donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Woh Khak, Ke Hai Jiska Junu Saiqale Idrak


وہ خاک ، کہ ہے جس کا جنوں صیقل ادراک


(الحاج غلام سرور مرحوم کی یوم پیدائش۱۰ جنوری پرخراج عقیدت )


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

 ای میل: rm.meezan@gmail.com

Mob.-09431414586


    حال ہی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،نئی دہلی کے زیر اہتمام پٹنہ میں اردو صحافت پر دو روزہ قومی سمینار منعقد ہوا۔ اس کے افتتاحی اجلاس سے لے کر اختتامیہ تک غلام سرور کی کثیرالجہت شخصیت کا تذکرہ ہوتا رہا۔ چونکہ بیش تر مقالات کے موضوعات بہار میں اردو صحافت کے تعلق سے تھے ، اس لئے یہ لازمی تھاکہ غلام سرور کا ذکر آئے کیونکہ بہار کی اردو صحافت کی تاریخ اس وقت تک مکمل ہو ہی نہیں سکتی جب تک اس میں الحاج غلام سرورمرحوم کی خدمات کا اعتراف نہ ہو۔غلام سرورنے نہ صرف بہار کی اردوصحافت کو نئی سمت عطا کی بلکہ قومی اردو صحافت کے وقار کو بھی بلند کیا۔ سن ستّر کی دہائی میں ’’سنگم ‘‘اردو کا ایک ایسا اخبار تھا جس کے اداریے کے حوالے بی بی سی لندن پر نشر کئے جاتے تھے۔ خواہ وہ ایمرجنسی کا زمانہ ہو یا پھر جمشید پور اور رانچی کے فرقہ وارانہ فسادات، غلام سرورنے ہمیشہ ایک ذمہ دار صحافی کا کردار ادا کیا۔ وہ کبھی کسی بڑی شخصیت سے مرعوب نہیں ہوئے اور نہ کبھی اقتدار کے آگے سرنگوں ہوئے۔ اپنی بات ہر ہمیشہ بہ بانگ دہل کہتے رہے۔ اگرچہ ان کی فکر و نظر کا محور و مرکز مسلمانوں کے مسائل رہے لیکن قومی مسائل کی بھی اندیکھی نہیں کی۔بالخصوص سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسئلوں پر ان کی خاص توجہ رہتی تھی۔ اردو زبان و ادب کے فرو غ کے لئے تو وہ آخری سانس تک لڑتے رہے۔ بہار میں انجمن ِ ترقی اردو کی تاریخ بھی غلام سرور کے بغیر نہیں لکھی جاسکتی ۔ یہ اور بات ہے کہ اس تحریک کے متنازعہ دور میں وہ ایک الگ گروپ کے سپہ سالار رہے اور پروفیسر عبد المغنی مرحوم دوسرے کارواں کے قائد۔ مگر آخری دنوں میں ان دونوں دانشوروں نے ایک صف میں کھڑے ہو کر نئی نسل کو یہ بھی پیغام دیا کہ اردو کے مسائل کے حل کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام تر نظریات اور تحفظات سے اوپر اٹھ کر کام کیا جائے۔ بلا شبہ اردو کی ترقی کی راہوں میں جو مسائل ہنوز درپیش ہیں ، اس کے لئے لازمی ہے کہ الگ الگ ٹولیوں میں کام کرنے والے ایک پلیٹ فارم پر آئیں ورنہ اگر ہم اپنی ڈفلی آپ بجاتے رہیں گے تو ہماری صدا، صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوتی رہے گی۔

    مختصر یہ کہ غلام سرور مرحوم کی پوری زندگی قوم و ملت کی خدمات میں گزری ہے۔اگر ان کی زندگی پر کوئی کتاب لکھی جائے تو اس کے ابواب یوں ہو سکتے ہیں: صحافت ،صداقت، سیاست ،قیادت ، ثقافت اور عداوت ۔ ممکن ہے کہ آپ اس فہرست میں ’’عداوت‘‘ کو بے تکا کہیں۔ مگر میری نگاہ میں وہ عداوت کے بھی علم بردار تھے۔ جی ہاں!  انہیںان لوگوں سے آخری سانس تک عداوت رہی جنہیں وہ قوم و ملت کے لئے مضر سمجھتے رہے۔ مثلاً اس ملک میں مسلمانوں کی منجملہ پسماندگی کے لئے وہ کانگریس کو مجرم کی حد تک ذمہ دار مانتے تھے اور اس لئے شروع تا آخر وہ کانگریس کے تئیں اپنے عداوتی نظرئے پر قائم رہے۔ وہ کبھی بھی کانگریس کی پالیسی کے متعرف نہیں رہے۔ اگرچہ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز مسلم لیگ کی سیاست سے کیا تھا لیکن تقسیم وطن کے بعد وہ ایک سماج وادی فکر و نظر کے مبلغ رہے اور جیسا کہ پہلے ہی ذکر آچکا ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، اقتصادی، مذہبی اور ثقافتی شناخت کے استحکام  کی جد و جہد ان کی زندگی کا مشغلہ تھا۔جب کبھی اقلیت طبقے کی حق تلفی ہوئی یا پھرکوئی سازش ہوئی تو وہ اس کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔روزنامہ ’’سنگم‘‘ کے سینکڑوں ایسے اداریے ہیں جن کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ غلام سرورمرحوم کا مسلم مسائل کے تئیں کیا نظریہ تھا۔ وہ ایک بالغ النظر سیاست داں بھی تھے اور ایک دور اندیش ملّی رہنما بھی ۔ وہ دوسروں کی عیب جوئی سے کہیں زیادہ اپنی کمیوں کا محاسبہ کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ وہ عملی سیاست میں رہتے ہوئے کبھی حق گوئی سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔ یہاں ایک واقعہ کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ اس سے بہ آسانی یہ سمجھا سکتا ہے کہ غلام سرور مرحوم،  میدان ِسیاست کہ جہاں مصلحت پسندی ایمان کا درجہ رکھتی ہے ، وہاں بھی انہوں نے کبھی صداقت کا دامن نہیں چھوڑ ا۔ ۱۹۹۰ ء کا واقعہ ہے کہ بہار میں اسمبلی انتخاب ہونا تھا ۔ مرکز میں وی پی سنگھ کی حکومت تھی ۔ جناب مفتی محمد سعید مرکزی وزیر داخلہ تھے ۔ ساتھ ہی ساتھ جنتا دل کے اقلیتی سیل کے چیئرمین بھی تھے ۔ الحاج غلام سرور مرحوم بہار جنتا دل اقلیتی سیل کے چیئرمین تھے ۔ دہلی کے ’’ہریانہ بھون‘‘ میں اسمبلی امیدواروں کے لئے ٹکٹ تقسیم کو آخری شکل دی جارہی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس میٹنگ میں مفتی محمد سعید ، چندرشیکھر سنگھ، دیوی لال، اجیت سنگھ ، رام دھن وغیرہ پارٹی کے سینئر لیڈر کی میٹنگ چل رہی تھی ۔ چونکہ اُن دنوں میں دہلی میں تھا اور عم ِ محترم نیر اعظم صاحب بھی پنڈول اسمبلی حلقہ سے ٹکٹ کے امیدوار تھے۔ اس لئے ان کے ساتھ میں ہریانہ بھون کے لان میں موجود تھا۔ الحاج غلام سرور مرحوم وہاں پہنچے۔ شاید میٹنگ شروع ہو چکی تھی اور کسی کو اندر میٹنگ ہال میں جانے نہیں دیا جارہا تھا۔ ہریانہ بھون کے عملے ہریانہ ریاست کے ہوتے ہیں اور ان میں اکثریت جاٹ کی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے وہ غلام سرور مرحوم کو پہچانتے نہیں تھے۔ لہٰذا اس نے انہیں بھی روکا۔ وہ خاموش رہے۔ میں وہاں پہنچ کر اس سرکاری عملے کو ان کے متعلق بتاہی رہا تھا کہ انہوں نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر اپنا لکھا اور اس سے کہا کہ ’’لو مجھے تم اندر نہیں جانے دے سکتے تو اس پرزے کو تو اندر لے جاسکتے ہو‘‘۔ اس حفاظتی عملہ نے حامی بھری اور پرزہ لے کر اندر گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پہلے مفتی سعید صاحب، پھر چندر شیکھر سنگھ اور پھر اس کے بعد اجیت سنگھ باہر آئے۔ انہوں نے اپنی جیب سے ایک فہرست نکالی اور کہا کہ اس میں جتنے مسلم امیدواروں کا نام ہے اس میں سے کسی کا نام نہیں ہٹنا چاہئے، ورنہ میں بھی الکشن نہیں لڑوں گا۔ وہ سب کے سب انہیں یہ سمجھانے لگے کہ ابھی میٹنگ کے بعد ہی کچھ کہا جاسکتا ہے مگر وہ بس اپنی بات ہی دہراتے رہے اور یہ کہہ کر رخصت ہوئے کہ ’’مجھے دو بجے کی فلائٹ سے پٹنہ واپس ہونا ہے۔ میں جارہا ہوں‘‘۔ محترم نیر اعظم صاحب کے ساتھ میں انہیں گیٹ تک چھوڑنے آیا۔ انہوں نے نیر اعظم صاحب سے کہا کہ’’ یہاں کیا کر رہے ہیں جایئے اپنے حلقے میں تیاری کیجئے۔ کسی کی مجال نہیں کہ آپ کا ٹکٹ کاٹ دے‘‘۔یہ کہتے ہوئے وہ رخصت ہوگئے۔ ہم لوگ شام تک فائنل لسٹ کا انتظار کرتے رہے۔ دیر شام دیویندر پرساد یادو جو ہمارے حلقے کے ممبر پارلیامنٹ تھے وہ باہر آئے اور یہ خوش خبری سنائی کہ غلام سرور صاحب نے جو لسٹ دی تھی، اسے قبول کر لیا گیا ہے اور اس میں آپ (نیر اعظم) کا بھی نام ہے۔ہم لوگوں کو اس وقت بھی یقین نہیں آیا کیونکہ ٹکٹ کے لئے کافی مارا ماری چل رہی تھی۔ لیکن دوسرے دن جب اخبار میں خبر شائع ہوئی تو یہ ثابت ہو گیا کہ دیویندر پرساد یادو نے جو کچھ کہا تھا ، وہ سچ تھا۔بلاشبہ یہ واقعہ غلام سرور صاحب کے سیاسی قد کا آئینہ دار ہے ۔کاش آج کی سیاست میں بھی کوئی غلام سرور ہوتا اور مسلمانوں کے سیاسی مطالبوں کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل پر اس بے باکی سے بہت کہنے کا حوصلہ رکھتا ۔ممکن ہے کہ غلام سرورمرحوم کے سیاسی نظریات سے بہتوں کو اختلاف ہو ، مگر ان کے صحت مند افکار ونظریات بالخصوص مسلمانوں کے مسائل کے تئیں بیدار ی سے اختلاف ممکن نہیں ۔آج جب ہم ان کی یوم پیدائش کو ’’یوم اردو ‘‘کے طور پر منا رہے ہیں تو ہم اردو والوں کو یہ عہد ضرور کرنا چاہئے کہ اردو اور اقلیت کے مسائل پر الگ الگ اپنی ڈفلی بجانے اور راگ الاپنے کے بجائے تمام تر ازم سے اوپر اٹھ کر متحد ہوں کہ آخری وقت میں غلام سرورمرحوم اور ڈاکٹر عبد المغنی مرحوم نے ایک صف میں کھڑے ہو کر یہی پیغام دیا تھا۔ اگر ہم متحد ہوتے ہیں تو نہ صرف ہمارے مسائل حل ہوں گے بلکہ ان اکابرین کے خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہوں گے۔مجھے اس وقت حکیم الامت علامہ اقبال کے یہ اشعار یاد آرہے ہیں کہ اس کا پرتو الحاج غلام سرور مرحوم کی شخصیت میں دکھائی دیتا تھا۔

    ؎     وہ خاک ، کہ ہے جس کا جنوں صیقل ادراک !
        وہ خاک ، کہ جبریل کی ہے جس سے قبا چاک
        وہ خاک، کہ پروائے نشیمن نہیں رکھتی !
        چنتی نہیں پہنائے چمن سے خس و خاشاک

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 589