donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Rahat Mazahri
Title :
   Arab Pati Darwesh Baniye Hamdard Hakeem Abdul Hameed Sb


ارب پتی درویش ،بانی ہمدرد حکیم عبدالحمید صاحب


ڈاکٹرراحت مظاہری


(1908-1999)

ماہ فروری میں حکیم عبد الحمید کے یوم پیدائش کے موقع پر

قوم کی جانب سے موصوف کو خراج عقیدت


 

عہدحاضر کے بابائے طب وابن سینا،حکیم عبدالحمید مرحوم کی ذات ستودہ صفات’ بانی ٔہمدرددواخانہ  ’وبانیٔ جامعہ (یونیورسٹی )ہمدرد،دہلی،ہونے کے ناطے نہ صرف عالم گیرشہرت کی حامل ہے۔بلکہ مذکورہ عنوانات کے تحت فی زمانہ ان پر بہت سارے ریسرچ ورک عالمی اداروں، تعلیمی یونیورسیٹیوں اورایشیاء کے یونانی طبیہ کالجز میں جاری ہیں ،مگرحکیم صاحب موصوف کی خانگی ونجی زندگی کا ایک ایسا گوشہ ابھی تک عوام اورخواص دونوں کی نظروں سے بطورخاص اوجھل ہے، جس سے پتاچلتاہے کہ ان کو دنیاکا ایک مثالی انسان اورسائنٹسٹ بننے میں کن عوامل کادخل وکارفرمائی شامل رہی، موصوف کی زندگی کایہ ایک ایساگوشہ ہے جس پر پڑی دبیز پرت ہٹنی نہ صرف ضروری ہے،بلکہ ہمیں اورآپ کوبھی انکی تقلیدمیں اس جیسے واقعات وحالات کا علم ناگزیرہے، تاکہ ہم جیسے کورچشم وبے بصیرت لوگ بھی اس مشعل نورتاب کی زندگی سے کچھ روشنی اخذکر سکیں،

جیسے جیسے ان کے والدماجدحافظ ،حکیم عبدالمجیدؒ کی قائم کردہ معمولی سی جڑی بوٹیوں کی دوکان’ ہمدرد،دواخانہ ،کوطب یونانی کے خالص اجزاکی فروخت،دواسازی میںان کی نیک نیتی،کاروبارمیں ایمانداری وشفافیت برتنے کے سبب روزافزوں ترقی ملنی شروع ہوئی توحکیم عبدالحمید صاحب نے بھی اسی تیز رفتاری کے ساتھددواخانہ سے حاصل ہونے والے منافع سے ہمدرددواخانہ اوریونانی طریقہ کارکے طبی وعلمی کاموں کو فروغ دینا شروع کردیا ،چونکہ حکیم صاحب کے مزاج میںاپنی روشن خیالی اوردوراندیشی کی بناپرفکرفردا،ذخیرہ اندوزی ،بچت ، اورپیسہ کی حفاظت کا عنصربھی غالب تھا،اس بچے پیسہ سے انھوں نے جائدادیں جوخریدنی شروع کیں تو پہلی جائدادکی رجسٹری موصوف نے بغیرکسی وہم وخیال کے اپنے نام کرالی مگرجب چھوٹے بھائی حکیم محمدسعید کو ا س بات کی خبرہوئی تووہ ادب اورغیرت کے لحاظ میں بھائی سے توکچھ نہ کہہ سکے، مگرانھوں نے والدہ کے سامنے اس کی شکایت رکھی، اس کے بعدحکیم محمدسعیدکے تقسیم وطن کے نتیجہ میں پاکستان ہجرت کرنے تک کوئی جائدادہمدردکی ملکیت میںایسی نہیں خریدی گئی جس میں چھوٹے بھائی کانام شامل نہ ہو،یہ ہے ایک مردمؤمن کی ایمانداری اوردیانت داری کی صاف شفاف تصویر، جبکہ مکمل طورپرکاروبارمیں سارادماغ اورمحنت خود ہی کی تھی، مگر بھائی کی محبت، معاملات کی صفائی جوکہ اسلام کا ایک اہم شعبہ ہے،جیساکہ فرمایا رسول خداحضرت محمد ﷺ نے’’معاملات رکھوغیروں کی طرح، اورزندگی گذاروبھائیوں کی طرح،،اس پر عمل کرنے سے دلوں میں دراڑتوکیا؟کبھی بال بھی نہیں آسکتا۔

 معاملات میں صفائی کا ان کو کتناخیال تھا، یہ توصرف ایک مثال ہے، اسی طرح حکیم عبدالحمیدکی شان فقیری کہیئے یاکہ ماں جائے اوربھائی کی محبت میں ازحددیوانگی ،کہ تقسیم وطن کے نتیجے میں اپنے بھائی حکیم محمدسعید (شہید)کے پاکستان چلے جانے کے بعدانتقال تک اپنے لئے کوئی نیاکپڑانہیںخریدا۔

لوگوں نے دیکھا کہ حکیم صاحب انٹرنیشنل تقریبات میں بزم رونق ہیں،طرح طرح اور نوع بنوع کے اعزازات بھی حاصل کررہے ہیں ،کسی تقریب میںمہمان خصوصی اورشمع محفل ہیں توکسی تقریب کے

اورگنائزر،کہیں سرکاری تقریبات میں وی آئی پی کی حیثیت سے شریک بزم اوراسٹیج پررونق افروزہیں ،نیزاپنی خاندانی اورپیشہ کے لحاظ سے روایتی شان بان کے طورپر شیروانی بھی زیب تن ہے مگر اس میں ایک سے زائد پیونداوررفوبھی نمایاں ہیں،

اس بات کے گواہ اورعینی شاہدتوبہت سارے لوگ ہوںگے کہ حکیم صاحب کی شیروانی میں پیوند لگے ہوتے تھے،مگرپیوندوں کے رازسے بہت ہی کم یاشاذونادرہی لوگ واقف ہیں کہ اس کارازکیاتھا،یہ تھا اس کاراز جیساکہ اوپربیان کیاگیاہے،

نیزان کے پاس سے ریانمودوشہرت کا گذرتک بھی نہ تھااسی لئے ان کی زندگی میںبے حد سادگی تھی، جیساکہ سخت سے سخت گرمی کے موسم میں ان کی نشست گاہ میںلگابجلی کاپنکھاکہ اس کی ہواخود ان کے لئے نہیں ،کیونکہ وہ ملاقاتیوں کی ضیافت کا سامان تھا ،نہ کہ حکیم صاحب کے مقدرمیں اس کی ہوا،

اسی طرح سخت سے سخت گرمی اورلوکے زمانہ میں اہل دہلی کی طرح ٹھنڈے پانی کااہتمام ،یازمانہ جدید میں ریفریجٹرکاٹھنڈاپانی، ان کو ہرگزاپنی جانب لبھانے کی سکت نہیں رکھتاتھا،بس سادہ مٹی کا گھڑااوراس کاپانی ہی ان کوعزیز تھا۔

بھائی کے ساتھ کے واقعہ کوآپ اپنوں کے ساتھ قلبی تعلق یابڑے بھائی کی ذمہ داری کانام بھی دے سکتے ہیں، مگر ان کا دل توغیروں کے لئے بھی اسی طرح موم تھا جس طرح اپنوں کے لئے پگھلتاتھا،

 کیونکہ حکیم عبدالحمید صاحب کے سینہ میں خدانے ایک دلِ زندہ رکھاتھاجوکہ غریب بے سہارااور بے روزگارلوگوں کی مفلوک الحالی کے وقت تڑپ اٹھاکرتاتھا، جیساکہ میں نے بچشم خود اس کا ایک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بڑے پیمانے پر شربت روح افزا کی مانگ کی وجہ سے سالانہ ماہ فروری میں اس کی تیاری کے لئے ہمدرددواخانہ دہلی میں عارضی ملازمین کی اضافی بھرتی کی جاتی تھی مگراصول کے مطابق اختتام سیزن پر ا ن عارضی ملازمین کوہمدردسے باہرکا راستہ دکھادیاجانے کابھی معمول تھا،

 تب ان دنوں میں نے ہمدرددواخانہ کے سامنے کی مین گلی قاسم جان میں پرچون کی دوکان پردوکاندارسے ایک شخص کو قلم کاغذ مانگتا دیکھا اور وہ اپنی درخواست حکیم صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے ٹوٹی پھوٹی اردومیں اس طرح لکھ رہاتھا، جسکو حکیم صاحب کے مزاج سے کسی واقف کارہی نے یہ ترکیب سجھائی ہوگی کہ تم اپنی ناداری ، بیروزگاری اور بچوںکی عیال داری کاحوالہ دے کر یہ لکھوکہ’ اگر مجھے سردست دواخانہ کی ملازمت سے نکال دیا گیا تومیری بے روزگاری اورغربت کی وجہ سے میرے گھرمیں فاقہ کی نوبت آجائے گی،اوربچے بھوکے مرجائیں گے،اس کاانجام تواحقرکو معلوم نہیں ،لیکن اس پس منظر سے توقع یہی کی جاسکتی ہے کہ اس کی مرادپوری ہوگئی ہوگی،۔

بہرحال یہ ایک منظر تھا حکیم صاحب موصوف کی غرباپروری کو سمجھنے اورجاننے کے لئے، ورنہ کتنے ہی ناداروں،غریب مفلوک الحال لوگوں ،بیواؤں،یتیموں،اورکمانے سے معذورلوگوں کاچولہا بفضل خداہمدردداخانہ اوراس کے بانی کے گھرسے روشن ہوتاتھا،اس کویاتوخداجانے یا حکیم صاحب کے علاوہ متعلقہ امورکے ذمہ داران ہی جان سکتے ہوںگے،،جیساکہ ان کا قائم کردہ رفاہ عام کے لئے ادارہ ،ہمدردنیشنل فاؤنڈیشن کے قیام کااصل مقصد بھی یہی تھا کہ اس سے تعلیمی اداروں، طلاب علم ، ناداروں اورضرورتمندوںکے مسائل کو جان کر ان کی مددکی جائے۔اسی طرح موصوف کو اقدارکہنہ کاپاس ،علم وادب ،تاریخ،شعروشاعری اورمرزاغالب کے کلام سے والہانہ لگاؤ بھی انتہائی درجہ میںتھا جسکے فروغ کیلئے بستی حضرت نظام الدین میں غالب اکیڈمی قائم کی،جوکہ خالص زبان وادب کے تئیںمرحوم کے ذوق سلیم کانتیجہ اورخوش ذوقی کی علامت ہے۔

مختصراََ اگریہ کہاجائے کہ ہم تو کھاکر اورلے کے خوش ہونے والے ہیں مگرحکیم عبد الحمید ان خوددار اورسخی لوگوں میںتھے جوکہ ضرورتمندوں پراپنا مال لٹاکرسکون قلب پاتے اورخوشی محسوس کرتے تھے ،اس کو یوں بھی کہااورسمجھاجاسکتاہے کہ ان کا یہ عمل پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی حدیث ’’تمہاری مددضعیفوں کے طفیل کی جاتی او ر تم کو رزق کمزوروں کے صدقہ میں دیاجاتاہے،،کوذہن میں رکھ کر تھا،

اللہ سے دعاہے کہ خداان کی قبرکو نورسے منور کرے اورہمیں بھی ان کی نقل کاشمہ بھر عطافرمادے توہم اس کو اپنی بڑی خوش نصیبی سمجھیںگے۔


ڈاکٹرراحت مظاہری

چیف ایڈیٹر سہ ماہی’ دعوت وتبلیغ، دہلی

emil.id:rahatmazahiri@gmail.com
09891562005

******************************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 788