donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Nazeer Ahmad Nadvi
Title :
   Ameen Shujauddin-- Chand Yaden Chand Baten

 

 امین الدین شجاع الدین.....چند یادیں ۔چند باتیں


ڈاکٹر نذیر احمد ندوی 

شعبۂ عربی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ۔یوپی

 

جناب امین الدین شجاع الدین ایک بے باک صحافی اورصاحب طرز ادیب تھے، بارگاہ ایزدی سے انہیں ذہن رسا ،فکر اخاذ 
،نظرِ نقاد اورطبع حساس کے پہلو بہ پہلو سلیس ورواں قلم بھی عطا ہوا تھا۔ ان کی تحریریں معنوی طورپر جس طرح پُرمغز اورپُرکشش ہوتی تھیں اسی طرح وہ ظاہری طورپر خوش نویسی اورخوش خطی کی شاہکار ہوا کرتی تھیں ۔

ایک عرصہ تک وہ ’’بانگ درا‘‘ لکھنؤ کے آخری صفحہ پر ’’اپنی بات‘‘ یا’’مدیر کی میز سے‘‘بخط خود تحریر فرماتے رہے جس سے ان کی خوش خطی کاصحیح اندازہ کیاجاسکتاہے۔

انہوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ پہلے جامعۃ الہدایۃ جے پور کے ترجمان ماہنامہ’’ہدایت ‘‘کی ادارت کے فرائض 1993اور1994کی درمیانی مدت میں انجام دیئے۔ 1997میں حضرت الاستاذ مولانا سید سلمان حسینی ندوی مدظلہ العالی کی دعوت پر لکھنؤ تشریف لائے اورشباب بلڈنگ میں قیام کیا ۔اور’’بانگ درا‘‘ کی ادارت سے وابستہ ہوگئے۔ جس سے اس کی ظاہری خوبی اورمعنوی حسن میں چارچاند لگ گئے انہوں نے ’’بانگ درا‘‘ اوربعدمیں ’’بانگ حرا‘‘ کوایک بالکل نیا رنگ دے دیا۔ اس میں انہوں نے جوسب سے نمایاں جدت پیدا کی وہ اس طرح کہ انہوں نے مختلف ملی ،سماجی اورسیاسی شخصیات کے انٹرویو شائع کرنے شروع کئے ۔1997کے آخرمیں پہلا انٹرویو شیعہ سنی قضیہ سے متعلق شیعہ رہنما مولانا کلب صادق صاحب اورسنی عالم دین مولانا عبدالعلیم صاحب فاروقی سے لیا ۔اس کے بعداس سلسلہ کاباقاعدہ آغاز ہوگیا ۔کبھی ڈاکٹر کرن سنگھ ،کبھی سوامی اکشے برہمچاری ،کبھی مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی ،کبھی مولانا نظام الدین صاحب اورکبھی مولانا محمد برہان الدین صاحب سنبھلی کے انٹرویوز شائع ہوتے رہے۔ وہ اس سلسلہ میں ہررہنما اوراہم شخصیت سے ملتے تھے ۔پھر مولانا عبداللہ عباس صاحب پھلواروی ندوی کہ پیہم کوششوں کے نتیجہ میں وہ ندوۃ العلماء کے ترجمان پندرہ روزہ ’’تعمیر حیات‘‘ کے چیف ایڈیٹر کے منصب پرفائز ہوئے ،اوراسے صوری ومعنوی خوبیوں سے آراستہ کرکے اس کامعیار بلند کیا اس طرح ان کی ادارت سے اس کی گویا نشأۃ ثانیہ ہوئی لیکن خرابئ صحت کی وجہ سے 2005میں اس منصب سے مستفعی ہوگئے لیکن ان کااشہب قلم رواں دواں رہا اوروہ مختلف رسائل وجرائد میں مضامین لکھتے رہے۔

’’وفیات‘‘ پران کاقلم گہربار ،کلک اشکبار بن جاتاتھا ’’ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘‘ نامی مجموعۂ مضامین میں یادرفتگاں کے نقوش یکجا دیکھے جاسکتے ہیں۔

ان کا دوسرا مجموعۂ مضامین ’’نقوش فکروعمل ‘‘ ان کی زندگی ہی میں زیور طبع سے آراستہ ہوکرمنظر عام پر آچکا ہے اوراہل فکر ونظر سے خراج تحسین حاصل کرچکاہے ۔جناب امین الدین شجاع الدین صاحب نے اپنے یہ دونوں مذکورہ مجموعۂ مضامین ارزاہ کرم مجھے بھی عنایت فرما ئے تھے جن پر انہی کے قلم سے کلمات اہداء تحریر ہیں۔

ان کے مضامین کاتیسرا مجموعہ’’روبرو‘‘ مختلف سیاسی،سماجی اوردینی شخصیات سے لئے گئے انٹرویوز پرمشتمل ہے اورجلد ہی زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آنے والا ہے۔ 

امین الدین صاحب کے مضامین میں منفیت کاشائبہ نظرنہیںآتاہے ،وہ ہمیشہ مثبت اورحوصلہ افزا مضامین ہی لکھتے رہے ۔

مضمون نگاری ان کاطبعی اورموروثی ذوق تھا۔ صحافت کوانہوں نے پیشہ کے طورپر کبھی نہیں اپنایا ،انہوں نے کبھی بھی نہ توصحافی بنناچاہاتھا اورنہ ہی کسی مدرسہ کے ملازم بننا چاہاتھا ۔مدارس کے بارے میں ان کایہ مقولہ تھا ’’مدارس میں کوئی مستقبل نہیں ہے اورمدارس کاکوئی مستقبل نہیں ہے‘‘۔وہ ورپورٹنگ میں تبصرہ کواصول صحافت کے خلاف سمجھتے تھے ۔اختلافی باتوں سے دور رہتے تھے ۔بنیادی اورمرکزی امور کی طرف توجہ مبذول رکھتے تھے ۔دوٹوک بات کہنے کے بجائے کسی قصہ یاجملے کے پیرایہ میں بات کہتے تھے گویا وہ ’’الکنایۃ أبلغ من الصریح‘‘ کے اصول پر کاربند تھے۔ ادبی اسلوب ان کی شناخت تھا، حسین وجمیل الفاط اوردلآویز عبارتیں ان کاطرۂ امتیاز تھیں، اپنے قارئین اورسامعین کومطمئن کرنے کی ان میں بھرپور صلاحیت تھی ایک حسین جملے یامقولے کی شرح وبسط میں پوراایک مضمون لکھنے کی ان میں بدرجۂ اتم قدرت تھی۔2007میں مولانا ناصر علی صاحب ندوی کے انتقال پرملال پران کاایک بے انتہاء وقیع مضمون ’’تعمیر حیات‘‘ میں شائع ہواتھا جس میں انہوں نے مولانائے مرحوم کوزبردست خراج عقیدت پیش کیاہے۔ اسی طرح مولانا سید محمد مرتضیٰ نقوی مظاہری کے سانحۂ ارتحال پرایک مؤثر مضمون تحریرکیا تھا جس میں انہوں نے مولانائے مرحوم کی جوہرشناسی اورمردم سازی کی صلاحیت اوران کی ذاتی خوبیوں پرروشنی ڈالی تھی جس پر ان کے فرزندارجمند مولاناسید سعید حسن صاحب (سعید مرتضی ندوی) نے اپنے اس تاثر کااظہار کیاتھا ’’میں نے اس مضمون کوپڑھ کر امین صاحب کوپہچانا ہے‘‘۔


اللہ تعالیٰ نے امین صاحب کوخوبئ تحریر کے ساتھ حسنِ تقریر کابھی ملکہ عطا فرمایا تھا ،جس طرح وہ بے حد مربوط ومؤثر تحریر سپرد قلم فرماتے تھے اسی طرح ان کی تقریر بھی حاضردماغی اوربرجستگی کانمونہ ہواکرتی تھی ۔متعدد مواقع پرانہیں خطبۂ صدارت دیتے ہوئے سننے کا اتفاق ہواجس سے بخوبی اندازہ ہواکہ وہ موقع ومحل کی رعایت کرتے ہوئے نہایت مناسب طرز تخاطب اورموزوں انداز بیاں اختیار کرتے تھے۔

امین صاحب نہ صرف میدان خطابت کے شہسوار تھے بلکہ رونق افزائے مسند تدریس بھی ہواکرتے تھے ،ان میں تفہیم وتشریح کی بھرپور صلاحیت تھی۔امین الدین صاحب کی پیدائش 1954 کوہوئی ،ان کا خاندان اصلا جلگام کارہنے والاتھا ،لیکن خاندانی حالات کی بنا پر ان کے والد ماجد شجا ع الدین صاحب نے بھیونڈی میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ امین صاحب کابچپن اپنے نانیہال میں گزرا کیونکہ ان کے والد ماجد قبل ازوقت ملازمت ترک کرکے وہیں پر مقیم ہوگئے تھے،ترک ملازمت کے بعد وہ بڑی حدتک اپنے بڑے بیٹوں پرمنحصر ہوگئے تھے ۔ایسے ماحول میں جوحالات پیدا ہوجاتے ہیں ان سے امین صاحب کوبھی گزرنا پڑاجن کے نتیجہ میں وہ قبل از وقت ضرورت سے زیادہ حساس اورغیور ہوگئے تھے۔

ان کی تعلیم مختلف دانش گاہوں کی رہین منت تھی جن میں ممبئی کے علاوہ حیدرآباد اورکیرالہ تک کی یونیورسٹیاں شامل ہیں،ان کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری ان کے برادراکبر نے پوری کی۔ وہ آئی اے ایس (IAS)کے امتحان کی تیاری مکمل کرچکے تھے لیکن مقابلہ میں شرکت سے قبل ہی خانگی حالات دگرگوں ہوگئے جن کے نتیجہ میں وہ اس کے امتحان میں شرکت سے قاصر رہے جس کاان کے اعصاب پرزبردست اثرہوا،اسی وقت انہوں نے تہیہ کرلیاتھا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی خلیل الدین صاحب (جواس وقت میڈیکل کی تیاری کررہے تھے) کاکیریئر خراب نہیں ہونے دیں گے ،قسمت نے ان کا ساتھ دیا اوروہ خلیل الدین صاحب سے ڈاکٹر خلیل الدین ہوگئے۔ وہ کئی سالوں سے حرم مکی میں واقع کلینک میں سعودی حکومت کی جانب سے طبی خدمات کی انجام دہی پرمامور ہیں ۔اسی میں ان سے 2004میں سفر حج کے دوران میری ملاقات ہوئی تھی۔


کالج کی تعلیم کے دوران ممبئی میں وہ طلباء کے درمیان بہت مقبول تھے اوراساتذہ کی نگاہوں میں بھی ہمیشہ قدر سے دیکھے جاتے تھے ،وہ ایک سے زائد مضامین میں ایم اے تھے ۔

عربی تعلیم کے لئے انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کارخ کیا اوراس کے درجۂ خصوصی اول میں داخل ہوئے لیکن وہ یہ تعلیم متعدد وجوہ واسباب کی بناء پر جاری نہیں رکھ سکے ،1984میں بھیونڈی کے ایک کالج سے بحیثیت لکچرر وابستہ ہوگئے تھے ۔لیکن زیادہ عرصہ تک ان کاوہاں قیام نہ رہ سکا بعض ناگفتہ بہ خانگی حالات سے آزردہ خاطر ہوکر 1987 میں ایک بار پھر خصوصی ثالث میں داخلہ لیا لیکن متعدد اسباب کی بنا ء پر انہیں سلسلۂ تعلیم منقطع کرناپڑا ۔اس طرح ان کی عربی تعلیم تشنۂ تکمیل رہ گئی۔


امین الدین صاحب سے میرا تعارف رفیق محترم مولانا محمد مشیر صاحب صدیقی ندوی ساکن موضع اچرامؤ ڈاکخانہ استی ضلع لکھنؤ کے ذریعہ ہوا جوان کے درجات خصوصی میں ہم درس رہ چکے تھے ،اس تعارف اورتعلق کی بناء پر یکجائی کے مواقع ملتے رہتے تھے اورمیں انہیں مولانا مشیر صاحب کے ہمراہ اپنے کمرہ پرجائے نوشی کے لئے گاہے گاہے زحمت دیاکرتاتھا ۔ایک بار کسی قومی تہوار یوم آزادی یایوم جمہوریہ کے موقع پر مولانا مشیر صاحب کی قیادت اورامین الدین صاحب کی رفاقت میں ان کی قیام گاہ واقع اچرامؤ کئی احباب کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا،واپسی میں موضع بھاکا مؤ سے شام کے وقت جب گزرنا ہوا تووہاں کے چند جہالت زدہ افراد نے ہمیں کارکنانِ جماعت دعوت وتبلیغ سمجھ کر شورمچانا اورآوازیں کسنا شروع کردیا جس سے مولانا مشیر صاحب کوبڑی آزردگی اورسخت ناگواری ہوئی جس کااظہار انہوں نے راستے میں ملنے والے ہراس راہ گیر سے کیا جس میں انہوں نے دانشمندی محسوس کی ،سبھی نے نادانانِ بھاکامؤ کی مذمت کی تھی ۔اس کے بعد مولانا مشیر صاحب کے والد صاحب کے انتقال کے موقع پر امین الدین صاحب اوربعض دیگراحبابِ ندوہ کے ساتھ ان کے گاؤں جانا ہوا 

۔متعدد مرتبہ انہوں نے برائے تبدیلئ آب و ہوا اچرامؤمیرے ساتھ جانے کا پروگرام بنایا لیکن مصروفیات وموانع کی وجہ سے اسے عملی جامہ نہ پہنا سکے۔

دوران طالب علمی جب میں ان سے اضمحلال وکمزوری کی شکایت کرتا تووہ مجھے ’’خمیرۂ گاؤزباں‘‘ کھانے کامشورہ دیاکرتے تھے ،ان کی تجویز پرمیں نے کئی بار اس کااستعمال کرکے فائدہ حاصل کیا ،اسی طرح جب میں ان کے سامنے اضطراب وبے چینی کی کیفیت کاذکر کرتا تووہ مجھے ’’اعوذباللہ وقدرتہ من شرما أجد وأحاذر‘‘ پڑھنے کامشورہ دیتے تھے جس پر عمل کرکے افاقہ محسوس ہوتاتھا۔ ایک بار ان کے رفیق درس عبداللطیف کیرالوی کے بڑے بھائی ڈاکٹر یٰسین صاحب ندوہ آئے تھے جن سے امین صاحب آسان انگریزی زبان میں گفتگو کرتے تھے اس دوران ان کے ساتھ اکثر نشست وبرخاست ہواکرتی تھی۔


زمانۂ طالب علمی میں مجھے متعدد اخبارات میں مراسلات تحریر کرنے کااتفاق ہواان میں سے بعض مراسلات میں ان کی رہنمائی شامل رہی ۔’’بزم جوہر‘‘ کے پروگراموں میں شرکت ہوتی رہتی تھی ۔ایک بارمیں نے حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی کی صدارت میں منعقد پروگرام میں انگریزی میں تقریر کی تھی اس وقت سامعین کی صف میں تشریف فرما مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی نے اس پراپنی پسندیدگی کااظہار کیاتھا ۔دوسری بار ’’بزم جوہر‘‘ کے زیراہتمام مقابلۂ مقالہ نگاری میں شرکت کی تھی جس میں امین الدین صاحب نے حکم کے فرائض انجام دیئے تھے ،اس مقابلہ میں انگریزی میں مقالہ پیش کرنے پرمجھے انعام سوم ملاتھا ۔اس وقت ’’بزم جوہر‘‘ کے سکریٹری ریاض الحنیف امریکی تھے،جلسۂ تقسیم انعامات کے موقع پر حضرت قاری سید صدیق احمد باندوی رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک سے جب توصیفی سند دی گئی توان کے پہلو میں جلوہ افروز ان کے رفیق محترم حضرت مولانا سید محمد مرتضیٰ نقوی مظاہریؒ نے حضرت کوبتایاکہ یہ لڑکا اٹاوہ کاہے ۔
اس طرح امین صاحب سے زمانۂ طالب علمی ہی سے قربت ومناسبت رہی، اورجب 1997میں مولانا محمود الازہار صاحب ندوی کے مشورہ پرانگریزی زبان کے استاذ کی حیثیت سے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے تدریسی عملہ میں شامل ہوئے تو پھریکجائی کے مواقع ملنے شروع ہوگئے۔مجھے ان کے مکتوب الیہ ہونے کابھی شرف حاصل ہے، انہوں نے بھیونڈی سے مجھے ایک خط لکھاتھا دوسرا خط جے پور میں قیام کے دوران ماہنامہ ’’ہدایت‘‘ کے لیٹر ہیڈ پر تحریر کرکے میرے نام ارسال کیاتھا۔ ان کاکاروان تحریر وتدریس معمول کے مطابق اپنی رفتار سے چل رہاتھا کہ اچانک وہ متعدد عوارض وامراض کاشکارہوتے چلے گئے ،عزائم میں پیہم ناکامیوں کے نتیجہ میں وہ زندگی کے میدان میں ہمت ہار بیٹھے تھے۔2006کے بعد سے زندگی سے ان کی دلچسپی بتدریج کم ہوتی چلی گئی تھی اوروہ ذہنی طورپرموت کوگلے لگانے کے لئے اب تیار ہوچکے تھے ،زندگی میں ان کے لئے کوئی سامان کشش باقی نہیں رہاتھا،وہ اپنوں سے مایوس تھے حالانکہ آخرمیں کئی بار انھیںیہ خیال آیا کہ اپنوں میں چلے 


جائیں ،شاید آخرمیں ان کاقرب کچھ باعث سکون ہو بلکہ یہ خیال کبھی کبھی کافی مضبوط ہوکر عزم کی شکل اختیار کرلیتالیکن کبھی کبھی ماضی کی تلخیاں بھی یاد آجاتیں ۔

اسی شش وپنج میں وقت موعود آگیا اس طرح گھر واپسی کی خواہش پوری نہ ہوسکی 7جون 2012کووہ ساعت آہی گئی جس کا امین صاحب کوشدت سے انتظار تھا وہ اپنے گھر سے بہت دور دیار غیر میں ابدی نیند سوگئے ،جس وطن کی خاک سے ان کاخمیر اٹھاتھا وہاں وہ دفن بھی نہ ہوسکے، یہ مجموعۂ کمالات اسی روز بعد نماز عصر پیوند خاک ہوگیا اس طرح خفتہ صلاحیتوں کاایک خزانہ پوشیدہ ہی پوشیدہ زیرزمین دفن ہوگیا ۔ع

زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے

************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 574