donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghufran Sajid Qasmi
Title :
   Kya Zamane Mein Panapne Ki Yehi Baten Hain

باسمہ تعالیٰ

 

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟؟؟

 

(حضرت مولاناسید سلمان حسینی ندوی کا خط حضرت مولانا سی دارشد مدنی کے نام کے تناظرمیں)

 

نوائے بصیرت………………………………غفران ساجد قاسمی

 

فرقہ بندی ہے کہیں اورکہیںذاتیں ہیں……کیازمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
گذشتہ دنوںملک کے ایک مؤقرروزنامہ میںایک اشتہارنظرسے گذراجوکہ دراصل عالی مقام حضرت مولاناسیدسلمان حسینی ندوی مدظلہ‘ العالی کے ایک خط پرمشتمل تھاجوکہ انہوں نے دارالعلوم دیوبندکے استاذحدیث اورجمعیۃ علماء ہندکے ایک دھڑے کے صدر حضرت مولاناسیدارشدمدنی مدظلہ‘ العالی کے نام تھا۔حضرت مولاناسیدسلمان حسینی ندوی مدظلہ‘ العالی کایہ خط دراصل حضرت مولاناسیدارشدمدنی مدظلہ‘ العالی کے اس اشتہارکے جواب میںتھاجوانہوںنے سعودی حکومت کے بارے میںکچھ دنوںشائع کیاتھاجس میں انہوںنے جمعیۃ علماء ہنداوردارالعلوم دیوبندکی جانب سے سعودی حکومت پرمکمل اطمینان کااظہارکیاتھااوریہ ظاہرکیاتھاکہ دارالعلوم دیوبنداورجمعیۃ علماء ہندکاسعودی حکومت پرمکمل اعتمادہے اورکتاب وسنت پرمبنی اس حکومت کی پرزورتائیدکرتے ہیں،اسی اشتہارکے جواب میںحضرت مولاناسیدسلمان حسینی ندوی مدظلہ‘ العالی نے یہ اشتہارشائع کیاجس میں حضرت مولانانے تقریبا۱۶؍نکات اٹھائے ہیںجس کاانہوںنے حضرت مولاناسیدارشدمدنی مدظلہ‘ العالی سے جواب مانگاہے۔آگے بڑھنے سے قبل میںیہاںپریہ واضح کردینا چاہتاہوںکہ ہردوبزرگ ہستی میرے لیے قابل صدتعظیم ہیں،ان میںسے ایک حضرت مولاناسیدارشدمدنی مدظلہ‘ العالی کی ہستی تومیرے لیے حددرجہ قابل تعظیم اس لیے ہیںکہ میںنے ان کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیاہے اورایک لمباعرصہ ان کی سرپرستی میںگذاراہے،اسی طرح بزرگ محترم حضرت مولاناسیدسلمان حسینی ندوی مدظلہ‘ العالی گرچہ براہ راست میرے استاذنہیںہیںلیکن ان کی کتابوں،تقریروںسے استفادہ کرنے کی وجہ سے میںانہیںبھی بالواسطہ اپنااستاذسمجھتاہوںاوراسے میںاپنے لیے باعث فخربھی سمجھتا ہوں،اس کے علاوہ یہ کہ بارہاحضرت سے ملاقات کاشرف حاصل ہوااورہرملاقات میںکچھ نہ کچھ سیکھنے کاموقع ملاتواس طورپربھی وہ میرے لیے حددرجہ تعظیم کے لائق ہیں، لہٰذا میںاپنی اس تحریرمیںحضرت والاکے ذریعہ اٹھائے گئے ان نکات یاان سوالات پرکسی قسم کی رائے زنی نہیںکروںگاکیوںکہ اس کاذکرکسی طرح سے بھی مفید نہیں ہوگا، میں یہاں اپنی تحریرمیںصرف اورصرف ان نکات پرگفتگوکروںگاجس کی وجہ سے آج مسلمانوںکی حالت ملک میںبدسے بدترہوتی جارہی ہے اورہمارے قائدین بجائے اس کے کہ پہلے اپنے گھرکی خبرلیتے اس گھرکی خبرگیری کرنے میںمصروف ہوگئے جس کاکوئی حاصل نہیںہے،اوراس چکرمیںامت مسلمہ ہندیہ جسے اپناقائدسمجھ رہی ہے وہی قائدین آپس میں دست وگریباںہیںاوریہ دست وگریباںہونااگرامت مسلمہ کے وسیع ترمفادکے لیے ہوتاتوہم یہ سمجھ کراپنے لب کوسی لیتے کہ ’’اختلاف العلماء رحمۃ‘‘ کے تحت اس سے انشاء اللہ خیرکی امیدکی جاسکتی تھی،لیکن افسوس صدافسوس!یہاںمعاملہ بالکل برعکس ہے۔


ملک اس وقت بڑے نازک دورسے گذررہاہے،ایک طرف جہاںفسطائی طاقتیںملک کے امن کوپارہ پارہ کرنے پرتلی ہوئی ہیںوہیںکچھ غیرمہذب اوراخلاق باختہ لوگ ملک کی تہذیب کاجناز ہ نکالنے پرآمادہ ہیںاورطرفہ تماشہ یہ کہ حکومت میںبیٹھے بڑے لوگ بھی ان کے حامی نظرآرہے ہیں،اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ ہمارے یہ قائدین اپنی تمام ترایمانی قوت کے ساتھ اپنی توانائی کوان مثبت اورمفیدکاموںمیںلگاتے لیکن ہائے افسوس!کہ انہوںنے اپنے گھرکے مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے دورکی کوڑی لانے کے مقولہ پرعمل کرتے ہوئے اپنی توانائی کوان منفی کاموںپرصرف کرنے میںلگے ہوئے ہیںجس کاکوئی حاصل نہیںہے۔اس وقت جہاںہندوستان آئی سی یومیںہے اورحالت یہ ہے کہ مرض بڑھتاگیاجوں جوںدواکی والی صورت ہوچکی ہے،کہ جن لوگوںپرتکیہ کرتے ہوئے ملک کے باشندوںنے اپنے وطن کوان کے حوالہ کیاتھاوہ وطن کی رکھوالی کرنے کی بجائے خودہی لٹیرے اورراہزن بن گئے اورملک کواس حالت میںپہونچادیاکہ شایدآزادی کے متوالوںاورجیالوںنے کبھی اپنے خواب میںبھی نہیںسوچاہوگاکہ جس ملک کو انگریزوںسے آزادکرانے کے لیے اپنے خون کوپانی کی طرح بہارہے ہیںایک دن اس ملک عزیزکی حالت ایسی ہوجائے گی کہ خودرہبرہی رہزن بن جائے گااورجسے جدھرموقع ملے گاادھرہی ہاتھ صاف کرناشروع کردے گا۔آزادی میںبڑھ چڑھ کرحصہ لینے والے مسلم مجاہدین آزادی اورعلمائے حق کی روح نے بھی کبھی خواب میںنہیںسوچاہوگاکہ جس ملک کوغیروںسے آزادکرانے کے لیے اپنے گھربارکوچھوڑا،اپنے اہل وعیال کواللہ کے حوالہ کرکے میدان آزادی میںکودپڑے اوراس وقت تک لڑتے رہے جب تک کہ ملک کو انگریزوںسے نجات نہیںدلادی آج انہی کے ملک میںخودان کے لاڈلے اوران کے نام لیواان کی قربانیوںکامذاق اڑارہے ہیں،جنہیںان کی قربانیوںکی حفاظت کرنی چاہیے وہ خودرہزنوںکے محل میںاپنی عیاشیوںکاسامان تلاش کرنے میںمصروف ہیںچاہے ان کی قوم کومظفرنگرمیںگاجرمولی کی طرح کاٹ دیاجائے،انہیںاس کی کوئی پرواہ نہیں،ان کی بہن بیٹیوںکی عزت وآبروسے کھیلاگیالیکن وہ بجائے اس کے کہ حکومت کے خلاف احتجاج کرتے بلکہ حکومت کے گن گانے میںمصرو ف ہوگئے،مسجدوںکی حرمت پامال کی گئی لیکن ان کی غیرت ہے کہ جاگتی ہی نہیںبس فکرہے توصرف اس کی کہ انہیںاے پلس اورزیڈپلس سیکورٹی ملتی رہے چاہے ان کی قوم جہنم میںجائے،ستم بالائے ستم کڑاکے کی ٹھنڈی میںپناہ گزینوںکوان کے کیمپوںسے نکال دیاگیا،ان کے کیمپوںپربلڈوزرچلادیاگیا،یوپی کی اس حکومت نے یہ انسانیت سوزکارنامہ انجام دیاجس کے لیے ہمارے قائدین اپنی جھولی پھیلاکرووٹ مانگتے ہیں،اتنی انسانیت سوزحرکت کے بعدبھی ہمارے قائدین کی آنکھیںنہیںکھلیں،اس وقت ہوناتویہ چاہیے تھاکہ ہمارے یہ قائدین جنہیں امت مسلمہ ہندیہ اپناقائد تسلیم کرتی ہے ،ہرمظلوم کی نگاہ اپنے ان قائدین کی مددکی منتظرہے،لیکن ہائے رے افسوس!کہ بجائے ان مظلوموںکی مددکے لیے اپنے قدم کوآگے بڑھاتے ایسے لاحاصل مسائل میںالجھ گئے جس کوحل کرنے کی ان میںسکت میںبھی نہیںہے،میںمانتاہوںکہ آپ نے مظلوموںکی مددکے لیے کچھ نہ کچھ کیاہے لیکن آپ کی جو حیثیت ہے اس حیثیت کے مطابق کچھ بھی نہیںکیاہے،مظفرنگرفسادکے مظلومین کوچندکمبلوںیاچندروپیوںکی ضرورت نہیںہے انہیںضرورت ہے مستقل طورپراپنے جان ومال اور عزت وآبروکے حفاظت کی ضمانت کی جوکہ موجودہ حکومت ہی وہ ضمانت دے سکتی ہے،کیاآپ نے حکومت سے احتجاج کیاان سے پرزورمطالبہ کیاکہ وہ مظلوموںکوکیمپوںسے نکالے جانے کے ہٹلری فرمان سے پہلے ان کی حفاظت کی ضمانت دے،اگرآپ نے یہ مطالبہ کیاتھاتوپھرآپ کے مطالبہ میںوہ دم خم کیوںنہیںکہ حکومت اپنے انسانیت سوزاقدام سے پہلے ہزاربارسوچتی اوروہ ایساقدم اٹھانے سے بازرہتی،اگرایسانہیںہواتوآپ کااخلاقی فریضہ تھاکہ آپ عوام کے سامنے اپنی ناکامی کااعتراف کرتے اورقیادت کے عظیم منصب سے خودبہ خودسبکدوش ہوجاتے لیکن نہیںآپ ایساکیوںکرنے لگے!آپ کوتوصرف شہ سرخیوںمیںرہناپسندہے چاہے مظلوم وبے بس عوام ٹھنڈک کی تاب نہ لاکراپنی جان دے دے،ان کے معصوم شیرخواربچے طبی سہولیات اورمقوی غذانہ ملنے کے سبب بلک بلک کرمرتے رہیں،آپ کواس سے کیاسروکار!آپ کے بچے توماشاء اللہ ہیٹرکی گرمیوں کے ذریعہ ٹھنڈک کامزہ لے رہے ہیں،بہترین اورقیمتی گرم کپڑوںمیںملبوس زندگی کالطف اٹھارہے ہیںآپ کوان سب سے کیامطلب!آپ کوتوصرف خواہ مخواہ کی ان باتوں سے مطلب ہے جس سے آپ شہ سرخیوںمیںبنے رہیںیاسعودی حکومت کے محبوب نظربنے رہیںیاان لوگوں کی آنکھوں کاتاربنیں جنہی ںسعودی کی مخالفت کرنے والا کوئی مل جائے۔


آخرمیںمیںاپنے دونوں بزرگوں سے انتہائی ادب کے ساتھ دست بستہ عرض کروںگاکہ خدارااب توجاگ جائیںاورقوم وملت کے لیے کچھ ایساکام کریںکہ اللہ بھی راضی ہوجائے،اللہ کاشکرہے کہ دارالعلوم دیوبندایک ایساسورج ہے جسے کسی چراغ کی ضرورت نہیںہے،آپ سعودی سے دارالعلوم کی وابستگی کاڈھول پیٹے یانہ پیٹیںدارالعلوم دیوبندپرکچھ اثرہونے والانہیںہے کیوںکہ وہ ایک الہامی ادارہ ہے اوراللہ جب تک چاہے گااس کافیض عام ہوتارہے گااس کے لیے اسے کسی طرح کی ظاہری امدادکی کوئی ضرورت نہیںہے،اسی طرح میںحضرت مولاناسیدسلمان حسینی ندوی مدظلہ‘ العالی سے مؤدبانہ عرض کروںگاکہ یقینا سعودی عرب کی خامیوں کواجاگرکرنے میںآپ مخلص ہیں،یہ آپ کادینی جذبہ اورغیرت ایمانی ہے کہ آپ سعودی کے غلط کاموںپرتڑپ اٹھے ہیںلیکن اس کی اصلاح کاجوطریقہ آپ نے اپنایاہے وہ قطعا نامناسب اوراس کے لیے نہ ہی مکان صحیح ہے اورنہ ہی موقع،آپ تواس عظیم شخصیت کے پروردہ ہیںجنہوںنے اپنی تحریروںاورتقریروںکے ذریعہ عالم عرب کارخ موڑدیاتوپھرآپ وہی طریقۂ کار کیوں نہیں اپناتے جوعظیم مفکر،پلندپایہ داعی اسلام اورمصلح عرب مفکراسلام حضرت مولاناابوالحسن علی میاںندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنایاکہ انہوںنے کسی درمیانی شخص کومخاطب بنائے بغیر انہوںنے براہ راست عالم عرب اوران کے امراء کومخاطب کیاجس کامثبت نتیجہ برآمدہوا،آپ نے جس طرح حضرت مولاناسیدارشدمدنی مدظلہ‘ العالی کومخاطب کیاہے وہ آپ بھی جانتے ہیںکہ ان کے بس کایہ روگ ہی نہیںہے،اللہ نے آپ کومختلف الجہات صلاحیتوںکاحامل بنایاہے،اورالحمدللہ عربوںکوبراہ راست مخاطب کرنے کاآپ کے اندرعظیم ملکہ ہے،آپ اپنی ان صلاحیتوںکے ذریعہ براہ راست عرب امراء وحکمراں کومخاطب بنائیںتوانشااللہ اگرآپ اپنے اس عمل میںاوراپنی اس دعوت اصلاح میںمخلص ہوںگے تو یقینا اس کے مثبت نتائج برآمدہوںگے۔لیکن اس وقت خداراان کاموںسے پرہیزکریںاپنے ان کاموںسے حکومت کواپنی صف میںانتشارکااشارہ دے کرانہیںمزیدمضبوط ہونے کاموقع فراہم نہ کریںاوران مظلوم وبے بس فسادزدگان کی آہ وزاری سنتے ہوئے ان کی امدادکے لیے کمربستہ ہوجائیں،اورحکومت وقت کواپنے ظالمانہ فیصلہ کوواپس لینے پر مجبور کردیںیہی وقت کی ضرورت ہے اوروقت کااہم تقاضابھی ہے۔ اللہ آپ قائدین کاسایہ تادیرامت مسلمہ ہندیہ پرقائم ودائم رکھے۔آمین
وطن کی فکرکرناداںمصیبت آنے والی ہے………تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوںمیں  


٭جنرل سکریٹری: رابطہ صحافت اسلامی ہند
٭رابطہ کے لیے:gsqasmi99@gmail.com

*************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 684