donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Shah Faisal : Daure Hazir Ka Aik Be Misal Hukmaran

شاہ فیصل - دور حاضر کا ایک بے مثال حکمران


اس وقت عالم اسلام جن مسائل سے دو چار ہے ہے اور یہود و نصاری کی جانب سے اس پر چہار جانب سے جو یلغار ہورہی ہے، اس کے مختلف اسباب شمار کئے جاسکتے ہیں، لیکن عالم اسلام کی بے بسی اور اس کے خلاف دشمنوں کی ریہ دوانیوں کی بنیادی وجہہ خود مسلم حکمراں ہیں جو حمیت اسلامی، غیرت دینی اور اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے جذبہ سے یکسر عاری ہیں، اور جنہیں اپنی عیش سامانی اور اقتدار کے علاوہ کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں، ان کی سوچ کا دائرہ نہایت محدود ہے، وہ ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کے خول میں بند رہتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفادات پر کاری ضرب پڑ رہی ہے۔ حالیہ دونوں میں مصر کے مسئلہ پر مسلمانوں کی نگاہوں میں سب سے زیادہ تقدس رکھنے والے ملک کے حمرانو کی جانب سے جس طرح کا موقف اختیار کیا گیا، اس سے صاف واضح ہوا کہ موجودہ دور کے حکمران اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفاد کے تعلق سے جو کچھ کہتے ہیں، وہ محض ڈھکوسلہ ہے۔ موجودہ بے حس اور ضمیر فروش حکمرانوں کے دور میں ذہن ماضی کی طرف لوٹتا ہے اور ماضی قریب میں گذرے ان حکمرانوں کی یاد رہ رہ کر ستاتی ہے جو حمیت اسلامی غیرت دینی کے جذبہ سے سرشار تھے اور ان کی یہی اسلامی حمیت دشمنوں کی نگاہوں میں کھٹکتی رہتی اور جنہیں دشمنوں نے بالآخر راستہ سے ہٹاکر ہی دم لیا۔ اوپر کی سطروں میں تقدس کے حامل جس ملک کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کے موجودہ حکمرانوں کے موقف کی مذمت ساری مسلم دنیا نے کی، اس ملک کے ایک حکمران گذرے ہیں جنہیں دنیا شاہ فیصل کے نام سے جانتی ہے، اگرچہ ان کے زمانہ میں بھی عالم اسلام کی حالت کچھ زیادہ بہتر نہ تھی، لیکن ان کا سینہ اسلام اور تہذیب اسلامی کی محبت سے سرشار تھا۔ وہ یہود و نصاری اور ان کی شیطانی تہذیب سے مرعوب نہ تھے، وہ علماء اور اصحاب تقویٰ کے قدر داں تھے، ان کے سامنے اگر کوئی حق گوئی سے کام لیتا تو وہ نہ صرف یہ کہ اس سے ناراض ہوتے بلکہ اس کے مشکور و ممنون ہوتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے۔ انہیں اسلام اور شریعت اسلامی کے تعلق سے بے پناہ بصیرت حاصل تھی۔ اس سلسلہ کے چند واقعات ملاحظہ فرمائیں:۔

مولانا علی میاں کی حق گوئی پر شاہ فیصل کا تاثر

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمہ شاہ فیصل سے ملاقات کیلئے ان کے محل تشریف لے گئے، تو محل کی خوبصورتی، اس کی سجاوٹ اور اس کی آرائش و زیبائش دیکھ کر شاہ فیصل سے یوں گویا ہوئے۔ میں سوچ رہا ہوں اور مجھے یاد آرہا ہے کہ ہمارے ہندوستان میں بھی ایک بادشاہ گذرا ہے، اس کی سلطنت آج کے پورے ہندوستان اور پاکستان پر نہیں بلکہ نیپال، سری لنکا اور افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی، اس نے 52سال اتنی بڑی سلطنت پر حکومت کی، مگر اقتدار کے 52سالوں میں سے 20سال گھوڑے کی پیٹھ پر گذارے، اس کے دور میں مسلمان آزاد تھے، خوشحال تھے، ان کیلئے ہر قسم کی آسانیاں تھیں لیکن بادشاہ کا حال یہ تھا کہ وہ پیوند لگے کپڑے پہنتا تھا، قرآن مجید کی کتابت کرکے اور ٹوپیاں سی کر اپنا خرچ چلاتا تھا، خزانے کو اﷲ کی اور اس کی مخلوق کی امانت سمجھتا تھا، وہ خود روکی سوکھی کھاتا، مگر دوسروں کیلئے لنگر چلاتاتھا، وہ خود تنگ دست تھا مگر دوسروں کیلئے موتی لٹاتا تھا، وہ فقیر تھا مگر دل کھول کر غریبوں می مدد کرتا تھا، عیاشی کے تمام سامان اس کے ایک اشارے پر فراہم ہوسکتے تھے، مگر وہ آخرت کو یاد کرکے روتا تھا۔ راتوں کو پروردگار کے حضور میں کھڑا رہتا تھا، اور اپنی کوتاہیوں پر رو رو کر معافی مانگتا تھا، اپنے دربار میں وہ بادشاہ تھا، لیکن اﷲ کے دربار میں فقیر بن کر کھڑا رہتا، اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتا، اس وقت مسلم حکمراں غریب اور سادہ تھے، مگر عوام خوشحال اور آسودہ تھے، آج آپ کا یہ محل دیکھا تو خیال آیا کہ سب کچھ کتنا بدل گیا ہے، آج ہمارے بادشاہ خوشحال ہیں اور عوام غریب و محتاج۔ بادشاہ شاندار محلوں میں رہتے ہیں، مگر رعایات کو جھونپڑی بھی میسر نہیں، پہلے کے بادشاہ پوری قوم کیلئے درد مند تھے مگر اب بادشاہوں کو کسی کا کوئی خیال ہی نہیں۔ اپنی عیاشی میں مست ہیں۔ فلسطین کے عربوں کو دیکھئیے کہ کیا حال کردیا ہے ان کا یہودیوں اور نصرانیوں نے، فلسطین میں مسلمان بے گھر ہیں، کشمیر میں ان کا لہو ارزاں ہے، وسط ایشیاء میں وہ اسلام کی شناخت سے محروم ہیں۔ آج میں نے آپ کے محل میں قدم رکھا تو اسلام کی پوری تاریخ میری نظر میں گھوم گئی اور پہلے کے اور اب کے بادشاہوں کے تقابل میں کھوگیا۔ جب مولانا خاموش ہوئے تو شاہ فیصل کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہوچکا تھا، اب ان کی باری تھی لیکن وہ زار و قطار رو رہے تھے، رونے کی آواز سن کر محافظ دوڑتے ہوئے آئے، تو شاہ فیصل نے ہاتھ کے اشارے سے باہر جانے کیلئے کہا اور مولانا سے مخاطب ہوکر بولے: وہ بادشاہ اس لئے تھے کہ انہیں آپ کے جیسے بے باک اور مومنانہ شان رکھنے والے ناصح میسر تھے۔ آپ تشریف لاتے رہیں تاکہ ہم کمزوروں کو نصیحت ملتی رہے۔ اس واقعہ سے جہاں حضرت علی میاں علیہ الرحمۃ کی حق گوئی و بے باکی کا اظہار ہوتاہے وہیں شاہ فیصل کا تحمل، اپنی کمزوریوں پر احساس ندامت اور اہل علم اور خامیوں پر ٹوکنے والوں سے ناراضگی کے بجائے ان کی قدر شناسی بھی جھلکتی ہے۔

مورس بوکائے کیسے مسلمان ہوئے؟

مورس بوکائے سے اہل علم بخوبی واقف ہیں۔ قرآن، بائبل اور سائنس کے تقابل پر ان کی کتاب دنیا بھر میں مشہور ہے، اردو میں بھی اس کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے، مورس بوکائے نے کیونکر اسلام کو گلے لگایا اس کی داستان بڑی دلچسپ ہے، وہ امراض قلب کے ماہر سرجن تھے، ان کی عادت تھی کہ وہ اپنے پاس رجوع ہونے والے ہر مسلمان مریض سے جب اس کا علاج ہوجاتا ایک سوال کرتے وہ یہ کہ کیا تم قرآن کو واقعی معجزہ سمجھتے ہو، مریض جب اثبات میں جواب دیتا تو انتہائی تمسخر کے انداز میں کہتے کہ میں تو اسے معجزہ نہیں مانتا، مجھے تو اس میں کوئی حیرت انگیز بات نظر نہیں آتی، تم مسلمان محض عقیدت میں اسے معجزہ سمجھتے ہو، آنے والے ہر مسلمان سے اسی طرح کا سوال کرتے، جب شاہ فیصل کا ان کے یہاں علاج ہوا تو ان سے بھی انہوں نے یہی سوال کیا۔ شاہ فیصل نے کہاکہ کیوں نہیں قرآن ضرور معجزہ ہے، کہنے لگے کہ میں تو قرآن میں کوئی ایسی بات نہیں پاتا جس سے اس کا معجزہ ہونا سمجھا جائے، شاہ فیصل نے ان سے پوچھا کیا آپ نے قرآن کا مطالعہ کیا ہے، انہوں نے کہاکہ ہاں میں نے قرآن پڑھا ہے۔ شاہ فیصل نے کہاکہ آپ نے قرآن کا ترجمہ کے سہارے سے مطالعہ کیا ہے، یا اصل عربی زبان ہی سے سمجھا ہے۔ مورس بوکائے بولے، میں نے ترجمہ کے ذریعہ قرآن کا مطالعہ کیا ہے۔ شاہ فیصل نے کہا یہی تو آپ نے غلطی کی ہے، قرآن کا حسن اور اس کے اعجاز کا ادراک ترجمہ کے ذریعہ کیسے کیا جاسکتا ہے، آپ عربی زبان سیکھیں اور براہ راست قرآن کا مطالعہ کریں، تب آپ کو پتہ چلے گا کہ واقعی قرآن معجزہ ہے۔ مورس بوکائے کو بات سمجھ میں آگئی، انہوں نے عربی کے ایک ماہر استاذ سے محض چند مہینوں میں عربی پر عبور حاصل کیا۔ پھر قرآن کا مطالعہ، تو قرآن کے حیرت انگیز اعجاز کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے، اور قبول اسلام کا فیصلہ کرلیا۔ یہ شاہ فیصل کی بصیرت تھی جنہوں نے مورس بوکائے جیسے انتہائی غیر معمولی انسان کو اسلام اور قرآن کا گرویدہ بنایا۔

شاہ فیصل اور اسلام کی حکیمانہ ترجمانی

ایک سرکاری دورے پر شاہ فیصل برطانیہ تشریف لے گئے۔ کھانے کی میز پر انتہائی نفیس کراکری کے ساتھ چمچے اور کانٹے بھی رکھے گئے تھے۔ دعوت شروع ہوئی، مدعوئیں نے چمچمے اور کانٹے کا استعمال کیا، لیکن شاہ فیصل نے سنت نبویؐ کے مطابق ہاتھ سے کھانا تناول کیا۔ ضیافت کے اختتام پر کچھ صحافیوں نے شاہ سے چمچ استعمال نہ کرنے کے بارے میں دریافت کیا۔ شاہ فیصل نے کہاکہ میں اس چیز کا استعمال کیوں کروں، جو آج میرے منہ میں ہے اور کل کسی اور کے منہ میں جائے گی۔ یہ ہاتھ کی انگلیاں تو میری اپنی ہیں، یہ تو ہمیشہ میرے منہ میں جائیں گی۔ اس لئے میں اپنے ہاتھ سے کھانے کو ترجیح دیتا ہوں۔ فیصل کا یہ عمل دراصل کتاب و سنت کی پیروی میں تھا لیکن اگر وہ کہتے کہ میں سنت رسولؐ کے سبب ایسا کررہا ہوں تو ان کی یہ بات انگریز صحافیوں کیلئے قابل قبول نہ ہوتی، انہوں نے ایسا جواب دیا جس سے سنت رسولؐ کی افادیت اور اس کی معقولیت ان پر آشکار ہوگئی۔

اسلامی سزاؤں کی معقولیت اور شاہ فیصل

ایک دفعہ امریکی صحافیوں کا ایک وفد سعودی عرب دورہ پر آیا، وہ وہاں ایک ہفتہ ٹھہرا۔ دوران قیام وفد کے ارکان نے خود اور اخبارات کے ذریعہ سعودی عرب میں امن و امان کی صورتحال کا بغور جائزہ لیا۔ انہوں نے اس چیز کو شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ سعودی عرب میں چوری کرنے والے کے ہاتھ سزا کے طورپر کاٹے جاتے ہیں۔ انہیں لگا کہ یہ سزا سراسر زیادتی اور انسانی تقاضوں کے خلاف ہے۔ وفد کو یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے جرائم میں مجرمین کو سرعام کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں اسلامی سزاؤں کے نفاذ نے تو امریکی صحافتی وفد کی نیندیں اڑادیں کیونکہ امریکہ میں ایسی سزاؤں کا تصور بھی نہیں تھا۔ دوران قیام ایک دن ان کی ملاقات شاہ فیصل سے بھی تھی۔ شاہ فیصل سے ملاقات کے دوران ایک صحافی نے شاہ فیصل سے سزاؤں کا ذکر کیا اور کہاکہ اتنی سخت سزائیں آپ نے کیوں نافذ کر رکھی ہے۔ یہ تو سراسر انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ صحافی کے اس چبھتے ہوئے سوال سے شاہ فیصل کے چہرے پر کوئی شکن دیکھنے میں نہ آئی، بلکہ انہوں نے اس صحافی کی بات کو آرام اور تحمل سے سنا۔ جب وہ صحافی اپنی بات مکمل کرچکا تو شاہ فیصل چند سیکنڈ خاموش رہے، صحافی نے سمجھا کہ اس نے شاہ فیصل کو لاجواب کردیا ہے۔ توقف کے بعد شاہ فیصل گویا ہوئے اور اس صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ کیا آپ لوگ اپنی ازواج کو بھی ساتھ لے کر آئے ہیں۔ کچھ صحافیوں نے ہاں میں سر ہلائے۔ اس کے بعد شاہ فیصل نے کہاکہ ابھی آپ کا دورہ ختم ہونے چند دن باقی ہیں، آپ اپنی ازواج کے ہمراہ شہر کی گولڈ مارکٹ میں چلے جائیں، اور اپنی خواتین کو کہیں کہ وہ اپنی پسند سے سونے کے زیورات خریدیں۔ ان سب زیورات کی قیمت میں اپنی طرف سے ادا کروں گا۔ ان زیورات کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھ نہیں پائے گا۔ دو یوم کے بعد آپ کی امریکی واپسی کی فلائٹ ہے، کیا آپ زیورات پہنے ہوئے آپ کی خواتین بلا خوف و خطر اپنے اپنے گھر چلے جائیں گی۔ جب شاہ فیصل نے صحافیوں سے پوچھا تو ہر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے، شاہ نے دوبارہ استفسار کیا تو چند صحافیوں نے کہا کہ نہیں۔ بلا خوف و خطر ایرپورٹ سے نکل کر گھر پہنچنا تو درکنار ہم ایرپورٹ سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے۔ تو شاہ فیصل نے جواب دیا۔ سعودی عرب میں اتنی سخت سزاؤں کے اطلاع میں آپ کی پریشانی کا جواب ہے۔ امید کہ انسانی حقوق کی پاسبانی کرنے والوں کے خدشات دور ہوگئے ہوں گے۔

شاہ فیصل اور شعائر اﷲ کا احترام

1974ء کی بات ہے کہ لاہور کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا کیونکہ رباط کے بعد دوسری اسلامی ممالک کی سربراہ کانفرنس منعقد ہورہی تھی، لاہور کے شہریوں کو 36ممالک کے سربراہوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہورہا تھا۔ گلبرگ اور ماڈل ٹاون میں کروڑ پتی کوٹھیوں اور بنگلوں کے مالکوں نے ایک اشارے پر اپنے اپنے گھروں کی چابیاں حکومت کے اہلکاروں کے حوالے کردیں، اور خوداسی حالت میں چند یوم کیلئے اپنے اعزہ و اقارب کے پاس چلے گئے۔ محمد علی کی کوٹھی میں شاہ فیصل نے قیام کیا۔ جب بھی یہ مسلم حکمراں اور بادشاہ کسی سڑک سے گذرتے ان کی ایک جھلک دیھکنے کیلئے دونوں جانب گھنٹوں شہری منتظر رہتے۔ لوگوں نے دیکھا کہ شاہ فیصل بھی قبلہ کی جانب اپنی پشت نہ کرتے۔ بلکہ کار مڑتی تو اسی حساب سے اپنی کمر کا رخ بھی تبدیل کرلیتے کہ مبادا ادب کا دامن کہیں تار تار نہ ہوجائے۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 421