donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Nawak Hamzapuri Ki Nazmiya Shayari Baraye Itfal

ناوکؔ حمزہ پوری کی نظمیہ شاعری برائے اطفال
 
ڈاکٹر مشتاق احمد ،پرنسپل ملت کالج، دربھنگہ
 (Mob:9431414586)
 
حضرت ناوکؔ حمزہ پوری اردو کے ان باشعور اور بالغ النظر شعراء کی صف میں ممتاز مقام رکھتے ہیں جن کی بدولت عصری شاعری نے اعتبار کا درجہ حاصل کیا ہے ۔وہ ایک عظیم المرتبت شاعر ونقاد ہونے کے ساتھ ساتھ میدانِ عروض میں شہسوار کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ عہدِ حاضر میں ان کے ہم رتبہ ماہرِ عروض نظر نہیں آتے۔ اصلاحِ زبان ان کا خاص میدان ہے اور اس حوالے سے بھی دنیائے ادب میں اپنی مستحکم شناخت رکھتے ہیں۔ 
 
ناوکؔ حمزہ پوری پانچ دہائیوں سے اردو شاعری کے پودوں کی آبیاری اپنے خونِ جگر سے کر رہے ہیں لیکن چوں کہ مجھے فی الوقت ان کی نظمیہ شاعری برائے اطفال کا مختصراً جائزہ لینا مقصود ہے ا س لئے لازم ہے کہ میں اپنی گفتگو کو ان کی بچوں کے لئے لکھی جانے والی نظموں تک ہی محدود رکھوں۔ یوں تو دیگر اصنافِ سخن کی طرح بچوں کے لئے لکھی جانے والی نظموں میں بھی تمام لوازماتِ شعری درکار ہوتا ہے لیکن اس خاص میدان میں فنکار کا پختہ سماجی شعور اور نفسیاتی فہم وادراک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ چونکہ بچوں کے لئے کی جانے والی شاعری مقصدی شاعری ہوتی ہے ۔ یہاں فنکار صرف جذبات واحساسات کی دنیا ہی آباد نہیں کرتا بلکہ مسرت وانبساط اور معلومات کے چاند ستارے بھی خلق کرتا ہے اور اپنی اصلاحی فکر کو شعری سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ فریضہ کوئی غیر معمولی فنکار ہی ادا کرسکتا ہے۔ ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ بچوں کا ذہن صاف سلیٹ یا گیلی مٹی جیسا ہوتا ہے اس لئے فنکار کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کی شاعری میں شفقتِ مادری کا احساس بھی کرائے اور میٹھی گولی کی طرح اخلاقی اسباق بھی اس کے حلق کے اندر اتارے۔اس طرح کی نظم نگاری میں مبالغہ آرائی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور نہ بھاری بھرکم الفاظ کی کھپت کا امکان رہتا ہے اور اگر بھول کر بھی ان چیزوں کا دخل ہو جائے تو پھر شاعری کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے ۔کیوں کہ جس کے لئے نظم لکھی گئی ہے اگر وہ قرأت کو تیار ہی نہیں ہو تو پھر وہ نظم کس کام کی رہ جائے گی ۔ غرض کہ بچوں کے لئے نظم لکھنے والے شاعر کو بہ یک وقت بوڑھا اور بچہ دونوں بننا پڑتا ہے ۔ بوڑھا اس لئے کہ وہ اپنے تجربات واحساسات کی دنیا میں ہی تو بچوں کو سیر کراتا ہے اور بچہ اس لئے کہ اس کے فہم کی سطح سے واقفیت رکھتا ہے۔ میرا تو خیال یہ ہے کہ بچوں کے لئے شاعری کرنے والے شعراء کو موسیقی کے تمام قوانین سے بھی واقف ہونا چاہئے کیوں کہ جس طرح ایک موسیقار اپنی موسیقی کی دھن سے ایسے سامعین کو بھی سحر زدہ کردیتا ہے جو موسیقی کے علم سے بالکل نا بلد ہوتا ہے۔ اسی طرح بچوں کا کچا ذہن لوازمات شاعری سے بالکل نا آشنا ہوتا ہے مگر موضوعِ شاعری کو سنگیت کے دھن کی طرح ہی اپنے اندر داخل کر لیتا ہے ۔ میں یہ بات پورے یقین و اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اردو میں بچوں کے لئے کی جانے والی شاعری میں مذکورہ اوصاف خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔مگر مقامِ شکر ہے کہ حضرت ناوک ؔ حمزہ پوری کی نظمیہ شاعری برائے اطفال ان اوصافِ حسنہ سے بھرپور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری بچوں کے ذہن پر اثر انداز ہو کر مسرت وانبساط کے ساتھ ساتھ بصیرت بھی عطا کرتی ہے ۔ مثلاً ان کی نظم ’’گنگا کا پیغام ‘‘ملاحظہ کیجئے
:
سارے جگ میں نام ہے میرا
چلتے رہنا کام ہے میرا
ہر آفت سے میں ٹکرائی
مشکل سے میں کب گھبرائی
توڑی ہے ہر ایک رکاوٹ
اور بڑھی ہوں آگے جھٹ پٹ
موج میں اپنی میں چڑھتی ہوں
منزل کی دھن میں بڑھتی ہوں
اٹھلاتی ہوں بل کھاتی ہوں
بہتی  ہوں  بہتی  جاتی  ہوں
عزم مصمم کرلو تم بھی
راہ مقرر کرلو اپنی
چل نکلو تو چلتے جائو
بڑھ جائو تو بڑھتے جائو
رکنا اور ٹھہرنا کیسا
کٹھنائی سے ڈرنا کیسا
منزل پالو گے تم اپنی
بچو! ہے یہ بات یقینی
(مجموعہ ۔ اپنی ماں، ص: ۱۴)
دوسری نظم’’ عید کا دن‘‘ملاحظہ کیجئے یہاں شاعر نے اپنے مشاہدہ کا جادو کس طرح جگایا ہے اور بچوں کے لئے اخلاقی اسباق کے کتنے گوہر بکھیرے ہیں:
مسرت کا دن شادمانی کا دن ہے
محبت کا دن مہربانی کا دن ہے
اخوت کی شیریں بیانی کا دن ہے
مساوات کی ترجمانی کا دن ہے
گلے سے گلے تم ملو ، عید آئی
عزیزو! بڑی کامرانی کا دن ہے
مبارک ہو ، اللہ خود میزباں ہے
مسلمانوں کی میہمانی کاد ن ہے
یہ تسبیح و تہلیل  کا  دن   ہے  بچو!
تشکر کا ، تسبیح خوانی کا دن ہے
خوشی کے ترانے سنانے کا دن ہے
مسرت کی رنگیں کہانی کا دن ہے
سویّاں کھلائو غریبوں کو بچو!
تواضع کا دن میزبانی کا دن ہے
(مجموعہ اپنی ماں۔ ص: ۲۶)
بچوں کے لئے لکھی جانے والی شاعری میں فطرت نگاری کو بڑا دخل ہوتا ہے بلکہ اس کے بغیر اس طرح کی شاعری پروان چڑھ ہی نہیں سکتی کیونکہ شاعر فطرت نگاری کے ذریعہ ہی بچوں کے ذہن کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور اس کے دل کو راحت بخشتا ہے ۔بطور مثال ناوکؔ حمزہ پوری کی نظم ’’ماں‘‘ ملاحظہ کیجئے :
بھلے  لگتے  ہیں  تارے  آسماں  کے
سہانے ہیں نظارے کہکشاں کے
بھلی لگتی ہے سورج کی کرن بھی
ہیں پیارے چاند ماموں آسماں کے
چرندوں کی  ادائیں  بھی  ہیں  بھولی
ہیں خوش الحان پرندے گلستاں کے
پسندیدہ ہیں گل کے رنگ و بو بھی
پھلوں کا لطف ہے باہر بیاں کے
نسیمِ  گلستاں  بھی   جاں   فزا  ہے
فوائد  ہیں  بہت  آبِ  رواں  کے
جہاں میں نعمتیں یوں تو بہت ہیں
کرم سے اس خدائے دو جہاں کے
مگر یہ نعمتیں ہیں سب کی سب ہیچ
مری آنکھوں میں ، آگے میری ماں کے
(مجموعہ ’’اچھے بچے‘‘ ص:۳۵)
موضوع اور مواد دونوں اعتبار سے ایک انوکھی نظم’’سورج‘‘ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ یہ نظم بھی اسباقِ حیات سے بھرپور ہے :
پورب سے وہ نکلا سورج
چمکیلا چمکیلا سورج
حکمِ خدا  کے  تابع  ہے  یہ
خلقِ خدا کو نافع ہے یہ
یہ آیا تاریکی بھاگی
نیند سے ساری خلقت جاگی
جگمگ جگ کو کر جاتا ہے
ہم کو گرمی پہنچاتا ہے
سمت ہمیں یہ بتلاتا ہے
وقت کی قیمت جتلاتا ہے
دن بھر جل کر تک جائے گا
افقِ مغرب تک جائے گا
اندھے غار میں کھو جائے گا
اور اندھیرا ہو جائے گا
اور بھی ہیں اس کے گھر والے
نام ہیں ان کے چاند ستارے
رات کو وہ سب آجائیں گے
اور آکاش پہ چھا جائیں گے
حکمِ خدا کے تابع سارے
یہ سورج یہ چاند ستارے
(مجموعہ۔ ’’اسکول چلو‘‘ ص: ۱۷)
جیسا کہ میں نے کہا کہ بچوں کے لئے لکھی جانے والی شاعری مقصدی شاعری ہوتی ہے ۔ یہاں شاعری کا مقصد صرف اپنی فنکارانہ صلاحیت کا لوہا منوانانہیں ہوتا بلکہ اس کا اولین مقصد بچوں کی ذہن سازی ہوتی ہے ۔ اس لئے شاعر کو قدم قدم پر اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اس کی نظم معلوماتی اور اخلاقی اسباق سے لبریز ہو۔حضرت ناوکؔ حمزہ پوری نے اپنی شاعری میں اس امر کو ملحوظ خاطر رکھا ہے اور اپنے اعلیٰ خیالات واحساسات کی دنیا آباد کی ہے ۔ مثلاً اس ’’مناجات‘‘کو دیکھئے جس میں مذہبی اسباق کو بڑے ہی فنکارانہ انداز میں شعری قالب میں ڈھالا گیا ہے :
خدایا  علم  کی  دولت  عطا کر
خدایا عقل دے حکمت عطا کر
خدایا دل میں ذوقِ بندگی دے
خدایا جذبۂ طاعت عطا کر
مرے دل میں محمدؐ مصطفیٰ کی
محبت بخش دے چاہت عطا کر
ابوبکرؓ و  عمرؓ  عثمانؓ و حیدرؓ
مجھے ان چاروں کی الفت عطا کر
فراست مومنوں کی بخش یارب
خدایا مجھ کو یہ نعمت عطا کر
یہاں بھی سرخ روئی بخش مولا
وہاں بھی اے خدا عزّت عطا کر
حفاظت دین کی کرتا رہوں میں
عطا کر حوصلہ ہمّت عطا کر
ہمارے حال پر پھر رحم فرما
مسلمانوں کو  پھر  نصرت  عطا کر
(مجموعہ۔ اللہ کے نام سے، ص: ۱۹)
غرض کہ حضرت ناوکؔ حمزہ پوری کی نظمیہ شاعری برائے اطفال اردو شاعری کے لئے سرمایہ عظیم کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کی شاعری میں جو فکری گہرائی اور معنوی تہہ داری ہے وہ ان کو اپنے ہم عصروں سے منفرد کرتی ہے۔انہوں نے اپنی صالح فکر کے ذریعہ بچوں کی شاعری کو نئے جہانِ معنی سے آشنا کرایا ہے اور اس کو ایک ایسی راہ دکھائی ہے کہ جس کے سہارے یہ ترقی کی کئی منزلیں طے کر لیں گی۔
 
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
………………………………………
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 838