donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Feza Perween
Title :
   A Hameed : Milne Ke Nahi Nayab Hain Ham

اے۔ حمید: ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم


فضہ پر وین


       ممتاز ادیب ، دانشور، صحافی اور حریت فکر کے مجاہد  اے ۔حمید(عبدالحمید ) نے  29  اپریل 2011  کی شام کو  عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باند لیا۔1928 میںامرتسر میں جنم لینے والے اس عظیم تخلیق کا ر کو لاہور میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اے حمیدکی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے تخلیق ادب اور فروغ اردو کی مساعی کو اس سے بہت ضعف پہنچے گا۔ اپنی دو سو سے زائد وقیع تصانیف کے ذریعے اردو ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ کرنے والے اس باکمال ادیب نے مسلسل سات عشروں تک اپنے خون جگر سے گلشن ادب کی آبیاری کی ، ان کے افکار کی ضیاپاشیوںسے اکناف عالم کا گوشہ کوشہ منور ہو گیا۔ مہیب سناٹوں اور جمود کا خاتمہ ہوا اور سفاک ظلمتوں کو کافور کر نے میں مدد ملی۔ حریت ضمیرسے جینے کے لیے اسوہ ء شبیر کو حرز جاں بنانے والے اس ادیب نے تمام عمر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے تخلیق ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ انھوں نے بلاشبہ ادبی کہکشاں کو مسخر کیا اور ستاروں پر کمند ڈالی اورپوری دنیا میں اپنی کا مرانیوںکی دھاک بٹھادی ۔ انھوں نے علم و ادب کے شعبوں میں جو فقید المثال کامیابیاں حاصل کیں ان میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔اے ۔حمید کی پوری زندگی ایک شجر سایہ دار کے مانند گزری جو کاروان ہستی کے مسافروں کے لیے خنک چھائوں فراہم کرتا ہے مگر آلا م روزگار کی تمازت کو خود برداشت کرتا ہے ۔

       اے ۔حمید کا تعلق ایک وضع دار ،خود دار اور صاحب علم و دانش خاندان سے تھا۔ان کے والد نے ان کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دی ۔انھوں نے امرتسر سے میٹر ک کے امتحان میں بہت اچھے نمبر حاصل کر کے کامیابی حاصل کی ۔قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور پہنچا۔اے ۔حمید نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کیا۔عملی زندگی کا آغاز انھوں نے ریڈیو پاکستان کی ملازمت سے کیا جہاں وہ اسسٹنٹ سکرپٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات پر مامور تھے ۔انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ریڈیو کے پروگراموں کو بہتر بنایا اور ریڈیو کے سامعین کی دلچسپی کے مطابق بہت عمدہ اور معیاری پروگرام  ترتیب دئیے ۔ان کے معاصرین ان کے ذوق سلیم اور تخلیقی فعالیت کے ہمیشہ معترف رہے ۔کچھ عرصہ بعد انھیں وائس آف امریکہ میں ملازمت کی پیش کش ہوئی جو انھوں نے قبول کر لی اور واشنگٹن چلے گئے ۔واشنگٹن میں انھیں عالمی ادبیات کے مطالعے کے وسیع مواقع میسر آئے ۔انھوں نے عالمی کلاسیک کا تفصیلی مطالعہ کیا ،جدید مواصلاتی نظام اور فاصلاتی طریقہ ابلاغ و تعلیم کے متعلق ان کے تجربات  نے انھیں عصری آگہی سے متمتع کیا ۔اردو زبان و ادب کو اپنے متنوع تجربات اور نادر اسلوب سے ثروت مند بنا کر اے ۔حمید نے ایک اہم خدمت انجام دی ۔ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار کی حیثیت سے ان کے تخلیقی عمل نے انھیں صاحب طرز ادیب کے منصب پر فائز کیا۔

      تخلیق ادب میں افسانہ ہمیشہ اے ۔حمید کی اولین ترجیح قرارپایا۔ان کے افسانے ملک کے ممتاز ادبی مجلات کی زینت بنتے رہے ۔قیام پاکستان کے ایک برس بعد ان کے منتخب افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’منزل ‘‘شائع ہواجسے دنیا بھر کے علمی و ادبی حلقوں نے بہ نظر تحسین دیکھا۔ان کے افسانوں میں رومانویت کا عنصر ان کے اسلوب کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے۔اے ۔حمید کے تخلیقی تجربات میں جو تنوع ،ندرت اور بو قلمونی پائی جاتی ہے وہ ایک دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتی ہے ۔وہ جس صنف ادب میں بھی قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوں ید بیضا کا معجزہ دکھانا اور قلب و نظر کو مسخر کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ان کی حسن و رومان پسندی کے معجز نمااثر سے قاری مسحور ہو جاتا ہے ۔وہ ایک متنوع اور کثیر الجہت اسلوب کے مالک یگانہء روزگار تخلیق کار تھے ۔اقلیم ادب میں انھوں نے یاد نگاری،کالم نگاری ،فیچر رائٹر،ڈرامہ نویس ،مسودہ نویس ،نقاد ،محقق ،ناول نگا ر ،مورخ اور افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنی بے مثال کامرانیوں سے پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی ۔ان کی دو وقیع تصانیف کو تو اب ایک بنیادی حوالہ جاتی ماخذ قرار دیا جاتا ہے۔ان کتب سے کو ن واقف نہیں یہ ہیں ’’اردو نثر کی داستان‘‘ اور  ’’اردو شعر کی داستان‘‘۔ان کتب کے مطالعہ سے اردو زبان و ادب کے ارتقا کے بارے میں تمام حقائق کھل کر سامنے آ جاتے ہیں ۔

        بچوں کے ادب سے اے ۔حمید کو بہت دلچسپی تھی ۔انھوں نے بچوں کے لیے متعدد ڈرامے اور کہانیاں لکھیں ۔پاکستان ٹیلی ویژن سے1990 میںٹیلی کاسٹ ہونے والا بچوں کا ڈرامہ ’’عینک والا جن ‘‘بہت مقبول ہو ا۔آج بھی ہر عمر کے بچے ،نوجوان اور بزرگ اسے بڑی توجہ اور شوق سے دیکھتے ہیں ۔ بچوں کے لیے ان کے سلسلہ وار ناول ’’امبر ناگ ماریا‘‘ کو بھی بے حد مقبولیت نصیب ہوئی ۔ ا ردو زبان و ادب کے فروغ اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے کاموں میں حصہ لینے والے اس زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار کی علمی ادبی اور قومی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں پرائڈ آف پرفارمنس کا اعزاز ملا۔

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں              تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں  

         اے ۔حمیدکے اسلوب میں دھرتی کے  تمام رنگ ، موسم اور آہنگ سمٹ آئے تھے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ وہ خاک وطن کے ہر ذرے کو دیوتا خیال کرتے تھے ۔ ان کی وقیع تصانیف ان کے لیے شہرت عام اور بقائے دوام کا وسیلہ ثابت ہوںگی ۔ ان کی درج ذیل کتب بے حد مقبول ہوئیں۔ منزل منزل ، داستان گو ، لاہور کی یادیں، امریکا نو ، گلستان ادب کی سنہری یادیں، چاند چہرے ، مر زا غالب لاہور میں، جنوبی ہند کے جنگلوںمیں ۔ ان کے اسلوب میں جو دلکش طلسماتی اور مسحور کن کرشماتی کیفیت ہے وہ قاری کو ایک جہان تازہ کی نوید سناتی ہے ۔اے۔حمید کے اسلوب کی انفرادیت کا واضح ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے تخلیق ادب کے معیار پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہ کیا اورانھوں نے ہمیشہ خوب سے خوب تر کی جانب اپنا تخلیقی سفر جاری رکھا۔وہ کبھی بھی اس بات پر قناعت نہ کرتے کہ جو معیار ہے وہی حتمی ہے بلکہ ان کی نظر کہیں ٹھہرتی ہی نہ تھی ۔ایک سیمابی کیفیت ان کے مزاج اور تخلیقی عمل میں جلوہ گر ہے ۔اپنے لباس ،مزاج احباب ،غذا،عطریات ،رہن سہن یہاں تک کہ اپنے محبوب کے بارے میں بھی وہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں جس انہماک کا مظاہرہ کرتے تھے وہ ان کے رومانی مزاج کی حقیقی صورت حال کی عکاس ہے ۔

          خاکہ نگاری میں اے ۔حمید کے جوہر خوب کھلتے ہیں۔انھوں نے اپنی تصنیف ’’چاند چہرے ‘‘میں جن ممتاز شخصیات کے خاکے تحریر کیے ہیں وہ مجسم انداز میں سامنے آتے ہیں اور عملی زندگی میں مستعد اور متکلم دکھائی دیتے ہیں۔ان خاکوں میں ایک عہد کے تاریخ حوالے بھی ہیں  اور ان شخصیات کی یادوں کے اجالے اور معتبر سماجی حوالے بھی ہیں ۔اردو خاکہ نگاری کے ارتقا میں ’’چاند چہرے ‘‘کو سنگ میل کی

حیثیت حاصل ہے ۔جن شخصیات کے خاکے قارئین ادب نے بے حد سراہے ان میں سیف الدین سیف ،فیض احمد فیض ،سید وقار عظیم ،ابن انشا،اخلاق احمد دہلوی ،احمد ندیم قاسمی ،ناصر کاظمی ،احمد راہی سید

عبدالحمید عدم ،راجہ مہدی علی خان ،ابراہیم جلیس،مرزا سلطان بیگ اور چراغ حسن حسرت شامل

ہیں۔

 اے ۔حمیدکی گل افشانی گفتار کی ایک مثال پیش خدمت ہے۔

ــــ’’ ریگل سینمامیں فلم مادام بواری لگی ۔ میں نے اور احمد راہی نے فلم دیکھنے اور اس کے بعدشیزان ہوٹل میں بیٹھ کر چا ئے اور کریون اے کے سگریٹ پینے کا پروگرام بنایا۔اتفاق سے اس روز ہماری جیبیں خالی تھیں۔ ہم فوراًادب لطیف کے دفتر پہنچے۔ ان دنوں ادب لطیف کو میرزا ادیب ایڈیٹ کیا کرتے تھے ۔ ہم نے جاتے ہی میرزا ادیب سے کہا:

میرزا صاحب ! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سال کے بہترین ادب کا انتخاب ہم کریں گے۔
میرزاادیب شریف آدمی ہیں ، بہت خوش ہوئے ، بولے:

’’یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ احمد راہی صاحب حصہ نظم مرتب کر لیں گے اور آپ افسانوی ادب کا انتخاب کر لیں۔‘‘  

ہم نے کہا :’’تو ایسا کریں کہ ہمیں پچھلے سال کے جس قدر انڈیا اور پاکستان کے ادبی رسائل دفتر میں موجود ہیں ،دے دیجیے تا کہ ہم انھیں پڑھنا شروع کر دیں ۔‘‘
میرزا صاحب خوش ہوکر بولے : ’’ضرور۔۔ضرورـ‘‘

اس کے آدھے گھنٹے بعد جب ہم ادب لطیف کے دفتر سے باہر نکلے تو ہم نے ادبی رسالوں کے دو بھاری بھرکم پلندے اٹھارکھے تھے ۔ آپ یقین کریں کہ ہم وہاں سے نکل کرسیدھا موری  دروازے کے باہر گندے نالے کے پاس ردی خریدنے والے ایک دکاندار کے پاس گئے اور سارے ادبی رسالے سات یا آٹھ روپوں میں فروخت کردیے۔اس شام میں نے اور احمد راہی نے بڑی عیاشی کی ۔ یعنی مادام بواری فلم بھی دیکھی اور شیزان میں بیٹھ کر کیک پیسٹری بھی اڑاتے رہے ا ور کریون اے کے سگریٹ بھی پیتے رہے ۔ اس کے بعد تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز  میرزا ادیب ہم سے پوچھ لیتے :

بھئی انتخاب کا مسودہ کہاں ہے؟
ہم ہمیشہ  یہی جواب دیتے ـ’’بس دو ایک دن میں تیا ر ہو جائے گا۔ ہم اصل میں بڑی ذمہ داری سے کا م کررہے ہیں۔‘‘(یادوں کے گلاب

       اے حمید نے اپنے اسلوب میں جو بے تکلفی کی فضا پیدا کی ہے، وہ انھیں ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتی ہے ۔ان کی شگفتہ تحریروں میں خیالات ،الفاظ اور اظہار کی جو ندرت ہے اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔ان کی تحریروں میں جن شخصیات کا احوال ملتا ہے ان کے ساتھ اے۔حمید کی قلبی ،روحانی اور جذباتی وابستگی ایک ایک لفظ سے عیاں ہے ۔وہ نہایت بے تکلفی اور اپنائیت کی فضا میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ان کی لفظی مرقع نگاری ایک سائنٹی فک انداز کی مظہر ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اے ۔حمید نے اردو میں خاکہ نگاری کی اس مضبوط مستحکم اور سائنٹی فک روایت کو پیش نظر رکھا ہے جس کے بنیاد گزاروں میں فرحت اللہ بیگ ،عصمت چغتائی ،سعادت حسن منٹو اور رشید احمد صدیقی شامل ہیں ۔اے حمید کے اسلوب کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ اپنی محبوب اور پسندیدہ شخصیات کی لفظی مرقع نگاری اس فنی مہارت سے کرتے ہیں کہ ان کے خلوص ،دردمندی اور حریت فکر کے اعجاز سے یہی شخصیات قاری کو بھی اچھی لگتی ہیں ۔ زیرک ،فعال ا ور مستعد تخلیق کاروں کا یہی تو کمال ہے کہ وہ اپنے موئثراسلوب کے معجز نما اثر سے اپنی پسندیدہ شخصیات کا احوا ل اس انداز اور ذہانت کی آب و تاب سے صفحہ ء قرطاس پر منتقل کرتے ہیں کہ قاری ان شخصیات کے سحر میں کھو جاتا ہے اور اسے یہ  شخصیات دل و جاں سے عزیز محسوس ہو تی ہیں ۔اے حمید کے اسلوب میں قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ان کی تحریروں میں اشک آور اور تبسم انگیز کیفیات کا جو امتزاج ملتا ہے وہ زندگی کی حقیقی معنویت کو سامنے لاتا ہے ۔

اے ۔حمید احباب سے مسلسل رابطہ رکھتے اور ان کے دکھ درد میں شرکت کرتے ۔احباب کو دل گرفتہ دیکھ کر وہ اپنے آنسو با لعموم ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپانے کی سعی کرتے۔ خیال خاطر احباب کے سلسلے میں اے ۔حمید نے بلند اخلاقی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ۔پاکستان کے طول و عرض میں ان کے بے شمار مداح اور احباب موجود تھے ،وہ سب کے بارے میں باخبررہتے تھے اور ان کی خیریت دریافت کرنے میں کبھی کوتاہی کے مر تکب نہ ہوئے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں جب کہ سادیت پسندی (Sadism)کو ایک پسندیدہ مشغلہ سمجھا جاتا ہے  ،اے حمید جیسے دردمند لوگ چراغ لے کے بھی ڈھو نڈ نے  نکلیں تو کہیں نہ ملیں گے ۔ وہ طویل مسافت طے کر کے احباب کی عیادت اور خیریت معلوم کرنے پہنچتے اور اسے اپنا فرض سمجھتے ۔جھنگ میں وہ محمد شیر افضل جعفری ،رام ریاض ،امیر اختر بھٹی ،خادم مگھیانوی ،کبیر انور جعفری ، صاحب زادہ رفعت سلطان ،سید جعفر طاہر اور یوسف شاہ قریشی کے ہاں آئے اور ان احباب سے ملاقاتیں کیں اور ان کی خیریت دریافت کی ۔لاہور کے تمام ادیبوں اور دانش وروں سے ان کے مسلسل رابطے رہے میاں اقبال زخمی ،اقبال سحر انبالوی ،ڈاکٹر وزیر آغا ،ڈاکٹر نثار احمد قریشی اور ڈاکٹر بشیر سیفی کی وفات پر وہ بہت دل گرفتہ دکھائی دیتے تھے ۔ ۔ سعادت حسن منٹو کے ساتھ اے ۔حمید کے بہت قریبی تعلقات تھے سعادت حسن منٹو کی شدید بیماری کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’میو ہسپتال کی دوسری منزل کے میڈیکل وارڈ میں دروازے کے ساتھ ہی ان کا بستر لگا تھا۔ منٹو صاحب بستر پر نیم دراز تھے اور ان کی بڑی ہمشیرہ ان کوچمچ کے ساتھ سوپ پلانے کی کوشش کر رہی تھیں ۔ میں خاموشی سے بستر کے ساتھ بنچ پر بیٹھ گیا ۔ منٹو صاحب بے حد نحیف ہو گئے تھے ۔ان کی یہ حالت دیکھ کر میر ے دل کو بڑا دکھ ہورہا تھا ۔ میں خاموش بیٹھاتھا۔ منٹو صاحب نے نگاہیں اٹھا کر میری طرف دیکھا تو میں نے بڑے ادب سے پو چھا : اب کیسی طبیعت ہے منٹو صاحب؟

اس عظیم افسانہ نگار کے کمزور چہرے پر ایک خفیف سا اداس تبسم ابھر ا اور صرف اتنا کہاـ:
دیکھولو خواجہ!

اوراس کے کچھ ہی روز کے بعد سعادت حسن منٹو کا انتقال ہوگیا ۔
    
     اس تما م صورت حال کا جو نقشہ اے ۔حمید نے پیش کیا ہے وہ قاری کے دل پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے ۔وہ افسانہ نگار جس کے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجے نے انسانیت کے ساتھ روا رکھی جانے والی

شقاوت آمیز نا انصافیوں اور استحصال کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا اپنی زندگی کے آخری لمحات میںکس قدر بے بسی کے عالم میں تھا ۔اسی کا نام تو تقدیر ہے جو پلک جھپکتے میں انسانی فعالیتوں اور عزائم کو تہس نہس کر دیتی ہے اور چاند چہرے زیر زمین تہہ ظلمات جا پہنچتے ہیں ۔سعادت حسن منٹو کی وفات سے اردو افسانے کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔پوری دنیا میں اس نابغہء روزگار ادیب کی تخلیقی کامرانیوں اور متنوع تجربات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔اے حمید نے سعادت حسن منٹو کی وفات پر دلی صدمے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت کے    ممتازادیب نریش کمار نے دہلی سے لاہور آمد کے موقع پر سعادت حسن منٹو کی آخری آرام گاہ پر بھی حاضری دی ۔احساس زیاں اور فرط غم سے نڈھال نریش کمار نے سعادت حسن منٹو کی قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر زار و قطار روتے ہوئے گلو گیر لہجے میں کہا:’’
  ’’خدا مسلمانوں کو خوش رکھے ،ہمارے پیاروں کا نشاں(قبر )تو بنا لیتے ہیں ۔‘‘

         اے ۔ حمید کا منفرد اعزاز و امتیاز یہ ہے کہ انھو ںنے عالمی شہر ت کے حامل ادیبوں ، دانشوروں ، فنون لطیفہ سے وابستہ نا بغہ روزگا ر شخصیات کی محافل میں شرکت کی اور ان سے اکتساب فیض کیا ۔ ان محافل کی یاد و ں کو وہ اپنی زندگی کا بیش بہا اثاثہ قرار دیتے ہیں ۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے وہ دلچسپ واقعات بیان کرتے ہیں ۔ ان شخصیات کی یادمیں ان کی آنکھیںپر نم ہو جاتی ہیں۔

 ہر درد محبت سے الجھا ہے غم ہستی              کیاکیاہمیں یاد آیا جب یا د تیر ی آئی

         ایک مرتبہ وہ لاہور کافی ہائوس میں ادیبوں کے ایک جلسے میں پہنچے تو وہاں مولانا چراغ حسن حسرت بھی موجود تھے ۔ مولانا چراغ حسن حسرت کے مداح بڑی تعداد میں وہاں جمع  تھے ۔ مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے عزیزوں کے لیے چائے منگوانے کے لیے ایک ملازم کو آرڈر دیا۔ اس دوران تخلیق ادب اور دیگر موضوعات پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا مگر یار لوگ تو مولانا کی اس دعوت میںاس پر تکلف چائے کے شدت سے منتظر تھے ۔ جب چائے آنے میں غیر معمولی تاخیر ہوئی تو سب بے چین ہوگئے ۔اچانک ایک سفید ریش ویٹر سامنے سے گزرا ایک ستم ظریف نے مولانا سے استفسار کیا ’’مولانا کیا یہ وہی سفید ریش ویٹر نہیں ہے جسے آپ  نے چائے جلد چائے لانے کا آرڈر دیا تھا ۔‘‘مولانا چراغ حسن حسرت نے  اس طنز یہ جملے کو محسوس کر تے ہوئے بر جستہ جواب دیا ۔ــ’’ ہاں ! لیکن جس وقت میں نے اسے چائے لانے کا آرڈر دیا تھا ۔ اس وقت تو اس کی ڈاڑھی کالی تھی ۔‘‘یہ سن کر محفل کشت زعفران میں بدل گئی اور چائے کی آمد میں انتظار کے اعصاب شکن لمحات کے بارے میں مبالغہ آمیزہمدردانہ شعور نے سب کچھ گوارا کرنے پر آمادہ کر لیا ۔ اس کے بعد چائے آئی تو سب نے خوب لطف اٹھایا ۔چائے آنے سے قبل سب کی آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی تھیں مگر مولاناچراغ حسن حسرت کی طرف سے پیش کی جانے والی چائے اور ضیافت کے بعدسب کے منہ سے پھول جھڑنے لگے ۔


        عالمی ادب میں اے۔ حمید چیخوف ، ٹالسٹائی اور میگسم گورکی کمالات کے معترف تھے ۔ اردو ادب میں وہ احمد علی،حجاب امتیاز علی اور اختر شیرانی کے رومانی ادب پاروں کی تاثیر کے معترف تھے ۔قیام پاکستان سے قبل لاہور کا عرب ہوٹل ادیبوں،دانش وروں،صحافیوںاور علم و ادب کے باذوق قارئین کے مل بیٹھنے کا واحد مرکز تھا جہاں سب مل بیٹھتے اور علمی مباحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ۔جو نامور ادیب باقاعدگی سے عرب ہوٹل آتے اورعلمی و ادبی نشستوں میں شرکت کرتے ان میں چراغ حسن حسرت ،ن۔م۔ راشد ،اختر شیرانی ،حفیظ ہو شیارپوری ،مظفر حسین شمیم ،کرشن چندر ،باری علیگ اور ہر ی چند کے نام قابل ذکر ہیں ۔اس کے علاوہ کچھ ادیب  ایسے بھی تھے جو وقتاً فوقتاًعرب ہوٹل میں آکر ادبی نشستوں میں شامل ہوتے تھے ان میں حکیم محمد حسن  قرشی ،راجہ حسن اختر ،مولانا صلاح الدین احمد ،پروفیسر علم الدین سالک ،ڈاکٹر سید عبداللہ اور مولانا ظفر علی خان کے نام شامل ہیں ۔مولانا چراغ حسن حسرت ان ادبی محفلوں کی روح رواں تھے ۔اے ۔حمید نے ان نشستوں کی یادوں اور احوال میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی ۔1939کے اواخر میں یہ سب حقیقتیں خیال و خواب ہو گئیں ۔اکثر ادیبوں کو اس علاقے سے دور جانا پڑا ،چراغ حسن حسرت نے بعض نجی مصروفیات کے باعث عرب ہو ٹل میں آنا کم کر دیا ،باری علیگ نے پرانی انار کلی میں سکونت اختیار کر لی ،ن۔م راشد ملتان چلے گئے ،اختر شیرانی ٹونک کی جانب سدھار گئے جب کہ حفیظ ہو شیارپوری اور کرشن چندر نے دہلی کے لیے رخت سفر باندھ لیا ۔باری علیگ عرب ہوٹل کی باغ و بہار شخصیت تھے ۔اس ہوٹل کی ادبی نشستوں میں ان کی شرکت سے ظرافت اور طنز و مزاح کی چاشنی سے محفل کا لطف دوبالا ہو جاتا۔ چربہ ساز ، کم علم اورسارق پنجابی بولنے والے جب اپنی خام اکتسابی اردو سے صحت زبان پر ستم ڈھاتے ہیں، رواقیت کے داعی بن بیٹھتے ہیں اور اصلاح زبان پر توجہ نہیں دیتے تو ان کی گفتگو پشتارہء اغلاط بن جاتی ہے ۔اسے سن کر اہل علم پر جو گزرتی ہے اس کا احوال باری علیگ نے اس طرح بیان کیا ہے :’’جب ایک پنجابی بولنے والا غلط تلفظ اور نامانوس لہجے میںاردو بولتا ہے تو اس کی آواز سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ و ہ جھوٹ بول رہا ہے ۔‘‘اس طرح کے طنزیہ جملوں کے باوجود ادبی نشستوں میں شامل ہونے والے بے مزا نہ ہوتے  ۔اے۔ حمیدکو عرب ہوٹل کے اہم شرکاء سے بڑی عقیدت تھی اور وہ ان محفلوں کے بارے میں جان کر دلی مسرت حاصل کرتے تھے  ۔عرب ہوٹل ادیبوں کے لیے نہایت غریب نواز قسم کا ہوٹل تھا جو انتہائی کم قیمت پر کھانا فراہم کرتا ۔ہوٹل کے مالک دل کشادہ رکھتے تھے ۔یہاں جو بھی ادیب آتا اس کی راہ میں آنکھیں بچھاتے ۔اگر کوئی ادیب دیو اشتہا کو زیر کرناچاہتا مگر اس کے پاس رقم عنقا ہوتی تو  بھی اسے کسی قسم کے فکر و اندیشے کی ضرورت نہ تھی ۔ادیبوں کا پیر مغاں ہمہ وقت کھانے کے بل کی ادائیگی کے لیے موجود ہوتا تھا ۔وہ کوئی اور نہیں مولانا چراغ حسن حسرت تھے جوکہ اس سے قبل تاریخی مجلے  ’’ الہلال‘‘ میں مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ کام کر چکے تھے اور مولانا ظفرعلی خان کے شہرہء آفاق اخبار ’’زمیندار ‘‘میں ان کے فکاہیہ کالم بہت مقبول تھے ۔ لاہور آنے کے بعد اے ۔حمید لاہور شہر کے ماضی کی ان یادوں کے سحر میں کھو جاتے تھے۔اے حمید کے اسلوب میں مولانا عبدالحلیم شرر کی تصنیف’’ گزشتہ لکھنوئ‘‘ اور سرسید کی تصنیف’’ آثار الصنادید‘‘ کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ان کی وقیع تصنیف ’’دیکھو شہر لاہور ‘‘اسی نوعیت کی تصنیف ہے جس میں لاہور شہر کی تاریخ ،تہذیب اور ثقافت کے بارے میں نہایت جامع اور دلکش انداز میں مرقع نگاری کی گئی ہے۔ان کی ایک اور اہم تصنیف ’’لاہور کی یادیں ‘‘اسی نوعیت کے واقعات سے مزین ہے جن کے مطالعہ سے قاری کو لاہور تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے بارے میں کامل آگہی میسر آتی ہے ۔ انھوں نے اپنی تصنیف ’’قرطبہ کی خاموش اذانیں ‘‘ میں بھی تاریخ کے مسلسل عمل کی جانب توجہ دلائی ہے  ۔وہ اکثر تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے گفتگو کرتے ہوئے ان عظیم شخصیات کو محشر عمل قرار دیتے تھے جن کا کوئی ہمسر کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔لاہور شہر کے علمی ،ادبی ،تاریخی ،ثقافتی اور مذہبی ورثے کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔

 وہ صورتیں الہیٰ کس دیس بستیاں ہیں         اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

     اے۔ حمید  کے دل میں برما ،امرتسر اور قدیم لاہور کی یادیں رچ بس گئی تھیں ۔قیام پاکستان کے بعد لاہور کے ادیبوں اور دانش وروں نے کافی ہائوس اور پاک ٹی ہائوس کا رخ کیا۔قیام پاکستان کے بعد

ان ادبی مراکز پر بہر ملاقات جن ادیبوں نے ادبی نشستوں کا اہتمام کیا ان میں اے ۔حمید ،چراغ حسن حسرت ،مظفر احسانی، وقار انبالوی ،ظہورعالم شہید، حمید نظامی، میم شین(میاں محمد شفیع)اور کچھ دیگر اہل قلم شامل تھے ۔اے ۔حمید کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ مادی دور کی لعنتوں نے تاریخ ،تہذیب اور ادب کو دیرینہ اقدار و روایات سے یکسر محروم کر دیا ہے ۔زندگی مشینوں میں ڈھل گئی ہے اور فرصت ناپید ہو گئی ہے ہوس نے نوع انساں کو انتشار اور پر اگندگی کی بھینٹ چڑھادیا ہے ۔یہ چمن یوں ہی رہے گا اور اس میں بسنے والے اپنی  اپنی باری بھر کے چلے جائیں گے ۔اے ۔حمید کی آنکھوں میں گزری محفلوں کی یاد کے سائے ہر وقت سمٹے رہتے اور گزرے دنوں کو یاد کر کے دل گرفتہ ہو جاتے ۔اسی کا نام تو دنیا ہے کہ اس کا ہر روپ نیا اور ہر رنگ و آہنگ گزشتہ سے بہتر محسوس ہوتاہے مگر جن آنکھوں نے اتنے تابندہ آفتاب و

 ماہتاب اوران کی ضیاپاشیاں اور ان کی چکا چوند دیکھی ہو وہ کسی طور بھی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال سے مطمئن نہیں ہو سکتا۔بہ قول صوفی غلام مصطفیٰ تبسم

 سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی                 دنیاکی وہی رونق دل کی وہی تنہائی

         اے حمید نے اپنی کتاب ’’داستان گو اشفاق احمد ‘‘میں اس یگانہء روزگار ادیب کے بارے میں نہایت اپنے خیالات جس پر لطف انداز میں تحریر کیے ہیں ،انھیں پڑھ کر ان کے اسلوب کی ندرت کا قائل ہونا پڑتا ہے ۔اپنے دلکش اسلوب سے وہ اشفاق احمد کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جسے پڑھ کر قاری چشم تصور سے اشفاق احمد کے ماضی میں جھانک سکتا ہے :

        ’’اب میں اشفاق احمد کو دیکھ رہا تھا۔اب اس نے ڈاڑھی رکھ لی ہے ۔وہ چاہے جتنی ڈاڑھیاں رکھ لے،جتنی چاہے اپنے چہرے پر لکیریں ڈال لے ،مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں ہمیشہ 1948کے اشفاق احمد کو دیکھتا ہوں۔‘‘

      پروفیسر سمیع اللہ قریشی (مرحوم) اے۔حمید سے ایک ملاقات کا احوال اکثر بیان کیا کرتے تھے ۔ان کے ہمراہ نوراحمد ثاقب اور سجاد بخاری بھی تھے ۔اے ۔حمید نے جھنگ کے تمام ادیبوں کی خیریت دریافت کرنے کے بعد رام ریاض کے حالات کے  بارے میں استفسار کیا ۔نور احمدثاقب نے کہا’’اپنی جبری بر طرفی کے بعد رام ریاض پر فالج کا شدید حملہ ہوا ہے اور وہ مستقل طور پر اپاہج زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ۔اس عالم حسرت و یاس میں بھی اپنی انا اور خود داری کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہے ۔ گھر میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے اس کے با وجود اس نے لب اظہار پر تالے لگا رکھے ہیں ۔اس نے خود کہا ہے :  

ہم تو چپ ہیں کہ ہمیں مارنے والے تم ہو        خیر مانگو کہ زمانے کے حوالے تم ہو

          یہ سن کر اے حمید نے گلو گیر لہجے میں کہا:’’جرنیلی بندوبست نے کئی گھر بے چراغ کر دئیے۔رام ریاض ایک صاحب بصیرت شاعر ہے ۔اپنی شکایت زمانے کے حوالے کر کے اس نے بڑے تدبر کا ثبوت دیا ہے ۔زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے ۔زمانہ آمر کو عبرت کی مثال بنا دے گا۔‘‘

 پروفیسر سمیع اللہ قریشی کہا کرتے تھے ’’ اس کے کچھ دنوں بعد بہاول پور کے قریب ضیاالحق کا طیارہ  حادثے کا شکار ہو گیا۔فطرت کی تعزیروں کا احساس کوئی نہیں کرتا۔اے حمید بھی ایک صاحب باطن ولی کی طرح حالات کی پیش بینی کی صلاحیت سے متمتع تھا‘‘

      اے ۔حمید نے لاہور کو ہمیشہ مرکز نگاہ بنائے رکھا۔اپنی تحریروں میں انھوں نے لاہور سے وابستہ یادوں کو بڑے حسین پیرائے میں بیان کیا ہے ۔ان کے اسلوب کی انفرادیت قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ان کے تجربات ،مشاہدات اور احساسات پوری قوت اور صداقت کے ساتھ الفاظ کے قالب میںڈھلتے ہیںتو قاری  پر ان کی حقیقی معنویت کا احساس ہوتا ہے ۔انھوں نے معاشرتی زندگی کے جملہ اسرار و رموزاور نشیب و فراز کو کمال مہارت سے اپنے اسلوب میں جگہ دی ہے ۔گرد و نواح کا ماحول جس کیفیت اور صورت حال کا مظہر ہو گا  بالکل اسی طرح کی کیفیات اے ۔حمید کی تحریر وں میں رچ بس گئی ہیں۔ان کے ڈسکورس کی مثالیں پیش خدمت ہیں:

’’  میں کبھی اکیلا اور کبھی کسی دوست کے ساتھ کسی نہ کسی بہانے ٹولنٹن مارکیٹ کا ایک چکر ضرور لگا تا تھا ۔ اس کی وجہ ٹولنٹن مارکیٹ کی وہ مخلوط ٹھنڈی ٹھنڈی خوشبو تھی جو وہا ں فضا میں ہر طرف بسی ہوئی ہو تی تھی ۔ میں جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں سے نیا نیا جدا ہوا تھا ۔ ان ملکوں کی بارشوں کی آواز اور استوائی پھولوں کی گرم خو شبوئیں میر ے ساتھ سانس لیتی تھیں ۔ جب میں ٹولنٹن مارکیٹ میں داخل  ہوتاتو مجھے ایسا لگتا کہ جیسے میں رنگوں کی اسکا ٹ مارکیٹ اور کو لہوکے ساحل سمندر پر بارش میں بھیگتے ناریل کے درختوں آگیا ہوں۔‘‘

    نادر تشبیہات اور تمثالوں کے ذریعے اے ۔حمید نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنے ابد آشنا اسلوب کے اعجاز سے سحر نگار بنا دیاہے ۔رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے اے۔حمید کی تحریروں میں فراوانی سے ملتے ہیں ۔شاہراہیں ،گزرگاہیں ،مکانات ،افراد ،اقامت گاہیں ،دکانیں اور رہن سہن کے تمام امور ان تحریروں میں پور ی شدت کے ساتھ اپنے وجود کا اثبات کر رہے ہیں ۔مثلاً

’’سردیوں کے موسم میں جب مطلع صاف ہوتا تھا تو ڈیوس روڈ سنہری دھوپ میںایک ایسی روشن سٹر ک لگتی جو مستقبل کے حسین سبزہ زاروں کی طرف جارہی ہو۔ رات کو یہ سٹرک کسی گمنام جزیرے کا خواب انگیز راستہ معلوم ہوتا تھا۔ جب ساون کی جھڑ یاں لگتی تھیں تو بارش میں اس پر سکون خالی خالی سڑک پر ایک ایسی جنگلی عورت کا گمان  ہوتا تھا جو  سنسان جنگل میں اکیلی بارش میں نکل آئی ہو۔‘‘

    اے۔حمید کے اسلوب میں جذبات و احساسات اور واقعات و خیالات کی جو ندرت اور تونگری ہے وہ انھیں ایک ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتی ہے ۔قدرت کاملہ کی طرف سے انھیں جو ذوق سلیم عطا ہوا تھا اس کے متعدد مظاہر ان کیاسلوب میں دکھائی دیتے ہیں ۔ان کے ہاں رومانویت جو دلکش تصور موجود ہے اسے محض محبت کے جذبات پر محمول کرنا درست نہیں ۔ان کے رومان کا ناتہ حیات انسانی کے جملہ امور سے ہے ۔زندگی کے تمام موسم ان کی رومانوی تحریروںمیں دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔ان کا رومان انھیں سکون قلب کی تلاش میں سر گرداں رکھتا ہے ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جدید دور کی برق رفتار ترقی نے سارا منظر نامہ ہی گہنا دیاہے ۔زندگی کی اقدار عالیہ اور روایات کی ثروت اب ماضی کا قصہ بن گئی ہیں ۔اے حمید نے بڑے کرب کے ساتھ رفتگاں کی یاد اور تاریخ کے اہم واقعات کو اپنے اسلوب میں جگہ دی ہے ۔جب وہ سماجی ،معاشرتی اور ثقافتی اقدار کو ناپید ہوتے دیکھتے ہیں تو ان کی بے چینی میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ ایک ایسی دنیا کی جستجو کرتے ہیں جہاں اہل ہوس کے دام نہ ہوں اور جہاں فرد کے ہاتھوں فرد کا استحصال نہ ہو ۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے تمام عمر قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کرنے والے اس عظیم ادیب کے نام کی ہر دور میں تعظیم کی جائے گی۔دل لخت لخت کوجمع کر کے اس اثاثے کو صفحہء قرطاس

پرمنتقل کر کے اہم خدمت انجام دی ہے۔ الفاظ کے سینے میں اتر کر لیلائے سخن سے ہم کلام ہونے والے اس تخلیق کار کا نام تا ابد افق ادب پر مثل آفتاب ضو فشاں رہے گا۔ان کی تحریریںذہنی مسرت فراہم کر کے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرتی رہیں گی۔اے حمیدکا اسلوب لافانی اوران کی شخصیت لا زوال ہے۔

    ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
   تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسووہ خواب ہیں ہم



 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 681