donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Prof.Irteza Karim : Urdu Novel Tanqeed Ka Chiraghe Raah


پروفیسر ارتضی کریم: اردو ناول تنقید کا چراغ راہ


٭ڈاکٹر مشتاق احمد، دربھنگہ

موبائل: 9431414586


ادبیات عالم میں فن ناول نگاری، روز اول سے ہی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ ناول کو انسانی ذہن کا ایک بڑا منظم خاکہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ یورپ میں ایک کامیاب تخلیق کار کے لئے اس کے ناول کو ہی پیمانہ مانا گیاہے، دراصل ناول ہی ایسا فن ہے جس میں تصوراتی سطح پر ایک خاکہ پیش کیا جاتا ہے جسے ہم مفروضے کے بطور محسوس کرتے ہیں اور بعد میں مختلف مراحل اور تجربات سے گزر کر وہی مفروضے معروضوں کی شکل لے لیتے ہیں۔ اس لئے ناول نگاری کو فنون لطیفہ میں وہ مقام حاصل ہے جسے کسی بھی زاویے سے کمتر نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ خلا سے سمندر وں کی تہیں اور ٹیلی فون سے ٹیلی ویژن تک کے سفر کو بھی دیکھیں تو ان جہان نو کو پہلے پہل کسی نہ کسی طور پر مفروضوں کے بطور ناولوں میں ہی پیش کیا گیا اور بعد میں وہی دنیا  ہمارے سامنے آئی۔ لہٰذا ناول نگاری کوعالمی ادب میں ایک اعتبار کا درجہ حاصل رہا ہے۔ جہاں تک مشرقی ادب کا سوال ہے تو ہمارے یہاں اس فن کی روش قدرے تاخیر سے شروع ہوئی باالخصوص اردو میں تو آسمان ادب پر ناول کا ستارہ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں طلوع ہوا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس فن کو اردو میں بھی ایک کلیدی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اگرچہ اردو کا ماحول داستانی اور غزلیہ تھا لیکن صنعتی انقلاب کے بعد جب یورپ کا مزاج بدلا اور مشرقی دنیا بھی نئے انقلابات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی تو یہاں بھی فکر ونظر کا قبلہ منتقل ہوا۔چونکہ ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے اس لئے جب کبھی زندگی میں بھی تغیر وتبدل وقوع پذیر ہوتا ہے تو اس کے اثرات ادب میں بھی نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ اس لئے داستان کے بعد ناول ہماری ذہنی آسودگی کا وسیلہ بن گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو ناول نگاری کی حیثیت مستحکم ہوگئی۔ کیونکہ ناول میں نہ صرف انسان کی مکمل زندگی کا احاطہ ہوتا ہے بلکہ سماجی ، سیاسی، مذہبی، ثقافتی یعنی پورا معاشرہ ہی جلوہ گر ہوتا ہے،اس لئے اس میں انسان کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ فکشن کی دیگر اصناف کے مقابلے ناول اس معنی میں بھی قدرے مقبول ہوا کہ اس میں کئی تجربوں کے در کھلے ۔ باالخصوص بیسویں صدی اور ایکسویں صدی کی دوسری دہائی فکشن کے نام سے منسوب ہوئی تو اس میں ناول کو مرکزیت حاصل ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ فکشن کی تنقید میں ناول تنقید قدرے اولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ پریم چند کو اگر پروفیسر قمر رئیس نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو اس کی واحد وجہ پریم چند کی ناول نگاری ہی تھی۔ اگرچہ پریم چند کے افسانے بھی ہمارے لئے گنجہائے گراں مایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بعد کے دنوں میں بھی ہمارے جن تنقید نگاروں کی دلچسپی فکشن کی تنقید میں رہی ان کے لئے بھی ناول کی تنقید ہی محور ومرکز ثابت ہوئی۔ 

بہرکیف، اس وقت میرے اس مضمون کا دائرہ اردو فکشن کے ایک با اعتبار نقاد پروفیسر ارتضی کریم کی ادارت میں شائع ہونے والا سہ مجلہ ’فکر وتحقیق‘ کا ناول نمبر ہے۔ دنیائے ادب پروفیسر ارتضی کریم کی تعمیری فکر ونظر سے بخوبی واقف ہے۔ وہ گزشتہ دو دہائیوں سے صحرائے فکشن تنقید میں سبزہ اگارہے ہیں۔ ان کی دو درجن تصانیف اس بات پر دال ہے کہ وہ منظم ذہن کے نقاد ہیں اور کسی موضوع کو اعتبار بخشنے کا سلیقہ انہیں خوب آتا ہے۔ ان کا فکشن مطالعہ اس قدر وسیع و وقیع ہے کہ وہ جس موضوع کا انتخاب کرتے ہیں اس کے تمام منہاج و منازل روشن ہوجاتے ہیں۔ اس کا احساس پیش نظر ناول نمبر کے مطالعے سے بھی ہوتا ہے۔ انہوںنے خود بھی یہ باور کرایا ہے کہ’’ ناول نمبر میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ناول کے جتنے بھی زاویے اور جہتیں ہیں ان کا مکمل احاطہ کیا جائے اور عالمی سطح پر ناول کا جو منظر نامہ ہے اس کی ایک جھلک سامنے آجائے۔‘‘ ناول کی تنقید میں دلچسپی رکھنے والوں کے ذہن میں یہ سوال اکثر اٹھتا رہا ہے کہ ہمارے یہاں بے شمار ناول لکھے گئے ہیں، باوجود اس کے کہ عالمی ادب میں اردو ناول نگاری کو کوئی مقام حاصل کیوںکر نہیں۔ پروفیسر ارتضی کریم کو بھی اس بات کا احساس ہے، وہ لکھتے ہیں ’’اردو میں لکھا گیا ناول عالمی ادب کے معیار پر کیوں نہیں اتر پارہا ہے، کیا ہمارے ناول کا سرمایہ کمزور ہے؟ عالمی سطح پر اردو ناولوں کی شناخت مبہم کیوں ہے؟ کیا قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کے ناول عالمی سطح پر نہیں رکھے جاسکتے؟ یہ بھی سوال بڑا اہم ہے کہ اردو میں ناول تنقید کی روایت اتنی مستحکم کیوں نہیں ہے؟ کیا ناول تنقید کے مغربی معیارات کو سامنے رکھ کر اردو میں ناول تنقید کے نئے معیارات قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

بلا شبہ مذکورہ سوالات نہ صرف ارتضی کریم کے فکر ونظر کا حصہ ہے بلکہ ہر اس قاری کے لئے جو اردو ناول کی جھیل میں کنکڑی پھینک کر پھیلتے ہوئے دائرے کو دیکھنے کا متمنی ہے۔ وہ بھی اسی طرح کے سوالوں میں الجھا رہتا ہے۔ دراصل ہم آج بھی اپنے ادب کو یورپی پیمانے پر پرکھنے کے عادی ہیں، جبکہ مشرقی ادب کے تقاضے کچھ اور ہی ہیں اور یورپی ادب کے منہاج کچھ اور ہیں۔ پھر کتنے ایسے اردو ناول ہیں جو یورپی زبانوں میں منتقل ہوئے ہیں۔ اگر شروع سے اردو ناول کے تراجم عالمی بازار میں دستیاب ہوتے تو ممکن ہے کہ آج ہم اتنے مایوس نہیں ہوتے۔ حالیہ دہائی میں بھی ہمارے بہت سے ناول نگاروں نے عالمی سطح کی تخلیقات پیش کی ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ وہ بس اردو طبقے تک ہی محدود ہے اور اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اب اردو ناول کے قارئین کا طبقہ بھی سمٹ کر رہ گیا ہے، ورنہ عصر حاضر میں الیاس احمد گدی، عبد اصمد، مشرف عالم ذوقی، پیغام آفاقی، حسین الحق، انور خان، جوگیندر پال، غضنفر، جیلانی بانو، ترنم ریاض، اقبال مجید، خالد جاوید وغیرہم کے ناول یورپی دنیا کی سیر کرلیے ہوتے تو ممکن ہے کہ ہم آج مایوسی کے اتنے شکار نہیں ہوتے جتنے کہ ہیں۔ہمارے شروع کے دنوں کے ناول بھی عالمی ادب میں محض اس لئے میزان نقد پر نہیں رکھے گئے کہ وہاں تک ہماری رسائی ہی نہیں ہوسکی، ورنہ آج بھی پریم چند، منٹو، عصمت، بیدی اور قرۃ العین وانتظار حسین کو پڑھنے کے لئے یورپ میں بھی ایک بڑا طبقہ منتظر ہے۔ 

مختصر یہ کہ پروفیسر ارتضی کریم نے اس دستاویزی ناول نمبر میں ان تمام نکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے جو ہمارے لئے  اب تک افہام وتفہیم کا مسئلہ بنا رہا ہے۔ چار ابواب بعنوان ’گل وریحان، لولو ومرجان، چشم جہان اور تخلیقی وجدان‘ میں منقسم 428صفحات پر پھیلا ہوا یہ یک موضوعی شمارہ نہ صرف ناول نگاری کے فن اور اس کی سمت ورفتار سے واقف کراتا ہے بلکہ اس حقیقت سے بھی آگاہ کراتا ہے کہ ہمارے ناول کی دنیا کہاں تک پہنچ چکی ہے۔ دو درجن تحقیقی وتنقیدی مضامین کے علاوہ فکشن نگار رتن سنگھ، حسین الحق، نورالحسنین، صادقہ نواب سحر، سید محمد اشرف، انل ٹھکر اور ترنم ریاض کے تخلیقی وجدان سے یہ شمارہ لبریز ہے۔ مقالہ نگاروں میں پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر قدوس جاوید، پیغام آفاقی،شہاب ظفر اعظمی ، اسلم جمشید پوری، فخر الکریم، سائستہ فاخری، خورشید حیات، وضاحت حسین رضوی، مشتاق وانی، شہناز رحمان، شکیلہ نگار، صالحہ صدیقی ، قمر جمیلڈ احسان اکبر، امجد طفیل، محمد سفیر اعوان اور پروفیسر ارتضی کریم کے مضامین حوالہ جاتی حیثیت کے حامل ہیں۔ شاہانہ مریم شان کا ہندوستانی جامعات میں اردو ناولوں پر تحقیق اور غضنفر اقبال کا ناول تنقید کا مطالعہ بھی قدرے وقیع ہے اور ناول تنقید کی سمت ورفتار کے اشاریے پیش کرتے ہیں۔ غرض کہ اس دستاویزی علمی وادبی اور تحقیقی وتنقیدی کاوش کے لئے پروفیسر ارتضی کریم اور ان کے معاونین کی جتنی بھی شتائش کی جائے کم ہے کہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اس علمی وتحقیقی جریدہ ’فکر وتحقیق‘ کو انہوں نے اپنی محنت شاقہ سے ایک حوالہ جاتی مجلہ بنادیا ہے۔ با الخصوص اردو ناول اور ناول تنقید کے مطالعے میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ شمارہ چراغ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔اس دور گرانی میں اس شمارے کی قیمت محض پچاس روپئے رکھنا بھی اردو ادب کے سنجیدہ قارئین کے لئے کونسل کا گویاایک بڑا احسان ہی ہے۔

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 643