donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Ahmad Qadri
Title :
   Monawwar Rana Motnaza Kiyon



 منّور رانا متنازعہ کیوں ؟


ڈاکٹر سیّد احمد قادری

 رابطہ: 09934839110

 

  منورراناآج شہرت اورمقبولیت کی جس بلندی پرہیں،ایسی شہرت اورمقبولیت اردو شاعروںکے حصہ میںکم آئی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ منور رانا کو سیدھے سادے الفاظ اور عام فہم انداز بیان سے براہ راست لوگوں کے دلوں میں اتر جانے کاہنر آتا ہے۔ ان کی غزلیں جذبے کی صداقت ، تخیل  کی گہرائی ، فکر کی ندرت اور معنویت کی وسعت سے معمور ہوتی ہیں ۔جن سے ان کی شعری اور فکری شناخت میںانفرادیت کی جھلک بہت نمایاں ہوتی ہے۔ منّور رانا کے اشعار سادگی میں پر کاری کی بہترین نمونہ ہوتی ہیں ۔ انسانیت ، معاشرت ، فرد اور دنیا کی اعلیٰ قدروں سے منور رانا کی چونکہ گہری وابستگی ہے ،اس لئے ان کے اشعار کا کینوس کافی وسعت لئے ہوتا ہے ۔جس کے باعث ملک اوربیرون ممالک کے جس مشاعرے میںبھی وہ پہنچ جاتے ہیں اس مشاعرے کی بازگشت بہت دورتک اور دیرتک سنائی پڑتی ہے ،اورعام سے عام آدمی بھی منورراناکے اشعار گنگناتارہتاہے۔میری اس بات کی بھی لوگ ضرورتائیدکرینگے کہ اس وقت پرنٹ میڈیا،الکڑانک میڈیااورسوشل میڈیامیںمنورراناکی شخصیت اور شاعری کی دھوم مچی ہوئی ہے۔اس دھوم میںلاکھوںکروڑوںلوگ شامل ہیں،لیکن کچھ کوتاہ نظرایسے بھی ہیں جو حقائق سے واقف ہوتے ہوئے بھی مخالفت برائے مخالفت کو اپناشعار بنائے ہوئے ہیں۔ایسے ہی چند لوگوںکے ذریعہ منوررانا کومتنازعہ بنانے کی  بلا وجہ کوششیں ہورہی ہیں۔

منوررانا نے ابھی ابھی کینسرجیسے موذی مرض کوشکست دی ہے۔جن دنوںوہ کینسر کے آپریشن کے لئے بمبئی کے اسپتال میں داخل ہوئے تھے،ان کی صحت یابی کے لئے لاکھوںہاتھ اٹھے تھے،ان ہاتھوںمیںہرمکتبہ فکراورمذہب وملت کے لوگ شامل تھے۔اس وقت ایسا کون سا ہندی،انگریزی،اردوودیگرزبانوںکا اخبار تھا،جس نے ان کی بیماری کی خبرنمایاںطورپرنہیں شائع کی تھیں،اوران لاکھوںلوگوںکی دعاؤںکاہی فیض ہے کہ منوررانانے کینسر  جیسی خطرناک بیماری کوشکست دینے میں کامیابی حاصل کی اورانھیںایک نئی زندگی ملی۔

ابھی وہ پوری طرح صحت یاب بھی نہیںہوئے تھے کہ ملک میںبہت تیزی سے بڑھتی عدم رواداری ، منافرت، بدامنی ،فرقہ واریت اور فاشزم کے خلاف آوازاٹھی اوریہ آوازملک وبیرون ملک میںپھیلتی چلی گئی۔نیناسہگل نے ایوارڈ واپسی کی پہل کی اوریہ سلسلہ بھی درازہوتاچلاگیا۔اسی دوران کسی ٹی وی چینل میںان سے اس سلسلے میںپوچھاگیاتوانھوںنے کہہ دیاکہ تھکے ہوئے لوگ ایوارڈ واپس کررہے ہیں ۔لیکن دوسرے ہی دن انھیںاپنی غلطی کاشدت سے احساس ہوااور انھوںنے یہ طئے کرلیاکہ وہ بھی ملک کی فسطائی قوتوںکے خلاف اپنی احتجاج درج کرانے کے لئے اپناایوارڈ واپس کریںگے۔ہاں،یہ ضرورہے کہ وہ خاموشی سے ایوارڈواپسی کے بجائے تمام میڈیامیںکوریج چاہتے تھے، تاکہ اس بازگشت دور تک ہو اوریہ ضروری بھی تھا،اس لئے کہ اس وقت   تک بہت ساری زبانوں کے مصنفین احتجاج میں اپنا ایوارڈ واپس کر چکے تھے ، جن کا ذکر بار بار کیا جا رہا تھا ، لیکن افسوس کہ اردوکے سوائے ایک خلیل مامون اورکشمیری زبان کے غلام نبی خیال نے ہی اپنے ساہتیہ اکاڈمی واپس کیا تھا ،لیکن ان دونوںکاذکر زیادہ کوریج نہیں پا رہا تھا اور سوال اٹھ رہے تھے کہ یہ اردووالے خاموش کیوںہیں۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تواب بھی خاموش ہیں،گوپی چندنارنگ،سلام بن رزاق،جاویداختر،ندافاضلی،ش ۔ک ۔نظام، شمس ا لرحمٰن فاروقی ،جابرحسین،عبدالصمدوغیرہ یہ سب کے سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ، جبکہ پانی سر کے اُوپر سے گزر رہا ہے ۔ بہر حال،اس دوران منوررانا کوجب دہلیIITسے مشاعرے کی دعوت ملی ،توگرچہ وہ اپنی بیماری اورنقاہت کے باوجود سفرنہیں کرنا چاہتے تھے پھربھی انھوںنے سفرکاقصد کیااوراس موقع پر ایوارڈ واپس کرنے کامصمم ارادہ کرلیا تھا۔اس مشاعرہ میںجانے سے چنددن قبل انھیںABPنیوزچینل والوںنے ایوارڈ واپسی پرمباحثہ کے لئے مدعوکیااورانھیںپلین کا ٹکٹ بھی بھیج دیالیکن انھوں نے پلین کی بجائے ٹرین سے سفرکیااوراس نیوزچینل والوںکوکہہ دیا کہ وہ اپنے پیلن کا ٹکٹ واپس لے لیں، میں مقررہ وقت پر پہنچ جاؤںگا …اوروہ حسب پروگرام ABPاسٹوڈیواپنا بیگ لئے ،جس میںایوارڈ اورچیک تھا ،لئے پہنچے کہ اس ABPکے پروگرام کے فوراً بعد ہی انہیںIITکے مشاعرہ میںجاناتھا ، جہاںپہنچ کر انہیںاپناایوارڈواپس کرناتھا۔لیکن ABPکاوہ ،مذکورہ پروگرام جس طرح شروع ہوا اوربہارکے انتخاب کے پیش نظر وہ  جس طرح ہنگامہ خیز ہوتاگیااور بی جے پی کے سمپت پاتراجس طرح زہرافشانی کررہے تھے اسے سن کر منورراناجیسے حساس شاعر کا غم وغصہ میں مبتلا ہونافطری اورلازمی تھا،انہوںنے IIT کے مشاعرہ کے دوران ایوارڈ واپسی کا پروگرام بدل دیااوروہ مباحثہ کے دوران ہی وہاں سے اٹھے، دوسرے روم میںگئے جہاںان کابیگ رکھاہواتھا اپناایوارڈ نکالا اور واپس آکرپورے پینل کے سامنے  ہی اپنے ایوارڈ واپسی کااعلان کردیا۔


منورراناکی اس جواںمردی ،بے باکی، حوصلہ مندی اورجرأت مندی کی جس طرح دھوم مچی اورایک ہنگامہ کھڑاہوا۔ اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ایوارڈ واپسی ایک علامت ہے ، احتجاج اور غم وغصہ کا، اور ایسا احتجاج بیرون ملک کے ساتھ ساتھ اپنے ملک میں بھی کئی بار کیا جا چکا ہے ، لیکن اس بار جو شدّت ہے ، اور زور ہے ۔ ایسا زور اور شدّت اس سے پہلے نہیں دیکھنے کو ملا ۔ اس لئے کہ جس طرح کلبرگی،گووند پنسارے ،نریندر دابھولکرکو ان کے سیکولر نظریات کی پاداش میں اور گوشت رکھنے کابہانہ بنا کر جس بے رحمی سے اخلاق کو ،اس کی بے گناہی کی سزادی گئی -اس سے کون سا ایسا دل ہوگا ،جوروئے گا نہیںاورمنوراناتو بلاشبہہ سفّاک عہد کامعصوم شاعر ہے ،جوکہتاہے کہ    ؎  

خداکے واسطے ائے بے ضمیری گاؤں مت آنا       
 یہاں بھی لوگ مرتے ہیں مگر کردار زندہ ہے               


 منورانانے  اپنا ایوارڈ واپس کربے شک ایسے لوگوںپرجواپنے دل میں بے ضمیری کوبسائے ،زبان سے ضمیرکی بات کرتے ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ ملک میں منافرت، فرقہ واریت اورمذہبی جنون کو بڑھا کر،ملک کے آئین اور انسانی اقدار کوپامال کرنے والوں پر ، زبردست حملہ کیااورجس کی گونج ملک اور بیرون ملک کے طول وعرض کے ساتھ ایوان بالا میںبیٹھے لوگوںتک پہنچی اورانہیںیہ احساس ہواکہ اب اس معاملے کوروکنا  ضروری ہے ۔ چنانچہ اس سلسلے کی گفتگو کے لئے  PMOسے منورانا کے پاس فون آتا ہے ۔ فون پر تاریخ اور وقت بھی طے ہوجاتا ہے ۔لیکن  منّور رانا کو اپنی غلطی کااحساس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم سے ملنے ،ان کاتنہاجانامناسب نہیں  ہے ،اورانہوںنے PMOکوفون کرکہہ دیاکہ ملنے کے مقررہ وقت کومنسوخ کردیاجائے ،بعد میں کسی دن ملنے کی تاریخ طے کی جائے ۔ PMOسے آئے فون کی خبر کوبھی کافی سرخیاں ملیںاور ایک امید جگی کہ ملک کے اندر بڑھتی بے زاری اور عدم رواداری کو قد غن لگانے کی پہل کی جارہی ہے ۔ اس واقعہ کے بعد ایک ٹی وی چینل والے نے ان سے پوچھاکہ وزیراعظم ان سے اگرملتے ہیں ،تو ان سے کیا مطالبہ کرینگے ؟ جس کے جواب میں انہوںنے بلاشبہ بہت اچھی بات  اور دانشورانہ ومدبرانہ بات کہی کہ۔۔۔ ملک میںاس وقت جوکچھ ہورہاہے ،اسے بند ہوناچاہئے ،اس سے ہماری برسہابرس کی گنگا جمنی تہذیب ،روایت اوررواداری پامال ہورہی ہے، ملک کے بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں، پورے ملک میں ناقابل برداشت مسموم فضا بن رہی ہے اگر اس پر ابھی قد غن نہیں لگایا گیا تو ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جائیگی ۔ ان حالات پر گفتگو کے لئے، اگر میں وزیر اعظم سے ملتا ہوں تو ان سے میں وہ چمٹا مانگوںگا ،جوملک راج آنند کے ناول THE FAIRمیں ایک بچہ باپ کے ساتھ میلہ گھومتے ہوئے اپنے لئے کھلونوںکی بجائے ایک چمٹا لیناچاہتاہے کہ اس کی ماں جب روٹیاں بناتی ہے تواس کے ہاتھ جل جاتے ہیں ۔اگر وزیراعظم ایسا  چمٹا دینے کااورملک کے ایسے حالات پرافسوس کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مذّمت کرتے ہیں  ، نیز  ایسے سنگین سانحات پر قدغن لگانے کا وعدہ کرتے ہیں ، تو وہ ملک کے امن وامان ،یکجہتی ،رواداری ،بھائی چارگی اوراخوت کے لئے ان کے جوتے بھی اٹھالینے کوتیار ہیں …۔جوتا اٹھاناایک محاورہ ہے ،جوتعظیم کے لئے استعمال ہوتاہے ۔ ملک کا سربراہ اگر ملک کے مصنفین ، ، مؤرخین،سائنس دانوں ، فلم سازوں اور فوجی افسران کے احساسات و جزبات کی قدر کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتا ہے ، تو پھر ایسے نفرت انگیز شخص کی تعظیم کے لئے ملک کا شہری تیار ہوگا ۔ اس لئے کوئی بھی شخص ہو ، وہ شخص قابل نفرت نہیں ہوتا ، بلکہ اس کا عمل قابل نفرت ہوتا ہے ۔

اب مجھے کوئی یہ بتائے کہ منورانانے ایسی کون سی غلط بات کہہ دی کہ مٹھی بھرلوگ مسلسل انہیں متنازعہ بنانے کی پیہم کوششوں میں مصروف ہیں ۔ منوراناان لوگوںمیںقطعی نہیںجوبقول خود منورانا   ؎

شہرت ملی تو اس نے بھی لہجہ بدل دیا           دولت نے کتنے لوگوں کاشجرہ بدل دیا

بلکہ منوراناوہ ہیں،جووہ کہتے ہیں کہ    ؎

باپ کی دولت سے یوں دونوںنے حصہ لے لیا       بھائی نے دستار لے لی،میں نے جوتالے لیا

اورجولوگ منوراناکوجانتے ہیںاوران کے مزاج سے واقف ہیں ،وہ اس امرکابھی اعتراف ضرور کریںگے کہ منورانا کا   ؎

دل ایسا کہ سیدھے کئے جوتے بھی بڑوںکے       ضد اتنی کہ خود تاج اٹھاکرنہیں پہنا

 منور رانا کی ضد اور سخت گیری کے ساتھ ہی ساتھ ان کی ہمت ، حوصلہ ، جرأت کی بھی داد دینی ہوگی کہ انھوں نے ملک کے اندر بہت تیزی سے بڑھتی منافرت ، فرقہ پرستی اور فسطائت پر خاموش تماشائی بنے رہنے والے سربراہ کو کھلم کھلا چیلنج کیا اور کہا کہ    ؎

 اگر دنگائیوں پر تیر ا کوئی  بس نہیں چلتا      تو پھر سن لے حکومت ،ہم تجھے نامرد کہتے ہیں

 منور رانا کو اگر کسی منصب کی چاہ ہوتی تو وہ اتر پردیش اردو اکادمی کی چئیرمین شپ ، جس میں وزیر کا درجہ اور ساری سہولیات ملتی ہیں ، اس پر صرف چند ماہ کے اندر ہی خودداری کی لات نہیں مار دیتے۔

اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ تنقید برائے تنقید کرنے سے بہتر ہے کہ پورے حالات  اور سیاق  وسباق کو پہلے سمجھا جائے، اس کے بعد ہی تنقید و تبصرہ ہو ۔

 

        ********************************  

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 531