کو گلے لگایا جسے ہم ہند و  ایرانی تہذیب کہتے ہیں۔ شانتی رنجن اسی روایت و تہذیب کا حصہ تھے جسکے پاسدار ر اجہ رام نرائن موزوں، دیاشنکر نسیم ؔ، فراقؔ گورکھپوری ، گیان چند جین اورمالک رام وغیرہ بھی رہے۔ 


    شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی پیدائش 24 ستمبر 1930 ء ضلع فرید پور، بھوجیشور کے مسورہ گائوں (موجودہ بنگلہ دیش ) میں ہوئی۔ وہیں ان کی ابتدائی تعلیم درجہ دوم تک ایک بنگلہ میڈیم اسکول میں ہوئی۔ اُن کے والد بیکنٹھ ناتھ بھٹا چاریہ 1930 ء میں تلاش معاش کے سلسلے میں فریدپور سے حیدرآباد چلے گئے اوروہاں اکتوبر 1930ء میں بطور اسٹیشن ماسٹر ریلوے میں ملازمت اختیار کی۔ 1937 میں انہوںنے اپنے چھوٹے بھائی ہروندناتھ بھٹا چاریہ ،اپنی اہلیہ چارو بالادیوی اوربیٹے شانتی کو حیدرآباد بلالیا جہاں انہوںنے وویک بردھن ہائی اسکول میں اپنے بچے کو داخل کیا اور پانچویں جماعت تک تعلیم دلائی۔ اردو زبان کو حیدرآباد میں اولیت حاصل تھی یہ وہاں کی دفتری زبان تھی۔ وویک بردھن ہائی اسکول میں اردو کے ساتھ ساتھ تیلگو اورتامل زبانیںبھی پڑھائی جاتی تھیں لیکن انہوںنے  اردو کو ہی ذریعہ تعلیم منتخب کیاساتھ ہی تیلگو اور تامل سے بھی واقفیت حاصل کی وہاں سے بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوںنے محبوب کالج (ہائی اسکول ) سکندر آباد میں داخلہ لیا اس کالج میں انگریزی First Languageاور اردو Second Languageکے طورپر پڑھی وہیں سے انہوںنے 1948-49میں سکنڈری کاامتحان پاس کیا۔اس دوران ان کے والد ریلوے کی ملازمت سے سبکدوش ہوگئے اور ان کا تعلیمی سلسلہ یہیں منقطع ہوگیا کیونکہ انکے والد مزید تعلیمی اخراجات برداشت کرنے سے قاصر تھے۔ 


    اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنیکی بناپر انہیں اردو سے بے پناہ محبت ہوگئی اور انہوںنے اسے اپنے افکار واظہار کا ذریعہ بنالیا اور قیام حیدرآباد کے دوران ہی 1948ء سے ان کی تخلیقات منظر عام پر آنے لگیں۔ 1950میں ممبئی کے اک روزانہ اردو اخبار میں ان کاناول ’’دھرتی سے آکاش تک ‘‘ سلسلے وار ایک سال تک شائع ہوتا رہا  جو یہاںکا پہلاناول تھا۔ ان کا دوسرا ناول ’’منزل کہاں ہے تیری ‘‘ کچھ عرصے بعد منظر عام پر آیا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’راہ کا کانٹا ‘‘ قیام  حیدرآباد کے دوران ہی تخلیق پایا۔ حیدرآباد کے اخبارات و رسائل میں انکے افسانے ومضامین اکثر شائع ہوتے رہے مثلاً ’’سیاست ‘‘ ، ’’پیام ‘‘، ’’ہمارا قدم ‘‘، بچوں کا ماہنامہ ’’ستارے ‘‘ اور دیگر رسائل میں انکی تخلیقات شائع ہوکر قبول عام ہوئیں۔ انہوں نے حیدرآباد میں 1950سے 1952 تک اسٹیٹ ٹرانسپورٹ میں ملازمت کی اس دوران وہاں تلنگانہ تحریک میں بھی شامل ہوگئے جسکی وجہ سے ان کی ملازمت جاتی رہی۔ وہ ضلع عادل آباد میں 1950ء کے قریب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانیوںمیں سے تھے۔ تلنگانہ تحریک کے دوران انکی تخلیقی سرگرمیاں کچھ دنوں کے لئے خاموش ہوگئیں۔ انکے والداُن کی سیاسی سرگرمیوں سے نالاں ہوکر 23 جنوری 1952ء کو 22 سال کی عمرمیں ہی کلکتہ کے ٹالی گنج اشوک نگر میں پتل بھٹا چاریہ عرف بسنتی دیوی سے انکی شادی کروا کر اُن کے پائوں میں بیڑیاں ڈال دیں لیکن شادی کے بعد وہ پھر حیدرآباد چلے گئے۔ 15 اپریل 1955   میں آپ باپ بن گئے، کلکتہ ہی میں ان کے بڑے بیٹے ہرادھن بھٹا چاریہ کی پیدائش ہوئی۔ وہ اپنی خوشیوں کو ابھی پوری طرح سمیٹ بھی نہیں پائے تھے کہ ان کے والد بیکنٹھ ناتھ بھٹا چاریہ کاستمبر 1955ء میں حیدرآبادمیں انتقال ہوگیا۔ والد کے انتقال کے بعد آپ اپنی والدہ ، دو بھائی اور تین بہنوں کے ہمراہ کلکتے چلے آئے اور یہاں سونار پورمیں اپنی بڑی بہن کے یہاںٹھہرے۔ 


    شانتی رنجن بھٹا چاریہ 1956ء میں کلکتہ آنے کے بعد تلاش معاش کے لئے یہاں کی خاک چھانتے رہے اس دوران یہ کولوٹولہ پہنچے جہاں انہوںنے اپنے دوست خلیل احمدکی مددسے ایک پریس قائم کیا۔ یہاں وہ کلنڈر چھاپتے تھے اور ساتھ ہی بڑا بازار کے علاقے میں کچھ کتابت کاکام بھی کرتے تھے جو ان کے معاش کا ذریعہ بنی۔انہوںبنے کلکتہ کے جھائوتلہ روڈ کے ایکپریس سے ’’فلم ویکلی ‘‘ اخبار بھی جاری کیا یہ سلسلہ 1960ء تک چلتا رہا۔ اس کے بعد ان کے دو افسانوی مجموعے ’’راہ کا کانٹا ‘‘ اور ’’شاعر کی شادی ‘‘ منظر عام پر آئے پھر افسانہ نگاری ترک کرکے تحقیق کی طرف مائل ہوئے۔انہوںنے سب سے پہلے ایک تحقیقی کتاب ’’بنگالی ہندوئوں کی اردو خدمات ‘‘ لکھی اس کتاب کے لئے ان کو 1965-66میں مغربی بنگال حکومت کی طرف سے رابندر ناتھ ٹیگور ایوارڈ ملا۔ اس کتاب کو پڑھ کر ہندستان کے نائب صدر ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب نے انہیں خط لکھ کر مبارک باد دی۔ اسی وقت ماہر لسانیات اوردانشور سینتی کمار چٹرجی بھی ان سے متاثر ہوئے۔ اسی دوران 1965ء میں حکومت مغربی بنگال کی جانب سے رائٹرس بلڈنگ میں انہیں بحیثیت اردو مترجم اورانگریزی پروف ریڈر شعبہ اطلاعات وپبلک ریلیشن میں ملازمت مل گئی۔انہوںنے انیسویں صدی تک بنگال میں شائع ہونے والی اردو کتابوں کو اپنی تحقیق کاموضوع بنایا اورتذکرہ تصانیف بنگال کے عنوان سے اپنا مقالہ شائع کیا اس مقالے پر 1967ء میں اور ینٹل کالج (ممبئی ) نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے سرفراز کیا۔ 


    آزادی کے بعد شانتی رنجن بھٹا چاریہ نے بنگال میں اردو نثر و تحقیق کا جو ادبی سرمایہ فراہم کیا وہ اورکسی دوسرے نثر نگار کے حصے میں نہیں آیا۔ انکی تحقیق کا خاص موضوع بنگال کا ادب رہا ہے۔ وہ بیک وقت بنگلہ اور اردو زبانوں کی خدمات کرتے رہے۔ ان دونوں زبانوں کے درمیان وہ ایک پل کی حیثیت رکھتے تھے۔ بنگال کے اردو ادب کو ملک اور بیرون ملک سے روشناس کرانے میں انہوںنے اہم کردار  اداکیا۔انہیںمغربی بنگال کے تحقیق میدان میں ایک اہم مقام حاصل ہوا۔ انہوں نے تقریبا ً تیس کتابیں تصنیف ، تالیف اور ترجمے کئے جن میں بنگالی ہندوئوں کی اردوخدمات ،تذکرہ تصانیف بنگلہ ، اردو اور بنگال ،آزادی کے بعد بنگال میں اردو، بنگال میں اردو زبان وادب (چند مضامین ) ، غالب اوربنگال ، اردو ادب اور بنگالی کلچر،اقبال ،ٹیگور اورنذرل تین شاعر ایک مطالعہ ،مغربی بنگال میںاردو زبان اور اس کے مسائل ، مختصر تاریخ ادب بنگلہ ،مغربی بنگال کی زبانوں سے اردو کا رشتہ ایک لسانی مطالعہ، تذکرہ شعر اء ٹالی گنج، رابندر ناتھ ٹھاکر حیات وخدمات ، آزادی کے بعد بنگال میں صحافت ،خواتین بنگال کی اردو خدمات ، اردو شاعرات کا تذکرہ ، آفتاب علم وادب ڈاکٹر سینتی کمار چٹرجی حیات وخدمات ، کلکتہ میں اردوکاپہلامشاعرہ اورپرنس ولن کا یارگار مشاعرہ، مولانا ابوالکلام آزاد کے پاسپورٹ کا خفیہ فائل، پختونستان کامطالبہ، اردوسے بنگلہ سیکھو ،نامے جومیرے نام آئے۔ بنگلہ کاآسان قاعدہ، پورن کمبھ، بکھرے ورق،گلشن صحت، اردو پرہی سینتی کمار چٹرجی ،روہت لال مجمدار حیات وخدمات ، تلنگانہ گلپو ، موٹلاچادر، انکے ا ہم تصانیف ہیں جسکے ذریعہ انہوںنے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی ہے بنگال کے زبان وادب اور ان کے مسائل کو پیش کریں اور وہ اس مقصدکامیاب  بھی ہوئے۔     شانتی رنجن بھٹا چاریہ زندگی بھر قلم کے سپاہی رہے۔ وہی پرانا قلم، رائل بلو روشنائی، وہی تحریری انہماک اور لالٹین کی روشنی کے ساتھ انہوںنے اردو تہذیب ،زبان کے مسائل ، دوسری زبانوں کے ساتھ اردو کے لسانی رشتے کا      ہف جہت مطالعہ کیا اور سے مستند و معتبر انداز سے پیش کیا۔ انہوںنے جہاں متعدد تحقیقی کتابیں لکھیں وہیں ڈھیروں تحقیقی مضامین بھی لکھے جو ہندو پاک کے مختلف اخبارات ورسائل میں شائع ہوئے جن میں کلکتہ کے قدیم علمی ادبی اور تعلیمی ادارے ، بنگلہ زبان کا ایک نامور شاعر سبھاش مکھ پادھیائے ، بنگال میں اردوصحافی اور شاعر،بنگال میں اردو کانثری ادب ابتداسے 19ویں صدی تک، بنگال میں اردو شاعری 19ویں صدی کے آخر تک ، اردو اور بنگلہ کا باہمی رشتہ ،حرمت الاکرام بنگال میں۔ رابندر ناتھ کی شاعری پرایک نظر ،اردو افسانے کے ایک دورکا خاتمہ ، غالب اور کلکتہ ، شاعر کی شاعری۔ سڑک خاندان کی بولیاں اور اردو ، اخبار دارالسلطنت اور مولانا ابوالکلام آزاد ،بنگال میں اردواور مشرقی بنگال میں اردو (تنقید کی روشنی میں ) تقاریرسرت چندر چٹرجی ، ذکر مست ، پرویز شاہدی چند یادیں چند باتیں۔ بھوکی پیڑھی کابنگلہ ادب ایک مختصر جائزہ ،بنگلہ نشر کی ابتدا ئی ترقی ، گومتی سے ہگلی تک، وہاب حیدر ایک فراموش شدہ شاعر صحافی اور کار ٹونسٹ، سخن دہلوی ، غالب کا ایک شاگرد ، جدید کلکتے کارنگ روپ (اردو شاعری کے آئینے میں)، بنگال کے چند کتب خانوں میں محفوظ اردو مخطوطات ،بنگلہ دیش کاعصری  ادب (افسانے کے حوالے سے ) ، زار کا مصنف،  خواجہ عبدالغفور ، رانا کی شاعری میں دنیاوی جذبات ، بنگال اور بنگالی مسلمانوں کے مسائل ، اردو ادب پر ٹیگورکا اثر ، اردو ادب پرسرت چندرکا اثر ، اجل ایک خوشنما غزل ، اردو اور انتخابی وعدے ، انیسویں صدی اخبار و مسائل ، بنگال میں اردو صحافت ، تھکے ہندستان کاپہلا صحافی ، واجدعلی شاہ کلکتے میں، محمدیونس نظری۔ ایک فراموش شدہ صحافی ،ٹیگور کی داستان محبت ،بنگال میں ا ردو کاسفر، محب اوربغاوت۔ قاضی نذرالاسلام کی چوٹیں ،بنگالی ڈاکٹروں کی اردو خدمات (آزادی سے قبل ) بنگال کاایک عظیم فنکار، سوکانت بھٹا چاریہ ، اردو شاعری اور بنگالی کلچر،غالب اوران کے معاصرین بنگال میں، کلام ساجد پر ایک نظر ، بنگال کے چند مزاحیہ اخبارات و رسائل ،اردو کے بعض کمیاب اخبارات ورسائل ، اردو کامستقبل ،سراج الدولہ کی بیگم اورمحبوبہ لطف انسا بیگم جسکو تاریخ نے فراموش کردیا۔ بنگال ادب میں منظوم داستانوں کی اہمیت ، عبادت گاہیں، قومی یکجہتی اور سیاسی شعور کی بیداری میں اردو کاحصہ ، سہیل عظیم آبادی اور انجمن ترقی اردو ، ٹیگور گھرانے سے اردو کا تعلق ، ہندستان میں میڈیکل تعلیم کی ابتدا، حسن بنگالہ اردو شاعری کی نظر میں، قاضی نذرالاسلام ایک بانی شاعر ،مولانا آزاد اور تحریک آزادی ، فراق چند باتیں ، شریمتی اندرا گاندھی شعرائے بنگال کی نظر میں۔ انگلینڈ کاسفر کرنے والا پہلا ہندستانی، بنگال میں اردو، ساتویں دہائی میں بنگلہ شاعری ایک خاکہ، بنگال کے یورپین شعراء ، انیسویں صدی کی مذہبی مطبوعات ، جام جہاں نما اور ہری ہر دت ، ٹیگور کی نظمیں اور فراق کے غیر محتاط ترجمے ،مولوی عبدالحق اوربنگال میں اردو تحریک، سنیتی کمار چٹرجی اور اردو ، سری نواس لاہوٹی کچھ یادیں کچھ باتیں، کلکتے کی زبان   کالسانی مطالعہ ، مولانا آزاد کا ایک گمشدہ تاریخی خط ، نیشنل لائبریری کلکتہ ، میں اور میرا گھر ، کلکتے میں غالب کامکان، بنگال میں غالب کے شاگرد ، رام موہن رائے اور اردو ،اور بہت سارے دیگر مضامین اردو دنیامیں قدر کی نگاہ سے دیکھے گئے ہیں۔ 


    شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی ادبی تنظیموں و اداروں سے بھی منسلک رہے۔ وہ مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی تاسیس میں پیش پیش تھے اور تاحیات اس کے رکن بھی رہے۔ کلکتہ دور درشن میں اردو کے نیوزایڈیٹر تھے انجمن ترقی اردو ہند (دہلی )کے رکن اوراسکی اشاعتی کمیٹی کے بھی رکن تھے۔ انجمن ترقی اردو ہند مغربی بنگال شاخ کے صدر تھے۔ ایشیاٹک سوسائٹی کے لائف ممبر تھے۔ جامعہ اردو علی گڑھ کی کونسل کے ممبر تھے۔ ترقی اردو بیورو (اب اردوکونسل )کے رکن تھے، حکومت ہند کی گجرال کمیٹی کے رکن تھے، وزارت تعلیم حکومت ہندنے انہیں اردو یونیورسٹی کی تاسیس کمیٹی کا رکن بھی مقرر کررکھا تھا لیکن ان تمام اعزاز و اکرام سے بڑھ کروہ صحیح معنوں میں اخلاق ومروت ، امن و آشتی ، فلاح بہبود ،نیکی اورحسن وسلوک کی زندہ مثال تھے۔ وہ یہاں کی ادبی محفلوں اورانجمنوں میں شرکت کرتے مسلم انسٹی ٹیوٹ ،مغربی بنگال اردو اکاڈمی ، ایشاٹک سوسائٹی، نیشنل لائبریر ی ، اور دیگر اداروں کی ادبی تقریبات میں انکی شرکت لازمی تھی۔ انہیں اردو کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ گھرمیں جگہ کم ہونے کی وجہ سے کئی کتابیں مغربی بنگال اردو اکاڈمی کو دے دیئے۔ اُن کا زیادہ تر وقت مطالعے میں گزرتا ان کے سونے کا وقت مقررنہ تھا وہ اکثر ر ات بھر لکھتے پڑھتے رہتے انہیں زندگی بھر اپنے مکان میں روشنی میسر نہ ہوئی انہوںنے تمام کتابیں لالٹیں کی روشنی میں اپنا خون جگر جلا کرلکھا اور تمام زندگی اردو کی خدمت کرتے رہے۔ 


    اُن کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت مغربی بنگال نے انہیں 1966ء میں ٹیگور ایوارڈ ، 1966-67ء آل انڈیا میراکیڈمی نے میرا یوارڈ ، 1970ء میں حکومت ہند کی وزارتِ تعلیم نے اُن کی کتاب اردو اوربنگال پر خصوصی ایوارڈ ، 1971 ء میں اتر پردیش حکومت نے خصوصی لٹریری ایوارڈ اور اتر پردیش اردواکاڈمی نے 1974- 76- 83- 88اور 91ء میں ان کی مختلف تصانیف پرایوارڈ دیئے اس کے علاوہ حکومت ہند ان کی کتاب غالب اور بنگال پرمبلغ دوہزار روپئے کانقد انعام، 1976-79-80ء میں بہلا اردو اکیڈمی نے ان کی ادبی خدمات اور مختلف تصانیف پر، 1978-80میں مغربی بنگال اردواکیڈمی نے ان کی مختلف تصانیف پراور 1991ء میں ساہتیہ اکاڈمی نے انہیں ترجمہ کے لئے مبلغ 25ہزار روپئے اورسند سے سرفراز کیا۔


    شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے اپنی علمی وادبی کارناموں کی بناپر اردودنیا میں کافی مقبولیت حاصل کی۔ بنگال کے بنگلہ اور ا ردوادب میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ آپ تاحیات اردو زبان وادب کی خدمت کرتے رہے اوربالآخر 15ستمبر 1993ء کو 63 سال کی عمرمیں حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ ؎


مقدور ہوتو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم 
تونے وہ گنج ہائے گراںمایہ کیا کئے 


بشکریہ:  مشتاق دربھنگوی

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1339