donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Ahmad Qadri
Title :
   Maroof Sahafi Abdul Rafey Bhi Be Etnayi Ka Dukh Jhel Kar Chal Base



 معروف صحافی عبد الرافع بھی

بے اعتنائی کا دکھ جھیل کر چل بسے


 سید احمد قادری

رابطہ : 09934839110

                                       
          عبد الرافع  صحافتی دنیا کی اس شخصیت کا نام تھا، جس نے کبھی ستائش کی تمنا کی اور نہ ہی  انھیں کبھی صلہ کی پرواہ رہی ۔ گزشتہ پچاس سال سے اردو صحافت کے خاردار راستے کے مسافر رہے اور اپنی بے پناہ سیاسی ، سماجی ،دینی ، تاریخی، لسانی اور صحافتی بصیرتوں سے بہار کی اردو صحافت  کے معیار و وقار میں اضافہ کرتے رہے ۔ عبد الرافع کو اردو صحافت کے سنگلاخ راستوں سے گزرنے کا کافی طویل تجربہ تھا۔ ان تجربات سے انھوں نے بہار کی اردو صحافت کو ایک خاص مقام عطا کیا ۔ افسوس کہ ایسا باوقار اور باصلاحیت صحافی چند ماہ کی علا لت اور لوگوں کی بے اعتنائی جھیلنے کے بعد ۲۱ ؍ دسمبر۲۰۱۵ء  کی صبح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوکر اپنے مالک حقیقی سے جا ملا ۔ بعد نماز عشأ اسی روز شاہ گنج، پٹنہ کے قبرستان میں انھیں لوگوں نے نم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک کیا ۔عبدالرافع نے اپنی زندگی میں اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے علم اورصحافتی ہنر کی دولت لٹائی ، نہ جانے کتنے لوگوں کو میدان ادب اور سیاست کا درخشندہ ستارہ بنا یا، لیکن خود ہمیشہ معاشی بد حالی اور مفلوک الحالی کے شکار رہے۔  ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہی ہے کہ ہم اپنے گوہروں کی وہ قدر نہیں کرتے ، جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔ رافع صاحب  ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرنے والوں میں تھے ۔ حرف شکایت زبان پر لانا ان کی شان مومنانہ کے منافی تھا ۔ انھوں نے اپنی ذاتی زندگی میں بڑے دکھ اور صدمات جھیلے ، لیکن کبھی مقدر کا شکوہ نہیں کیا ۔ زندگی کے آخری دنوں میں انھیں اس بات کا قلق ضرور تھا کہ ان اداروں کے ذمّہ داروں نے بھی ان کی جانب بے اعتنائی کا ثبوت دیا ، جنھیں وہ اپنا خون جگر پلاکر عروج پر پہنچایا ۔

       عبد ا لرافع مرحوم کا پورا نام سید عبدالرافع تھا ۔ ان کے والد کا نام ابو محمد تھا ۔ ان کی پیدائش اپریل 1940 کو پٹنہ کے صادق پور میں ہوئی تھی ۔ عبد الرافع کی ابتدائی دینی تعلیم گھر پر ہی مولوی ۱نیس الرحمن کے ذریعہ ہوئی۔ بعد میں ان کا داخلہ صادق پور کے ہی مدرسہ اسلامیہ کرایا گیا۔  مارچ ۱۹۴۸ئ؁ میں وہ کھڑ گپور چلے گئے، جہاں ان کے والد ریلوے پر ائمری اسکول میں معلم تھے۔ اسی اسکول کے چوتھے درجہ میں ان کا داخلہ کرایا گیا ،جہاں سے انہوں نے میٹرک ۱۹۵۵ئ؁ میں پاس کیا۔ اس کے بعد ۱۹۵۷ئ؁ میں کھڑگ پور کالج سے آئی۔ اے۔ اور ۱۹۵۹ئ؁ میں آسنسول کالج سے بی۔ اے۔ پاس کیا۔ اس دوران ان کے والد ملازمت سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ عبد الرافع آگے کی تعلیم جاری رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن معاشی حالات نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی اور وہ تلاش معاش کی جستجو میں پٹنہ چلے آئے، لیکن اس وقت انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی تو مایوس ہو کر انہوں نے پھر کلکتہ کا رخ کیا، جہاں چند ماہ بعد انہیں کلکتہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’اخوت‘‘ اور ’’امروز‘‘ میں انگریزی اخبارات سے ترجمہ کرنے  کا کام مل گیا۔ اس طرح ۱۹۶۱ئ؁ سے انہوں نے اردو صحافت کے سنگلاخ راستوں پر قدم رکھا۔ ستمبر ۱۹۶۱ئ؁ سے ’’آزاد ہند‘‘ میں جو احمد سعید ملیح آبادی کی ادارت میں شائع ہو رہا تھا، اس میں ترجمہ کا کام مل گیا۔ اس اخبار میں انہوں نے تقریباً دس سال تک کام کیا، جہاں انہیں احمد سعید ملیح آبادی جیسے قد آور صحافی کے ساتھ ساتھ رئیس احمد جعفری، جاوید نہال، محمود ایوبی، مصطفی صابری، قیصر شمیم اور شمس الزماں جیسے سرکردہ صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ایسے لوگوں کی صحبت نے عبد الرافع کی صحافتی شعور اور فہم و ادراک کو بالیدہ کیا۔                             


    عبد الرافع اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ صحافت کا میدان میرا کوئی شوق نہیں تھا۔ بس مجبوری تھی، لیکن یہی مجبوری ایک روگ کی طرح جسم و جان سے لگ گیا۔ ’’آزادہند‘‘ کی ملازمت، انہیں انگلیوں میں رعشہ کے مرض کی وجہ کر چھوڑنا پڑا۔ معاشی مجبوریاں پھر سامنے کھڑی تھی، جس نے ایک بار پھر پٹنہ کارخ کرنے پر مجبور کیا، جہاں پہنچ کر ان کا تجربہ ہی ان کے کام آیا اور انہیں اپنے زمانہ کا مشہور اردو روزنامہ ’’صدائے عام‘ میں ۱۹۷۱ئ؁ میں ملا زمت مل گئی۔ مارچ ۱۹۸۲ئ؁ میں پٹنہ سے جاری ہونے والے مشہور اردو روزنامہ ’’قومی آواز‘‘ میں بحیثیت سب ایڈیٹر   ان کی تقرری ہو گئی۔ چند ماہ بعد چیف سب ایڈیٹر انہیں بنا دیا گیا۔ مارچ ۱۹۸۵ئ؁ میں جب اس اخبار کے ایڈیٹر انچارج شاہین محسن مستعفی ہو گئے، تب انہیں نیوز ایڈیٹر کے ساتھ ساتھ شعبہ ادارت کے انچارج کے طو ر پر بھی مقرر کیا گیا۔ اور یہ سلسلہ اخبار کے بند ہونے تک  یعنی مارچ ۱۹۹۱ئ؁ تک جاری رہا۔ اس اخبار کے بند ہوتے ہی عبد الرافع کے سامنے ایک بار پھر تلاش معاش کی مجبوریاں کھڑی تھیں۔ لیکن اس وقت تک عبد الرافع کی صحافتی صلاحیتوں کا پر تو ،بہت نمایاں ہو چکا تھا۔ ان کی منفرد انداز تحریر کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اس لئے اس وقت انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور وہ بہت جلد پٹنہ کے مقبول روزنامہ اخبار ’’قومی تنظیم‘‘ کے شعبہ ادارت میں شامل ہو گئے جو ان کے ذی فراش ہونے تک جاری رہا ۔عبد الرافع نے بہار کی اردو صحافت کے نشیب و فراز کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا تھا اور ان کے تجر بات شریں کم تلخ زیادہ تھے۔

    عبد الرافع ایک خاموش طبع اور بے حد سنجیدہ انسان تھے۔ نیکی اور شرافت کا پیکر ۔ کبھی اس امر پر مصر نہیں رہے کہ وہ عصر حاضر کے بے حد نمائندہ اور باصلاحیت صحافی ہیں۔ ۱۱؍ نومبر ۱۹۹۲ئ؁ سے عبد الرافع امارت شرعیہ، بہار کے ترجمان ’’نقیب‘‘ (ہفتہ وار) کے ایڈیٹربھی مقرر ہوئے اور بیک و قت قومی تنظیم اور ’’نقیب‘ میں اپنے تبصروں اور اداریوں سے سیاسی، سماجی، دینی، ادبی اور لسانی مسائل پر بے حد مثبت اور تعمیری افکار و اظہار میں مشغول رہے، ساتھ ہی ساتھ وہ نو واردوں کو اپنے صحافتی تجربات و مشاہدات سے ان کی ذہن سازی بھی کرتے رہے۔افسوس صد افسوس کہ ان کی بے پناہ علمی اور صحافتی صلاحیتوں کی قدر نہیںکی گئی اور وہ جس مقام کے مستحق تھا ، انھیں وہ مقام نہیں دیا گیا ۔


*****************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 620