donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Waheed Anjum, Karnatka
Title :
   Internet Ka aadmi - Azeez Belgaumi

 

 انٹر نیٹ کا آدمی۔۔۔عزیز بلگا می


(ڈاکٹر وحیدانجم، گلبرگہ (کرناٹک

 

کڑچی اِن دنوں بلگام کا ایک چھو ٹا سا تعلقہ ہے ۔ کبھی یہ شہر دینی اور روحانی مر کز ہوا کر تا تھا ۔ تاہم آج بھی اسکی روحانی اہمیت مسلمہ ہے ۔ کڑ چی حضرت شیخ شاہ سرا ج الدین جنیدی قدس سرہ (شیخ دکن گلبرگہ ) کا مامن ہے۔ آج بھی جنیدیہ سلسلے کے لو گ اس شہر میں آباد ہیں ۔ عزیز الدین کی ولادت کڑچی میں ‘ اور تعلیم و تر بیت بلگام میں ہوئی۔ جہاں انہوں نے اپنا بچپن اور نو عمری کا زمانہ گذارا ۔

اِبتدائی دور میں مکتے دار حضرت ‘ جناب صمد خانہ پو ری ، سید نو رالدین نور قادری اور عطاء الرحمٰن عطا ہبلوی جیسے اساتذہ کی حو صلہ افزائی ‘ محبت اور رہنما ئی نے انہیں شاعر بنا دیا ۔ اور زندگی کی ناہموار و کٹھن راہوں پر پر وقار و ثابت قدم رہ کر چلنا سکھایا ۔ آج عزیز الدین نے عزیز بلگا می کے نا م سے سارے عالم میں شہرت حاصل کر لی ہے۔ 

عزیز صاحب بچپن ہی سے نغمگی مزاج کے حامل رہے۔ زمانۂ طالب علمی میں بانسری بجا یا کر تے تھے ۔ موصوف نے جس کسی بھی فن کی طرف توجہ کی اس میں مہا رت حاصل کی ۔ اللہ نے انہیں رسیلی آواز دی ہے۔ خوش گلو شاعر کی حیثیت سے مشہور ہو ئے۔ غزل ہو یا نعت ایسے ترنم کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ سماں بند ھ جا تاہے اور محفل پر سکو ت طاری ہو جاتاہے ۔ موصو ف کی خصو صیت یہ ہے کہ بے تکان پڑھتے ہیں۔ بہت سی محفلوں میں آپ کو تنہا بھی سنا جاتا ہے ۔ ہندوستان کے کئی مقات پر’’ عزیز نائٹ ‘‘کا اہتمام بھی ہوتا رہتا ہے۔ کسی مشا عرے میں انہیں سننے کے بعد دوسرا مشاعرہ انکے بغیر پھیکا پھیکا سا لگتا ہے۔ 

تقریباً 32,30سال قبل کی بات ہے، یا دگیر کے ایک کل ہند مشا عرے میں عزیز صاحب اور راقم الحروف دونوں مدعو تھے۔ ان سے پہلی ملاقات کا نقشہ اب تک ذہن میں محفوظ ہے۔ قد بو ٹا ‘ کلین شیو ‘ سانو لا رنگ ، ناک چھوٹی مگر سیدھی اور 
اونچی ، چہرے کے قد و خال پر کشش ، صحت قابل رشک اور خو ش گفتار ی۔۔۔ بہ یک وقت کلاسکی اور جدید ادب سے اس قد ر گہرا انسلاک کے سننے والے حیر ت زدہ رہ جائیں ۔موصو ف نے دو نعتیں اورکچھ غزلیں وہاں پیش کی تھیں ۔ ان کی نعت کے کئی اشعار برسوں اہل یا دگیر کے ذہنوں میں گونجتے رہے: 

فرقہ فرقہ، مسلک مسلک میں بٹ جا نے والے ہم 
واعتصمو ا بجبل اللہ۔۔۔ کا درس سنا نے والا وہ ؐ 
رحم وکرم کی بھیک پہ اپنی عمر گنو انے والے ہم 
مظلوموں کی اخلاقی تنظیم اُٹھا نے والا وہ ؐ 

مشاعرے کے بعد یادگیر سے گلبرگہ تک کا سفر ہم دونوں نے انتہائی خوشگوار ماحول میں طے کیا تھا۔ مختلف موضوعات پرہماری گفتگو رہی۔ عزیز بلگامی ایک درد مند حساس انسان ہیں ۔ ان کا ملنا مبنی بر خلوص تھا ۔ رسمی ہر گز نہیں ۔ صاف دل ، صاف گو ‘انا پسندنہیں بلکہ خوددار ‘ کھلے دل کے مالک عزیز بلگامی سے ہم نے عمر بھر دوستی اور رفاقت کا رشتہ قائم کر لیا ۔ 

یقیناًوہ دور سنہرا رہا ہوگا جب عزیز بلگامی بینک مینجر ہوا کر تے تھے ۔ دوران ملا زمت عزیز بلگامی کی انگریزی دانی اور جامہ زیبی کے چرچے تھے۔ انتہائی خلیق اور سنجیدہ انسان چہر ے پر نرمی و ملا ئمت ہوتی۔ مگر بعض باتوں سے چہرے پر تناؤ آجا تا تھا۔ پھر غصہ پی جا تے۔ ادھر پچھلے پندرہ بیس برسوں میں ہم نے دیکھا کہ اسلامی نظریا ت کے حامل ،حساس ، مسلم بنک ملازمین نے رضا کا رانہ طور پر ملازمت سے سبکدوشی حاصل کی ہے۔ ان ملازمین کو اندر ہی اندر یہ بات کھلتی رہتی کہ ہم راست یا بلاراست سودی کا روبار میں ملوث ہیں جو غیر اسلامی ہے۔ اسی احساس سے کئی حساس مسلم بنک ملا زمین نے نوکری ترک کر دی ۔ ان میں سے عزیز بلگا می بھی ایک ہیں۔ موصو ف نے خالی اوقات میں خود کو مصروف رکھا ۔ کمپیوٹر سیکھا ۔ایم اے کیا، ایم فل کیا۔ ہندوستا ن بھر میں بلا ناغہ مشاعروں میں شرکت کی۔ اخبارات کے لئے مسلسل آرٹیکل لکھتے رہے اور عزم اکیڈیمی پبلی کیشنز ہا ؤ ز قائم کیا۔ احباب کی کتا بیں اغلاط سے پاک آدھی قیمت پر چھاپے۔ کمپوزنگ اور پروف ریڈینگ پر زیادہ توجہ کرتے۔ احباب اور اردو ادب کی خدمت سے موصوف سکون محسوس کرتے ۔ 

عزیز بھائی نے اپنے عزم و استقلال اور استقامت و مستقل مزاجی سے نا موافق حالات میں بھی اپنے لئے راہیں تلا ش کیں۔ اور مردانہ وار آگے بڑھتے رہے۔ عزیز صاحب سے مل کر میں نے محسوس کیا کہ تا حال بنگلور کے لوگوں کے مزاج سے ان کا مزاج ہم آہنگ نہیں ہو پا یا ۔ اور مفا ہمت بھی ممکن نہیں ہوئی۔ کیونکہ موصوف قلند رانہ صفت آدمی واقع ہوئے ہیں۔ 

عزیز بلگامی سے ایک مدت بعد دوردرشن بنگلور میں ملا قات ہوئی۔ آواز میں مسرت کا لہرا تھا ۔ بے ساختہ مجھ سے لپٹ گئے۔ میں نے محسوس کیا کہ جوں جوں عمر بڑھتی جا تی ہے۔ آدمی تنہا ہو تا جا تا ہے ۔ کیونکہ آخر عمر میں نئی دوستیاں ممکن نہیں۔ عزیز بھا ئی نے بتایا :’’آجکل وہ دوردرشن بنگلور کے انٹر ویو پینل سے جڑے ہوئے ہیں اوراُنہوں نے کئی نامور شاعر اور ادیب 
کے علاوہ سماج کی اہم شخصیات سے انٹر ویو کئے ہیں اور آج وہ ہمارا انٹر ویو بھی وہی لیں گے ۔ آپ کا یہ انٹر ویو آپ کی 30سالہ شعری ادبی و تدریسی خدمات کے احا طے کیلئے کیا جا رہا ہے۔‘‘ موصوف نے ایک پتے کی بات یہ بتائی کہ ’’آپ جواب جتنے مختصر دیں گے میں سوال اتنے ہی زیا دہ کرسکونگا ۔‘‘

عزیز صاحب کی جسامت میں تبدیلی آگئی تھی ۔ چہرہ باریش ہو گیا تھا۔ بال سفید مگر سلیقے سے جمے ہوئے۔ لباس خوش رنگ ، جسم فر بہ ، مگر خیالات ، ونظر یات تقریباً وہی تھے۔ موصو ف کے انداز گفتگو اور چہرے سے مجھے بے ساختہ ہندی فلموں کے کیر یکٹر ایکٹر من مو ہن کرشن جی یا د آئے ۔ اور اپنے بچپن کا زمانہ بھی۔ 1962ء میں ریڈیو سیلون کیلئے من موہن کر شن جی بمبئی میں بچوں کیلئے ایک پروگرام ’’کیڈ بر یز پھلواری ‘‘ کے نام سے ریکا ڈ کیاکرتے تھے ۔ جس میں 8تا 12سال کے بچے فلمی گانے پیش کیا کر تے جس کے اینکر من مو ہن صاحب ہو ا کر تے ۔ میں نے اس پروگرام میں فلم ’’آس کا پنچی ‘‘کا ایک گیت گایا تھا۔ یہ پروگرام بروز ہفتہ رات آٹھ بجے ریڈیو سیلون سے پیش ہوا کر تا تھا۔ دوردرشن پر عزیز صاحب کو دیکھ کر مجھے من موہن کرشن اور اپنا بچپن بے ساختہ یا د آگیا ۔ انٹر ویو میں سوالات کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ایک ہی شخصیت میں خشک تحقیقی مباحث سے گہرا میلا ن اور عمدہ شعری ذوق، سلیقہ وقرینہ میں نے پایا ۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ پستہ قد آدمی اپنے اندر ایک کائنات لئے بیٹھا ہے۔ 

میں جب بھی بنگلو ر جا تا ۔ موصو ف خوش دلی اور کمال مسرت سے خوش آمدید کہتے ۔ خیر خیریت اور ناشتے کے بعد مجھے کمپیوٹر پر بٹھا دیتے ۔بہ ذریعہ انٹر نیٹ دنیا بھر کے ادب دوستوں سے میرا تعارف کر اتے ۔ ان کا چہرہ بچوں کی طرح کھل اٹھتا ۔ پھر انٹر نیٹ پر اپنی کوئی غزل دکھا تے ۔ جس پر دنیا بھر کے لو گوں کے تبصرے نظر آتے ۔ ہندوستا ن ، پا کستان ، ایران ، جاپان، ٹوکیو ، جدہ ، شکا گو ، آسٹریلیا، جر منی، بنگلہ دیش،لندن، کینڈااور دیگر کئی ممالک کے افراد کا تبصرہ بھی ان کی غزلوں پرموجود ہوتا ۔ اس عمل سے موصو ف کی آنکھوں میں چمک ابھر تی، گر دن تن جا تی ، آواز بدل جا تی اور میں سمجھ نہیں پاتا کہ یہ بے غرض خود نما ئی ہے یا انتہا درجے کی سادگی۔۔۔؟۔ 

انٹر نیٹ سے پہلے کس کی شائع شدہ تخلیق پر تبصرہ پڑھنے کیلئے ماہ دو ما ہ لگ جا تے۔ آج ،اس ہاتھ دے اس ہا تھ لے والا معاملہ ہو گیا ہے۔ آج دنیا سمٹ کر مٹھی میں آگئی ہے ۔عزیز بلگامی کسی بھی فن پا رے پر بے باک ‘بے خوف ‘ بے لا گ تبصرہ کر تے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ انکی حق گوئی کی ضرب کس پر پڑ رہی ہے ۔ عزیز بھائی مجھ سے اکثر کہتے ہمارے علاقے کے اردو قلمکا ر اگر انٹر نیٹ سے جڑ جائیں تو سارے عالم میں اپنی پہچان بنا سکتے ہیں ۔ پھر مجھ سے مخاطب ہو تے:’’ وحید بھائی آپ انٹر نیٹ سے جڑ جائیے اس کا لطف نرالہ ہے ۔ اس سے آدمی کو منٹوں میں شہر ت مل جا تی ہے ۔ نئے دوستوں سے گفتگو کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے ۔‘‘ ان کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکر اہٹ پھیل جا تی ہے ۔ مخا طب کی جا نب داد طلب نظروں سے دیکھنے لگتے ۔ میں نے کہا:’’ عزیز بھائی میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں آپ بلا شک و شبہ’’ انٹر نیٹ کے آدمی‘‘ ہیں۔‘‘ موصوف 
نے ہلکا سا قہقہہ لگادیتے ۔ 

عزیز صاحب سچے کھر ے اور بے باک انسان ہیں ۔ انکا مزاج عملی اور تحقیقی ہے، ان سے گفتگو کر کے دل کو خوشی کا احسا س ہو تا ہے کہ کبھی کبھار اچھے لوگوں کے متعلق اظہار حقیقت بھی تعریف و خوشامد معلوم ہونے لگتی ہے۔ موصوف نے یم فل کر نے کے بعد اس ڈگری کا استعمال کیا ۔ شکا ری پور (شیموگہ) کے زبیدہ پر ی یونیورسٹی کالج میں پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ۔ مگر خدمات کا یہ سلسلہ زیا دہ عرصے تک جا ری نہیں رہ سکا۔ واپس بنگلور آئے ۔ موصوف کی طبیعت سیلانی ہے۔ انکے مزاج میں ایک عجیب سی بے قراری لگتی ہے۔ یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے ایک عرصے تک جماعت اسلامی سے منسلک رہے ۔ پھر علیحدگی اختیار کر لی ۔ دنیا مختلف الخیال لو گوں کی آماجگاہ ہے ۔ آدمی اسی شخص کے ساتھ زیا دہ دیر اور دور تک چل سکتا ہے ۔ جو اسکا ہم خیال اور ہم مزاج ہو ۔ 

عزیز صاحب سے ملا قات بہت کم ہو تی ہے، مگر مو بائل پر برابر ربط رہتا ہے ۔ دن اور رات کی کوئی قید نہیں کبھی مختصر اور کبھی طویل گفتگو ہو ا کر تی ہے۔ اہم مسائل پر تبادلہ خیال ہو تا ہے ۔ نجی گفتگو ہو تی ہے اور کبھی ادبی۔۔۔ اکثر قومی موضوعات پر گفتگو کیا کر تے۔عزیز صاحب نے کبھی حقائق بیانی سے روگردانی نہیں کی ۔ ان کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ شکو ے اور شکا یت کی تہذیب کے بجا ئے شکر یے کی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے ۔ لوگوں سے ان کے روابط ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں ۔ دوسروں کی خوبیوں کے اعتراف میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ 

عزیز بھائی بے انتہا مخلص انسان ہیں۔ بنگلور پہنچ کر انہیں فون کر یں تو آر۔ٹی نگر کے پولیس اسٹیشن تک آنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ پولیس اسٹیشن کے قریب موصوف یا ان کے صاحبزادے با ئیک لئے منتظر ہو تے ۔ یہاں سے گھر تک سفر انکے ہمرا ہ طے ہو تا ہے ۔ مہمانوں کے لئے عموماً طعام کا انتظام ہو اکر تا ہے ۔ کبھی کبھا ر اپنے دوست احباب کے پاس بھی مہما نوں کی دعوت کا انتظام کر واتے ہیں ۔ مجھے ایک دو دفعہ اسطرح کی دعوتوں میں شرکت کا اتفا ق ہوا ہے ۔ دعوتوں کے بعد عموماً محفل شعر بھی منعقد ہو ا کر تی ہے۔رات دیر گئے تک ایک سماں بندھا رہتا ۔ شعر و سخن سے دلچسپی رکھنے والے ایسی محفلوں سے محظوظ ہواکر تے ہیں ۔ 

عزیز صاحب بے انتہا معروف آدمی ہیں خود کو کسی نہ کسی کام سے جو ڑے رکھتے ہیں ۔ اسلامی طرز زندگی انہیں عزیز ہے ۔ کسب حلال، طہارت ونظافت انکا وطیرہ رہا ہے۔ موصوف نظم و نسق کے پابند رہے ہیں ۔ انکے کئی صوتی کیسٹ ریلیز ہوچکے ہیں۔مگرکیسٹ ’’دعا ہے ہما رے پاس ‘‘ کو عالمی شہر ت حاصل ہوئی ۔ بلا شبہ عزیز بلگامی انٹر نیٹ کے آدمی ہیں۔ (یو این این)

**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 600