donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Khalid Ishaq : Abu Al Imteyaz Muslim Khaka

خالد اسحاق:  ابوا لا متیاز مسلم  خاکہ

 

یہ  ۱۹۷۳ء کی بات ہے، جب آئین پاکستان تشکیل دینے کا مرحلہ شروع ہوا۔ جن دنوں اس پر کام ہو رہا تھا، ایک رن تو قومی اسمبلی میں پڑا جس میں ننھی منی سی حزبِ اختلاف ذوالفقار علی بھٹو کی قوت قاہرہ سے نبرد آزما ہوئی۔ ایک لڑائی پارلیمنٹ سے باہر لڑی گئی جس میں طرفین کے قانون دان اپنے اپنے ٹھیوں پر غوروفکر اور لکھا پڑھی میں مصروف تھے۔ اس زمانے کی متحدہ حزب اختلاف ’’متحدہ جمہوری محاذ‘‘ کے نام سے یکجا ہوئی تھی جس کا قانونی دماغ خالد اسحق تھے۔ اس زمانے میں انھوں نے مقدمے لینے بھی چھوڑ دیے اور ساری توجہ اس بڑے کام پر مبذول کر دی۔

بزرگ بتاتے ہیں کہ پروفیسر غفور احمد، مرحوم و مغفور محمود اعظم فاروقی اور محترم سردار شیر باز مزاری جن آئینی نکات سے بھٹو کو پریشان کرتے، بلکہ کہیے تگنی کا ناچ نچاتے، اس کا سبق وہ خالد اسحق درس گاہ ہی سے پڑھ جایا کرتے۔ اب اگر ہم یہ کہیں کہ ۱۹۷۳ء کے آئین میں جتنی اچھی باتیں ہیں، وہ انہی کی وجہ سے تھیں اور بھٹو شاہی سے وہ جس قدر پاک رہ سکا، وہ بھی خالد اسحق کی وجہ سے تھا، تو غلط نہ ہو گا۔

آئین پاکستان کے لیے انھوں نے اور جو خدمات انجام دیں، اس کا تذکرہ یوں نہیں ملتا کہ دعوے کرنا اور خدمات گنوانا خالد اسحق کی سرشت میں نہ تھا۔ ہاں ایک بات اس تذکرے میں رہی جاتی ہے اور وہ بھی مرحوم کی زبانی۔ ایک بار اسی آئینی جدوجہد کے حوالے سے انکشاف کیا کہ آئین کے سلسلے میں جتنا کام قانون سازوں اور قانونی ماہرین نے کیا، اس سے بڑھ کر شہید مولانا محمد صلاح الدین نے انجام دیا۔ تفصیل سننے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا، لیکن بعض دیگر حوالوں سے یہ جانا کہ منتشر الخیال حزبِ اختلاف کو جمع کرنا اور خالد اسحق کی رہنمائی پر آمادہ کرنا شہید ہی کا کارنامہ تھا۔

کتاب کے عاشق صادق

خالد صاحب کا تعلق قانون کی دنیا سے تھا۔ وہ کوئی ایسے ویسے قانون دان نہ تھے، بلکہ قانون ان کے ہاتھوں میں بنتا اور بولتا۔ تاہم ان کی بڑی وجہ شہرت عظیم الشان لائبریری تھی۔ ایک شخص کی لائبریری کتنی بڑی ہو سکتی ہے؟ اس بارے میں مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں۔ ایک بار ان کے دفتر جانا ہوا۔ ملاقات میں تھوڑی دیر تھی۔ معاون سے پوچھ کر ایک طرف چلنا شروع کیا تو واپسی کا راستہ بھول گیا۔

دروازوں کی جگہ چھوڑ کر ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں دکھائی دیں۔ ڈھاکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جہاں جگہ ملے، وہاں سبزہ اگ آتا ہے۔ اس گھر میں کوئی جگہ ایسی نہیں جو کتابوں سے خالی ہو۔ الماریاں تو بھری ہی ہوتی ہیں، فرش پر بھی کتابیں ہیں۔ باہر کا راستہ ملا تو میں کتابوں کے رعب میں آچکا تھا۔

مگر یہ حیرت کا پہلا جھٹکا تھا۔ پتا چلا کہ اس عمارت سے باہر نکلیں تو سامنے فلیٹوں کا سلسلہ ہے۔ اس میں ایک، دو تین نہیں بہت سارے فلیٹ ان ہی کتابوں کے لیے مخصوص ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جس روز انھوں نے نئی آنے والی کتابوں کے اندراج نہ کیے ہوں۔

بے شمار مجلے رسالے ان کے ہاں آتے اور نئی کتب کی اشاعت کا پتا دیتے۔ سب خالد صاحب کی نظر سے گزرتے۔ ہر روز وہ نشان لگا کر متعلقہ لوگوں کے حوالے کر دیتے کہ فلاں فلاں کتابیں خرید لی جائیں۔

اصحاب دانش کی محفل

خالد اسحق ان لوگوں میں سے ایک تھے جو تہذیبوں کی آبیاری کرتے ہیں۔ان کا ایک مظہر تو ان کی کتابیں ہی تھیں۔ مگر انھوں نے ایک اور اہتمام کر رکھا تھا۔ ہفتہ وار تعطیل کی صبح دس بجے ان کے ہاں اصحاب دانش و بینش کا اجتماع ہوا کرتا۔ اس میں یہ حضرات ہفتۂ رفتہ کے واقعات اور قوم کو پیش آنے والے امکانی حالات پر کھل کر گفتگو کیا کرتے۔

اس مجلس میں بڑے بڑے دانشور، صحافی، سیاستدان، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان، وکلا اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ شریک ہوئے۔

گفتگو کا طریقہ یہ تھا کہ کوئی صاحب ایک مسئلہ اٹھاتے۔ اس پر دیگر احباب باری باری اظہارِ خیال کرتے چلے جاتے، یہاں تک کہ گفتگو مکمل ہو جاتی۔ لوگ توقع کرتے کہ خالد صاحب بات کریں۔ وہ موضوع پر حسبِ ضرورت مختصر یا طویل گفتگو کرتے۔ اسی دوران مکمل خاموشی ہوتی۔ گفتگوئیں جن لوگوں نے سنیں، وہ گھر جاتے ہوئے محسوس کرتے کہ واقعی وہ کوئی نئی بات جان اور سیکھ کر گھر جا رہے ہیں۔

ان نشستوں کی اپنی ایک تہذیب تھی، ایسا نہیں تھا کہ جو جہاں آ کر بیٹھ جائے۔ اصحاب کی نشستیں علم اور مرتبے کے مطابق ہوتی تھیں۔ ہم جیسے مبتدیوں کو پچھلی کرسیوں پر بیٹھنے کا حکم تھا۔ البتہ چائے کبھی کبھار پہلے مل جاتی۔ کہا کرتے تھے کہ بھئی یہ نوجوان ہیں، انھیں چینی زیادہ دینا۔ ان نشستوں میں حاضر ہونے کی سعادت مجھے کئی بار حاصل ہوئی۔

ان کی اصول پسندی اور حق بات پر اپنے مفاد کو ٹھکرا دینے کے کئی واقعات ملتے ہیں۔ جب ایوب دور میں جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دیا گیا تو انھوں نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔ اس وقت وہ صوبہ مغربی پاکستان کے ایڈووکیٹ جنرل تھے۔ اپنے کیریئر کے سلسلے میں اتنی بڑی قربانی لوگ خال خال ہی دے سکتے ہیں۔

انگریزی تو ظاہر ہے قانون کی زبان ہے، انھیں عربی پر بھی عبور تھا۔ اس کے علاوہ کم و بیش ساری مقامی زبانیں روانی کے ساتھ بول لیتے۔ ان کے جس ملازم کی جو مادری زبان ہوتی، اس سے اسی زبان میں گفتگو فرماتے۔ سفید رنگ کی سادہ قمیص پہنتے جو پتلون سے باہر ہوتی، سر پر کروشیا سے بنی ایک ٹوپی ہوتی۔ اس لباس میں کم ہی تبدیلی آتی تھی۔ پی ٹی وی والے درس قرآن کے لیے ان سے درخواست کیا کرتے تھے۔ اس پروگرام میں جاتے ہوئے بھی بالعموم کسی خاص لباس کا اہتمام نہ ہوتا۔

ایک بااصول شخصیت

خالد اسحق اسلامی روایت کے جلو میں پاکستان کی دو علاقائی روایات کا سنگم تھے۔ ان کا خاندان پنجاب سے سندھ آیا تھا۔ والد سندھ میں سول سروس کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔ ان کی ساری تعلیم سندھ میں ہوئی اور وہ اردو، پنجابی اور سندھی یکساں روانی سے بولتے تھے۔ آپ ۱۴ اگست ۱۹۴۶ء کو شکارپور میں پیدا ہوئے۔ انگریزی اور عربی پر بھی قدرت حاصل تھی، بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ گو قانون ان کا اوڑھنا بچھونا تھا مگر ان کا ایم۔اے عربی زبان میں ہوا۔

دینی امور کی تعبیر میں ان کی آراء سے تو میں نے بارہا اختلاف کیا۔ لیکن انھیں کبھی اسلام کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے نہیں پایا۔ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولﷺ سے ان کی وابستگی پختہ اور ناقابل سمجھوتہ تھی۔ اور یہی چیز ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو تھی اور ان کی امتیازی شناخت اسی سے عبارت ۔

خالد اسحق مرحوم کی زندگی کا یہ پہلو سب کے سامنے ہے کہ انھوں نے ٹیکس کے بارے میں کبھی نادہندگی یا غلط گوشوارے دینے کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ شاید وہ بڑے بڑے صنعت کاروں سے بھی زیادہ ٹیکس ادا کرتے تھے۔ یہ ان کی دیانت اور قانون کی پاسداری کی روشن مثال ہے۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز میرے لیے متاثر کن تھی، وہ ان کا جذبۂ انفاق ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کئی غریب خاندان ان کے تعاون سے عزت کی زندگی گزار رہے تھے۔ اور کتنے ہی لائق مگر وسائل سے محروم نوجوانوں نے ان کی مدد سے تعلیم کی منزلیں طے کیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی ان مساعی کو قبول فرمائے اور ان کو اجر عظیم سے نوازے۔

مرحوم کی آواز شائستہ ہونے کے ساتھ بے حد پاٹ دار تھی۔ ایک ایک لفظ صاف اور تلفظ ڈکشنری کے مطابق، کبھی یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ جلدی میں یا اس بات سے خوف زدہ ہوں کہ کہیں جج صاحب کوئی سوال نہ کر بیٹھیں۔ اس بات کی ہمیشہ تلقین کرتے تھے ’’بولو اس طرح کہ سننے والا آپ کے اعتماد اور سچائی کا یقین کر لے۔ اگر جج کوئی سوال پوچھنا چاہے تو خاموش رہ کر توجہ سے سنو اور واضح جواب دو۔ اگر سوال ٹالنے کی کوشش کی تو جج صاحب بلاضرورت کیس کے متعلق شبہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔‘‘ اس طریقے پر خالد اسحق کو ہمیشہ عمل کرتے پایا۔

ایک دن میں دس سے بارہ مقدمات میں بحث کر لینا ان کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔ خاصی ضخیم فائلوں سے واقعات کی تاریخیں اور ان کا تسلسل اعتماد کے ساتھ بالکل درست بیان کرتے۔ جسٹس (ریٹائرڈ) غلام رسول شیخ نے ایک بار عدالت میں فرمایا ’’خالد اسحق آکٹوپس کی طرح ایک وقت میں آٹھ آٹھ عدالتوں میں کیس چلاتے ہیں۔‘‘

وقت قیمتی ہے

مرحوم کی زندگی اصول اور لگے بندھے شیڈول کے مطابق رہی۔ تہجد باقاعدگی سے ادا کرتے۔ نماز فجر کے بعد عدالت کے لیے تیاری، اخبار کا مطالعہ اور ہلکا پھلکا ناشتا اور پھر مقدمات کی مناسبت سے سوا آٹھ اور ساڑھے آٹھ کے درمیان عدالت پہنچ جاتے۔ عدالت میں اپنے ساتھ مطالعے کے لیے کوئی کتاب یا فائل ضرور رکھتے تاکہ کیس کا انتظار کرتے ہوئے وقت ضائع نہ ہو۔ اسی بات کی ہمیں بھی تلقین کرتے۔

مطالعے کی رفتار حیرت انگیز تھی۔ پوچھنے پر بتایا کہ انگریزی میں لکھے کتابی سائز کے دو سو صفحے ایک گھنٹے میں پڑھ لیتا ہوں۔ عدالت سے جلد فراغت کی صورت میں عموماً کسی کتب فروش کے ہاں پہنچتے اور دنیا کے ہر مضمون پرنئی اور تازہ کتابیں ڈھونڈ کر آرڈر کرتے۔ کراچی کے علاوہ حیدرآباد، سکھر، لاہور، اسلام آباد اور کئی شہروں کے کتب فروش خالد اسحق سے واقف تھے۔ وہ خود ہی نئی کتابیں ان کے گھر بھیج دیتے۔ تمام کتابوں کا اندراج رجسٹر میں ہوتا۔ وہ سرسری طور پر دیکھنے کے بعد کتابوں کی خریداری کا فیصلہ کرتے۔ اس معاملے میں بے حد لبرل تھے اور چاہتے کہ دنیا کی ہر ادبی کتاب جو انگریزی میں لکھی گئی ہو، ان کی لائبریری کا حصہ بنے۔

عدالت کے کام سے فراغت کے بعد گھر آتے اور دوپہر کھانے کے بعد قیلولہ کرتے۔ کبھی عدالت میں دیر ہو جاتی تب بھی سہ پہر چار بجے اپنے گھر آ جاتے۔ وہ وقت نئی کتابوں کی چھان بین اور کتب فروشوں کو ادائی کا ہوتا۔ تقریباً ساڑھے چار بجے کراچی جمخانہ چل دیتے اور باقاعدگی کے ساتھ ٹینس کھیلتے۔ ساتھی احسن ظہیر رضوی نے ایک مرتبہ مشورہ دیا ’’آپ اسکوائش کیوں نہیں کھیلتے؟‘‘

جواب میں فرمایا ’’بھئی کھیل وہ کھیلو کہ شارٹ مار کر خود ہی دوڑنا نہ پڑے۔‘‘
ٹینس سے فارغ ہو کر چیمبرز میں تقریباً رات نو بجے تک موکلوں سے ملاقات کرتے۔ نو بجے کھانا اور پھر خبریں سننا ان کا معمول تھا۔ اس کے فوراً بعد لائبریری میں اگلے دن کے مقدمات کی تیاری شروع کرتے۔ عام طور پر رات کو ایک بجے تک معاونین کے ساتھ مصروف رہتے۔ اس دوران گراموفون بھی ہلکی سی آواز بجتا رہتا۔

ایک بار ایک ریٹائرڈ جج رات ڈھائی بجے تک خالد اسحق کے ساتھ کام میں مصروف رہے۔ ان کی بیگم کا فون آیا اور پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ بتایا کہ مقدمے کی تیاری جارہی ہے۔ اگلے دن وہ خاتون خالد اسحق کے گھر تشریف لائیں اور ٹیلی فون پر سنائی دینے والا گانا سننے کی فرمائش کی۔ خالد اسحق مسکرائے اور مادام نور جہاں کا لانگ پلے ریکارڈ گراموفون پر بجنے لگا دیا۔ جب وہ بیگم صاحبہ مطمئن ہوئیں تو وہ ریکارڈ کاغذ میں لپیٹ کر خالد صاحب نے انھیں تحفتاً پیش کر دیا۔

کام کی زکوٰۃ

سخت اوقات کار کی وجہ سے خالد اسحق کے کئی معاونین شادی ہوتے ہی اجازت لے کر علیحدہ ہو جاتے۔ سندھ ہائی کورٹ کے ایک موجودہ جج کی شادی اسی سبب خاصی تلخیوں کا شکار ہو کر ٹوٹتے ٹوٹتے بچی۔ آخر انھیں دفتر سے الگ ہونا پڑا۔ ایک اور معاون وکیل، ممتاز احمد شیخ کو شادی کے وقت مشورہ دیا ’’بھئی شادی کے فوری بعد کے دنوں میں ذرا دیر سے گھر جائو۔ تاکہ کچھ دن بعد نارمل وقت پر گھر جائو گے تو بیگم صاحبہ خوش ہوں گی کہ ان کی وجہ سے جلد گھر آنا شروع کر دیا۔‘‘ ممتاز صاحب نے اس بات پر عمل کیا اور الحمدللہ خوش و خرم ہیں۔

مرحوم خالد اسحق کی غریبوں سے ہمدردی بے حد مثالی تھی۔ کئی خاندانوں کی کفالت اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔اس کے علاوہ کئی وکلا کی باقاعدگی سے خبرگیری کرتے۔ کبھی کوئی مقدمہ، کبھی اپنے ساتھ معاونت کے لیے رکھ لیتے یا خاموشی سے ان کی ضرورت پوری کرتے۔ مدد کے لیے ہمیشہ بہانہ تلاش کرتے۔ کسی کا علاج، کسی کے بچے کی تعلیم، گھر کی مرمت، شادی یا غم،غرض اگر معلوم ہو جاتا تو کبھی مدد میں دیر نہ کرتے۔دوستوں اور ضرورت مندوں کے مقدمے فیس لیے بغیر لڑتے۔ ہمیں کہتے ’’بھئی یہ کام کی زکوٰۃ ہے۔‘‘

اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود گھر کے افراد کو مکمل وقت اورتوجہ دیتے۔

مقدمات کے روزمرہ بوجھ کے باوجو اگر اہل خانہ نے سینما جا کر فلم دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو ان کا ساتھ دیتے۔ بیگم خورشید اسحق سے تعلق کا یہ حال تھا کہ ۱۴اگست ۱۹۹۷ء کو فالج گرنے کے بعد وکالت سے مکمل طور پر علیحدہ ہو گئے۔ صحت بھی کافی بگڑ گئی۔ لیکن اگلے سال جونہی خورشید اسحق کی بیماری (کینسر) کا پتا چلا، اپنی تمام تکالیف بھول کر بیگم صاحبہ کے علاج اور دیکھ بھال میں لگ گئے۔

ان کی زندگی کامیاب گزری۔ بڑی سادہ زندگی گزارنے کی کوشش کرتے۔ ملک کے بڑے قانون دان تھے۔ مالی وسائل انھیں بھرپور انداز میں حاصل تھے۔ یہ صورت حال عموماً ’’ہوس زر‘‘ پیدا کر دیتی ہے لیکن خالد اسحق صاحب نے ارادتاً اپنے آپ کو اس کیفیت کے غلبے سے محفوظ رکھا۔

انھوں نے جو کچھ کمایا، اس میں جس کا بھی جو حق تھا، اسے پوری دل جمعی سے ادا کیا۔ حکومت کے واجبات پائی پائی ادا کیے۔ ضرورت مندوں اور رشتے داروں کو ان کے حق دیے۔وہ حسن سلوک اس طرح کرتے کہ کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔

درویش صفت انسان

مرحوم نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی ایسے مقدمے لیے جن کے بارے میں یہ علم تھا کہ کامیابی کی صورت میں فریق مخالف پر ناروا ظلم نہیں ہو گا۔ یہ زندگی کا ایسا میدان ہے جس میں جذبات، مفادات، خواہشات اور تعصبات کی خاردار جھاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ انھوں نے اپنی سی کوشش کی کہ کہ ان کا دامن ان کانٹوں میں نہ الجھے اور اللہ نے ان کی کوشش کامیابی سے ہمکنار فرمائی۔ وہ ’’حق‘‘ کی حمایت پر آمادہ رہتے، ناحق کی حمایت سے ہمیشہ گریز کرتے تھے۔

ایک بار جب میں خالد اسحق صاحب سے ملنے گیا، تو میری بارہ سالہ بیٹی بھی ساتھ تھی۔ اسے جب کمرے میں ہر طرف کتابیں نظر آئیں تواس نے خالد اسحق سے سوال کیا کہ انکل آپ سوتے کہاں ہیں؟ آپ کے یہاں تو کوئی بیڈروم نہیں، سب ریڈنگ روم ہیں۔

انھوں نے مسکرا کر جواب دیا ’’یہی ریڈنگ روم ہی میری زندگی ہیں۔ یہ کتابیں ہی میری ساتھی ہیں۔ جب تک میں روزانہ کوئی کتاب نہ دیکھ لوں، مجھے نیند نہیں آتی۔ تم بھی مطالعے کا شوق پیدا کرو۔ یوں تمھارا مشاہدہ تیز ہو گا اور تم اول نمبر سے کامیاب ہوا کرو گی۔‘‘

وہ پیشے کے لحاظ سے تو وکیل تھے اور محض نام کے نہیں، انھوں نے قانون کا مطالعہ بہ نظر غائر کیا تھا۔ قانون پر کڑی گرفت کے بعد انھوں نے تاریخ اقوام عالم، قرآن، تفسیر، فقہ، علم الکلام، منطق، ہئیت، جغرافیہ، علم البشریات، فنِ تعمیر، فنِ سنگ تراشی، فنون لطیفہ، فکشن، اقتصادیات، سائنس اور پامسٹری پر ان گنت کتب پڑھ ڈالیں۔دراصل وہ علم کے پیاسے تھے۔ یہی پیاس انھیں علم کی طرف متوجہ کیے رکھتی۔ پروفیسر حسنین کاظمی اس ضمن میں رقمطراز ہیں:
’’خالد اسحق کو اللہ کے کرم سے علم کی نہ بجھنے والی پیاس بھی ملی تھی۔ یہ ایسی پیاس ہے جسے جتنا سیراب کیا جائے ، اتنی ہی بڑھتی چلی جاتی ہے۔‘‘

وہ ایک درویش صفت انسان تھے۔ فقرو غنا طبیعت کا خاصہ تھا۔ قانون کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پاکستان کے ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ صدر ایوب خاں نے ۱۹۵۸ء میں مارشل لا لگا کر عنانِ اقتدار اپنے ہاتھ میں لی۔ پھر ملک کے نمایاں قانون دانوں کی ایک فہرست تیار کرائی تاکہ ان سے استفادہ کر کے ملک بہتر طور پر چلایا جا سکے۔ اس فہرست میں خالد اسحق سرفہرست تھے۔ صدر ایوب خان نے انھیں پاکستان کا ایڈووکیٹ جنرل مقرر کر دیا۔ وہ انھیں ملک و قوم کے مفاد میں ہمیشہ مفید مشورے دیتے رہے۔ تاہم جب ایوب خان نے جماعت اسلامی پر پابندی لگائی تو وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے آئے۔

وہ فطرتاً ظالم کے ساتھ نہیں چل سکتے تھے۔ مقدموں کے ضمن میں بہت دفعہ اعلیٰ عدالتوں میں حاضر ہوئے۔ وہ مقدمہ صرف اس بنیاد پر لیتے کہ حق دار کو اس کا حق مل ملے اور ظالم اپنے ظلم سے رک جائے۔ وہ کسی پر زیادتی کے روادار نہ تھے۔ ان کے نزدیک وکالت کا مقصد ظالم کو ظلم سے روکنا تھا، شکست سے دوچار کرنا نہیں۔

ایک بار جماعت اسلامی کے سرکردہ افراد نے خالد اسحق سے رابطہ کر کے اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے راضی کیا۔ انھوں نے بطور زیرک وکیل جس طرح جماعت اسلامی کا مقدمہ لڑا اور کامیابی حاصل کی، وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ مولانا مودودیؒ کو پھانسی کی سزا ہوئی تو ا ن کے وکلا کو مشورے بھی خالد اسحق نے ہی دیے تھے۔

غلام اسحاق خاں نے نواز شریف کی پہلی حکومت برطرف کی تو مسلم لیگ نے خالد اسحق سے رابطہ کر کے انھیں اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے تیار کیا۔ انھوں نے نواز شریف کا کیس نہ صرف اپنے ہاتھ میں لیا، بلکہ حکومت کو بحال بھی کرا دیا۔

ارباب اقتدار نے انھیں حکومت میں لانے کی خاطر ہزار طرح کے جتن کیے۔ ایک دفعہ عدالت عالیہ اور تین بار عدالت عظمیٰ میں جج بنانے کی پیش کش بھی ہوئی مگر وہ کسی طرح حکومت کے ایوانوں میں جانے کو تیار نہ ہوئے۔ وہ جانتے تھے کہ حکومت کے مقررہ مشاہرے میں غریبوں کی مدد نہ کر سکیں گے۔ وہ غریبوں اور مستحق افراد کی چوری چھپے بھی امداد کیا کرتے تھے۔ ان کی وفات سے لوگ ان کی مہربانیوں سے محروم ہو گئے۔آپ نے فروری ۲۰۰۴ء کو دنیا سے منہ موڑ لیا۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 450