donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Feza Perween
Title :
   Hajra Masroor : Ab Na Duniya Me Aayenge Yeh Log

ہاجرہ مسرور :اب نہ دنیا میں آئیں گے یہ لوگ


 فضہ پروین


        15ستمبر2012کو کاتب تقدیر نے اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھما دیا اس میں ہاجرہ مسرور کا نام بھی رقم تھا ۔ہاجرہ مسرور کی وفات سے علمی و ادبی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی ۔وہ گزشتہ سات عشروں سے پرورش لوح وقلم میں مصروف تھیں ۔17۔جنوری 1930کو لکھنو میں جنم لینے والی اس ادیبہ نے پوری دنیا میں اپنی کامرانیوں کے جھنڈے  گاڑ دیئے ۔اردو کے افسانوی ادب کو ہاجرہ مسرور نے زندگی کی حقیقی معنویت سے آشنا کیا۔تانیثیت (Feminism)کی علم بردار اس عظیم ادیبہ نے خواتین کے مسائل پر جس خلوص اور درد مندی سے لکھا وہ اپنی مثا ل آپ ہے۔دنیا بھر کی خواتین کو معاشرتی ،سماجی ،سیاسی ،قانونی اور معاشی شعبوں میں ان کے حقوق کی فراہمی کے لیے ہاجرہ مسرور نے جو صبر آزما جدو جہد کی وہ تاریخ ادب میں نمایاں حروف میں لکھی جائے گی ۔ان کی حقیقت نگاری اور فطرت نگاری نے انھیں جس بلند ادبی منصب پر فائز کیا اس میں کوئی ان کا شریک اور سہیم نہیں۔زندگی کے کٹھن مسائل کوطلسم خواب و خیال سے نکال کر  جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر سے جینے اور حریت فکر کا علم بلند رکھنے کی روش اپنانے والی اس یگانہء روزگار افسانہ نگار نے جو طرز فغاں اپنائی وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ان کااسلوب ان کی ذات تھا ۔انھوں نے اپنے اسلوب کے اعجاز سے الفاظ کو  زندگی کی حقیقی معنویت اور پیرایہ ء اظہار کے حروف کو صداقت سے مالا مال کر دیا ۔ہاجرہ مسرور کی وفات اردو کے افسانوی ادب کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔

 غم سے بھرتا نہیں دل ناشاد                          کس سے خالی ہوا جہاں آباد

         ہاجرہ مسرور کا تعلق لکھنئو کے ایک معزز  اور ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا ۔ان کے والد ڈاکٹر ظہور احمد خان آزادی سے قبل برطانوی فوج میں ملازم تھے  ۔وہ برطانوی فوج میں ڈاکٹر تھے ۔شعبہ طب میں ان کی خدمات کا ایک عالم معترف تھا ۔زندگی کی حیات آفریں اقدار سے محبت کرنے والے اور سسکتی ہوئی دکھی انسانیت کو زندگی کی نوید سنانے والے اس مسیحا صفت معالج کی ذات پورے معاشرے کے لیے فیض رساں تھی ۔تقدیر کے فیصلے نرالے ہوتے ہیں ۔وہ لوگ جن کا وجود پوری انسانیت کے لیے دستگیری کا امین ہوتا ہے ،جب ہمیں دائمی مفارقت دے جاتے ہیں تو ان کی یادیں سوہان روح بن جاتی ہیں ۔ڈاکٹر ظہور احمد خان کے ساتھ بھی مقدر نے عجب کھیل کھیلا ۔اپنی پانچ کم سن بچیوں اور ایک بیٹے کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وہ دل کے اچانک دورے کے باعث عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے ۔ہاجرہ مسرور کی والدہ نے بڑے کٹھن  حالات میں اپنی اوالاد کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا ۔

         قیام پاکستان کے بعد ہاجرہ مسرور کا خاندان لاہور پہنچا ۔ان کے ساتھ ان کی بہنیں عائشہ جمال ،خدیجہ مستور ،طاہرہ عابدی ،شاہدہ خیری  اور بھائی توصیف احمد خان تھے ۔لاہور میں انھیں احمد ندیم قاسمی کے ساتھ ادبی مجلہ ’’نقوش ‘‘ کی مجلس ادارت میں کام کرنے کا موقع ملا۔ہاجرہ مسرور کی شادی 1971میں احمد علی سے ہوئی جو اس وقت انگریزی اخبار ’’پاکستان ٹائمز ‘‘کے مدیر تھے ۔ہاجرہ مسرور کے شوہر احمدعلی نے 1973میں انگریزی اخبار ’’ڈان ‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی اور وہ کراچی منتقل ہو گئے ۔احمد علی مسلسل اٹھائیس برس تک ڈان کے مدیررہے ۔ ہاجرہ مسرور کی دو بیٹیاں ہیں ۔ایک کا نام نوید احمد طاہر اور دوسری کا نام نوشین احمد ہے۔دونوں بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اپنے والدین کی تربیت کے اعجاز سے کامیاب زندگی بسر کر رہی ہیں ۔27مارچ 2007کو احمد علی انھیں دائمی مفارقت دے گئے۔ ؎ شوہر کی وفات کے بعد ہاجرہ مسرور مکمل طور پر گوشہ نشین ہو گئیں اور بہت کم باہر نکلتیں ۔اس کے بعد رفتہ رفتہ ادبی حلقوں نے ان کے بارے میں خاموشی اختیار کر لی ۔ہاجرہ مسرور کی گوشہ نشینی کا عرصہ چار عشروں پر محیط ہے ۔آخری مرتبہ وہ اس وقت لاہور ایک ادبی نشست میں آئیں جب گورنمنٹ کالج لاہور میں قرۃ العین حیدر کی وفات پر ایک تعزیتی نشست کا اہتما م کیاگیا۔وہ قرۃ العین حیدر کے اسلوب کی مداح تھیں ۔ان کی وفات سے وہ بہت دل گرفتہ تھیں۔ان کی خاموشی گفتگو بن گئی اور بے زبانی بھی اظہار کا ایک منفرد انداز لیے ہوئے تھی ۔یہ شاید سات سال قبل کی بات ہے اس کے بعد وہ پھر گوشہ نشین ہو گئیں ۔

          ہاجرہ مسرور کو اس زمانے کے ممتاز ادبی جرائدکے مطالعہ کا موقع ملا۔ ہاجرہ مسرور کو اپنے گھر میں جو علمی و ادبی ماحول ملا اس کے اعجاز سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نمو ملی ۔والدین کی حوصلہ افزائی نے ان کے اسلوب کو صیقل کیا اور ان کی تخلیقی فعالیت کو مہمیز کیا ۔انھوں نے بچپن ہی سے تخلیق ادب بالخصو ص افسانوی ادب پر توجہ دی ۔وہ تقلید کی روش کو خود کشی پر محمول کرتی تھیں ۔اس لیے ان کے ہاں روایت شکنی کا عنصر پوری شدت  کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔تخلیق فن کے لمحوں میں وہ معاشرتی زندگی کے تمام ارتعاشات ،بے اعتدالیوں ،کجیوں اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے خلاف پوری قوت اور بہادری سے اظہار خیال کرتی ہیں ۔وہ چاہتی تھیں کہ خواتین کے حقوق کی جد و جہد کے لیے لکھتے وقت خون بن کر رگ سنگ میں اتر جائیں۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ مردوں کی بالادستی کے باعث اس میں خواتین کو ان کے جائز حقوق سے یکسر محروم کر دیا گیا ہے۔اس شہر نا پرساں میں ابن الوقت ،مفاد پرست استحصالی عناصر اپنا الو سیدھا کرنے کے بعد اپنی ہوا میں مست پھرتے ہیں ۔ہاجرہ مسرور نے نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ خواتین کی مظلومیت ،بے بسی ،محرومی اور دیدہ ء گریاں کو پیرایہ ء اظہار عطا کیا ہے۔ان کے افسانوں میں خواتین کے مسائل کا حقیقت پسندانہ انداز میں تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔تمام کردار اپنی اصلی صورت میں سامنے آتے ہیں جنھیں دیکھ کر قاری سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنفہ قاری کو جھنجھوڑ کر حقائق کا احساس و ادراک کرنے پر آمادہ کرنا چاہتی ہے ۔ان کے اسلوب میں پائی جانے والی اثر آفرینی قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔

          ایک زیرک ،فعال ،جری ،مستعد اور جذبہء انسانیت نوازی سے سرشار ادیبہ کی حیثیت سے ہاجرہ مسرور معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے حسی پر گرفت کی ۔انھیں اس بات کا قلق تھا کہ ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصر نے اپنے مکر کی چالوں سے خواتین کی زندگی کی رعنائیوں کو گہنا دیا ہے ۔وہ اس لر زہ خیز ،اعصاب شکن کیفیت پر اکثر کرب کا اظہار کرتیں کہ معاشرتی اور سماجی حالات حد درجہ غیر امید افزا ہیں ۔مفاد پرست استحصالی عناصر کے فسطائی جبر ،منافقت ،بے ضمیری  اور موقع پرستی نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔ان کا وسیع مشاہدہ تھا یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں زندگی کے تمام مسائل کی عکاسی ملتی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان پر دوہرا  عذاب محسوس کرتی تھیں ۔ایک طرف تو وہ معاشرے کی مظلوم خواتین کے مصائب و آلا م کودیکھ کر دل گرفتہ تھیں تو دوسری طرف ان غیر مختتم مصائب کے جان لیوا اثرات کے بارے میں سوچ کر دل ہی دل میں کڑھتی رہتی تھیں ۔معاشرتی زندگی میں بے بس خواتین پر کو ہ ستم توڑنے والے ظالموں نے رتیں بے ثمر ،کلیاں شرر ،زندگیاں پر خطر اور آہیں بے اثر کر دی ہیں ۔ہاجرہ مسرور نے ان ظالموں کے قبیح کردار اور کریہہ چہرے سے نقاب اٹھانے میں کبھی تامل نہ کیا۔حرف صداقت لکھنا ہمیشہ ان کا نصب العین رہا ۔وہ جبر کے خلاف کھل کر لکھتی تھیں ۔ کسی قسم کی مصلحت کے تحت الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے ادبی مسلک کے خلاف تھا۔ہزار خوف میں بھی ان کے قلم نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے  ہر قسم کے امتیازات ،منافقتوں اور  تضادات کو ہدف تنقید بنایا۔ان کی تحریریںمظلوم خواتین سے عہد وفا کی تکمیل کی ایک عملی صورت ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا ہر با ضمیر انسان کا شیوہ ہونا چاہیے ۔اس سلسلے میں ہاجرہ مسرور نے اردو افسانے کی اسی درخشاں روایت کی پاسداری کی ہے جو کہ سعادت حسن منٹو  ،قرۃ العین حیدر ،خدیجہ مستور  ا ور عصمت چغتائی کے پیش نظر رہی ۔وہ آلام روزگار کے مہیب بگولوں میں بھی حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھنے کی داعی تھیں ۔وہ جانتی تھیں کہ جان لیوا صدمات پر محض آہ و فغاں سے حالات کا رخ بدلنا اورسانحات سے بچ نکلنا ممکن نہیں۔ان کی تحریروں نے معاشرتی زندگی میں سرایت کر جانے والے تضادات اور ان کے مسموم اثرات کے بارے میں مثبت شعور و آگہی بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا  ۔خواتین کی زندگی میں پیہم گریہ و زاری کی جو کیفیت  دکھائی دیتی ہے وہ چشم بینا کے لیے لمحہ ء فکریہ ہے ۔

         ہاجرہ مسرور کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن انھوں نے ہمیشہ جہد و عمل کو شعار بناتے ہوئے نشیب سے بچ کر فراز کی جانب اپنا سفر جاری رکھا ۔کہا جاتا ہے کہ جب ہاجرہ مسرور نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا تو اردو کے ممتاز شاعر ساحر لدھیانوی اور ان کی باہمی افہام و تفہیم  اور والدین کی  رضامندی سے منگنی ہو گئی ۔تقدیر کا المیہ یہ ہے کہ وہ اگر ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کے پرخچے نہ اڑا دے تو وہ  تقدیر کیسے کہلا سکتی ہے ؟۔ساحر لدھیانوی کو اپنی قدر ت کلام کا زعم تھا جب کہ ہاجرہ مسرور کو لکھنوی ہونے کی وجہ سے اپنی زبان دانی پر بجا طور پر ناز تھا ۔ظاہر ہے جس نے آتش اور ناسخ کے لہجے میں بات کرنا سیکھا ہو وہ غلط تلفظ پر چپ کیسے رہ سکتا ہے ؟ایک ادبی نشست میں ساحر لدھیانوی نے کسی لفظ کی غلط ادائیگی کی تو ہاجرہ مسرور نے صحیح تلفظ کی جانب توجہ دلائی ۔اس بات پر ساحر لدھیانوی کو رنج ہوا اور اس کے بعد دونوں کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور منگنی ٹوٹ گئی ۔ہاجرہ مسرور نے ہمیشہ حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنایا۔وہ نتائج سے بے پروا ہو کر حرف صداقت لکھنے پر اصرار کرتی تھیں ۔

    ہاجرہ مسرور نے اپنی وقیع تصانیف سے اردو افسانے کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔قدامت پسندی اور رجعت پسندی کے خلاف  ان کا دبنگ لہجہ  ان کی پہچان بن گیا وہ ستائش باہمی کے سخت خلاف تھیں۔اردو ادب میں صحت مند تنقیدی نظریات کی انھوں نے ہمیشہ پذیرائی کی ۔ان کی دلی تمنا تھی کہ اردو زبان کے ادیبوں کو  جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے انصاف اور حق و صداقت کا علم بلند رکھنا چاہیے۔تیشہ ء حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنا ان کا مطمح نظر رہا۔ہاجرہ مسرور کی تصانیف میں ان کا یہ اسلوب نمایاں ہے  ۔ان کی تصانیف درج ذیل ہیں :

  (1)چاند کے دوسری طرف             (آٹھ افسانے

(2)تیسری منزل                     (پندرہ افسانے

  (3)ا  ندھیرے اجالے              (سات افسانے

 (4)چوری چھپے                      (سات افسانے

(5)ہائے اللہ                         (گیارہ افسانے

(6)چرکے                           (تیرہ افسانے

        ان کے تمام  افسانوی مجموعے کلیات کی صور ت میں بھی شائع ہو چکے ہیں ۔مقبول اکیڈمی لاہور نے 1991میں ’’سب افسانے میرے ‘‘ کے عنوان سے اس کلیات کی اشاعت کا اہتمام کیاجسے زبردست پذیرائی نصیب ہوئی ۔آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی نے ہاجرہ مسرور کی لکھی ہوئی بچوں کی کہانیوں کو بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی کہانیوں میں ان کا گہرا نفسیاتی شعوراور لسانی مہارت  قابل قدر ہے  ۔ہاجرہ مسرور کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات کے اعتراف میں انھیںحکومت پاکستان نے 1995میں پرائڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے نوازا۔اس کے علاوہ انھیں عالمی فروغ ارد وایوارڈ بھی ملا۔ہاجرہ مسرور کو زبان و بیان پر جو خلاقانہ دسترس حاصل تھی اس کا دنیا بھر میں اعتراف کیا گیا ۔ہر صنف ادب میں انھوں نے اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا ۔عالمی کلاسیک کا انھوں نے بہ نظر غائر مطالعہ کیا تھا ۔انھوں نے افسانے کے علاوہ ڈرامے ،اور فلموں کی سکرپٹ رائٹنگ پر بھی توجہ دی ۔انھوں نے سرور بارہ بنکوی کی فلم ’’آخری سٹیش ‘‘ کی کہانی تحریر کی ۔اس فلم کو زبردست پذیرائی نصیب ہوئی ۔ان کی سکرپٹ رائٹنگ کے سلسلے میں انھیں نگار ایوارڈ عطا کیا گیا ۔ان کی شخصیت اور اسلوب پر جامعہ ملیہ دہلی میں تحقیقی کا آغاز ہو چکا ہے ۔وہ بے خوف صدا جس نے معاشرے کے ہر ناسور کی جراحت میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا اسے کاتب تقدیر نے مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ایک  درخشاں شعلہ ء جوالہ جس نے جبر کے ایوانوں پر لزہ طاری کر دیا  پیو  ند خاک ہو گیا ۔دنیا بھر کی خواتین کے مسائل ،مصائب و آلام پر تڑپ اٹھنے والی تخلیق کار اب ہمارے درمیان موجود نہیں ۔دکھی انسانیت بالخصوص قسمت سے محروم خواتین کے جائز حقوق کے لیے جدو جہد کرنے والی اس عظیم ادیبہ کی یاد میں بزم ادب طویل عرصے تک سوگوار رہے گی  ۔ہاجرہ مسرور کی وفات  ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔اس سانحے پر جگر فگار ،روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو گیا ہے ۔

لوح مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا              ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا

 

ٖFiza Perveen                                                                             

Naqad Pura near Ali Town  Jhang City   

**********************************

                                                    

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 570