donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Aah Professor Lutfur Rahman


 

 

آہ! پروفیسر لطف الرحمن


ڈاکٹر مشتاق احمد، پرنسپل ملت کالج، دربھنگہ

(Mob:09431414586)


    اردو کے نامور ناقد وشاعر پروفیسر لطف الرحمن اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ اس ازلی وابدی حقیقت سے انکار بھی تو ممکن نہیںکہ جو اس دنیا میں پیدا ہوا ہے اسے ایک دن موت کا مزہ بھی چکھنا ہے یا یوں کہیں کہ اس دارِ فانی میں تو انسان کی زندگی کے دن معیّن ہیں لیکن ایک انسان موت کے بعد بھی اپنے کارنامے کی وجہ سے زندہ رہتا ہے اور اگر کسی فرد کی فکر ونظر صالح وتعمیری ہو تو پھر اس کی موت کیا معنی رکھتی ہے۔ پروفیسر لطف الرحمن بھی ان ہی شخصیات میں شامل تھے کہ جن کے کارنامے انہیں ہمیشہ زندہ جاوید رکھیں گے۔پروفیسر لطف الرحمن کا انتقال نہ صرف اردو دنیا کے لئے خسارۂ عظیم ہے بلکہ ہندستانی ادب کے لئے بھی کبھی نہ پُر ہونے والا خلا ہے۔ لطف الرحمن کے حالاتِ زندگی پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بچپن سے ہی ذہین وفطین تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ ذہانت وصلاحیت سے نوازا تھا۔ انہوں نے دربھنگہ کے تاریخی شفیع مسلم ہائی اسکول سے 1957ء میں امتیازی نمبر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا ۔ ان کے اساتذہ اور ہم درجہ آج بھی ان کی ذہانت کی مثال پیش کرتے ہیں۔ وہ پھر پٹنہ گئے اور بی۔این کالج سے انٹر پاس کیا لیکن دربھنگہ جو زمانۂ قدیم سے تہذیب وتمدن کا گہوارہ رہا ہے اس کی یادیں انہیں پھر دربھنگہ کھینچ لائی۔ یہاں انہوں نے شہر کے تاریخی تعلیمی ادارہ ملّت کالج، دربھنگہ میں داخلہ لیا اور 1961ء میں بی۔اے آنرز کے امتحان میں بہار یونیورسٹی میں اول درجہ حاصل کر گولڈ میڈلسٹ ہوئے۔ چوں کہ اُس وقت دربھنگہ میں اردو وفارسی میں ایم۔اے کی پڑھائی کا نظم نہیں تھا اس لئے انہیں پھرپٹنہ جانا پڑا۔ پٹنہ یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور وہاں سے انہوں نے پہلے ایم۔اے ( اردو) کا امتحان دیا اور یونیورسٹی میں ٹاپ رہے۔ پھرایم۔اے( فارسی )کے امتحان میں شامل ہوئے اور یونیورسٹی میں ٹاپ کرکے گولڈ میڈل حاصل کیا۔واضح ہوکہ اردو میں بھی انہیں گولڈ میڈل ملا تھا اور برسوں تک اس کی گونج حلقۂ ادب میں رہی۔ انہوں نے اپنے استادِ محترم پروفیسر اختر اورینوی اور علامہ جمیل مظہری کے مشورے پر 1966ء میں ٹی این بی کالج بھاگلپور میںبحیثیت لکچرار (اردو) جوائن کیا۔بعدہٗ بھاگلپور یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو مقرر ہوئے اور فروری 2001ء میں سرکاری ملازمت سے سبکدوشی حاصل کی۔


    پروفیسر لطف الرحمن کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ وہ ایک طرف زبان وادب کے اچھے استاد تھے تودوسری طرف سماجی وسیاسی میدان میں بھی اپنی مستحکم شناخت رکھتے تھے۔ ان کی سیاسی بصیرت اور سماجی شعورکے قائل ریاست بہارکی تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہ تھے۔ انہیں کئی سیاسی پارٹیوں نے سیاست میں عملی طورپر شامل ہونے کی دعوت دی لیکن شروع کے دنوں میں انہوں نے خود کو زبان وادب تک ہی محدود رکھالیکن 1995ء میں راجد کے سربراہ لالو یادو کی ایماء پر وہ عملی سیاست میں داخل ہوئے اور بھاگلپور کے ناتھ نگر اسمبلی حلقہ سے ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1997ء سے 1999ء تک وہ بہار کی کابینہ میں بھی شامل رہے۔ انہیں محکمۂ اقلیتی فلاح وبہبود اورمحکمہ تعمیر سڑک کی وزارت دی گئی اور یہاں بھی انہوں نے اپنی ذہانت اور سیاسی بصیرت کا ثبوت پیش کیا اور بے داغ رہے۔ سیاست میں مصلحت پسندی ایمان کا درجہ رکھتی ہے لیکن لطف الرحمن نے کبھی بھی حق گوئی کا دامن نہیں چھوڑا ۔نتیجتاً وہ جلد ہی سیاست کی مصلحت پسند دنیا سے باہر نکل آئے اوربقول پروفیسر قمر رئیس’’سیاسی لکر بگھوں کی چنگل سے نکل آئے‘‘۔


    یوں تو لطف الرحمن اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی لکھنے پڑھنے کی طرف مائل تھے لیکن پیشۂ تدریس میں آنے کے بعد انہوں نے ادب کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔ شروع کے دنوں میں چھپنے چھپانے میں دلچسپی رہی لیکن بعد کے دنوں میں اپنی تحریروں کو شائع کرانے سے زیادہ مطالعے میں غرق رہے ۔ جن لوگوں نے لطف الرحمن کی تحریریں پڑھی ہیں یا تقریریں سنی ہیں وہ خود ہی یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ لطف الرحمن کا مطالعہ کتنا وسیع تھا اور ان کی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کی گیرائی وگہرائی کیا تھی۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے ہی کیا تھا ۔ان کی پہلی شعری تخلیق بہ صورتِ نظم انجمن ترقیٔ اردو ہند کے ترجمان ’’ہماری زبان‘‘ 1961ء میں شائع ہوئی تھی جس کے ایڈیٹر اردو ادب کے قد آور ناقد پروفیسر آل احمد سرور تھے۔ ان کا پہلاشعری مجموعہ ’’تازگیٔ برگِ نوا‘‘ 1977ء میں شائع ہوا تھا۔پروفیسر لطف الرحمن کی شعری کائنات پانچ مجموعہائے کلام پر مشتمل ہے۔ ’’تازگیٔ برگِ نوا (1977ئ)’’بوسۂ نم‘‘(2007ئ)، ’’صنم آشنا‘‘ (2008ئ) ’’دشت میں خیمہ ٔگل‘‘(2012ئ)، ’’راگ براگ‘‘ (2012ئ)۔ ان مجموعوں کی غزلوں ، نظموں اور نثری نظموں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ لطف الرحمن ایک فطری شاعر تھے اور ان کی فکر ونظر کا محور فلاح وبہبودِ انسانیت تھا۔ اس لئے وہ شروع کی روایتی شاعری یعنی گل و رخسار کی دنیا سے جلد ہی باہر نکل کر مسائلِ زیست کے سمندر میں غوطہ زن ہوگئے۔ ’’تازگیٔ برگِ نوا‘‘کی چند غزلوں کو چھوڑ دیں تو یہ پہلا مجموعہ ہی یہ حقیقت بیاں کرتا ہے کہ لطف الرحمن کے اندر کا دکھ صرف شاعر کا دکھ نہیں ہے بلکہ یہ غمِ ذات تو غمِ جہاں کا درجہ رکھتا ہے:


صدائے سبز نے  مجھ کو بے کنار کیا
خود اپنی ذات میں سمٹا ہوا جہاں تھا میں
اٹھائے دوش پہ صدیوں کی بے حسی کا بوجھ
گزشتہ شب کوئی کھینچی ہوئی کمان تھا میں 
دلکشی اب بھی عمارت کی بظاہر ہے وہی
گرچہ اندر سے بکھرتی ہوئی دیوار ہوں میں

بدلا ہے ساتھ ساتھ مرے آسماں کا رنگ
ٹھہرا ہے اک مقام پہ یہ کارواں بھی کب


    لطف الرحمن اردو تنقید نگاری میں بھی اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ انہو ںنے اپنی تحریروں کو پیش پا افتادہ مضامین کا پلندہ نہیں بنایا ہے بلکہ صحرائے نقد میں اپنے تعمیری فکر کی بارشوں سے دلکش سبزہ بھی اگائے۔ وہ تنقید کو بھی تخلیق سے کمتر نہیں سمجھتے تھے اورادب کے لئے تنقید کو سانس تصور کرتے تھے ۔ واضح ہو کہ ان کا پہلا تنقیدی کارنامہ ’’جدیدیت کی جمالیات‘‘ (1993ء ) میں آیا تھا اور اس وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ جدیدیت کا چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گل ہو چکا ہے لیکن لطف الرحمن کی یہ کتاب گہری جھیل میں ایک کنکر پھینکنے کی مانند تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے جھیل کے کنارے تک شعورِ آب کے ہلکوروں نے غوروفکر کے کتنے دائرے بنا دئے تھے اور جہانِ ادب میں ایک بھونچال سا آگیا تھا ۔ ان کی نگاہ میں تنقید مکھی پر مکھی مارنے کا عمل نہیں تھا بلکہ وہ تنقید میں بھی فکری اور جمالیاتی مفاہمت کو لازمی قرار دیتے تھے۔

     لطف الرحمن شروع کے دنوں میں چھپنے چھپانے میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن دو دہائیوں تک انہوں نے چھپنے چھپانے سے زیادہ مطالعے کو ضروری سمجھا اور شاعری ہو کہ نثر ی تخلیقات اس کی روح میں اترنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ ’’جدیدیت کی جمالیات‘‘ (1993ئ) کی اشاعت کے بعدان کی دوسری تنقیدی تصانیف ’’نثر کی شعریات‘‘ (2006ئ) ’’نقدِنگاہ‘‘(2006ئ) ’’تنقیدی مکالمے‘‘ (2008ئ) ’’تعبیر و تقدیر‘‘ (2008ئ) ’’فنونِ لطیفہ اور تخلیقی تخیل‘‘ (2011ئ)، ’’تنقید وتخلیق‘‘(2011ئ)میں بالترتیب شائع ہوئیں۔ اس سے پہلے ان کی پی ایچ۔ ڈی کا تحقیقی مقالہ ’’راسخؔ عظیم آبادی کی غزل گوئی ’’کتابی صورت میں اور ہندی شاعر ’’بہاری‘‘پر ایک مونوگراف بھی ساہتیہ اکادمی سے ہی شائع ہوا تھا۔


    مختصر یہ کہ پروفیسر لطف الرحمن نے اگر اپنی شاعری کے پودوں کی آبیاری خونِ جگر سے کی تو اردو تنقید کی سنگلاخ زمین میں بھی اپنے فکرنو کے گل کھلائے ۔انہوں نے نئی نسل کے سامنے یہ مثال پیش کی ہے کہ شاعری اور تنقید کی عمارت اشیائے فسوں سے تیار نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لئے حق جوئی او ر حق گوئی لازمی شرط ہے ۔ افسوس صد افسوس کہ اردو ادب کا یہ درخشاں ستارہ جو2فروری 1941ء میں دربھنگہ کے ریونڈھا گائوں میں نمودار ہوا تھا وہ مورخہ 31 اگست 2013ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ماند پڑ گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اب تو ان کے چاہنے والوں کے لئے بس ان کی سنہری یادیں رہ گئی ہیںاور دنیائے ادب کے قارئین کے لئے ان کے دانشورانہ غوروفکر کا خزینۂ بیش بہا کہ جس سے رہتی دنیا تک استفادہ کیا جاتا رہے گا۔ غالبؔ نے شاید لطف الرحمن جیسی ہمہ جہت شخصیت کے لئے ہی کہا تھا:


مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے


بشکریہ: مشتاق دربھنگوی

*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 2225