donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Fatah Mohammad Nadvi
Title :
   Maulana Abdul Majid Daryabadi Ki Adbi Shaguftagi

 

مولانا عبدالماجد دریابادی کی ادبی شگفتگی


فتح محمد ندوی


         مولانا عبدالما جد دریابادیؒ کانا م ادب اورصحافت کے حوالے سے بھی اور دوسرے علوم مثلا علم تفسیر ،فلسفہ ، علم کلام کے حوالے سے بھی ایک منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتا ہے ۔ مدتیں گزر جانے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ مولا نا د ریا بادی اپنی ارتقائی اور تخلیقی نگارشات کے سبب نہ صرف زندہ ہیں بلکہ ادب اور صحافت میں آج بھی آپ کی بادشاہت قائم ہے ۔اور صدیوں تک آپ کا نام ادب اور صحافت میں ایک ستون بن کر رہے گا ۔کیونکہ آپ بلاشبہ ادب اور صحافت کے معمار بھی ہیں۔او ر ساتھ ساتھ ادب اور صحافت میںجو اسلوب آپ نے اختیار کیا اس کے آپ موجد بھی، اور خاتم بھی۔ اسی طرح آپ نے ادب کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کر کے ان آبدار موتیوں سے ادب کے دامن کو سجایا جوا ٓج تک اس کی زینت اور اس کے حسن کو دوبالا کئے ہوئے ہیں ۔ صحافت میں بھی تمام رسمی اور روایتی طریقوں سے ہٹ کر نہ صرف سچ کو عملی طور پر اپنایا  بلکہ صحافت کے پیشے کو عزت اور وقار عطا کیا اور اس کو داغدار ہو نے سے بچا یا۔ صحافت کے حسن کو آپ کے ہاتھو ایک معیار ملا ۔آپ بیتی لکھی تو اس میں اپنی کمزوریوں کو بھی اسی طرح بیا ن کیا جس طرح اچھائیاں بیان کی ۔خا کے لکھے تو ان میں بھی سچا ئی کے ساتھ ساتھ ہر ایک شخصیت کا نقشہ ایسا کھینچ کر رکھدیا ۔کہ شخصیت کے تمام پہلو سا منے آگئے ۔ سفر نا مے لکھے تو وہا ں بھی وہی سچ ۔۔۔۔ غرض ہر جگہ ہر مقام پر سچ کو ادب اور صحافت سے جدا نہیں ہو نے دیا۔۔


       بات اگر مولانا دریا بادی کے اسلوب کی کی جائے تو اپنے اسلوب اور ادبی شگفتگی کے حوا لے سے منفرد اور یکتہ ہیں۔جس اسلوب کی آپ نے اردو ادب میں طرح ڈالی اس میں اگر چہ کبھی شبلی اور شرر کبھی ہادی اور نذیر اور کبھی مصور غم راشد الخیری بیک وقت نظر آتے ہیں۔ یقینا آپ نے ان سب کی شکلوں کی آبرو بن کر ادب کی آبیا ری کی ۔ اور ایک ایسا اسلوب ایجاد کیا جو مذکورہ تمام ادباء کا سنگم بھی ہے اور عکس بھی ۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ ما جد کبھی مصور غم راشد الخیر ی کے غم زدہ اسلوب کو اردو ادب کا روپ دیکر ماتم کناں نظر آتے ہیں ۔اور کبھی ادب کو شبلی کا لبادہ اڑھا کر اس کی زلفوں کو سنوار تے ہیں اور کبھی مرزا ہادی اور شررکے لکھنوی نرم لہجے میں اپنی آپ بیتی سنا نے لگتے ہیں ۔ ڈاکٹر تحسین فراقی مولانا دریا بادی کے اسلوب کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔ اس دور میں لکھنو کی نگاہ( جیسا کہ انیسوی صدی کے اواخر میں) لفظ کے اکہرے پن سے آگے نہیں بڑھ رہی تھی معنی اور گہرائی کی جگہ لفظ نے ایک مجرد دیو تا کی شکل اختیار کر لی تھی اور معر کہء شرر اور چکبست کی شکل میں بہت حد تک ایک لفظی قشر پرستی نے جنم لیا تھاالبتہ شرر کے تا ریخی ناولوں نے ایک طرف ماجد کے دل میں اسلاف کی عظمت کا نقش بٹھایا تو دوسری طرف اودھ پنج کیظرافت نے جس میں کاٹ او ر خشونت کے عنصر ملے ہوتے تھے ماجد کے مزاج میں ایک طرح کے مناظرانہ جوش اور خطیبانہ جذبے کو پروان چڑھایا تھاان تمام عناصر نے مل کر اس شخصیت کو جنم دیا جسے دنیائے ادب ودین ماجد کے نام سے جا نتی ہے اور جنکی اسی شخصیت سے متنوع اسالیب پھوٹے جن سے سوانح وسیرت ،فلسفہ ونفسیات ،نقد وانشا اور تفسیر وتعبیر نے فیض پایا۔


آگے لکھتے ہیں ’’ زبان شخصیت اور فکر کی جس تثلیث کا نام اسلوب ہے اس نے ماجد کے یہاں ایک ایسی منفرد اور متاثر کن شکل اختیار کی ہے کہ یہ ان کی بڑی پہنچان بن گیاہے۔ ان کی ہر تحریر پکار پکار کر اعلان کر تی ہے کہ مجھ پر ماجد کی مہر ثبت ہے ان کے اسلوب کا حاکم ان کا جذبہ ہے جو کہیں تبلیغ کی شکل اختیار کر لیتا ہے کہیں حکمت کی کہیں انشا کی اور طنز طعن اور تشنیع کی ۔کہیں گداز اور عبرت زائی کی اور کہیں خطبہ آرائی کی ۔


 در اصل مولانا دریابادی کے اسلوب کی اس انفرادیت میں وہ جذبہ شامل ہے۔جس کا تذکرہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے مذکورہ اقتباس میں کیا ۔اور یقینا کسی بھی فنکار کے لئے اندر کا جذبہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔بلکہ اندرونی جذبے کے بغیر نہ فنکار کی کو ئی حیثیت ہے اور نہ فن کی۔ ہمیں دریابادی کے اسلوب میںیہ چیز یںکثرت سے ملتی ہے کہ کسی بھی اصناف سخن پر آپ نے قلم اٹھایا۔ تو اس کو تشنہ نہیں چھوڑا بلکہ آپ  فن میں مکمل داخل ہو کر اس کو نکھار نے کا ہنر بخوبی جا نتے تھے۔ فلسفے جیسے خشک مضامین بھی آپ کے قلم کی زینت بن کر تازگی کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہی آپ کے شگفتہ قلم کی جلوہ گری ہے کی کہیں بھی آپ کے فن پاروں میں تشنگی اور بوجھل پن محسوس نہیں ہوتا ۔اور یہی ایک فن کار کی سب سے بڑی خوبی ہو تی ہے اور اسی کے توسط سے وہ قاری کو اپنی گر فت  میں لیکر اس کے اعصاب پر سوار ہو جاتاہے۔ دریا بادی کے اسلوب میں سب سے بڑی خوبی اور جادو گری یہی ہے کہ آپ کے یہاں الفاظ اور تعبیرات کے استعمال میںاعتدال پسندی بہت زیادہ ہے آپ کی تحریریں لغوسے اور اسی طرح بے جا طوالت سے پاک ہیں ۔ اسی طرح نہ اتنا اختصار کہ فن میں تشنگی کا احساس ہونے لگے اور نہ اتنی طوالت کہ اکتاہٹ ہو نے لگے۔ بلکہ میانہ روی آپ کی تمام تخلیقات کا حصہ ہے دوسر ی اہم خصوصیت آپ کے اسلوب کی یہ ہے کہ نہ تو اتنا سہل ہے ۔کہ بچکنے پن کا ا ظہار ہو۔او رنہ اتنا مشکل اورپیچیدہ کہ سمجھ اور فہم سے بالا تر ہو۔ بلکہ فصاحت اور بلاغت کی کسوٹی پر آپ کا اسلوب سو فیصدکھرا ۔


    ’’  بڑے دکھ اور دلی کرب کے ساتھ یہ محسوس ہواکہ جس اتحاد امت ،یکدلی ، یکجہتی کو وجود میں لانے اور ترقی دینے کے لئے پاکستان بنا تھا خود ہی مفقود ہے۔ قد م قدم پر انتشار اور بات بات میں اختلاف اور سب سے مہلک زہر رگ رگ میں سرایت کیا ہوا صوبائی تعصب! حسرت ہی رہی کہ کسی پنجابی کی زبان سے کسی بنگالی کے حق میں کلمۂ خیر سنا ہوتا ، کسی بنگالی نے کسی سندھی کا نام خوشدلی سے لیا ہوتا، کسی سندھی نے کسی سرحدی پر اعتماد ظاہر کیا ہوتا۔ حدیہ ہے کہ مہاجرین تک ٹولیوں میں بٹے ہوئے ایک دوسرے پر بجائے محبت واخوت !رقابت بلکہ دشمنی کی نظر سے دیکھنے والے ’’رحمائ‘‘ کے بجائے ’’اشدائ‘‘ کے مصداق ، یوپی والے، بمبئی والے، بہاری،دکھنی الگ الگ پارٹیوں میں تقسیم ، تنظیم سے کوسوں دور۔ اس زہر کا توڑ صرف ایک ہی تھا ،ایمانی اخوت، یہی سب کو ایک سانچہ میں ڈھال سکتی ہے اور وہی ناپید ، پھر یہ تفریق تو صرف وطنی بنیاد پر تھی ، خود مذہبی حیثیت سے بھی ایک انتشار کا عالم طاری، نئے اور پُرانے ملاکر خدا معلوم ! کتنے فرقے تیار اور کس کثرت وتنوع کے ساتھ دینی دعوتیں بڑے بڑے زبردست داعیوں کی طرف سے جاری،بعض جدید تحریکیں، یقینااصلاح اتحاد ومرکزیت کا مقصد لے کر اٹھیں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک مستقل فرقہ اور ایک تخریبی عنصر بن گئیں، شکوہ کس کس کا کیا جائے اور کس ایک گروہ یا جماعت کا نام لے کر ذمہ داری اس کے سر پر ڈال دی جائے، کسی میں اخلاص ہے تو تدبر نہیں اورکہیں اگر جوش ہے تو وہ ہوش سے عاری‘‘۔(سیاحت ماجدی۱۹۵۵) 


ایک نہیں دو جوان پہاڑ سی لڑکیوں کا جنازہ اپنے ہا تھوں اٹھا یا، قبر میں سلایا،دل ان ذاتی صدموں کی تاب کہاں لاتا،قومی صد میں ان سے بڑھ چڑھ کر۔جئے اس کے بعد چھہ سات سال ۔محمد علی کو قوم وملت کے ،ملک کے سردار کی حیثیت سے سب نے جاناکروڑوں نے پہنچانا،ان سب سے زیا دہ خوش نصیب وہ تھے جن ہوںنے محمد علی کو قریب سے بحیثیت دوست کے ،عزیز کے، انسان کے دیکھا  بیان کیا جائے کیسی نعمت انہیں ہاتھ آگئی تھی، ایک صداقت مجسم، ایک پیکر اخلاس، جر ئت ،ہمت بے خوفی کا مجسمہ، پاس والے جتنے قریب سے دیکھتے گئے حضرت جوہر کے جواہر اور زیادہ کھلتے گئے ۔ نکھر تے گئے، مشہور تمام تر ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے تھے۔ لیکن ان کی لغت میں ڈپلومیسی کا لفظ ہی نہ تھا، ظاہر باطن یکساں ،جو خیال جس کے متعلق دماغ میں آگیا ۔زبان سے ادا ہو کر رہا ،جو بات دل آئی منہ پر آئے بغیر نہ رہی ۔کہتے ہیں اہل سیاست وہ ہو تے ہیں جو کہتے کچھ ہیں اور کر تے کچھ ہیں۔ محمد علی اس معنی میں اہل سیاست قطعاً نہ تھے ۔ ایک بار نہ تھے ۔ہزار بار نہ تھے ۔محبت کے پتلے تھے ۔مہر والفت کے بندے تھے  بیوی بچوں کے عاشق زار، دوستوں رفیقوں ساتھیوں پر سو جان سے نثار دور کا واسطہ رکھنے والوں کے مونس وغمگسار۔کہا کرتے تھے کہ شہرت میں کیا رکھا ہے۔میں تو محبت کا بھوکا ہوں۔ مسلمانوں کے اور عالم اسلامی کے ساتھ شیفتگی کی یہ کیفیت کہ افریقہ میں کسی کے تلوے میں کا نٹا چبھے اور اس کی چبھن یہاں ہندوستان میں بیٹھے محمد علی محسوس کریں ’’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ‘‘یہ مصر ع بار ہا سن نے مین آیا تھا اور اسے ہمیشہ نری شاعری سمجھتا تھا ۔محمد علی کی زندگی نے سمجھا دیا کہ شاعری کبھی حقیقت مجسم بن جاتی ہے۔


           یہ مذکورہ دو اقتباس جن میں سے پہلے کا تعلق سفر نامے سے ہے اوردوسرا کا سوانح نگاری سے ہے ۔ ہمارے خیال میں انہی دو سے آپ کے مکمل ذخیرئہ ادب کے اسلوب نگارش کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ آپ کا اسلوب صنف کے مزاج کے اعتبار سے ہمیشہ ایک رہا ہے ۔جو کسی بھی فنکار کی بڑی کامیابی کہی جا سکتی ہے ۔ مفکر اسلام مولا نا علی میاں ندوی مولانا دریابادی کے ا سلوب کی اس پختگی اور رعنائی پر رقمطراز ہیں’’ یہی اپنے رنگ میں مولانا عبدالماجد کی خصوصیت ہے کہ ان کی کو ئی تحریر ادب وزبان کی چاشنی سے خالی نہیں اور کہیں ان کا اسلوب تحریر جو ان کی شخصیت کا جز بن گیا ہے ۔ ان کا ساتھ نہیں چھوڑتا،حد یہ ہے کہ لیکی کی کتاب ہسٹری آف یورپین مارلس کے تر جمہ ’’تاریخ اخلاق یورپ ‘‘میں بھی ( جو اپنے موضوع،اپنے فنی اصلاحات ،اردو کی تنگ دامنی ،اور ترجمہ کی مشکلات کی وجہ سے نہا یت مشکل کام تھا )وہ پورے طور پر کامیاب ہوے ہیں اور پوری کتاب میں کہیں ثقالت وخشکی اور ترجمہ پن نظر نہیں آیا ، میرے محدود مطالعہ میں ظفر علی خاں کی کتاب ’’ معر کہ مذہب وسائنس‘‘ کے بعد تر جمہ کی کو ئی کو شش اتنی کامیاب نظر نہیں آتی‘‘ (پرانے چراغ)  ۔بہر حال مولانا دریابادی ہمارے ادب کے معمار ہیں اور معمار کے اندر جتنی خوبیاں ہو نی چاہئے وہ تمام آپ کے پاس ہیں ۔ان تمام معروضا ت کے بعد اگر آپ کے حوالے سے  یہ کہدیا جائے کہ آپ اپنے وقت کے میر وغالب تھے تو کوئی مبالغہ شاید نہ ہو ۔ اس مضمون کو آپ  کے معاصرمشہور ادیب اور قلم کار مولانا ماہر القادری ؒ کے اس اقتباس پر ختم کرتے ہیں ۔۔     


 مولانا عبد الماجد دریادی اردو زبان وادب کے گنے چنے بلند پایہ اہل قلم میں ممتاز اور نمایا ں مقام رکھتے تھے  ۔ طنز نگاری کے بادشاہ زبان و
 روز مرہ کے مستند ومعتبر استاد ! فلسفی صوفی  مبلغ اخلاق مفسر ، نقاد  طناز ! ان کی شخصیت گونا گو ں کمالات کی جامع تھی ۔ اشعار اور خاص طور سے مصرعوں کااسقدر موزوں اور بر جستہ استعمال اور کسی اہل قلم کے یہاں دیکھنے میں نہیں آیا ،مغربی تہذیب وتمدن پر طنز ان کا محبوب ترین مشغلہ تھا  ’’سچ‘‘اور ’’ صدق جدید ‘‘ میں ان کے قلم سے نکلے ہوے شذرے در اصل زبان وادب شہ پارے ہیں ۔مغرب زدوں کی ایسی چٹکیاں لیتے کہ یہ گروہ سی سی کرتا اور تلملا تا ہوا رہ جاتا۔  

******************

Comments


Login

You are Visitor Number : 960