donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Nasim Ahmad Nasim
Title :
   Kuchh Ahmad Yusuf Aur Unke Ham Asron Ke Bare Mein

 

کچھ احمد یوسف اور ان کے ہم عصروں کے بارے میں
 
ڈاکٹر نسیم احمد نسیم ،پٹنہ ۔رابطہ۔99310-04295
 
احمد یوسف مرحوم 1930میں صدر گلی پٹنہ سیٹی میں پیدا ہوئے ۔ان کا گھرانہ بہت قبل سے علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ان کے والد سید محمد یوسف مرحوم ایک نامور قانون گو تھے ۔ساتھ ہی وہ بہ یک وقت عربی ، فارسی اور اردو زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔انگریزی زبان اور ادب سے بھی خاصا شغف تھا۔انہوںنے علامہ اقبال کی معروف نظم ’’شکوہ‘‘ کا انگریزی میں منظوم ترجمہ کیاتھا۔وہ کلکتہ میں قیام پذیر تھے ۔
احمد یوسف صاحب کا تعلیمی سلسلہ ان کے والد صاحب کی نگرانی میں شروع ہوا۔احمد یوسف کا داخلہ کلکتہ کے مشہور مدرسہ ، مدرسہ عالیہ میں 1935میں ہوا ۔1939میں وہ مدرسے کی تعلیم مکمل کرکے پٹنہ واپس آگئے ۔ان کی اسکولی تعلیم محمڈن اینگلو عربک اسکول (پٹنہ سیٹی ) سے مکمل ہوئی بعد ازاں انہوںنے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے I.Scاور B.Sc کے امتحانات امتیازی نمبرات سے پاس کئے ۔ایم اے ، پی ایچ ڈی کے لئے وہ پھر پٹنہ واپس آگئے ۔
 
احمد یوسف نے اپنی افسانہ نگاری کا باضابطہ آغاز 1948سے کیا۔ان کی پہلی کہانی کلام حیدری کے ماہنامہ ’’آہنگ ‘‘ (گیا) میں ’’عبدالرحیم ٹی اسٹال ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ۔دراصل اسی کہانی کے توسط سے وہ ملک گیر پیمانے پر ادبی منظر نامے پر اُبھرے اور ناقدین ادب نے ان کی طرف توجہ دیا۔پھر اس کے بعد جو سلسلہ شروع ہوا وہ اخیر عمر تک جاری رہا ۔ان کی تصنیفا کی فہرست لمبی ہے ۔ان میں چار افسانوی مجموعے ’’روشنائی کی کشتیاں ‘‘ آگے کے ہمسائے ،’’ 23گھنٹے کا شہر‘‘اور رزم ہو یا بزم ‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ ’’جلتا ہوا جنگل‘‘ ان کی آخری یادگار ہے ۔جس میں تین ناولٹ کو انہوںنے ایک ساتھ شائع کیا ہے ۔
 
احمد یوسف صاحب نے جن دنوں اپنی افسانہ نگاری کی ابتدا کی تھی اس وقت افسانہ نگاروں کے دو گرپ تھے ۔ایک گروپ ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھتا تھا اور اپنے افسانوں میں شدت کے ساتھ اشتراکی نظریے کو مستحکم کرنا چاہتا تھا۔دوسرا گروپ ترقی پسند تحریک سے متاثر تو تھالیکن وہ شدت کا قائل نہ تھا ، اس کے یہاں اعتدال اور توازن کا عمل دخل تھا۔تاکہ اجتماعت کی فلاح کی بات بھی ہو او رفن کا نازک آبگینہ بھی شکستہ نہ ہو ۔احمدیوسف مرحوم کا تعلق آخر الذکر گروپ سے تھا۔احمد یوسف کے معاصرین میں مختلف مزاج اور رجحان کے افسانہ نگار تھے ۔لیکن ان کے وہ معاصرین جو احمد یوسف کی ہی طرح معتدل اور متوازن رویے کے حامی تھے ان میں انتظار حسین ، رام لعل ،الیاس احمد گدی ، غیاث احمد گدی ، کلام حیدری ، جوگیندر پال ،اقبال مجد ، اقبال متین ، زکی انور ، جیلانی بانو اور شفیع جاوید وغیرہ کافی اور ممتاز معروف ہیں۔ان افسانہ نگاروں کے یہاں بھی زندگی او رزندگی کے مسائل ہیں ۔درد و کرب ہے ، محنت کشوں اور مزدوروں کی حمایت ہے ، لیکن فن کی حرمت کہیں بھی پامال ہوتی دکھائی نہیں دیتی پیش ہے۔ ان میں سے چند افسانہ نگاروں کی بابت کچھ باتیں ۔
 
جیلانی بانو ان کے معاصرین میں اولین اہم ادیبہ ہیں ۔جیلانی کے یہاں حیدرآباد کی تہذیب اورماحول کا عکس صاف جھلکتا ہے ۔ان کے یہاں Local Colourکی نشاندہی بہ آسانی کی جاسکتی ہے ۔لیکن جیلانی کے افسانے مقامی رنگ کے علاوہ دوسرے بہت سے موضوعات کا بھی احاطہ کرتے ہیں ۔انہوںنے اپنے گردوپیش کے ماحول اور حرکات و سکنات کا بغائر جائزہ لیا ہے ۔یہی سبب ہے کہ ان کے یہاں تنوع اور رنگا رنگی کی خصوصیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔انہوںنے بھی دوسری خواتین افسانہ نگاروں کی طرح عورتوں کے مخصوص مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے لیکن ان کی نظر اس کے علاوہ معاشرتی اور سیاسی باریکیوں پر بھی رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں تہذیب اور معاشرہ کی جھلک صاف طور پر دکھائی دیتی ہے ۔جیلانی بانوکے افسانوں کی قرأت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے یہاں صرف سماجی احوال اور ظلم و جبر کا بیان نہیں بلکہ عوام اور بالخصوص خواتین کو یہ واضح اشارہ ہے کہ وہ ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کریں اور اپنے اندر قوت پیدا کرکے جابر اور غاصب قوتوں سے نبرد آزما ہوں ۔ان کے یہاں یہ ردعمل کا رویہ عام ترقی پسندوں جیسا نہیں بلکہ ایک متانت اور فنی نظم و ضبط کا نمونہ بھی ہے ۔اس لئے یہ بات توثیق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے وہ احمد یوسف کے تخلیقی مزاج سے بہت قریب ہیں۔احمد یوسف کی طرح وہ بھی زندگی اور فن دونوں کو یکساں اہمیت دیتی ہیں۔
 
احمد یوسف مرحوم کے قریب ترین ہم عصروں میں الیاس احمد گدی اور غیاث احمد گدی کے نام کافی اہم ہیں۔گدی برادران  گدی محلہ ،جھریا ضلع دھنباد کے رہنے والے تھے ۔الیاس احمد گدی کو بھی وہی ماحول ملا جو غیاث احمد گدی کو ملاتھا ۔یہ لوگ اوسط( بلکہ غریب ) خاندان کے تعلق رکھتے تھے ۔الیاس کی تعلیم گدی محلے میں ہوئی ۔اس سے آگے کی تعلیم انٹر میڈیٹ سے آگے نہ بڑھ سکی ۔اس کی وجہ گھر کے حالات تھے ۔غیاث احمد گدی نے تو چوتھی ،پانچویں جماعت کے بعد اسکول ہی چھوڑ دیا۔لیکن کالج ، یونیورسٹی کی چمک دمک سے دور رہ کر ان لوگوں نے ذاتی طور پر جو مطالعہ کیا،وہ بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سند یافتہ لوگوں سے زیادہ قابل قدر تھا۔ان دونوں بھائیوں نے اردو کے افسانوی ادب میں یکساں ادبی خدمات درج کرائیں ۔غیاث احمد گدی کو کچھ زیاد شہرت ملی ، لیکن الیاس نے بھی رفتہ رفتہ اپنی اہمیت منوائی اور ’’فائر ایریا‘‘ جیسی تصنیف کی تخلیق کرکے اردو ادب میں ہمیشہ کے لئے اپنا مقام محفوظ کرلیا۔
 
گدی برادران نے اپنے افسانوں کے ذریعے کولیری کے مزدوروں ،محنت کشوں کی دگرگوں زندگی اور ان کے شب و روز کے کربناک احوال کو زبان دینے کا کام کیا۔کس طرح سرمایہ دار، کارخانہ دار اشخاص اپنی امارت ، ہوس ناکی اور تعیش پرستی کے سبب عام انسان یعنی عورتوں اور بچوں تک کو ظلم کی چکی میںپیستے ہیں اور کس طرح انسان ،روز روز مرتا ہے او ر منھ سے اف بھی نہیں کہہ پاتا ۔دراصل گدی برادران کے افسانے ایک طرح سے پسماندہ اور مقہور و مغضوب لوگوں کو بیدار کرنے کے وسیلے ہیں تاکہ وہ اُٹھیں اور ظالم سے مقابلہ کریں ۔اس نظریے کی پیش کش کے دوران اکثر فن کاروں کے یہاںشدت اور کرختگی آجاتی ہے ، لیکن گدی برادران کی خوبی یہ ہے کہ انہوںنے احتجاج اور شدت کے موضوعات کو بھی فنی جمالیات کے ساتھ پیش کرکے فن کاری کا عمدہ نمونہ پیش کیا ہے ۔احمد یوسف کے یہاں بھی اکثرمقامات پر سماج کا دبا کچلا طبقہ کراہتا ہوا نظر آتا ہے ۔غاصب قوتوں کے خلاف آوازیں بھی سننے کو ملتی ہیں، لیکن فنی چابکدستی اور فنی حسن ہر جگہ موجود ہے ۔
 
احمد یوسف مرحوم نے اپنی وفات سے قبل ایک انٹرویو میں اپنے ہم معاصرین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ :
’’ میرے ساتھ لکھنے والوں میں رام لعل تھے ،الیاس احمد گدی ،غیاث احمد گدی بھی تھے۔جوگندر پال ، اقبال متین اوراقبال مجید بھی تھے ۔‘‘
 
یہاں احمد یوسف مرحوم نے فقط چند نا م لئے ہیں جبکہ ان کے علاوہ بھی کئی اہم معاصرین ہیںجن سے احمد یوسف صاحب کے قریبی تعلقات تھے اور یوسف صاحب نے ان کے طرز کو پسند بھی کرتے تھے ۔لیکن انہوںنے ان افسانہ نگاروں کے اسلوب او ر انداز کو نہیں اپنایا ۔وہ اپنی مخصوص روش پر چلتے رہے ۔شاید یہی اسباب تھے کہ وہ اپنے بہترے ہم عصروں کے درمیان رہ کر بھی منفرد اور ممتاز دکھائی دیتے ہیں ۔احمد یوسف کے ہم عصروں میں جیسا کہ اوپر ذکر آیا کہ رام لعل بھی بہت معروف تھے ۔ رام لعل کی افسانہ نگاری اپنے عہد کی زبوں حالی سے عبارت ہے ۔انہوںنے اپنے گردوپیش کے حالات اور ملکی صورتحال کو پیش نظر رکھا۔انسان کے مسائل ، ان کی الجھنوں اور نارسائیوں کو اپنے اندرون میں اتارا او راسے کمال فن کاری کے ساتھ آئینہ کیا۔وہ ایک بہت ہی باخبر اور حساس فن کار ہیں ۔ان کی کہانیاں ہمیں ہر مرحلے پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔احساس زیاں او ر احساس محرومی کی تیز آنچ ان کی کہانیوں کی شناخت بن گئی ہے ، 
 
رام لعل کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے جا طوالت میں نہیں جاتے ۔وہ بڑے بڑے سماجی مسائل کو مختصر ترین دائرے میں سمیٹ لیتے ہیںاور اس طرح کہ فن کاری بھی باقی رہے ۔
احمد یوسف کے ہم عصروں میں جوگیندر پال بہت ہی اہم اور معروف نام ہے ۔جوگیندر پال کے افسانے زندگی کے حقیقی اوراک کی مثالیں ہیں ۔ان کے یہاں عام افسانوں کی طرح کسی ایک موضوع یا کیفیت کو Focus نہیں کیاجاتا ، بلکہ اس کے ساتھ کئی موضوعات او رکوائف کی رنگا رنگی پیش کی جاتی ہے ۔ایک ساتھ کئی کوائف اور موضوعات کی تہیں کھلتے کھلتے ذرا دیر لگتی ہے ۔اس پے ان کی کہانیاں عام قارئین کے لئے ذہنی ورزش کا سامان ہی رہتی ہیں ۔جوگیندر پال کے یہاں  تلذّذاور دلچسپی سے زیادہ فکر کی تشکیل او رپھر اس کی ترسیل پر زور ملتا ہے ۔وہ اکثر اشاروں او رکنایوں میں باتیں کہتے ہیںاور شبیہیں ابھارتے ہیں ۔لیکن یہ تجربہ پڑھنے والوں کے لئے مسئلہ ہوجاتا ہے ۔لیکن یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پال نے اپنی کہانیوں کے ذریعے عام افسانوی روش کو بدلنے کی کوشش کی ہے اور قاری کو ذہانت اور باخبری کا پیغام پہنچایا ہے ، تاکہ کہانی پن کے ساتھ فکر و بصیرت اور ذہنی تربیت کی راہ بھی ہموار ہوسکے۔ان معنوں میں پال کی انفرادیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔
 
احمد یوسف کے معاصرین میں اقبال متین کا نام خاصا جانا پہچانا ہے ۔اقبال متین اپنی کہانیوں میں ترقی پسند تحریک میں متاثر نظر آتے ہیں لیکن ان کے کئی افسانے ایسے بھی ہیں جو خالص رومانی کہانیوں کے زمرے میں آتے ہیں۔لیکن یہ خالص رومانی اورلذت کوشی کا نمونہ نہیں بلکہ ان میں رومان اور حقیقت کو ہم آمیز کرنے کی سعی کی گئی ہے ۔وہ سماجی نابرابری ،ناانصافی اور استحصال کو ہمیشہ اپنا ہدف بناتے رہے ۔انہوںنے سماجی خرابیوں اور خامیوں کی طرف نہ صرف اشارہ کیا ہے بلکہ اس کے تدارک پر بھی سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کیا ہے ۔چونکہ ان کے افسانوں کا تعلق براہ راست عام لوگوں سے ہے ۔اس لئے ان کا اسلوب او ران کی زبان بھی سادہ اور سہل ہے ۔علامت ،تجرید او رتمثیل سے عمدہ اً گریز ہے اس لئے کہ یہ چیزیں ترقی پسندوں کے لئے ناقابل قبول رہی ہیں کیونکہ ان سے خیالات کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ، 
اقبال مجید بھی اقبال متین کی طرح ترقی پسند رجحان رکھتے ہیں ۔ان کی کہانیاں بھی سماجی ناانصافی ، ظلم و استبداد اور استحصالی نظام کے لئے تازیانہ ثابت ہوئی ہیں ۔لیکن اقبال متین کی طرح انہوںنے بھی ترقی پسندوں کی شدت اور حدت نہیں اپنائی وہ میانہ روی او ر اعتدال کے قائل تھے ۔ان کی نگاہ سماج اور سماجی عوامل پر گہری ہے ۔وہ سیاسی ،معاشی اور معاشرتی مسائل کا بغائر مطالعہ کرتے ہیں اور انہیں نہایت ہی فن کارانہ چابکدستی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔اقبال مجید کے یہاں سماجی شعور کے ساتھ ادیبوں کی ذمہ داری کا احساس بھی دلایاجاتاہے ۔وہ سماج کے تئیں قلم کاروںکی ذمہ داری کو اہم مانتے ہیں ۔اس موقف کے زیر اثر انہوںنے کئی افسانے بھی تخلیق کئے ہیں ۔یہ اختصاص صرف ان کی کہانیوں میں ہی نہیں ۔بلکہ ان کے ناولوں ’’کسی دن ‘‘ او ر’’نمک ‘‘دونوں میں واضح طور پر محسوس کیاجاسکتا ہے ۔فن اور نظریہ کی سطح پر اقبال مجید بھی پوری طرح احمد یوسف کے قریب نظر آتے ہیں ۔معروف ناقد پروفیسر وہاب اشرفی نے اقبال مجید کی افسانہ نگاری کی خصوصیات کو ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : 
 
اردو میں جب بھی معتبر افسانہ نگاروں کی فہرست مرتب کی جائے گی تو اقبال مجید کی شمولیت ناگزیر ہوگی ۔بنیادی طور پر موصوف ترقی پسند ہیں ۔لیکن ان کی تخلیقات میں افراط و تفریط نہیں ہے ، زندگی ،سماج اور تہذیب کی ناہمواریوں پر ان کی گہری نگاہ رہی ہے ۔تہذیب کے بدلتے ہوئے تیور پر ان کی توجہ ہمیشہ قابل ذکر رہے گی ۔تیزی سے بدلتی ہوئی انسانی قدریں ان کی نگاہ میں رہی ہیں اور ان کے بعض افسانوں کی بنیادی محتویات ہیں ، نوع انسانی کے تہذیبی علامات میں تبد یلیاں اور بے ربطی ان کے خاص موضوع ہیں ۔چنانچہ ان کے کئی افسانے اس کا احساس دلاتے ہیں کہ وہ تہذیبی او رمعاشرتی قدروں کے انحطاط اور عدم تسلسل کو فوکس کرنے میں نمایاں رہے ہیں ۔‘‘
 
محولہ بالا اقتباس کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اقبال مجید کے یہاں سماجی شعور و ادراک پر خاصا گرفت ہے ۔ان کے یہاں سماجی ذمہ داریوں پر اصرار ملتا ہے ۔وہ شدومد کے ساتھ ادیب کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔لیکن یہ تحریر یں تبلیغی اور مقصد ی نہ ہوکر خالص تخلیقی اور فنی ہوتی ہیں ۔اقبال مجید کا یہ خاصہ ہی دراصل ان کی اصل شناخت ہے۔
 
شفیع جاوید بھی احمد یوسف مرحوم کے قریب ترین معاصرین میں شمار ہوتے ہیں ۔ان کے افسانوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک خاص ماحول ہے ۔سماج کا ایک مخصوص طبقہ ہے جو باربار نظر کے سامنے آتا ہے ۔ان کے پیشتر افسانوں میں Upper Middle ClassیاEliteطبقہ کے احوال اور ان کی چلتی پھرتی زندگی صاف طور پر منعکس ہوتی ہے ۔یہی سبب ہے کہ شفیع جاوید کے کردار اس اشرافیہ طبقے سے آتے ہیں جن کی سوچ ، فکر اور شخصیت تہہ دار اور طرح دار ہوتی ہے ۔ان کے افسانوں میں بیشتر مقامات پر انشائی جملے ، فلسفیانہ نکتے ، فنی ، Touchesاور ادبی و ثقافتی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ جھلکیاں قارئین کے خواص طبقات کے لئے بھی ناقابل فہم ہوجاتی ہیں ۔عام اور معمولی اذہان کے قارئین ان کی تہوں میں اترنے سے یکسر قاصر ہوتے ہیں ۔
 
شفیع جاوید کے افسانوں میں ایک خاص معیار کے ساتھ خالص ادبی زبان اور ادبی ماحول ،فن اور فن کاری اور فتون لطیفہ پر گہری باتیں ملتی ہیں ۔یہ تمام خصائص ان کے افسانوں میں اکثر مقامات پر دیکھنے کو مل جاتے ہیں ۔ان کے مطابق وقت عجیب و غریب شے ہے او رہم بھی عجیب تر ہیں ۔ہم نہ جانے کتنی سطحوں پر زندگی کرتے ہیں ۔زندگی کے لمبے سفر میں دوہی حقیقت بڑے سنگ میل کی طرح ہیں ۔ایک ہماری ولادت اور دوسری ہماری موت ۔اس کے باوجود ہم زندگی کے شعور اور راز ہائے بستہ سے بے خبر، غافل اور لاپرواہ رہتے ہیں ۔شفیع جاوید کی یہ فلسفیانہ سوچ ان کے افسانوں میں عکس ریز ہوتی ہے ۔
 
شفیع جاوید کا طرز تحریر زیادہ تر انٹی لکچیول او راکیڈمک رہا ہے ۔ان کے یہاں معاشی تگ و دو میںسرگرداں آدمی تو نظر آتا ہے لیکن بانداز دگر ۔ان کے یہاں اعلیٰ انسانی اقدار اور اخلاقیات کا حد درجہ پاس ہے ۔وہ پرانوں ، رامائن ،داستانوں ، مذہبی روایتوں نیز Mythاور اساطیری سرمایوں سے اپنا مواد کشید کرتے ہیں او راسے عہدموجود کے احوال سے مماثل کرکے دیکھتے ہیں ۔اس مرحلے پر وہ کافی محتاط رہتے ہیں کہ کہیں قاری اجنبیت اور نامانوسیت کا شکار نہ ہو ۔ایسے موقع پر ان کی شاعرانہ زبان Tools کا کام کرتی ہے ۔اسلوب کی چاشنی کارگر ثابت ہوتی ہے اور قاری کو بہت حد تک اپنے سحر میں لے لیتی ہے ۔حالانکہ موجودہ وقت صارفی عہد کا ہے ۔اب قاری کے پاس اتنا وقت اور غور وفکر کا شوق نہیں کہ علامتوں اور کنایوں سے بھری تحریریں پڑھے لیکن ان کے یہاں جو تا سٹلجیا ہے وہ اپنی طرف راغب کرتا ہے ۔شفیع جاوید کی کہانیوں کا بڑا خاصہ یہ ہے کہ ان کے یہاں اکثر جگہوں پراپنی گمشدہ تہذیب کی تلاش نظر آتی ہے ۔کہیں ماضی کی طرف مراجعت ہے ۔لیکن حال سے فرار نہیں ۔بلکہ حال سے آنکھیں چار کرنے کی جرأت اور حوصلہ ہے ۔شفیع جاوید کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دوسروں کی طرح کچھ کہنے یا لکھنے سے قصداً گریز کرتے ہیں ۔شاید یہی وہ خصوصیات ہیں جو  شفیع جاوید کو اہم ترین مقام و مرتبہ کا مستحق ثابت کرتی ہیں۔
 
درج بالا سطور میں احمد یوسف مرحوم کے جن معاصر افسانہ نگاروں پر اظہار خیال کیاگیا ۔وہ اپنے آپ میں کافی اہم اور قابل قدر ہیں۔اس کا اعتراف قابض مضمون کے آغاز میں کیاگیا ہے ۔لیکن یہ تمام افسانہ نگار کسی نہ کسی طور پر احمد یوسف کی فکر، نقطہ نظر او رموقف سے مماثل نظر آتے ہیں۔احمد یوسف نے افسانوں میں زندگی کو اس کے ہر رنگ میں دیکھنے کی سعی کی ہے ۔وہ افسانہ برائے افسانہ کے قائل نہیں۔ ان کے نزدیک ادب کا ایک واضح مقصد ہے ۔نیز یہ کہ ادب کو افادی بھی ہونا چاہئے۔یہ تمام صاف احمد یوسف کے افسانوں میں جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں ۔محولہ بالا سطور میں جن چند افسانہ نگاروں کا ذکر کیاگیا ان کے یہاں بھی احمد یوسف کی طرح وہی سوچ اور زاویہ نظر بدرجہ اتم موجود ہے ۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ احمد یوسف کے عہد او ران کے معاصرین ادب اور خاص طور سے افسانوی ادب کو زندگی کا حقیقی ترجمان بنانے کے لئے پابند عہد رہے ہیں اور ہیں۔
 
******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 1359