donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Professor Wahab Ashrafi : Kuchh Yaden Kuchh Bate

پروفیسر وہاب اشرفی: کچھ یادیں کچھ باتیں
 
ڈاکٹر مشتاق احمد ،پرنسپل ملت کالج، دربھنگہ
 (Mob:9431414586)
 
15 جولائی 2012ء کی صبح کے چار بج کر چوالیس منٹ اور نو سکنڈ ہوئے تھے کہ میرے موبائل پر ایک میسیج آیا ۔ حسبِ معمول اس طرح کے میسیج کو میں فوراً نہیں دیکھتا لیکن نہ جانے کیوں اس میسیج کو میں نے فوراً پڑھنے کی کوشش کی ۔لکھا تھا ’’پروفیسر وہاب اشرفی آج تین بجے انتقال فرما گئے انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ میرا ذہن اس ٹھوس سچائی کو قبو ل کرنے کو تیار نہیں تھاکیوں کہ گذشتہ دوسالوں سے اکثر اس طرح کی خبریں دوست احباب سے ملتی رہتی تھیں کہ اب وہاب صاحب چند دنوں کے اور چند گھنٹوں کے مہمان ہیں لیکن دوسرے ہی دن اخباروں میں یہ خبر دیکھنے کو ملتی تھی کہ پروفیسر وہاب اشرفی نے فلاں ادبی جلسہ سے خطا ب فرمایا ، یا پھر صدارت کی۔ ابھی میرا ذہن اسی ہاں اور ناں میں الجھا ہوا تھا کہ پانچ بج کر دو منٹ پر پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی صاحب کا کال آیا بس بات وہی تھی کہ پروفیسر وہاب اشرفی اب نہیں رہے۔ظاہر ہے اب اس ٹھوس سچائی کو قبول نہ کرنے کا میرے پاس کوئی جوازنہیںرہ گیا تھا۔ میں نے بھی انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ پھر بیگم کو آواز دی اور اس سانحہ کی خبر دی۔چوںکہ پروفیسر وہاب اشرفی ان کی پی ایچ ڈی کے ایک ممتحن تھے اور انہوں نے ہی وائیوا لیا تھا اس لئے وہاب اشرفی صاحب کے لئے ان کے دل میں نہ صرف احترام ہے بلکہ وہ ان کی تحریروں کو ہمیشہ پڑھنے کی کوشش میں رہتی ہیں۔اب ہم دونوں ایک ساتھ بیٹھ کر پروفیسر وہاب اشرفی کے ذکر خیر میں مشغول تھے کہ ڈاکٹر ہمایوں اشرف صاحب کا میسیج آیا ۔ ’’انتہائی غم کے ساتھ یہ اطلاع دے رہا ہو ں کہ رات تین بجے وہاب اشرفی صاحب انتقال فرماگئے‘‘ میں نے فوراً رِنگ بیک کیا ۔ ڈاکٹر ہمایوں اشرف کی آواز بھاری تھی اور میری آنکھیں بھی آبدیدہ۔ ہم دونوں بس ان کی موت کو ذاتی غم کے طورپر لے رہے تھے اور کہنے کو کچھ نہیں تھا۔اس بات سے دل کو اور بھی صدمہ پہنچا کہ بقول ڈاکٹر ہمایوں اشرف اسی دن انہیں میرے رسالہ ’’جہانِ اردو‘‘ کا تازہ شمارہ ملا تھا اور انہوں نے میری خیریت دریافت کی تھی ۔ واضح ہو کہ میں اپنے ایک دفتری امور کی میٹنگ کے لئے مورخہ 13 جولائی 2012ء کو پٹنہ گیا تھا اور ’’جہانِ اردو‘‘ کا یہ شمارہ ان کے لئے بک امپوریم پر چھوڑ آیا تھا۔ چوں کہ اس د ن جمعہ کے بعد میٹنگ تھی اور یہ میٹنگ تقریباً سات بجے شام میں ختم ہوئی اس لئے میں چاہ کر بھی پروفیسر وہاب اشرفی صاحب سے ملاقات نہیںکرسکا تھا۔جب کہ پہلے کبھی پٹنہ جانا ہوتاتھا تو ان سے ملنے کے لئے ضرور جاتا تھا اور ان سے کچھ حاصل کرکے واپس آتا تھا لیکن اسے اپنی بد نصیبی ہی کہا جائے کہ اس دن ان کا نیاز حاصل نہیں ہو سکا اور اب تو صرف ان کی یادیں ہی یادیں رہ گئی ہیں۔بشیر بدرؔ نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ     ؎
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
  پروفیسر وہاب اشرفی کا نام میں نے پہلی بار کب سنا تھا وہ تو ٹھیک سے یاد نہیں لیکن انہیں پہلی بار دیکھنے کا موقع 1982ء میں ملا تھا جب میں ایک نجی تقریب میں رانچی گیا تھا اور اس تقریب میں پروفیسر وہاب اشرفی موجود تھے۔  ڈرتے ڈرتے میں نے اپنا تعارف پیش کیا تھا۔ اس وقت تک میرے بس تین چار مضامین اخبارورسائل میں شائع ہوئے تھے اور چند افسانے غیر ادبی پرچوں میں چھپے تھے لیکن پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے مجھ پر جو شفقت و خلوص کی بارش کی تھی وہ آخر تک جاری رہی۔ اس ملاقات کے بعد میں بھی پروفیسر وہاب اشرفی کی تحریرکو سنجیدگی سے پڑھنے لگا تھا اور ان کی تنقیدی بصیرت وبصارت سے اپنے تاریک ذہن کو روشن کرنے کی کوشش کرتا رہا۔پھر جب وہ پٹنہ آگئے اور بہار یونیورسٹی سروس کمیشن کے چیر مین مقرر ہوئے تو اکثر یہاں کبھی ادبی جلسوں میں اور کبھی سیاسی گلیاروں میں ملاقات ہو جاتی تھی۔ دیکھتے ہی میں سلام عرض کرتا اور پروفیسر وہاب اشرفی صاحب جواب کے ساتھ خیریت پھر لکھنے پڑھنے کے متعلق سوالات کرتے۔ ان کے سوالات میں جو ہمدردی اور اپنا پن ہوتا تھا اس کی مثال اردو ادیبوںمیں بس پروفیسر قمر رئیس تھے کہ ان سے بھی جب کبھی ملاقات ہوتی تو اسی طرح شفقت سے ملتے اور اپنے نیک مشوروں سے نوازتے۔ادھر جب کبھی میرا مضمون اخبار و رسائل میں چھپتا تو مرحوم نہ صرف اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے بلکہ خامیوں کی طرف بھی اشارہ کرتے۔ البتہ ایک بات اکثر کہتے تھے کہ عصری حالات پر آپ کی نگاہ اچھی ہے لیکن خود کو ادب تک محدو د رکھئے تو بہتر ہے ۔وہ میری حوصلہ افزائی کرتے اور کہتے کہ آپ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں ۔ میں اس حقیقت کو خوب سمجھتا تھا کہ وہ میری ہمت افزائی کر رہے ہیں ورنہ میری تحریر ان جیسے دانشور کے لئے کیا معنی رکھتی ہے ۔میں کبھی کبھار ادبی مسائل کے تعلق سے انہیں فون کیا کرتا تھا اورفون پر ہی وہ میرے مسائل حل کردیا کرتے تھے۔کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ میرا فون انہیں بارِ گراں گزرا ہو بلکہ اکثر خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے اور دعائوں سے نوازتے تھے کہ آپ کی نسل میں تو لو گ ایک دو صفحہ لکھنے کے بعد خود کو استاد سمجھنے لگتے ہیں اور آپ ماشاء اللہ لکھ پڑھ رہے ہیں اور آپ کے اندر سوال کرنے کی عادت موجود ہے ۔اس سلسلہ کو جاری رکھئے کہ علم کے معاملے میں یہ عادت انسان کو آگے بڑھانے میں معاون ہوتی ہے۔ اس طرح کا سلوک اپنے چھوٹوں سے صرف اور صرف وہاب اشرفی ہی کرتے تھے۔ایک واقعہ یہاں تحریر کرنا چاہتا ہوں اس معذرت کے ساتھ کہ اسے میری تعلی نہ سمجھا جائے۔ پروفیسر وہاب اشرفی صاحب جب’’ تاریخِ ادب اردو‘‘  مکمل کر رہے تھے تو پٹنہ کی ایک تقریب میں مجھ سے ملاقات ہوئی، وہ دیکھتے ہی مجھے ڈانٹنے لگے ’’آپ کو خبر بھجوائی تھی کہ آپ اپنی تفصیلات مجھے بھیج دیں لیکن آج تک نہیں ملی۔اب میں کام سمیٹنے والا ہوں ۔‘‘میں نادم تھا کیوں کہ جناب عطا عابدی صاحب نے ایک ماہ قبل ہی یہ اطلا ع دی تھی کہ پروفیسر وہاب اشرفی کا حکم ہوا ہے کہ میں انہیں اپنے متعلق مختصراً تحریر کر جلد سے جلد بھیج دوں۔لیکن سچائی یہ ہے کہ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھ رہا تھا کہ تاریخِ ادب اردو میں میری شمولیت ہوسکے۔ میں نے سمجھا کہ پروفیسر اشرفی میری حوصلہ افزائی کے لئے ایسا کہہ رہے ہیں اس لئے میں ٹالتا چلا گیا لیکن اس دن پٹنہ میں جب ان کی محبت بھری ڈانٹ ملی تو میں نے ان سے وعدہ کیا کہ بس دو چار دنوں میں بھیج دوں گا۔ابھی بس دوسرا ہی دن تھا کہ ان کا فون آیا ’’دیکھئے اب میرے پاس وقت نہیں ہے آپ لکھائیے جو کچھ لکھانا چاہتے ہیں۔ آج میں ’’تاریخِ ادب اردو ‘‘ کا یہ باب ختم کر رہا ہوں۔ لیجئے فون پر ان کو اپنی تفصیلات لکھوائیے‘‘۔ اُدھر سے آواز بھائی عطا عابدی کی تھی ’’آج آپ کو لکھانا ہی ہوگا‘‘ اور میں نے بھی اس وقت جو کچھ سمجھ سکا انہیں لکھوادیا اور جب ’’تاریخِ ادب اردو‘‘ شائع ہوئی تو یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میں نے تو بس اپنی تاریخِ پیدائش ،وجائے مقام اور کتابوں کے نام لکھوائے تھے لیکن انہوںنے اس حقیر کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ نہ صرف میرے لئے باعثِ فخر ہے بلکہ سند کا درجہ رکھتا ہے ۔میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ’’تاریخِ ادب اردو‘‘ میں جگہ بہ جگہ کتابت کی غلطی تھی اس کی طرف اشارہ کیا۔ انہو ںنے کہا اطمینا ن رکھئے جلد ہی اغلاط نامہ پر مشتمل جلد آرہی ہے ۔ آپ خان صاحب کے یہاں سے لے لیں گے اور واقعی کچھ دنوں کے بعد تصحیح شدہ جلدیں شائع ہوئیں۔یہ کتاب نہ صرف ان کے لئے تاریخی اہمیت کی حامل ثابت ہوئی کہ 2010ء میں اسی کتاب پر انہیں ساہتیہ اکادمی کا ایوارڈ ملا بلکہ جہانِ ادب کے قارئین کے لئے بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ پہلی بار زیادہ سے زیادہ نوواردانِ ادب کے احوال وکوائف کو اس میں جگہ دی گئی ہے۔ہاں مجھے اس کا بات ہمیشہ افسوس رہے گا کہ حال ہی میں جب ’’جشنِ وہاب اشرفی‘‘ کا اہتمام پٹنہ میں کیا گیا تھا تو میں اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے اس میں شامل نہیں ہو سکا تھا۔ بعد میں جب جشن کی کامیابی پر انہیں مبارکباد دی تھی تو قدرے ناراض بھی ہوئے تھے کہ میں اس میں شامل نہیں ہو سکا لیکن ایک دو دن کے بعد ہی انہوں نے حسبِ معمول میرے ایک عصری مضمون پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ جشنِ وہاب کے مضامین کتابی صورت میں شائع ہوں گے۔ آپ نے اگر لکھا تھا تو اسے بھیج دیجئے ۔ میں نے کہا کہ مضمون بس تاثراتی ہے اور ادھورا بھی ،مکمل کرکے جلد ہی بھیج دوں گالیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ میرا مضمون مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ اس دنیا سے آخری سفر کو روانہ ہوجائیں گے۔ یوں تو پروفیسر وہاب اشرفی پر لکھی جانے والی کوئی بھی تحریر کبھی مکمل نہیں ہو سکتی کیوں کہ ان کا ذخیرۂ ادب اوروں کی طرح بس رطب ویابس کا انبار نہیں ہے بلکہ ان کی ہر تحریر گنجینۂ معانی کا درجہ رکھتی ہے۔
پروفیسر وہاب اشرفی کی شخصیت کے تعلق سے علامہ اقبالؔ کا یہ شعر بہت موزوں معلوم پڑتا ہے کہ :
یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
ان کی خودنوشت ’’قصہ بے سمت زندگی کا‘‘ورق ورق الٹتے جائیے اور یہ حقیقت اجاگر ہوتی چلی جائے گی کہ وہاب اشرفی جو کچھ تھے وہ بس اپنی محنت اور اپنی موہنی شخصیت کی بدولت تھے۔اس خود نوشت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہاب اشرفی کو وہاب اشرفی ہونے تک کتنی جدو جہد کرنی پڑی تھی، کن کن مشکل حالات سے وہ گزرے تھے۔ کبھی اپنوں نے منہ پھیرا تو کبھی دوستوں نے ریاکاری کی۔لیکن ان کے اندر بلا کا حوصلہ تھا۔ وہ کبھی گھبرائے نہیں اور یقیں محکم و عمل پیہم کے ساتھ آگے بڑھتے رہے اور دنیائے ادب کے فاتح ثابت ہوئے۔یہ ان کا مستحکم قوتِ ارادی اور حوصلہ ہی تھا کہ وہ بیماری کے دنوں میںبھی دور دراز کا سفر کرتے تھے اورادبی جلسوں میں شرکت کرتے تھے۔ اکثر تو ایسا بھی ہوا کہ آج وہ صبح میں ہسپتال سے باہر آئے اور شام میں ادبی جلسوں میں شرکت کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے کالج یعنی ملّت کالج ، دربھنگہ میں سمینار ہونا تھا ۔ تاریخ طے ہوچکی تھی۔ اس سمینار کے وہ خصوصی مہمان تھے لیکن متعینہ تاریخ کے ایک دن قبل یہ اطلاع ملی کہ پروفیسر وہاب اشرفی صاحب کی طبیعت بگڑ گئی ہے اور وہ اسپتال میں داخل ہو گئے ہیں ۔ میرے تو ہوش و حواس اڑ گئے۔ میں نے خیریت کے لئے فون کیا ۔اُدھر سے آواز آئی ’’میں اسپتال میں ہوں۔ انشاء اللہ شام تک گھر واپس آئوں گا اور کل آپ کے جلسے میں رہوں گا‘‘۔  میں نے کہا کہ خدا کرے ایسا ہی ہو لیکن اگر آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہو تو رسک نہیں لیجئے گا۔ سڑک کا سفر ہے۔ وہ بولے’’آپ فکر مت کیجئے بس میں وہاں رات میں رکوں گا نہیں فوراً واپس آئوں گا۔ میرے ساتھ شفیع جاوید صاحب بھی ہوں گے‘‘۔ یہ واقعہ فروری 2010 کا ہے اور سچ مانئے پروفیسر وہاب اشرفی ملّت کالج کے سمینارمیں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ اس موقع پر انہوں نے جو عالمانہ ودانشورانہ تقریر کی تھی اس کا لفظ لفظ کانوں میں رس گھو ل رہا ہے اور اس سمینار میں ملک کی مختلف یونیورسٹیوں سے آنے والے مقالہ نگاروں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ وہاب اشرفی صاحب کی آج کی تقریر نہ صرف عالمانہ ہے بلکہ بصیرت افروز اور سبق آموز بھی ہے ۔
 
مختصر یہ کہ اردو کے نامورناقداور دانشور پروفیسر وہاب اشرفی (2جون 1936ئ۔15 جولائی 2012ئ) علمی وادبی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔ ایک معلمِ اردو ہونے کے علاوہ ایک ادیب، افسانہ نگار، محقق،ناقد اور ادبی صحافت کے عظیم علم بردار تھے۔ پروفیسر اشرفی بنیادی طورپر اردو کے ایک مخلص معلم تھے، درس وتدریس کی دنیا میں ان کا تعلق ریاست کی مختلف یونیورسیٹیوں سے تقریباً تین دہائیوں تک رہا۔ انہوں نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز مگدھ یونیورسٹی ، گیا کے گیا کالج میں اردو لکچرار کی حیثیت سے کیا تھا۔ اس کے بعد وہ رانچی یونیورسٹی، رانچی میں بحیثیت ریڈر مقرر ہوئے اور وہیں سے بحیثیت پروفیسر سبکدوش ہوئے۔ ان کی عملی زندگی بہت کامیاب رہی۔ درس وتدریس کے بعد انہوں نے بہار اسٹیٹ یونیورسٹی سروس کمیشن کے چیر مین کی حیثیت سے جو کارنامے انجام دئیے ہیں اسے تاریخ فراموش نہیں کر سکتی۔ پھر انہوں نے بحیثیت چیرمین، بہار انٹر میڈیٹ کونسل میں جو انقلابی کارنامے انجام دئیے وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ دنیائے ادب میں ان کا مرتبہ کتنا بلند و عظیم المرتبت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اساتذہ اور معاصرین نے بھی ان کی علمی صلاحیت کا اعتراف کیا ہے۔ وہاب اشرفی کی تحریروں میں جو وسعت، ہمہ گیری اور گہرائی ہے اس کی بنیاد پر اردو انتقادی ادب میں ان کی اپنی ایک منفرد ومستحکم شناخت ہے۔پروفیسر وہاب اشرفی کی تحقیقی وتنقیدی کتابوں کے مطالعے سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ انہوں نے شروع سے ہی اپنی تحریروں کو صحت مند فکرونظر کا آئینہ بنایا۔ ان کے تحقیقی مقالے ہوں یا تنقیدی مضامین، تاثراتی مضامین ہوں یا تبصرے ہر جگہ ان کے ذہن کی زرخیزی اور تنقیدی بصیرت وبصارت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ساتھ ہی ان کا اپنا ایک اسلوب ہے جو انہیں دوسروں سے نہ صرف منفرد کرتا ہے بلکہ ممتاز بناتا ہے۔ غرض کہ بیسویں صدی کی آخری تین دہائیوں کے اردو تنقیدی وتحقیقی سرمایے کا جائزہ لیتے ہیں تو اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے جن ناقدینِ ادب نے اردو تنقید کو نئی سمت وجہت عطا کی اور اپنی صحت مند فکر ونظر سے آراستہ کیا ان میں پروفیسر وہاب اشرفی کا مقام نمایاں ہے۔ ان کی چار درجن تحقیقی وتنقیدی تالیفات وتصنیفات اس بات کی گواہ ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ زبان و ادب کے پودے کی آبیاری میں صرف کیا ہے۔ان کی تصانیف وتالیفات میں ’’تاریخ ادبیاتِ عالم‘‘ (7 جلدیں)، ’’تاریخ ادب اردو‘‘ (تین جلدیں)، ’’قطب مشتری کے تنقیدی جائزے‘‘، ’’جدید ادبی تنقید‘‘ ، ’’شاد عظیم آبادی اور ان کی نثر نگاری‘‘، ’’معانی کی تلاش‘‘، ’’مثنویات میر کا تنقیدی جائزہ ‘‘، ’’کاشف الحقائق‘‘، (ترتیب متن مع مقدمہ)، ’’سہیل عظیم آبادی اور ان کے افسانے‘‘، ’’پطرس اور ان کے مضامین‘‘، ’’راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری‘‘ ، ’’تفہیم البلاغت‘‘ ، ’’بہار میں اردو افسانہ نگاری‘‘، ’’آگہی کا منظر نامہ‘‘، اردو فکشن اور تیسری آنکھ‘‘، ’’مابعد جدیدیت : ممکنات ومضمرات‘‘، ’’مجروح سلطانپوری ‘‘، ’’معنی کی جبلت‘‘، ’’مارکسی فلسفہ ،اشتراکیت اور اردو ادب‘‘،اور ’’مشرقی ومغربی شعریات‘‘ وغیرہم ریفرنس بک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی خود نوشت ’’قصہ بے سمت زندگی کا ‘‘ اور تبصرے وتقاریظ کا مجموعہ ’’نقطہ نقطہ تعارف‘‘ کے علاوہ ان کے خطبات وتقاریران کے نظریۂ زندگی وادب کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔ادبی صحافت کے باب میںبھی ان کی حیثیت سنگِ میل کی ہے کہ انہو ںنے ’’ندیم‘‘ اور ’’مباحثہ‘‘ جیسے معیاری ادبی رسالوں کی ادارت کی اور پھر شروع کے دنوں میں ’’عصرِ جدید‘‘(کلکتہ) سے بھی وابستہ رہے۔ یوں توحیات میں ہی ان کی علمی وادبی خدمات کا چہار سمت اعتراف کیا گیا اور انہیں مختلف ادبی اداروں نے اپنے پر وقار انعام واکرام سے نوازا جن میں ساہتیہ اکیڈمی ، دہلی کا 2010ء کا ایوارڈ بھی شامل ہے ۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پروفیسر وہاب اشرفی کی ہمہ جہت شخصیت اور ان کے افکار و نظریات سے نئی نسل کو آگاہ کرانے کے لئے ان کی شخصیت وفن پرسمینار، مذاکرے منعقد کرائے جائیں اور ان کی ہمہ جہت شخصیت کے ایک ایک پہلو پرروشنی ڈالی جائے کہ ان کی شخصیت کا ہر پہلو آنے والی نسل کے لئے مشعلِ راہ کادرجہ رکھتا ہے ۔ مرزا غالبؔ نے ایسے ہی نابغۂ روزگار شخصیت کے لئے شاید کہا تھاکہ :
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے
 
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
…………………………………………
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 787