donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Nayi Zameen Aur Naye Aasman Ka Matlashi : Shahar Yar

نئی زمین اور نئے آسمان کا متلاشی:شہریار
 
ڈاکٹر مشتاق احمد ،پرنسپل ملت کالج، دربھنگہ
 (Mob:9431414586)
 
بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اردو شاعری کی دنیا بدلنے لگی تھی اور تقسیمِ ہند کے بعد نہ صرف ہمارے شعراء کے احساس وجذبات کی آنچ تیز ہوئی بلکہ ان کے افکار ونظریات میں بھی انقلاب رونماہوا۔ اب اردو شاعری ’’رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھنے‘‘ اور ’’دریا کنارے جو اس نے بال باندھے‘‘ کے موضوعی دائرے سے نکل کر جہانِ حقیقت میں داخل ہو چکی تھی اور اب کربِ تنہائی صرف ہمارے تخیل کی دین نہیں رہ گئی تھی بلکہ ذاتی زخمِ دل کا حصہ بن چکا تھا۔ایسے وقت میں جوشعراء روایت کی زرخیز زمین سے نئے پودے اگانے کی کوشش میں کامیاب ہوئے ان میں شہر یار نہ صرف نمایاں رہے بلکہ ممتاز ثابت ہوئے۔ شہر یار کے شعری سفر کا مختصراً جائزہ لینے سے بھی یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ تقسیمِ وطن کے وقت ان کی شاعری پروان چڑھنے لگی تھی اور وہ اپنے ہم عصروں میں لفظوں کو نئے معنی کا پیکر عطا کرنے کی دوڑ میں آگے چل رہے تھے اور بہت جلد ہی اپنی راہ کے وہ تنہا مسافر بن گئے۔یہی وجہ ہے کہ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’اسمِ اعظم‘‘ (۱۹۶۵ئ) منظرِ عام پر آیا تو پروفیسر وحید اختر جیسے محتاط ناقد کو بھی یہ کہنا پڑا کہ:
 
’’اب تک جدید شاعری اور جدید شاعروں کو ہمدردانہ نظر سے کم ہی پڑھا گیا ہے ۔ اگر تعصب کی عینک اتار دی جائے اور نظم کی ہیئت میں نئے تجربوں اور معنی وبیان کے نئے راستے ڈھونڈنے کی کوشش کو بدعت نہ سمجھا جائے تو اس میں مختصر نظمیں لکھنے کا جو تجربہ کیا گیا ،شہر یار کی نظمیں اس کی اچھی مثال ہیں۔ ان کی نظموں کی خوبی یہ ہے کہ یہ نہ معمے ہیں ، نہ پہیلیاں،چٹکلے ہیں نہ لطیفے، بلکہ ایسے لخت ہائے جگر ہیں جن میں ہمارے عہد کا ادبی مزاج بھی ملتا ہے اور آج کے انسان کے دل کا خون بھی۔شہر یار کی آواز میں جو نغمگی کی کیفیت ، دردمندی اور ہلکا سا تفکر ملتا ہے وہ انہیں ایک خاص انفرادیت عطا کر رہا ہے‘‘۔
 
بلا شبہ’’ اسمِ اعظم‘‘ سے شہر یار کا جوشعری سفر شروع ہوا تھا وہ ’’ساتواں در‘‘(۱۹۷۰ئ)، ’’ہجر کے موسم‘‘(۱۹۷۸ئ)،’’ خواب کا در بند ہے‘‘(۱۹۸۵ئ)، ’’نیند کی کرچیں‘‘ (۱۹۹۵ئ)، ’’میرے حصے کی زمیں‘‘(۱۹۹۹ئ) اور پھر ’’حاصل سیرِ جہاں‘‘یا ’’شام ہونے والی ہے‘‘ کے بعد ’’کلیاتِ غزل ‘‘کا اگر سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو یہ حقیقت اجاگر ہوجاتی ہے کہ شہر یار نے کبھی بھی خود کو کسی خاص دائرے میں محدود نہیں رکھا اور نہ کسی کی بنائی ہوئی راہ پر چلنے کی کوشش کی۔بلکہ جس طرف بھی چلے وہ نئی راہ بنا کر چلے۔ یہی وجہ ہے کہ خواہ ان کے غزلیہ اشعار ہوں یا کہ نظمیں سب کی دنیا بدلی بدلی نظر آتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ شاعر نے جو فکری دنیا آباد کی ہے اس کے افق پر صرف تخیل کے چاند ستارے ہی نہیں ہیںبلکہ حقیقت کے قوس وقزح بھی نمایاں ہیں۔زمانے کا بدلتا تیور،بدلتے موسم،ٹوٹتے بکھرتے انسانی رشتے،پامال ہوتی اخلاقی قدریں، گل ہوتا اسلافی چراغ اور پھرخود آئینے کی طرح ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہونے کا کرب،یہ تمام چیزیں ان کے یہاں موجود ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ ان موضوعات کو ان کے ہم عصروں نے پیش کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن سچائی یہ ہے کہ شہر یار کو لفظوں کو معنوی پیراہن عطا کرنے کا جو ہنر آتا تھا وہ صرف ان کا ہی حصہ تھا۔جیسا کہ میں نے کہا کہ شہر یار نے ہمیشہ اپنی نئی ڈگر بنانے کی کوشش کی۔ کسی کے نقشِ پا کو دیکھ کر منزل تک پہنچنا انہیں کبھی گوارا نہیں تھا۔وہ ہمیشہ اپنی نئی دنیا آباد کرنے میں یقین رکھتے تھے۔اس لئے خود کو کبھی خاص مکتبِ فکر تک محدودبھی نہیں رکھا۔ آغاز میں کلاسیکیت سے استفادہ کیا پھر ترقی پسندیت کی طرف مخاطب ہوئے اور آخر تک خود کو فخریہ ترقی پسند شاعر کہتے بھی رہے ۔ جیسا کہ گیان پیٹھ ایوارڈ سے نوازے جانے کے بعد ای ٹی وی اردو پر صحافی ظفر آغا کو انٹر ویو دیتے ہوئے ۴؍نومبر ۲۰۱۱ء کو انہوں نے کہا تھا کہ ’’میں آج بھی ترقی پسند ہوں اور علی گڑھ جنوادی لیکھک سنگھ سے جڑا ہوا ہوں ۔ ترقی پسندیت سے میں نے کبھی انحراف نہیں کیا ‘‘۔لیکن سچائی یہ ہے کہ شہر یار نے دیگر ترقی پسند شعراء کی طرح فارمولا بند شاعری کو اہمیت نہیں دی اوراپنی جدت پسند ذہنیت کی ترجمانی اپنی شاعری میں کرتے رہے۔ لہذا وہ جدیدیت کی دنیا میں داخل ہوئے تو یہاں بھی انہوں نے خود کو منفرد ہی ثابت کیا اور جب مابعد جدیدیت کی فضا سازگار ہونے لگی تو یہاں بھی انہوں نے کبھی اپنی شناخت اور انفرادیت کو گم ہونے نہیں دیا۔ غرض کہ انہوں نے یہ ثابت کر دکھایا کہ اگر فنکار کا ذہن تخلیقیت سے زرخیز ہے تو وہ صحرا میں گل کھلا سکتا ہے ۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ جو شاعر فلموں کی طرف راغب ہوا اس کی ادبی حیثیت پر حرف آنے لگتا ہے اور اس کی شعری عاقبت خراب ہو جاتی ہے لیکن شہر یار نے یہ ثابت کیا کہ ایک جینون فنکار خواہ وہ کسی گلی سے گزرے اس کے نقشِ پا امٹ بن جاتے ہیںاور ان کی آواز فضائوں میں رنگ بھرنے لگتی ہے۔انہوں نے ’’امرائو جان ‘‘ جیسی تاریخی فلم کو اپنے نغموں سے جو مقبولیت بخشی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ انہوں نے یہاں بھی صرف تُک بندی نہیں کی بلکہ کردار کو لفظ ومعنی کے ذریعہ زندگی بخش دی۔جیسا کہ شہر یار کی موت کی خبر سن کر خیام نے کہا کہ ’’اگر ہندوستانی فلموں کو شہر یار جیسے دوچار شاعر مل گئے ہوتے تو ہندوستانی فلموں کی دنیا بدل گئی ہوتی۔‘‘بلا شبہ ادب ہو یا فلم ہر جگہ انہوں نے اپنی فکری اڑان کی معنویت برقرار رکھی اور اردو شاعری کے برے وقت میں بھی اس کے وقار کوقائم رکھا۔پروفیسر وہاب اشرفی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ’’شہر یار ایک محتاط رویے کے شاعر نظر آتے ہیں جن کے یہاں تخلیقی آٹونومی کا احساس ہوتا ہے یعنی وہ اپنے ذہن کو آزاد رکھتے ہیں اس حد تک کہ ان کے یہاں کوئی ازم زنجیر نہیں بنتی‘‘۔اور ایک دوسری جگہ پروفیسر وہاب اشرفی نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ ’’سکہ بند حوالے شہر یار کی شاعری کی تفہیم نہیں کر سکتے ا س لئے کہ ان کی اپنی فکر اور اپنی سوچ کا ایک تیور ہے جہاں ماورائیت کے لئے بہت کم جگہ ہے اور ارضی اور حقیقی تجربوں اور مشاہدوں کا میدان وسیع ہے۔ اگر صرف جنسی اور نسائی عقبی زمین میں شہر یار کی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو احساس ہوگا کہ ان کے یہاں عورت ،محبت اور اس سے متعلق رشتہ زمینی ہے مثالی نہیں‘‘۔
(تاریخ ادب اردو۔ جلد سوم۔ ص: ۱۷۰۱)
 
شہر یار کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ محتاط رویے کے شاعر تھے ۔ بلا شبہ ایک عظیم فنکار کبھی بھی ڈھنڈورچی نہیں ہوتا۔ ادبیات عالم پر سرسری نگاہ ڈالئے تو اس حقیقت سے آشنائی ہو جاتی ہے کہ جتنے بھی عظیم فنکار ہوئے ہیں وہ ہمیشہ نئی زمین اور نئے آسمان کے متلاشی رہے ہیں۔بیسویں صدی کی اردو شاعری میں اقبالؔ اور فیضؔ کے بعد اگر کسی پر نگاہ ٹھہرتی ہے تو وہ شہریار ہیں کہ جنہوں نے اردو شاعری کے تہذیبی تقاضوں کی پاسداری بھی کی اور اپنے افکارِ تازہ سے جہانِ شعر میں نئے معنی کے گل بوٹے بھی کھلائے ہیں۔اب ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شہر یار کے چند اشعار آپ کے سامنے پیش کروں تاکہ آپ کو بھی اس صداقت ایمان لانے پر مجبور ہونا پڑے کہ شہر یار نہ صر ف اردودنیا کا عظیم شاعر تھا بلکہ ہندوستانی ادب میں بھی ان کی حیثیت ایک مستحکم ستون کی تھی۔شہر یار کو۱۹۸۷ء میں ساہتیہ اکادمی کا ایوارڈ اور پھر ۲۰۰۸ء کا گیان پیٹھ ایوارڈدیا جانا ان کی شاعرانہ عظمت کا نہ صرف اعتراف ہے بلکہ اردو شاعری کو ہندوستانی ادب میں قبولیت بخشنے کا ضامن ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے  :
 
شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو
میں دیکھتا رہا دریا تری روانی کو
ہوس کی کشتی کے سب بادبان کھول دئیے
کہ تو سکون سے دریا کے پار اتر جائے
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دل میں رکھتا ہے نہ پلکوں پہ بٹھاتا ہے مجھے
پھر بھی اس شخص میں کیا کیا نظر آتا ہے مجھے
کس واسطے یہ تیری تو جہ کا ہے مرکز
اس  شاخ  کا  ہر  پھول  تو  صرصر  کے  لئے  ہے
زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے
ہر   گھڑی   ہوتا   ہے  احساس   کچھ  کم   ہے
گھر کی تعمیر تصور میں ہی ہو سکتی ہے
اپنے  نقشے  کے  مطابق یہ  زمیں  کچھ  کم   ہے
آج بھی ہے تری دوری ہی اداسی کا سبب
یہ الگ بات ہے کہ پہلی سی نہیں کچھ کم ہے
امید سے کم چشمِ خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
اس انجمن میں آپ کو آنا ہے بار بار
دیوار و در کو غور سے پہچان لیجئے
کہئے تو آسمان سے تارے اتار لائیں
مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر ٹھان لیجئے
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اسی بہانے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
 
غزلوں کی طرح ہی ان کی نظمیہ شاعری کی دنیا بھی الگ جہانِ معنی رکھتی ہے۔ اپنے ہم عصروں کی طرح انہو ںنے بھی اپنے ارد گرد کی دنیا کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی انہوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ حالات کی عکاسی سے پہلے اپنے جذبات کو احساس کی بھٹی میں جلا کر کندن بنایا جائے اور پھر صفحۂ قرطاس پر خونِ دل بکھیرا جائے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں کے مطالعے سے بھی یہ حقیقت اجاگر ہو جاتی ہے کہ انہوں نے عام روش سے ہٹ کر اپنی فکر کی دنیا آباد کی اور ان موضوعات کو لفظوں کے سہارے شعری پیکر میں ڈھالا جہاں تک بہتوں کی نگاہ نہیں پہنچ سکی تھی۔ یہاں نظمیہ اشعار کی مثال ممکن نہیں کہ طوالت کا خوف لازم ہے۔لیکن اگر ہم ان کی نظموں کا مطالعہ سنجیدگی سے کریں تو پتہ چلتا ہے کہ شہر یارجہانِ افہام وتفہیم کا البیلا باسی تھا۔شہر یار کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے ہندی کے نامور ادیب کملیشور نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ:
 
 ’’شہر یار کی خوبی یہی ہے کہ ان کی رچنا (تخلیق) کا چہرہ نہایت ویکتی گت(ذاتی) ہے لیکن اس میں جھانکئے تو اپنا اور پھر دھیرے دھیرے وقت کا بدحال چہرہ دکھنے لگتا ہے۔ان کی شاعری میں ہر انسانی اور قدرتی موسم کے ساتھ ساتھ وہ شعور موجود ہے جو تک بندی کو توڑ کر لا شعور اور بات کو بے تکا ہونے سے بچاتا ہے۔یہ ہر موسم کی ہلکی ہوا کی طرح اپنی بات کہتا ہے اور وہ بات ایک یادگار غزل یا نظم بن جاتی ہے۔اس میں نہ کچھ ریشمی ہے نہ تو سوتی،یہ بس بھیگی بالو کی طرح بھاری ،ہموار اور شرابور ہے۔ شہر یار کی شاعری اس بھیگی بالو کو نچوڑا نہیں جاسکتا بس اتنا محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اس کے نیچے یا تو گہرے احساس کی کوئی ندی ہے یا تہذیبی احساس کا کوئی سمندر‘‘(آج کے پرسدھ شاعر۔شہر یار۔راجپال اینڈ سنس)
 
شہر یار کی شاعری نہ صرف اردو طبقے بلکہ دیگر ہندوستانی زبان والوں کے لئے بھی ذہنی آسودگی کا سامان فراہم کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شہر یار کی شاعری کے تراجم نہ صرف دیوناگری بلکہ مختلف ہندوستانی زبانوں میں بھی موجود ہیںاور ہر طبقے میں انہیں قبولیت حاصل ہوئی۔اردو کے جن فنکاروں کو گیان پیٹھ انعام سے نوازا گیا ان میں فراقؔ گورکھپوری، قرۃ العین حیدر، سردار جعفری کے بعد شہر یار بھی شامل ہیں۔ اس ایوارڈ کے بعد ان کی شاعری کے تراجم کی طرف اور بھی توجہ ہوئی ہے اور مختلف زبانوں میں ان کی نظمیہ شاعری کو بڑی سنجیدگی سے پڑھا جا رہا ہے ۔ افسوس کہ شہر یار اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن مملکتِ شاعری میں ان کی شاعرانہ عظمت ہمیشہ مسلّم رہے گی اور وہ اس کے شہریارتسلیم کئے جاتے رہیں گے۔شاید ایسے ہی نابغۂ روزگار فنکار کے لئے غالبؔ نے کہا تھا:
 
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے
 
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
……………………………………………
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 738