donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Abdul Bari
Title :
   Iqbal

 

اقبال
 
ڈاکٹر سید عبدالباری
 
کسے معلوم تھا کہ 1873ء میں عین اُس وقت جب کہ انگریزی اقتدار کا سورج برصغیر میں نصف النہار پر تھا اور کہیں سے مغربی تہذیب کے جلال و جبروت سے گلوخلاصی کے سلسلے میں امید و آرزو کی کوئی کرن نمودار نہیں ہوئی تھی کشمیر سے قریب اور ہمالیہ کے دامن میں آباد ایک خاموش و پُرسکون شہر سیالکوٹ میں ایک کشمیری نژاد نومسلم سپرو برہمن خاندان میں ایک ایسا ستارہ طلوع ہوگا جو مشرق و مغرب کے افق کو تابناک بنادے گا اور مغربی فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے تاریک و ہلاکت خیز پہلوئوں سے اہلِ مشرق کو آگاہ کرکے خودی و خوداعتمادی کی چنگاریوں سے ان کے وجود کو مستنیر کردے گا۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد پیشے کے اعتبار سے کلاہ ساز اور دھسّوں کے تاجر تھے مگر اپنے 
متصوفانہ مزاج اور سادگی و قلندری کی وجہ سے شہر میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ علامہ میر حسن اُن کو اَن پڑھ فلسفی کے لقب سے پکارتے تھے۔ میر تقی میر کو ان کے والد نے اول اول خدا اور خلقِ خدا سے عشق کا سبق دیا تھا۔ شیخ نور محمد نے اپنے سعادت مند بیٹے اقبال کو احترامِ آدمیت، عشقِ رسولؐ، مروت، رحمت اور حسنِ اخلاق کا سبق ازبر کرایا۔ والدین کی اطاعت و تکریم کے حیرت انگیز واقعات ان کے سوانح نگاروں نے بیان کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے چھوٹے بڑے تمام معاملات ومسائل میں اقبال اپنی رائے، ارادے اور مرضی کو اپنے والدین کی رضاو ایما پر قربان کردیتے تھے۔ غیرت مند، خوددار اور قناعت پسند خاندان کے اوصاف قطرہ قطرہ ان کے وجود میں جذب ہوتے رہے جن کی بدولت وہ آگے چل کر اپنے نرالے اور انوکھے فلسفۂ خودی کے علَم بردار بنے اور اہلِ مشرق کو یہ پیغام دیا کہ ایسے لقمہ سے انسان کو پرہیز کرنا چاہیے جو اس کی عزت و وقار کو نیلام کرنے کا سبب بنے۔
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
خودی کے نگہبان کو ہے زہرناب
وہ نان جس سے جاتی رہے اس کی آب
تصوف کا مذاق ان کی فطرت میں ان کے والدین کی بدولت رچ بس گیا اور بقول پروفیسر افتخار احمد صدیقی: اقبال اگرچہ عمر بھر عجمی تصوف کے فلسفیانہ رجحانات کے خلاف جہاد کرتے رہے لیکن درحقیقت اپنے قلندرانہ مزاج کی سادگی و بے ریائی، جذب و مستی، فقرو استغنا، نیز اپنے طرزِ فکر و احساس کے اعتبار سے عمر بھر صوفی رہے۔ اپنے بیٹے جاوید کو خطاب کرتے ہوئے وہ خود لکھتے ہیں:
غارت گرِ دیں ہے یہ زمانہ
ہے اس کی نہاد کافرانہ
جس گھر کا مگر چراغ ہے تُو
ہے اس کا مذاق عارفانہ
اقبالؔ نے ایک جرمن سیاح کے پوچھنے پر کہ آپ کیا تعلیم دیتے ہیں، فرمایا کہ ’’میرے آبا و اجداد برہمن تھے۔ انہوں نے اپنی عمر اسی سوچ میں گزار دی کہ خدا کیا ہے۔ میں اپنی عمر اس سوچ میں گزار رہا ہوں کہ انسان کیا ہے۔‘‘
 
اقبال خوش قسمت تھے کہ اپنے تعلیمی سفر کا آغاز سید میر حسن جیسے ذی علم استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے کیا، جس کی روشن ضمیری کے سرسید احمد خان بھی معترف تھے۔ عربی و فارسی میں دستگاہ اقبال کو انہی کی بدولت حاصل ہوئی۔ 1895ء میں وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لاہور آئے تو یہ شہر ان کے لیے تبریز و شیراز ثابت ہوا جہاں بیٹھ کر انہوں نے تاریخِ انسانی کے علم و تہذیب کا صدیوں کا سفر چند سالوں میں طے کرلیا۔ مشیت نے آرنلڈ جیسے روشن خیال اور مشفق استاد تک ان کی راہنمائی کی۔ 1899ء میں فلسفہ میں ایم اے کرکے اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر بن گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے استاد کے فرائض انجام دیئے۔ 6 سال کی یہ معلّمی اقبال کے 
لیے بے حد فیض بخش رہی اور اسی دور میں مشرق و مغرب کے علم و فلسفہ اور شعر و ادب کا بحرِ ذخار انہوں نے اپنے سینے میں اتار لینے کی کوشش کی۔ لاہور اُس زمانے میں آریہ سماجی سرگرمیوں کا بھی مرکز تھا۔ اورینٹل کالج کے شعبۂ سنسکرت میں خاصی چہل پہل تھی۔ ڈاکٹر لائٹز اور دیگر ذی علم مستشرقین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اقبالؔ نے بھی سنسکرت سیکھی اور ویدک فلسفہ کا مطالعہ کیا، اور اس مرحلے میں ان کے دوست سوامی رام تیرتھ کافی معاون ثابت ہوئے جو وجودی صوفیوں کی طرح وسیع المشرب درویشِ خدا مست تھے۔ سوامی وویکانند کی طرح انہوں نے بھی امریکہ کا تبلیغی دورہ کیا تھا۔ وہ مندروں میں جاکر وید کی اور مسجد میں قرآن کی تشریح کرتے۔ حافظ شیرازی اور شمس تبریز کے اشعار وردِ زبان تھے۔ خود ان کا یہ شعر ان کے مسلک کا ترجمان ہے ؎
 
نہ ہندوم نہ مسلمان نہ کافرم نہ یہود
بہ حیرتم کہ سر انجام من چہ خواہد بود
اقبالؔ کے ابتدائی عہد کے کلام میں یہ وسیع المشربی جھلکتی ہے۔ مسلم صوفیہ و مفکرین کے ساتھ وہ شنکر آچاریہ کے ویدانتی فلسفہ کے مثبت پہلوئوں، تسلیم و رضا، احساسِ خودی اور شانِ بے نیازی سے متاثر تھے، خاص طور پر شنکر کے انسان دوستی اور انسانی وحدت کے تصور کے قدرداں تھے جن کا یہ قول تھا: ’’ساری دنیا میرا وطن ہے اور سب کی خدمت میرا مذہب۔ میں محبت کی تجلی کے سوا کچھ نہیں۔ میں سب سے یکساں پیار کرتا ہوں…‘‘ اقبال کے مردِ مومن میں بھی شاہانہ تمکنت اور ادائے بے نیازی کے ساتھ پوری انسانیت کے لیے سراپا خیر و رحمت بننے کا جذبہ موجود ہے۔ اقبالؔ اس عہد میں ایسا بھی نہیں کہ فقط کرمِ کتابی بن کررہ گئے ہوں اور فلسفۂ ماورائیت کی خلائوں میں پرواز کرتے رہے ہوں، بلکہ وہ گردو پیش کے ماحول کی آنچ کو بھی شدت کے ساتھ محسوس کررہے تھے۔ ماحول سے گہری وابستگی نے ان کے سماجی شعور کو بالیدہ بنایا اور وہ اپنی ابتدائی عہد کی شاعری کی منزلوں سے آگے نکل گئے جہاں وہ ایک اوسط درجے کے موزوں طبع نوجوان نظر آتے ہیں جو داغؔ سے نیازمندی کے ساتھ زبان و فن کے رموز سیکھ رہا تھا۔ اقبال کا یہ ذہنی سفر خدانخواستہ رک جاتا تو اردو شاعری ایک آفاق گیر شاعر سے محروم ہوجاتی اور ظ انصاری کے الفاظ میں ہزار برس کی فارسی شاعری اور 4 سو سال کی اردو شاعری اپنی تمام رنگارنگی، لطافت اور شدت کے ساتھ اس عظیم فنکار کے کلام میں جلوہ گرنہ ہوسکتی…
 
اقبالؔ کا فکری سفر سیالکوٹ سے لاہور اور پھر لاہور سے کیمبرج اور میونخ تک جاری رہا۔ الحکمتہ ضالۃ المؤمن کے مطابق وہ علم و حکمت کو مومن کا گم شدہ سرمایہ سمجھ کر مشرق و مغرب میں تلاش کرتے رہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی شاید یہی ہے کہ ان کے یہاں ذہنی جمود نہیں، بلکہ مسلسل فکری ارتقا نظر آتا ہے، اور آخر آخر وہ ایک ایسا بحرِ ناپیدا کنار بن جاتے ہیں کہ جس کے کنارے پہنچ کر ہم عالمی ادب، عالمی فلسفہ، عالمی مسائل، عالمی تاریخ، عالمی تہذیب و اقدار کے گہرہائے آبدار سے ہمکنار ہوتے ہیں ؎
ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبال
کہ تھا ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ دماغ
چنانچہ اقبال نے قرآن حکیم اور اقوالِ پیغمبرؐ کے ساتھ اپنشد گیتا بدھ مت، رامائن و شوامتر اور بھر تری ہری سب سے حق و خیر کی جستجو میں 
استفادہ کیا اور بالآخر اسلام کو ان ساری صداقتوں کا سرچشمہ اور ایک منظم و مرتب نظامِ فکر وعمل کی حیثیت سے اپنے آخری دور کے کلام میں پیش کیا۔
 
1905ء سے 1908ء تک اقبال کے قیام یورپ اور وہاں کے اہلِ فکر سے استفادہ اور مغربی تہذیب کے مثبت و منفی پہلوئوں کے بچشم خود مشاہدے نے ان کے فکر و خیال کو عالمگیر وسعت عطا کی۔ اب ان کی کمندِ تنقید کی زد میں مغرب کے فکر و خیال کی وہ بلند فصیلیں بھی تھیں جن کے تصور سے غلام مشرق تھراتا تھا۔ انہوں نے مغرب میں تجربہ و مشاہدہ، تحقیق و انکشاف، آزادیٔ فکر اور بلندیٔ نگاہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ہر چیز پر تجسس کی نظر ڈالنے، تقلید کے بندھنوں اور ذہنی غلامی سے آزاد ہونے اور روایتوں کی اندھی پرستش سے چھٹکارا حاصل کرنے کا پیغام وہ مشرق تک لے کر گئے۔ کیمبرج میں فلسفہ کے استاد میک ٹیگرٹ، فارسی ادب کے مؤرخ برائون اور نکلسن سے وہ بہت قریب تھے جس نے ان کی فارسی مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس عہد میں اقبال نے جرمن اور فرانسیسی ادب کا بھی مطالعہ کیا۔ خاص طور پر جرمن قوم کی قوت ِعمل، نفاست پسندی اور ذکاوت سے بہت متاثر ہوئے، لیکن یورپ کی ظاہری و مادی چمک دمک ان کی نگاہوں کو خیرہ نہ کرسکی۔ تصنع و سطحیت کے تمام مظاہر پر انہوں نے کھل کر تنقید کی اور مغرب کی اخلاق بیزاری اور روحانیت کے گداز سے محرومی پر شکوہ سنج ہوئے ؎
گرچہ ہے دلکشا بہت حسنِ فرنگ کی بہار
طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
اقبالؔ کو شدید احساس تھا کہ مغرب نے اپنی سائنسی ترقی اور تجربہ و مشاہدہ کا یہ ذوق خود مشرق سے حاصل کیا ہے، خاص طور پر اسلامی عہد کے اندلس کے علمی، تحقیقی اور ثقافتی و فنی کارناموں کی انہوں نے جگر سوز لہجے میں یاد دلائی ہے ؎
دانہ آن صحرا نشیناں کاشتند
حاصلش افرنگیاں برداشتند
ایں پری از شیشہ اسلاف ماست
باز صیدش کن کہ او از قافِ ماست
یہ موتی علم و حکمت کے، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
 
یورپ سے وطن لوٹنے کے بعد اقبالؔ ایک حکیم و صاحبِ فنکار کی حیثیت سے منظرعام پر آئے جسے بقول ظ۔ انصاری ’’ہماری زبان کا سب سے زیادہ باشعور و بیدار فنکار قرار دیا جاسکتا ہے، جس کی بدولت بیسویں صدی میں اردو، فارسی ادبیات نے کم از کم ایک صدی کا فاصلہ طے کیا اور وہ عالمی پیمانے پر مسائلِ حاضرہ سے دوبدو بات کرنے کے قابل ہوئی‘‘۔ اس شاعر کی گہری سوچ اور باخبری پر یقینا حیرت ہے جس کے فکر و فن میں جمود نہیں بلکہ مسلسل حرکت، مسلسل جستجو اور خوب سے خوب تر کے حصول کی پیہم جدوجہد نظر آتی ہے۔ وہ صرف ایک فنکار نہیں بلکہ اپنی قوم و ملک کے سیاسی وقار و معاشی استحکام کی جدوجہد میں اپنے عہد کے دیگر مفکرین و مصلحین و قائدین کے شانہ بشانہ شامل نظر آتا ہے۔ 1913ء میں مسجد کانپور کی فائرنگ کی تحقیق کے سلسلے میں انہوں نے کانپور کا سفر کیا۔ 1926ء میں پنجاب کی صوبائی مجلس قانون ساز کے ممبر چنے گئے۔ اس سے قبل تحریک ِخلافت میں پوری دلچسپی لی۔ 1929ء میں دہلی میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں شرکت کی۔ پھر جنوبی ہند کے متعدد شہروں کے سفر کیے اور علمی لیکچر دیئے تاکہ مشرق اپنے گم شدہ خزانوں کی بازیافت کرسکے۔ اسی سفر میں وہ میسور میں سرنگا پٹم گئے اور شہید ٹیپو سلطان کے مزار پر حاضر ہوئے۔ اس موقع پر قوم کو اس عظیم شہید کے حوالے سے یہ پیغام دیا ؎
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
1931ء اور 1932ء میں اقبال نے گول میز کانفرنسوں میں شرکت کے لیے دوبار یورپ کا سفر کیا۔ اس موقع پر پیرس میں نپولین کے مزار پر گئے، مشہور فلسفی برگساں سے ملاقات کی اور اندلس میں مسجد قرطبہ کی زیارت کی اور اس میں نماز ادا کی۔ گاندھی جی کی سودیشی تحریک سے 15سال قبل اقبال کو یہ احساس تھا کہ جب تک ہندوستان بدیسی مال کا محتاج ہے، سر نہیں اٹھا سکتا۔ ان کی مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ میں ہندوستان کی معاشی و سیاسی آزادی کے لیے اُن کے دل کی تڑپ واشگاف ہوتی ہے۔
اقبال ایک سچے وطن دوست بلکہ وطن کی عظمت پر جان قربان کرنے والے ہندوستانی شاعر تھے جن کا ترانۂ ہندی ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ آج بھی ہمارے لہو کی گردش تیز کردیتا ہے، خاص طور پر یہ شعر ؎
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا
لیکن اسی کے ساتھ مغرب کی جارحانہ قوم پرستی اور وطن پرستی کے بھی سخت مخالف تھے۔ ان کی عالمگیر انسان دوستی اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ انسانیت کو جغرافیائی حدود میں تقسیم کرکے ان کے درمیان تفریق و امتیاز کریں۔
اس وقت سماجی تبدیلی (Social Change) اور معاشرتی انقلاب کی ہر طرف آواز بلند ہورہی ہے تاکہ رنگ و نسل اور ذات برادری 
کے بت ٹوٹ سکیں اور بنی نوع انسان میں حقیقی مساوات پیدا ہوسکے۔ اقبال اس کے سب سے بڑے علم بر دار تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس صدی کے وسط میں جب کہ گھر گھر میں اقبالؔ کے اشعار لوگوں کی نوک ِزبان پر تھے خود میرے گھر کے مہمان خانہ میں خوشنما کتبوں کی شکل میں میرے والد نے اقبال کے یہ اشعار آویزاں کر رکھے تھے جو ہندوستان کے بے شمار نوجوانوں کی طرح میرے دل میں بھی عجب ولولہ و سر مستی پیدا کررہے تھے ؎
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تُو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اقبالؔ کایہ کارنامہ یقینا یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے ایک ایسے انسان کا آئیڈیل ہمارے سامنے رکھا جو بقول ظ۔انصاری مستقبل کی ترقی یافتہ دنیا بنانے اور سجانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اُسے کہیں شاہیں یا طائرِ لاہوتی، کہیں مردِ مومن یا مردِ مسلماں، کبھی قلندر، کبھی وہ جس کی خودی فولاد ہو اور جو بیک وقت شعلہ و شبنم ہو، کی صورت میں نمایاں کرتے ہیں۔ اقبالؔ سے زیادہ بہتر مستقبل کی امید و آرزو سے سرشار اور جہدو عمل کی تلقین کرنے والا کوئی اور شاعر ہندوستانی ادبیات میں نظر نہیں آتا جو بار بار یہ تلقین کرتا ہو ؎
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
اقبالؔ انسان کی شخصیت کی تعمیر کے لیے عشق، فقر، صبر، شجاعت، رزقِ حلال اور تخلیقی جدوجہد کو نا گزیر قرار دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک شخصیت کو برباد کرنے والے عناصر میں خوف، دوسروں کی کمائی پر گزر، غلامی اور حسب نسب پر فخر جیسی مذموم باتیں شامل ہیں۔ آج جب کہ کردار کے زوال، شدید مادہ پرستی، اونچ نیچ، انسانیت کی تذلیل اور حقوقِ انسانی کی پامالی کا ایک طوفان دنیا میں آیا ہوا ہے، اقبال کے یہ اشعار ہمارے سینے میں ایک نئی صبح کی بشارت بن کر گونجتے ہیں ؎
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
سمجھا لہو کی بوند اگر تُو اسے تو خیر
دل آدمی کا ہے فقط اک جذبۂ بلند
قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش
 
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ
جنت تری پنہاں ہے ترے خون و جگر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
+++++++++++++++++++++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1075