donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Ameer Shariat Hazrat Maulana Syed Md Wali Rahmani Ke Azayem


امیر شریعت حضرت مولانا سید محمدولی رحمانی کے عزائم


٭ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج، دربھنگہ

(بہار)

موبائل9431414586-

ای میل:rm.meezan@gmail.com


    
    یہ حسن اتفاق ہے کہ بہار کے مسلمانوں نے ماہ نومبر2015 میں دو ایسے تاریخی فیصلے کئے ہیں کہ ان فیصلوں کی چہار طرف پذیرائی ہو رہی ہے۔ اولاً بہار قانون ساز اسمبلی کا حالیہ انتخاب جس میں ریاست کے مسلمانوں نے اپنی سیاسی بصیرت و بصارت کا کچھ اس انداز سے مظاہرہ کیا کہ فرقہ پرست طاقتوں کے ہوش ٹھکانے لگ گئے۔ اور دوسرا یہ کہ امارت شرعیہ بہار ، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے امیر کے انتخاب میں بھی انہوںنے جس اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔واضح ہو کہ تاریخ ملت اسلامیہ ہند میں امارت شرعیّہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کہ اس شرعی و ملّی ادارے نے اپنے دور آغاز سے ہی ایسے ایسے تاریخی کارنامے انجام دئے ہیں جو فلاح و بہبود ِ بشر کے لئے چراغ راہ ثابت ہوئے ۔ امارت کے اصول و ضوابط کے مطابق امیر سادس حضرت مولانا نظام الدین ؒ کے انتقال کے بعدساتویں نئے امیرِ شریعت کا انتخاب ہونا تھا ۔ یوں تو امارت کے لاکھوں ممبران ہیں لیکن انتخابی عمل میں صرف 851ارباب ِ حل و عقد ہی مزاج رکھتے تھے۔ گذشتہ 29نومبر 2015کو ریاست بہار کے ارریہ ضلع  کے انتخابی اجلاس میں اتفاق رائے سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ولی رحمانی مدظلہ عالی کا انتخاب ہوا۔ انتخابی عمل پورا ہونے کے بعد عمومی اجلاس میں ہزاروں کی تعداد میں فرزندان توحید نے جس خلوص و محبت سے اس انتخاب پر مہر ثبت کی ، اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ آج کے سماجی انتشار کے دور میں بھی مسلم معاشرہ اپنے صالح اکابرین کی قیادت و سعادت کو قبول کرنے میں تمام تر اِزم سے پاک ہیں۔ ورنہ آج کی سیاست نے تو ہماری صفوں میں بھی دراریں پیدا کرنے کی سازشیں کی ہیں۔ لیکن امیر شریعت کے انتخاب میں ریاست کے مسلمانوں نے جس ملّی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل تحسین ہے،کیونکہ امارت شرعیہ بہار سے تمام مسلکوں کے مسلمان قلبی طور پر جڑے ہوئے ہیں اور یہ مختلف جماعتوں کا بھی محور و مرکز ہے۔ بالخصوص حضرت مولانا ولی رحمانی کے نام پر بہار ، اڑیسہ ، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کے مختلف مسلک کے ائمہ دین نے جس طرح لبیک کہا ،اس سے مسلمانوں کے اتحاد کا پیغام عام ہوا ہے۔

    چونکہ مفکر اسلام مولانا سید ولی رحمانی بین الاقوامی سطح پر اپنی مستحکم شناخت رکھتے ہیں ۔اس لئے ان کے حوالے سے نہ صرف امارت شرعیہ بہار کا دائرہ کار وسیع تر ہوگا بلکہ اس کے خطوط بھی از سر نو متعین ہوں گے، جس کا اشاریہ امیر شریعت منتخب ہونے کے بعد ان کی پہلی تقریر تھی ۔انہوں نے مسلمانوں کو مسلکی تفرقوں سے پرہیز کرنے اور تمام تر تعصب و تحفظ سے اورپر اٹھ کر اپنی قومی شناخت کو مستحکم کرنے کی تلقین کی۔ساتھ ہی ساتھ اسلامی معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اس کی اصلاح کے لئے تحریک چلانے کی وکالت کی۔بلاشبہ آج مسلم معاشرہ کئی طرح کی سماجی بیماریوں کا شکار ہے۔ بالخصوص جہیز کی لعنت نے معاشرے کو تباہ کر رکھا ہے۔ بدعت کا زور بڑھتا جارہا ہے۔ معیاری تعلیم کی طرف توجہ کم ہے۔ ہمارے مدارس بھی اپنے مقاصد سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ نتیجتاً ہماری شبیہہ مسخ ہورہی ہے۔ اس لئے  اسلامی معاشرے کی از سر نو تشکیل ایک بڑا چیلنج ہے اور اس چیلنج کو امارت شرعیہ بہار ، اڑیسہ و جھارکھنڈ ہی قبول کر سکتی ہے کہ اس کی قیادت مولانا ولی رحمانی جیسے دانشور وجہاں دیدہ مرد مجاہدکے ہاتھوں میں آئی ہے۔گذشتہ دن امارت شرعیہ پٹنہ میں ان کو ایک والہانہ استقبالیہ دیا گیا جس میں صوبۂ بہار کے مختلف حصّوں کے دانشوروں نے شرکت کی ۔ اس موقع پربھی حضرت امیر شریعت کا جو خطاب ہوا وہ ہم سب کے لئے چراغ راہ تھا۔ بالخصوص عصری تعلیم کے متعلق جو ان کا وژن ہے ، وہ وقت کی اہم ضروت ہے۔ میڈیکل کالج کھولنے کا اعلان ان کی دوربینی کاآئینہ دار ہے اور قوم وملت کی فکرمندی کا بھی ، کیونکہ مجموعی اعتبار سے مسلم آبادی معاشی طور پر پسماندگی کی شکار ہے اور اس طبقے میں بہتیرے ایسے نو نہال ہیں جن کی تھوڑی سی ذہنی آبیاری کی جائے تو وہ میڈیکل اور انجینئرنگ کے لائق بنائے جا سکتے ہیں۔ مگر میڈیکل کی پڑھائی کے اخراجات کا بوجھ اٹھانا بھی آسان نہیں۔ چونکہ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی مدظلہ عالی ایک دہائی سے اقتصادی طور پر کمزور ،  میڈیکل اور انجینئرنگ کے شعبے میں جانے والے طلبہ کے لئے کوچنگ کا اہتمام کر رہے ہیںاور اب تک سینکڑوں طلبہ کی مشکلیں آسان ہوئی ہیں ۔یعنی انہیں پروفیشنل ، ووکیشنل اور ٹکنکل تعلیم کی اہمیت کا نہ صرف احساس ہے بلکہ وہ اقلیت طبقے کو مذکورہ شعبے میں نمایاںدیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے میڈیکل کالج قائم کرنے کی بات کہی ہے۔ میری ناقص رائے میں امارت شرعیہ بہار کو ایک اور انقلابی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کہ پنچایت سطح سے ریاستی سطح تک اس کا تنظیمی ڈھانچہ تیار ہونا چاہئے۔ یعنی پنچایت ، بلاک ، سب ڈویزن ، ضلع اورکمشنری سطح پر بھی منتخب کارکنان کو دینی ، سماجی اورتعلیمی اصلاحات کی ذمہ داری دی جانی چاہئے اور ایک متعینہ وقت پر احتسابی اجلاس ہوتے رہنا چاہئے تاکہ ہمارے معاشرے میں جو برائیاں داخل ہو گئی ہیں ، انہیں دور کیا جاسکے۔حال کے دنوں میں برادرِ وطن کے ذہنوںمیں مسلمانوں کے خلاف جس طرح زہر بھرنے کی سازشیں ہوئی ہیں اسے بھی دور کرنے کے لئے ایک تحریک کی ضرورت ہے۔ارباب ِ اقتدار کی ناانصافیوں اور بیوروکریٹس کے تعصبات وتحفظات کے خلاف بروقت آواز بلند کرنے اور مسلمانوں کے آئینی حقوق کی حفاظت کے لئے بھی ایک کور کمیٹی کی تشکیل وقت کا تقاضا ہے۔ غرض کہ نئے امیر شریعت بہار ،اڑسیہ و جھارکھنڈحضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی سے نہ صرف بہار بلکہ ملک کے مسلمانوں کے توقعات وابستہ ہیں کہ وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بھی کارکذار جنرل سکریٹری ہیں اورملک کا  ہر شخص ان کی دانشوری کا قائل ہے۔

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 551